جاسمن

لائبریرین
۳۹ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۹۴ میں ارشاد ربانی ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! اللہ کسی قدر (ایسے) شکار سے تمہیں ضرور آزمائے گا جس تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکتے ہیں تاکہ اللہ اس شخص کی پہچان کروا دے جو اس سے غائبانہ ڈرتا ہے پھر جو شخص اس کے بعد (بھی) حد سے تجاوز کر جائے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۹۴۔
لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّهُ : ضرور اللہ تمھیں آزمائے گا۔ عرب کے بادیہ نشین جانوروں اور پرندوں کا شکار کر کے گزر اوقات کیا کرتے تھے۔ ۶ہجری جس میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا اور مسلمان حالت احرام میں تھے۔ اس وقت وہ اس آزمائش میں ڈالے گئے کہ شکار کئے جانے والے جانور اور پرندے بڑی کثرت سے آئے۔ اور ان کی سواریوں پر چھا گئے۔ اتنی کثرت تھی کہ صحابہ کرام کا انھیں شکار کر لینا یا ہاتھ سے پکڑ لینا بالکل اختیار میں تھا۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین حکم الٰہی کی پابندی میں ثابت قدم رہے اور حالت احرام میں شکار نہ کیا۔ اس سے صحابہ کرام کی عظمت بھی ظاہر ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی گناہ کے اسباب و مواقع جس قدر کثرت سے موجود ہوں ان سے بچنے میں اتنا ہی زیادہ ثواب ہے۔۔۔ (صراط الجنان)۔
اگر کوئی حالت احرام میں شکار کر بیٹھے تو اس کے کفارے کا بیان اس سے متصل اگلی آیت میں آ رہا ہے۔

۔۔۔

اللہ ہمیں کسی آزمائش میں نہ ڈالے ۔آسانیاں دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۴۰ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۹۵ میں حالت احرام میں شکار کی حرمت اور اس کے کفارے کا بیان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْتُلُواْ الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَو عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللّهُ عَمَّا سَلَف وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللّهُ مِنْهُ وَاللّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍO
اے ایمان والو! تم احرام کی حالت میں شکار کو مت مارا کرو، اور تم میں سے جس نے (بحالتِ احرام) قصداً اسے مار ڈالا تو (اس کا) بدلہ مویشیوں میں سے اسی کے برابر (کوئی جانور) ہے جسے اس نے قتل کیا ہے جس کی نسبت تم میں سے دو عادل شخص فیصلہ کریں (کہ واقعی یہ جانور اس شکار کے برابر ہے بشرطیکہ) وہ قربانی کعبہ پہنچنے والی ہو یا (اس کا) کفّارہ چند محتاجوں کا کھانا ہے (یعنی جانور کی قیمت کے برابر معمول کا کھانا جتنے بھی محتاجوں کو پورا آجائے) یا اس کے برابر (یعنی جتنے محتاجوں کا کھانا بنے اس قدر) روزے ہیں تاکہ وہ اپنے کیے (کے بوجھ) کا مزہ چکھے۔ جو کچھ (اس سے) پہلے ہو گزرا اللہ نے اسے معاف فرما دیا، اور جو کوئی (ایسا کام) دوبارہ کرے گا تو اللہ اس سے (نافرمانی) کا بدلہ لے لے گا، اور اللہ بڑا غالب بدلہ لینے والا ہےo
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر ۹۵۔
اس آیت مبارکہ میں حالت احرام میں شکار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے چاہے وہ کسی بھی ذریعہ سے ہو۔ اس میں رسیاں، جال، تیر، بندوق، شکاری کتے، غرضیکہ شکار کا ہر ذریعہ داخل ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے شکار پکڑ لیا تو اسے چھوڑ دے اور اگر مار ڈالا تو پھر اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس طرح کا ایک جانور جس کی قیمت دو معتبر آدمیوں کے فیصلہ کے مطابق اس شکار کردہ جانور کے برابر ہو خریدے اور مکہ مکرمہ میں لا کر اسے ذبح کر ے یا اس جانور کی قیمت کا غلہ لے کر غریبوں میں تقسیم کر دے یا جتنے غریبوں میں صدقہ فطر کی مقدار سے وہ غلہ تقسیم ہو سکتا ہے اتنے روزے رکھے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
اللہ عمل کی توفیق اور آسانی دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۴۱ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۰۱ میں اہل ایمان کو غیر ضروری سوالات کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُواْ عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّهُ عَنْهَا وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌO
اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۱۰۱۔
بعض لوگ حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے عجیب و غریب قسم کے سوالات پوچھا کرتے تھے جن میں کوئی دینی اور دنیوی فائدہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ حضور ان سوالات سے کبیدہ خاطر ہوئے اور ایک روز منبر پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا ، لا تسئلونی الیوم عن شئی الا بیّنتہ لکم یعنی آج جس چیز کے متعلق بھی تم مجھ سے دریافت کرو گے وہ میں تمھیں بتاؤں گا۔ سب صحابہ کرام کے سر جھکے ہوئے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے اور کسی میں ہمت نہ تھی کہ کوئی بات کر سکے۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن حذافہ کہ جن کے نسب کے بارے میں لوگ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے، اٹھے اور عرض کی ، من ابی یا رسول اللہ۔ میرا باپ کون ہے۔ حضور نے یہ نہیں کہا کہ مجھے کیا پتہ۔ مجھ سے کوئی فقہ کا مسئلہ دریافت کرو۔ بلکہ اپنے خدا داد علم کا اظہار فرماتے ہوئے جواب دیا کہ ابوک حذافہ تیرا باپ حذافہ ہے۔ ان کی والدہ اپنے لڑکے کے اس سوال پر کانپ اٹھیں اور کہنے لگیں اے عبداللہ تجھ سے زیادہ نافرمان بھی کسی کا بیٹا ہو سکتا ہے تُو تو مجھے بر سر مجلس رسوا کرنا چاہتا تھا۔ حضرت عبداللہ کو اپنے محبوب نبی کے علم خدا داد پر اتنا اعتماد تھا کہ فرمایا اگر حضور مجھے کسی حبشی غلام کا بیٹا کہہ دیتے تو مجھے انکار نہ ہوتا۔ اسی طرح بعض لوگ بال کی کھال نکالنے کے عادی تھے۔ حج کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہر سال؟ حضور خاموش رہے۔ اس نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا ، حضور پھر خاموش رہے ۔ اس نے تیسری مرتبہ پوچھا تو حضور نے فرمایا، نہیں ، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہو جاتا۔ کیونکہ اس طرح کے سوالات مفید ہونے کے بجائے تکلیف و مشقت کا باعث بن سکتے تھے اس لیے ان سے منع فرما دیا۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں ان کو ضائع نہ کرو، بعض چیزوں کو حرام کر دیا ہے ان کی پردہ دری نہ کرو، اور بعض حدیں مقرر کر دی ہیں ان کو نہ توڑو، اور بعض چیزوں کے متعلق دانستہ سکوت فرمایا ہے ان کے متعلق بحث نہ کرو۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں کتنی آسانیاں دی ہیں۔سبحان اللہ!
الحمداللہ۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۴۱ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۰۱ میں اہل ایمان کو غیر ضروری سوالات کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُواْ عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّهُ عَنْهَا وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌO
اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۱۰۱۔
بعض لوگ حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے عجیب و غریب قسم کے سوالات پوچھا کرتے تھے جن میں کوئی دینی اور دنیوی فائدہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ حضور ان سوالات سے کبیدہ خاطر ہوئے اور ایک روز منبر پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا ، لا تسئلونی الیوم عن شئی الا بیّنتہ لکم یعنی آج جس چیز کے متعلق بھی تم مجھ سے دریافت کرو گے وہ میں تمھیں بتاؤں گا۔ سب صحابہ کرام کے سر جھکے ہوئے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے اور کسی میں ہمت نہ تھی کہ کوئی بات کر سکے۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن حذافہ کہ جن کے نسب کے بارے میں لوگ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے، اٹھے اور عرض کی ، من ابی یا رسول اللہ۔ میرا باپ کون ہے۔ حضور نے یہ نہیں کہا کہ مجھے کیا پتہ۔ مجھ سے کوئی فقہ کا مسئلہ دریافت کرو۔ بلکہ اپنے خدا داد علم کا اظہار فرماتے ہوئے جواب دیا کہ ابوک حذافہ تیرا باپ حذافہ ہے۔ ان کی والدہ اپنے لڑکے کے اس سوال پر کانپ اٹھیں اور کہنے لگیں اے عبداللہ تجھ سے زیادہ نافرمان بھی کسی کا بیٹا ہو سکتا ہے تُو تو مجھے بر سر مجلس رسوا کرنا چاہتا تھا۔ حضرت عبداللہ کو اپنے محبوب نبی کے علم خدا داد پر اتنا اعتماد تھا کہ فرمایا اگر حضور مجھے کسی حبشی غلام کا بیٹا کہہ دیتے تو مجھے انکار نہ ہوتا۔ اسی طرح بعض لوگ بال کی کھال نکالنے کے عادی تھے۔ حج کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہر سال؟ حضور خاموش رہے۔ اس نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا ، حضور پھر خاموش رہے ۔ اس نے تیسری مرتبہ پوچھا تو حضور نے فرمایا، نہیں ، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہو جاتا۔ کیونکہ اس طرح کے سوالات مفید ہونے کے بجائے تکلیف و مشقت کا باعث بن سکتے تھے اس لیے ان سے منع فرما دیا۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں ان کو ضائع نہ کرو، بعض چیزوں کو حرام کر دیا ہے ان کی پردہ دری نہ کرو، اور بعض حدیں مقرر کر دی ہیں ان کو نہ توڑو، اور بعض چیزوں کے متعلق دانستہ سکوت فرمایا ہے ان کے متعلق بحث نہ کرو۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں کتنی آسانیاں دی ہیں۔سبحان اللہ!
الحمداللہ۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

الشفاء

لائبریرین
۷۰ ۔ سورۃ الحجرات کی دوسری ، تیسری ، چوتھی اور پانچویں آیت میں بھی اہل ایمان کو دربار رسالت کا ادب و احترام سکھایا جا رہا ہے۔ اور شان رسالت میں بے ادبی و گستاخی کی سزا رب العالمین کی طرف سے زندگی بھر کے اعمال غارت کر دینے کی مقرر کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌO إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَO وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہوoبیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقوٰی کے لئے چن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لئے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہےoبیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo
سورۃ الحجرات ، آیت نمبر ۵،۴،۳،۲۔​

سابقہ آیت میں بتایا تھا کہ قول و عمل میں سرور عالم ﷺ سے سبقت نہ کرو۔ اب گفتگو کا طریقہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں وہاں شرف باریابی نصیب ہو اور ہمکلامی کی سعادت سے بہرہ ور ہو تو یہ خیال رہے کہ تمہاری آواز میرے محبوب کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے۔ جب حاضر ہو تو ادب و احترام کی تصویر بن کر حاضری دو۔ اگر اس سلسلہ میں تم نے ذرا سی غفلت برتی اور بے پروائی سے کام لیا تو سارے اعمال حسنہ ہجرت، جہاد، عبادات وغیرہ تمام کے تمام اکارت ہو جائیں گے۔ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت صدیق اکبر و عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے آہستہ آہستہ کلام کرنے کو اپنا معمول بنا لیا۔ صحابہ کرام جو پہلے ہی سراپا ادب و احترام تھے، مزید محتاط ہوگئے۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جو قدرتی طور پر بلند آواز تھے، ان پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ دروازے کو قفل لگا کر گھر میں بیٹھ گئے اور دن رات زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ مرشد کریم ﷺ نے جب ایک دو روز ان کو نہ دیکھا تو ان کے بارے میں دریافت کیا، صورت حال عرض کی گئی تو حضور ﷺ نے بلوایا اور رونے کی وجہ پوچھی۔ غلام اطاعت شعار نے عرض کیا یا رسول اللہ، میری آواز اونچی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آیت میرے حق میں نازل ہوئی ہے۔ میری تو عمر بھر کی کمائی غارت ہو گئی۔ اس دلنواز آقا نے تسلی دے کر خوشخبری دیتے ہوئے کچھ یوں ارشاد فرمایا ، اما ترضیٰ ان تعیش جیدا وتقتل شہیدا وتدخل الجنۃ ، کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم قابل تعریف زندگی بسر کرو اور شہید قتل کیے جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ۔ عرض کیا رضیت ، اس نوازش بے پایاں پر یہ بندہ راضی ہے۔(روح المعانی) علامہ ابن قیم اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت ثابت کی شہادت حضور کے وصال کے بعد مسیلمہ کذاب کے فتنے کے خلاف جنگ یمامہ میں ہوئی اور اس وقت انہوں نے ایک نفیس اور قیمتی زرہ پہن رکھی تھی۔ ایک شخص آپ کی نعش کے پاس سے گزرا تو اس نے وہ زرہ اتار کر چھپا دی۔ اسی رات حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو خواب میں فرمایا کہ میں تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں اور خبردار یہ خیال نہ کرنا کہ یہ محض خواب ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ سنو میں جب کل شہید ہوا تو ایک شخص نے میری زرہ اتار لی۔ اس کی رہائش گاہ پڑاؤ کے آخری کنارہ پر ہے۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ اس کے خیمے کے نزدیک ایک گھوڑا چر رہا ہے جس کے پاؤں میں ایک لمبی رسی بندھی ہے۔ اس شخص نے میری زرہ پر ایک دیگچہ الٹا کر رکھ دیا ہے اور اس کے اوپر اونٹ کا کجاوہ ہے۔ تم صبح حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ میری زرہ اس شخص سے لے لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تم مدینہ طیبہ پہنچو تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنا کہ ثابت پر اتنا قرضہ ہے ، وہ ادا کر دیں اور میرے فلاں فلاں غلام کو آزاد کر دیں۔ جب وہ شخص بیدار ہوا تو حضرت خالد کے پاس گیا اور اپنا خواب سنایا۔ حضرت خالد نے وہ زرہ وہاں سے تلاش کر لی اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت ثابت کی وصیت کو عملی جامہ پہنایا۔(کتاب الروح)۔ جن خوش نصیبوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے حبیب مکرم ﷺ کا ادب ہوتا ہے، ان کی رفعت شان کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔
أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ : تمہارے سارے اعمال غارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر ہی نہ ہو۔ اس جملہ میں گستاخوں کی محرومی و بد نصیبی کا بیان ہے۔ اس کو سن کر بھی علم و زہد کا خمار اگر نہ اترے، فضیلت و پارسائی کا طلسم اگر نہ ٹوٹے تو بدقسمتی کی انتہا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں گے، سب نیکیاں ملیا میٹ ہو جائیں گی اور تمہیں خبر تک نہ ہو گی۔ تم اس غلط فہمی کا شکار رہو گے کہ تم بڑے نمازی اور غازی ہو۔ صائم الدہر اور قائم اللیل ہو، مفسر ہو، محدث ہو، واعظ آتش بیان ہو اور جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ اور جب وہاں پہنچو گے تو اس وقت پتہ چلے گا کہ اعمال کا جو باغ تم نے لگایا تھا اس کو تو بے ادبی اور گستاخی کی باد صرصر نے خاک سیاہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت کف افسوس ملو گے، سر پیٹو گے لیکن بے سود ، لا حاصل۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا۔


۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۷۱ ۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۶ میں ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَO
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤo
سورۃ الحجرات ، آیت نمبر ۶۔​

اس آیت کی شان نزول میں اکثر علمائے تفسیر نے یہ روایت ذکر کی ہے۔ بنو مصطلق کا سردار حارث بن ابی الضرار بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور مشرف بہ اسلام ہوا۔ حضور ﷺ نے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا تو اس نے اسے بھی قبول کر لیا اور عرض کیا کہ میں واپس جا کر اپنے قبیلہ کو اسلام کی دعوت دوں گا۔ جن لوگوں نے یہ دعوت قبول کی ان سے زکوٰۃ بھی وصول کروں گا۔ آپ فلاں وقت اپنا کوئی آدمی بھیج دیں جو جمع شدہ زکوٰۃ وصول کر لے۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے وقت مقررہ پر ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنی مصطلق کی طرف بھیجا تا کہ زکوٰۃ وصول کرے۔ زمانہ جاہلیت میں ولید کے ذمہ ان کا ایک قتل تھا، اسے خدشہ ہوا کہ مبادا وہ اسے قتل کر دیں۔ وہ راستہ سے لوٹ آیا اور آکر خبر دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور میرے قتل کے درپے ہو گئے تھے۔ مشکل سے جان بچا کر یہاں پہنچا ہوں۔ یہ سن کر بعض لوگوں نے مشتعل ہو کر بنی مصطلق کے خلاف فوجی کاروائی کا پرزور مطالبہ شروع کر دیا۔ حضور ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو ایک دستہ دے کر ان کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ پہلے حقیقت حال معلوم کر لینا پھر کوئی کاروائی کرنا، جلد بازی سے کام نہ لینا۔ حسب ارشاد حضرت خالد رضی اللہ عنہ رات کے وقت وہاں پہنچے، علاقے سے باہر پڑاؤ کر کے اپنے جاسوس بھیجے تا کہ ان کے احوال پر آگاہی حاصل کریں۔ انہوں نے آ کر گواہی دی کہ وہ اسلام پر پختہ ہیں۔ ہم نے ان کی اذانیں سنی ہیں اور ان کو باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔ حضرت خالد صبح کے وقت ان کے ہاں گئے اور اپنے جاسوسوں کی اطلاعات کو درست پایا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے واپس آکر حضور اکرم ﷺ سے حقیقت حال عرض کر دی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ نبی مکرم ﷺ اکثر فرمایا کرتے " التأنی من اللہ والعجلۃ من الشیطان" سوچ سمجھ کر کام کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کی انگیخت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ ہدایت فرما رہا ہے کہ اگر کوئی فاسق اور بدکار تمہارے پاس کوئی اہم خبر لے آئے تو اس کو فوراً قبول نہ کیا کرو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہو اور تم اس کی جھوٹی خبر سے مشتعل ہو کر کوئی ایسی کاروائی کر بیٹھو جس پر خوفناک نتائج مرتب ہوں اور پھر تم ساری عمر فرط ندامت سے کف افسوس ملتے رہو۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۷۲ ۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱۱ اور ۱۲ میں اہل ایمان کو معاشرتی تعلقات اور باہمی معاملات میں ناپسندیدہ رویوں سے بچنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ چونکہ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ باتیں بہت عام ہیں اس لیے ان کا علم حاصل کر کے ان سے بچنا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیںo
سورۃ الحجرات، آیت نمبر ۱۱۔
ان آیات میں مسلمانوں کو ایسی تمام باتوں سے سختی سے روکا جا رہا ہے جن کے باعث اسلامی معاشرہ کا امن و سکون برباد ہوتا ہے، محبت و پیار کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور خون خرابہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا حکم یہ دیا کہ اے ایمان والو ، ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایا کرو۔ مذاق اسی کا اڑایا جاتا ہے جس کی عزت اور احترام دل میں نہ ہو۔ جب آپ کسی کا مذاق اڑاتے ہیں تو گویا آپ اس چیز کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اس شخص کی میرے دل میں کوئی عزت نہیں۔ جب آپ اس کی عزت نہیں کریں گے تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ آپ کا احترام کرے۔ دوسرا حکم یہ دیا کہ لَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ، کسی کے منہ پر اس کی عیب جوئی کرنے کو اللمز کہتے ہیں۔ اصل میں آنکھ ، سر کے اشارے یا زیر لب آہستہ سے کسی کی عیب چینی کی جائے تو کہتے ہیں لمز فلان۔ لا تلمزو فرما کر بتا دیا کہ کسی طرح بھی تمہیں یہ اجازت نہیں کہ اپنے بھائی کے عیب گنواؤ اور اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو اچھالتے رہو۔ تیسرا حکم یہ دیا کہ لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۔ کسی کو کسی لقب سے ملقب کرنے کو لغت میں نبز کہتے ہیں لیکن عموما اس کا استعمال اس لقب کے لیے ہوتا ہے جس میں کسی کی مذمت ہو اور جسے وہ شخص ناپسند کرے۔ کسی اندھے کو اندھا اور کانے کو کانا کہنا بھی جائز نہیں۔ ہمیشہ ایسے اسما اور القاب سے ایک دوسرے کو بلاؤ جس سے سننے والا خوش ہوتا ہو۔ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ: کتنا برا نام ہے مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا۔ بڑے پیار انداز سے اپنے بندوں کو تنبیہ فرمائی جا رہی ہے کہ تم اب میرے ہو چکے ہو، تمہیں اب ایسی کوئی نازیبا حرکت نہیں کرنی چاہیے جس کی وجہ سے تمہیں بدکار اور فاسق کہا جائے۔ اگر تم اسلام قبول نہ کرتے ، میرے محبوب رسول پر ایمان نہ لاتے اور شتر بے مہار بنے من مانیاں کرتے رہتے تو تم سے کسی کو شکایت نہ ہوتی۔ اب تم مشرف بہ اسلام ہو چکے ہو۔ لوگ بجا طور پر تم سے توقع رکھتے ہیں کہ تم خیر و صلاح کا عملی نمونہ پیش کرتے رہو گے۔ غلامان مصطفےٰ کہلا کر اگر تم فسق و فجور سے اپنا دامن نہیں بچاتے تو بڑی بے حیائی اور افسوس کی بات ہے۔ آخر میں فرمایا جو شخص ان ناشائستہ حرکات سے تائب نہیں ہوتا وہ ظالم ہے۔ آیت کے اس جملے سے فقہائے کرام نے ہتک عزت کا اسلامی قانون اخذ کیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کے حق میں برے الفاظ استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف اسلامی عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جا سکتا ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
۴۲ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۰۵ میں ارشاد ربانی ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَO
اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو، تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان کاموں سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہے تھےo
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر ۱۰۵۔
کفار کا عناد اور کفر پر ان کا اصرار دیکھ کر صحابہ کرام بہت رنجیدہ خاطر رہا کرتے تھے۔ ان کی تسلی کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ تم اپنی اصلاح اور سلامت روی کے ذمہ دار ہو۔ اگر تم راہ راست پر ثابت قدم رہے تو کسی کی گمراہی تمھیں ضرر نہیں پہنچائے گی۔ ہر شخص اپنے اعمال کی جزا و سزا بھگتے گا۔ لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ جب ہم خود نیکو کار اور صالح ہیں تو کسی کو نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا ہم پر لازم نہیں۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس غلط فہمی کا پہلے ہی ازالہ فرما دیا تھا۔ آپ ایک روز خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا، تم یہ آیت پڑھتے ہو اور اس کا غلط مفہوم ذہن میں رکھتے ہو۔ میں نے حضور کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ جس وقت برائی کو دیکھیں اور پھر اس کو درست نہ کریں تو بعید نہیں کہ اللہ عزوجل سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی دے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
۴۳ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۰۶ میں وصیت اور اس کی گواہی کے متعلق بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَO
اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے تو وصیت کرتے وقت تمھاری آپس کی گواہی (دینے والے) تم میں سے دو معتبر شخص ہوں یا اگر تم زمین میں سفر کر رہے ہو پھر تمھیں موت کا حادثہ آ پہنچے تو تمھارے غیروں میں سے دو آدمی (گواہ ہوں)۔ تم ان دونوں گواہوں کے نماز کے بعد روک لو پھر اگر تمھیں کچھ شک ہو تو وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم قسم کے بدلے کوئی مال نہ لیں گے اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو اور ہم اللہ کی گواہی نہ چھپائیں گے۔ (اگر ہم ایسا کریں تو) یقینا اس وقت ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے۔
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۱۰۶۔​

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان سفر میں ہو اور اس کی موت کا وقت قریب آ جائے تو دو معتبر مسلمانوں کو بلا کر اپنے مال کی وصیت کرے اور اگر اس وقت مسلمان نہ مل سکیں تو دو غیر مسلموں کو بلا کر ہی اس کی وصیت کر دے۔ اور جب وہ وصی اس کے گھر پہنچیں اور وارثوں کو شک پڑ جائے کہ انھوں نے صحیح حالات نہیں بتائے تو نماز عصر کے بعد جب لوگ نماز سے فارغ ہو جائیں تو ان وصیوں کو بلا کر قسم لی جائے کہ انھوں نے کسی قسم کی خیانت نہیں کی اور وصیت کو صحیح طور پر بیان کر دیا ہے۔ کیونکہ وارث اس صورت میں مدعی تھے لیکن ان کے پاس ان وصیوں کے خلاف گواہ موجود نہ تھے۔ اس لیے وصی جو منکر تھے ان سے قسم لی گئی۔ لیکن اگر بعد میں ان کی خیانت پکڑی جائے اور ان کا جھوٹ ظاہر ہو جائے تو پھر وارثوں میں سے دو آدمی قسم اٹھائیں کہ پہلے وصیوں کا بیان غلط تھا اور جو ہم کہہ رہے ہیں وہ زیادہ صحیح ہے۔ پھر ان وارثوں کی قسم کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

مندرجہ بالا آیت اور اس سے اگلی دو آیات اسی وصیت اور گواہی کی تفصیل میں ہیں جو ایک مخصوص واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئیں۔ آیت کا خلاصہ پیش کر دیا گیا ہے، شان نزول اور مزید تفصیل کسی بھی معروف ترجمہ و تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

۔۔۔​
۔
اللہ ہمیں توفیق اور آسانی دے کہ مرنے سے پہلے نہ صرف یہ کہ وصیت کر کے جائیں بلکہ بہت اچھی وصیت کر سکیں۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
سورۃ الانفال ۔ ۸
۴۴ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۱۵ میں اہل ایمان کو کفر کے مقابلے کے لیے ہر حال میں جمے رہنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفاً فَلاَ تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَO
اے ایمان والو! جب تم (میدانِ جنگ میں) کافروں سے مقابلہ کرو (خواہ وہ) لشکرِ گراں ہو پھر بھی انہیں پیٹھ مت دکھاناo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۱۵۔​

یہاں مجاہدین اسلام کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب تم دین حق کے دشمنوں سے نبرد آزما ہو تو داد شجاعت دو اور پامردی اور بہادری سے ان کے سامنے ڈٹے رہو۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت تمھارے ہمرکاب ہو گی۔ تمھیں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں کہ حق کے علمبردار ہو کر باطل کے پرستاروں کے سامنے نامردی اور بزدلی کا مظاہرہ کرو اور میدان جہاد سے بھاگ کھڑے ہو۔ چنانچہ میدان جنگ سے فرار کو حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے اکبر الکبائر ، بڑے گناہوں سے بھی بڑا گناہ فرمایا ہے۔ لیکن یہ گناہ اس وقت تک ہے جبکہ دشمنوں کی تعداد دو گنا سے زائد نہ ہو۔ اگر اس سے زیادہ ہو تو پھر بھی ثابت قدم رہنا اور صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہنا ہی افضل ہے۔ جیسے جنگ موتہ میں اہل اسلام کی تعداد صرف تین ہزار تھی اور ان کے مقابل قیصر کی فوج دو لاکھ تھی لیکن غلامان مصطفٰے نے پرچم اسلام کو سرنگوں نہ ہونے دیا۔ اور فاتح اندلس طارق صرف سترہ سو جانبازوں کے ساتھ شاہ اندلس کے ستر ہزار شہسواروں سے ٹکرایا اور ان کو کچل کر رکھ دیا۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
اللہ عمل کی توفیق اور آسانیاں دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۴۵ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۰ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَO
اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہوo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۲۰۔​
اس آیت سے مقصود سرکار دو عالم ﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم دینا اور ان کی نافرمانی سے منع کرنا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ذکر اس بات سے متنبہ کرنے کے لیے ہے کہ رسول خدا کی اطاعت اللہ عزوجل ہی کی اطاعت ہے۔ جیسا کہ ایک مقام پر صراحت کے ساتھ فرمایا کہ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔۔۔(صراط الجنان)۔
اطاعت خدا اور اطاعت رسول ﷺ عقائد اسلامیہ اور شریعت بیضاء کا سنگ بنیاد ہے۔ اس کے بغیر نہ اسلامی عقائد کا پتہ چل سکتا ہے اور نہ شریعت کا۔ وانتم تسمعون کے کلمات کتنے معنی خیز ہیں۔ یعنی اتنا تغافل کہ قرآنی آیات سننے کے باوجود بھی اطاعت خدا و رسول کے منکر ہیں۔ بلکہ اتباع قرآن کو ترک اطاعت رسول کی دلیل بناتے ہیں۔ اتباع قرآن تب ہی ہو سکتا ہے جب اس کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے اور اطاعت رسول کا حکم بھی قرآن کا ہی حکم ہے ۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے کہ ہم اس کی اس کے نبی صلی اللہ وآلہ وسلم کی اطاعت کریں جیسا کہ اطاعت کرنے کا حق ہے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۴۷ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۷ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَO
اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (ان کے حقوق کی ادائیگی میں) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالانکہ تم (سب حقیقت) جانتے ہوo
سورۃ الانفال، آیت نمبر ۲۷۔​

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت کا مطلب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے، لا تخونوا اللہ بترک فرائضہ والرسول بترک سنتہ۔ یعنی فرائض کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیانت نہ کرو اور سنت سے سرتابی کر کے اس کے رسول سے خیانت نہ کرو۔ اسی طرح مسلمانوں کے راز دشمن تک پہنچانا، حکومت کے سربراہوں ، اعلیٰ افسروں اور ملازموں کا اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا ، ملک کے صنعت کاروں اور تاجروں کا ملکی صنعت اور کاروبار میں دیانتداری کو نظر انداز کر دینا حقیقت میں اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت کرنے میں داخل ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۷۱ ۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۶ میں ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَO
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤo
سورۃ الحجرات ، آیت نمبر ۶۔​

اس آیت کی شان نزول میں اکثر علمائے تفسیر نے یہ روایت ذکر کی ہے۔ بنو مصطلق کا سردار حارث بن ابی الضرار بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور مشرف بہ اسلام ہوا۔ حضور ﷺ نے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا تو اس نے اسے بھی قبول کر لیا اور عرض کیا کہ میں واپس جا کر اپنے قبیلہ کو اسلام کی دعوت دوں گا۔ جن لوگوں نے یہ دعوت قبول کی ان سے زکوٰۃ بھی وصول کروں گا۔ آپ فلاں وقت اپنا کوئی آدمی بھیج دیں جو جمع شدہ زکوٰۃ وصول کر لے۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے وقت مقررہ پر ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنی مصطلق کی طرف بھیجا تا کہ زکوٰۃ وصول کرے۔ زمانہ جاہلیت میں ولید کے ذمہ ان کا ایک قتل تھا، اسے خدشہ ہوا کہ مبادا وہ اسے قتل کر دیں۔ وہ راستہ سے لوٹ آیا اور آکر خبر دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اور میرے قتل کے درپے ہو گئے تھے۔ مشکل سے جان بچا کر یہاں پہنچا ہوں۔ یہ سن کر بعض لوگوں نے مشتعل ہو کر بنی مصطلق کے خلاف فوجی کاروائی کا پرزور مطالبہ شروع کر دیا۔ حضور ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو ایک دستہ دے کر ان کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ پہلے حقیقت حال معلوم کر لینا پھر کوئی کاروائی کرنا، جلد بازی سے کام نہ لینا۔ حسب ارشاد حضرت خالد رضی اللہ عنہ رات کے وقت وہاں پہنچے، علاقے سے باہر پڑاؤ کر کے اپنے جاسوس بھیجے تا کہ ان کے احوال پر آگاہی حاصل کریں۔ انہوں نے آ کر گواہی دی کہ وہ اسلام پر پختہ ہیں۔ ہم نے ان کی اذانیں سنی ہیں اور ان کو باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔ حضرت خالد صبح کے وقت ان کے ہاں گئے اور اپنے جاسوسوں کی اطلاعات کو درست پایا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے واپس آکر حضور اکرم ﷺ سے حقیقت حال عرض کر دی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ نبی مکرم ﷺ اکثر فرمایا کرتے " التأنی من اللہ والعجلۃ من الشیطان" سوچ سمجھ کر کام کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کی انگیخت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ ہدایت فرما رہا ہے کہ اگر کوئی فاسق اور بدکار تمہارے پاس کوئی اہم خبر لے آئے تو اس کو فوراً قبول نہ کیا کرو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہو اور تم اس کی جھوٹی خبر سے مشتعل ہو کر کوئی ایسی کاروائی کر بیٹھو جس پر خوفناک نتائج مرتب ہوں اور پھر تم ساری عمر فرط ندامت سے کف افسوس ملتے رہو۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​

اللہ ہمیں سوچ سمجھ کر ہر کام کرنے کی توفیق اور آسانی دے اور ہر کام کے نتائج ہمارے حق میں بہترین کرے۔اگر ہم بھولے بھٹکے کچھ غلط کر بیٹھیں تو نہ صرف ہمیں معاف فرمائے بلکہ ہمیں برے نتائج و انجام سے پناہ دے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
ق
۷۲ ۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱۱ اور ۱۲ میں اہل ایمان کو معاشرتی تعلقات اور باہمی معاملات میں ناپسندیدہ رویوں سے بچنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ چونکہ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ باتیں بہت عام ہیں اس لیے ان کا علم حاصل کر کے ان سے بچنا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیںo
سورۃ الحجرات، آیت نمبر ۱۱۔
ان آیات میں مسلمانوں کو ایسی تمام باتوں سے سختی سے روکا جا رہا ہے جن کے باعث اسلامی معاشرہ کا امن و سکون برباد ہوتا ہے، محبت و پیار کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور خون خرابہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا حکم یہ دیا کہ اے ایمان والو ، ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایا کرو۔ مذاق اسی کا اڑایا جاتا ہے جس کی عزت اور احترام دل میں نہ ہو۔ جب آپ کسی کا مذاق اڑاتے ہیں تو گویا آپ اس چیز کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اس شخص کی میرے دل میں کوئی عزت نہیں۔ جب آپ اس کی عزت نہیں کریں گے تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ آپ کا احترام کرے۔ دوسرا حکم یہ دیا کہ لَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ، کسی کے منہ پر اس کی عیب جوئی کرنے کو اللمز کہتے ہیں۔ اصل میں آنکھ ، سر کے اشارے یا زیر لب آہستہ سے کسی کی عیب چینی کی جائے تو کہتے ہیں لمز فلان۔ لا تلمزو فرما کر بتا دیا کہ کسی طرح بھی تمہیں یہ اجازت نہیں کہ اپنے بھائی کے عیب گنواؤ اور اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو اچھالتے رہو۔ تیسرا حکم یہ دیا کہ لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۔ کسی کو کسی لقب سے ملقب کرنے کو لغت میں نبز کہتے ہیں لیکن عموما اس کا استعمال اس لقب کے لیے ہوتا ہے جس میں کسی کی مذمت ہو اور جسے وہ شخص ناپسند کرے۔ کسی اندھے کو اندھا اور کانے کو کانا کہنا بھی جائز نہیں۔ ہمیشہ ایسے اسما اور القاب سے ایک دوسرے کو بلاؤ جس سے سننے والا خوش ہوتا ہو۔ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ: کتنا برا نام ہے مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا۔ بڑے پیار انداز سے اپنے بندوں کو تنبیہ فرمائی جا رہی ہے کہ تم اب میرے ہو چکے ہو، تمہیں اب ایسی کوئی نازیبا حرکت نہیں کرنی چاہیے جس کی وجہ سے تمہیں بدکار اور فاسق کہا جائے۔ اگر تم اسلام قبول نہ کرتے ، میرے محبوب رسول پر ایمان نہ لاتے اور شتر بے مہار بنے من مانیاں کرتے رہتے تو تم سے کسی کو شکایت نہ ہوتی۔ اب تم مشرف بہ اسلام ہو چکے ہو۔ لوگ بجا طور پر تم سے توقع رکھتے ہیں کہ تم خیر و صلاح کا عملی نمونہ پیش کرتے رہو گے۔ غلامان مصطفےٰ کہلا کر اگر تم فسق و فجور سے اپنا دامن نہیں بچاتے تو بڑی بے حیائی اور افسوس کی بات ہے۔ آخر میں فرمایا جو شخص ان ناشائستہ حرکات سے تائب نہیں ہوتا وہ ظالم ہے۔ آیت کے اس جملے سے فقہائے کرام نے ہتک عزت کا اسلامی قانون اخذ کیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کے حق میں برے الفاظ استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف اسلامی عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جا سکتا ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔

اللہ ہمیں معاشرہ میں اپنے ان احکامات کے مطابق چلنے کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

الشفاء

لائبریرین
۷۳ ۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱۲ میں اہل ایمان کو بد ظنی ، تجسس اور غیبت جیسی برائیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌO
اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo
سورۃ الحجرات ، آیت نمبر ۱۲۔
مسلم معاشرہ کو ہر قسم کی شکر رنجی سے محفوظ رکھنے کے لیے جو ہدایات پچھلی آیت میں دی جا رہی تھیں ان کا سلسلہ اس آیت میں بھی جاری ہے۔ فرمایا، کثرت ظن و گمان سے اجتناب کیا کرو۔ کیونکہ بعض ظن ایسے ہیں جو گناہ ہوتے ہیں۔ ان کلمات سے پتہ چلتا ہے کہ مطلقاً ظن سے نہیں روکا اور نہ ہر قسم کے ظن کو گناہ کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی ظن جائز ہیں۔ اس لیے علمائے کرام نے ظن کی متعدد قسمیں ذکر کی ہیں۔ واجب ، مستحب، مباح، اور ممنوع۔ اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ظن کرنا واجب ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے وصال سے تین روز پہلے فرمایا لاَ يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلاَّ وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ۔ تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو۔ مومن کے ساتھ جس کا ظاہری حال اچھا ہو حسن ظن رکھنا مستحب ہے۔ ایسا شخص جس کے احوال مشکوک ہوں اس کے متعلق سوئے ظن کرنا مباح ہے لیکن یقینی دلائل کے بغیر محض ظن کے مطابق اس کے خلاف کاروائی کرنا جائز نہیں۔ پھر فرمایا لَا تَجَسَّسُوا یعنی کسی مسلمان کے عیبوں کا سراغ لگانا اور اس کے پوشیدہ حالات کو کریدنا ممنوع ہے۔ اس طرح اس کی پردہ دری ہوگی، حالانکہ ہمیں پردہ پوشی کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ہےمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللہ یَوْمَ الْقیامۃ۔ جو دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
لَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا : پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی نہ کرو۔ غیبت کی تعریف خود زبان رسالت نے بیان فرمائی ہے۔ ایک دن حضور ﷺ دریافت فرمایا کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ ورسولہ اعلم ، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ذِكْرُكَ أخاك بما يكْره یعنی اپنے بھائی کا ایسا ذکر جسے وہ ناپسند کرے۔ عرض کی گئی اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہو تو بھی اس کا ذکر غیبت ہو گی۔ فرمایا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے تو تُو نے غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں نہیں تو تُو نے اس پر بہتان باندھا۔ (اللہ عزوجل ہمیں غیبت و بہتان سے بچائے)۔ قرآن کریم نے لوگوں کو غیبت سے متنفر کرنے کے لیے ایک ایسی تشبیہ دی جس کو سن کر کوئی سلیم الطبع غیبت کی طرف راغب نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کیا کوئی شخص انسانی گوشت کھانا پسند کرے گا اور انسان بھی وہ جو مردہ ہو اور مردہ بھی وہ جو اس کا بھائی ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص غیبت کر بیٹھے تو وہ توبہ کرے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کر بیٹھو اس کے لیے بکثرت مغفرت کی دعا مانگو۔ لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں جبکہ غیبت مباح ہو جاتی ہے۔ وہ فاسق جو اعلانیہ فسق و فجور کا ارتکاب کرتا ہے اس کے عیوب کا ذکر غیبت نہیں۔ اسی طرح بد عقیدہ عالم اور ظالم بادشاہ کے عیوب بیان کرنا بھی غیبت نہیں۔ حدیث شریف میں ہے مَنْ أَلْقَى جِلْبَابَ الْحَيَاءِ فَلا غِيبَةَ لَهُ جو شخص حیاء کی چادر اتار کر پھینک دے اس کی کوئی غیبت نہیں۔ دوسرا ارشاد ہے،اذکروالفاجر بمافیہ یحذرہ الناس یعنی فاجر کی خرابیاں بیان کیا کرو تاکہ لوگ اس سے بچتے رہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
۴۸ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۹ تقویٰ اختیار کرنے کی کچھ برکات بیان کی جا رہی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تَتَّقُواْ اللّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَاناً وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بڑے فضل والا ہےo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۲۹۔​

اللہ تعالیٰ اپنے پرہیز گار بندوں کو جن انعامات سے سرفراز فرماتا ہے۔اس آیت میں ان کا بیان ہے۔ ۱۔ نعمت فرقان ، ۲۔ ستر عیوب ، ۳۔ آمرزش گناہ۔

۱ ۔ حق وباطل میں تمیز کرنے والی قوت کو فرقان کہتے ہیں۔عارفین کاملین کا ارشاد ہے کہ ذکر الٰہی سے ایک نور پیدا ہوتا ہے جس سے حقائق اشیاء منکشف ہو جاتی ہیں اور غلط و صحیح میں واضح فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اسے کشف کہتے ہیں۔ اور حضور کریم ﷺ کے اس ارشاد گرامی میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنوراللہ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
۲۔ پرہیزگاروں پر دوسرا انعام یہ کیا جائے گا کہ ان کے گناہوں کو چھپا دیا جائے گا تاکہ کسی کی نگاہ ان پر نہ پڑ سکے۔ علامہ ابن منظور يُكَفِّرْ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کفر کا اصلی مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو اس طرح ڈھانپ دیناکہ اس کا نام و نشان بھی محو ہو جائے۔ علامہ موصوف آگے چل کر لکھتے ہیں والتکفیر فی المعاصی کالاحباط فی الثواب یعنی اگر ثواب ملیا میٹ ہو جائے تو اس کے لیے احباط کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اگر گناہوں کا نام ونشان مٹا دیا جائے تو وہاں تکفیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔(لسان العرب)۔ اللہ تعالیٰ کا پرہیز گاروں پر یہ کتنا کرم ہے کہ عالم غفلت میں ان سے جو گناہ سرزد ہوئے ان کو وہ اپنے کرم کی چادر سے ڈھانپ دے اور کسی کو ان گناہوں کی اطلاع تک نہ ہو۔
۳۔ ان نیک بختوں پر جو تیسرا احسان فرمایا جائے گا وہ یہ ہے کہ اگر بشری تقاضوں کے باعث ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے ، کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں تو اس پر قلم عفو پھیر دیا جائے گا اور اسے بخش دیا جائے گا۔
بے شک تقویٰ کے تقاضے بڑے گراں ہیں لیکن ان پر جن انعامات کی بارش کی جاتی ہے ان کے باعث ان کی تلخی و گرانی کا تصور تک محو ہو جاتا ہے۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔
الٰلھم اجعلنا للمتقین اماما۔۔۔
۔۔۔​

اللہ عمل کی توفیق اور آسانیاں عطا فرمائے۔آمین!۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

جاسمن

لائبریرین
۴۹ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۴۵ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُواْ وَاذْكُرُواْ اللّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۴۵۔​

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کے دو آداب تعلیم فرمائے ہیں۔
پہلا ادب جنگ میں ثابت قدم رہنا : اول تو مسلمانوں کو جنگ یا کسی آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے۔ لیکن جب ان پر جنگ مسلط ہو جائے تو اب ان پر لازم ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور بزدلی نہ دکھائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم دشمنوں سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو ۔ اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ عزوجل کو یاد کرو۔(مصنف عبدالرزاق)
دوسرا ادب لڑائی کے دوران کثرت سے اللہ عزوجل کا ذکر کرنا : دوران جنگ دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور زبان پر اللہ عزوجل کا ذکر ہونا چاہیئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو انتہائی شدید حالت میں بھی ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ایک شخص مغرب سے مشرق تک اپنے اموال کی سخاوت کرے اور دوسرا شخص مشرق سے مغرب تک تلوار سے جہاد کرتا جائے تب بھی اللہ عزوجل کا ذکر کرنے والے کا درجہ اور اجر ان سے زیادہ ہو گا۔(تفسیر کبیر)
(صراط الجنان)
۔۔۔​

اسے میں مزید سمجھنا چاہتی ہوں۔
 
لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاؕ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیۡہَا مَا اکْتَسَبَتْؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوْ اَخْطَاۡنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیۡنَاۤ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖۚ وَاعْفُ عَنَّاٝ وَاغْفِرْ لَنَاٝ وَارْحَمْنَاٝ اَنۡتَ مَوْلٰىنَا فَانۡصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیۡنَ
اللّٰہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر اس کا فائدہ ہے جو اچھا کمایا اور اس کا نقصان ہے جو برائی کمائی اے رب ہمارے ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوکیں اے رب ہمارے اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا اے رب ہمارے اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں سہار نہ ہو اور ہمیں معاف فرمادے اور بخش دے اور ہم پر مہر کر تو ہمارا مولیٰ ہے تو کافروں پر ہمیں مدد دے
 

جاسمن

لائبریرین
لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاؕ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیۡہَا مَا اکْتَسَبَتْؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوْ اَخْطَاۡنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیۡنَاۤ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖۚ وَاعْفُ عَنَّاٝ وَاغْفِرْ لَنَاٝ وَارْحَمْنَاٝ اَنۡتَ مَوْلٰىنَا فَانۡصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیۡنَ
اللّٰہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر اس کا فائدہ ہے جو اچھا کمایا اور اس کا نقصان ہے جو برائی کمائی اے رب ہمارے ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوکیں اے رب ہمارے اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا اے رب ہمارے اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں سہار نہ ہو اور ہمیں معاف فرمادے اور بخش دے اور ہم پر مہر کر تو ہمارا مولیٰ ہے تو کافروں پر ہمیں مدد دے

خالد بھائی!
قرآن مجید میں تقریباً ۸۹ آیات " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ" کے الفاظ کے ساتھ شروع ہو رہی ہیں۔ کوشش کریں گے کہ ان تمام آیات کو افادہ عامہ کے لیے عام فہم اردو ترجمہ اور مختصر تفسیر کے ساتھ پیش کر دیا جائے۔ ان شاء اللہ العزیز اس حوالے سے مختلف کتب و تفاسیر سے خوشہ چینی کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وباللہ التوفیق۔۔۔
 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ
اے ایمان والو اللّٰہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو

یہ آیت اُن اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حُرمت نازل ہونے سے قبل سودی لین دین کرتے تھے اور اُن کی گراں قدر سودی رقمیں دُوسروں کے ذمہ باقی تھیں اس میں حکم دیا گیا کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد سابق کے مطالبہ بھی واجب الترک ہیں اور پہلا مقرر کیا ہوا سود بھی اب لینا جائز نہیں
 
Top