جاسمن
لائبریرین
۳۹ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۹۴ میں ارشاد ربانی ہوتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌOلَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّهُ : ضرور اللہ تمھیں آزمائے گا۔ عرب کے بادیہ نشین جانوروں اور پرندوں کا شکار کر کے گزر اوقات کیا کرتے تھے۔ ۶ہجری جس میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا اور مسلمان حالت احرام میں تھے۔ اس وقت وہ اس آزمائش میں ڈالے گئے کہ شکار کئے جانے والے جانور اور پرندے بڑی کثرت سے آئے۔ اور ان کی سواریوں پر چھا گئے۔ اتنی کثرت تھی کہ صحابہ کرام کا انھیں شکار کر لینا یا ہاتھ سے پکڑ لینا بالکل اختیار میں تھا۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین حکم الٰہی کی پابندی میں ثابت قدم رہے اور حالت احرام میں شکار نہ کیا۔ اس سے صحابہ کرام کی عظمت بھی ظاہر ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی گناہ کے اسباب و مواقع جس قدر کثرت سے موجود ہوں ان سے بچنے میں اتنا ہی زیادہ ثواب ہے۔۔۔ (صراط الجنان)۔
اے ایمان والو! اللہ کسی قدر (ایسے) شکار سے تمہیں ضرور آزمائے گا جس تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکتے ہیں تاکہ اللہ اس شخص کی پہچان کروا دے جو اس سے غائبانہ ڈرتا ہے پھر جو شخص اس کے بعد (بھی) حد سے تجاوز کر جائے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۹۴۔
اگر کوئی حالت احرام میں شکار کر بیٹھے تو اس کے کفارے کا بیان اس سے متصل اگلی آیت میں آ رہا ہے۔
۔۔۔
اللہ ہمیں کسی آزمائش میں نہ ڈالے ۔آسانیاں دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔