الف نظامی
لائبریرین
کیا آپ قادیانیوں کے ترجمان ہو؟احمدیوں سے نفرت میں کمی نہیں آئی اسلئے تبصرے بھی ختم نہیں ہو رہے۔
کیا آپ قادیانیوں کے ترجمان ہو؟احمدیوں سے نفرت میں کمی نہیں آئی اسلئے تبصرے بھی ختم نہیں ہو رہے۔
تو نماز کو انگلش میں ادا کریں، آذان پنجابی میں دیں، مسجد کو گھنٹا گھر کہیں، کلمہ طیبہ مولویوں کی پسند کا پڑھیں؟قادیانیوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے وہ خود کو علیحدہ مذہب تسلیم کریں اور شعارِ اسلام استعمال نہ کریں۔
ہر احمدی احمدیوں کا ترجمان ہوتا ہے۔کیا آپ قادیانیوں کے ترجمان ہو؟
آپ کی ذاتی رائے اجتماعی رائے کیسے بن سکتی ہے۔ اجتماعی رائے تو پارلیمان کی قانون سازی سے جنم لیتی ہے۔ اگر کٹر ملاوں کو ریاستی معاملات سے لاتعلق رکھنا چاہتے ہیں تو پارلیمان میں اکثریت حاصل کیجیے اور قانون سازی کے ذریعے انہیں ریاست کے معاملات سے لاتعلق کر دیجیے اور یہ بھی یاد رکھیے کہ:آپ کو ایسا کیوں محسوس ہوا؟ وہ ریاست سے متعلق ضرور ہیں تاہم انہیں ریاستی معاملات سے دور رکھا جائے تو یہ ملک کے لیے زیادہ مفید ہے؛ یہ ہماری ذاتی رائے ہے جس سے اختلاف کا حق آپ کو حاصل ہے محترم!
کیا ہم نے ایسا کوئی دعویٰ کیا؟آپ کی ذاتی رائے اجتماعی رائے کیسے بن سکتی ہے۔
کیا یہ جمہوریت نہیں ہے؟خواجہ سعد رفیق نے دھمکی دی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی نے ہمارے خلاف تحریک چلائی
مذہبی غنڈہ گردی اور جبر کو آزادی مذہب کہہ رہے ہیں۔ لاجواب قوم!قادیانیوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے
تحریک انصاف تو ابھی تک اکیلے ہی جلسے کر رہی ہے اور ٹھیک ٹھاک تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ ان دو نمبر مذہبی جتھوں کی خوشنودی کی کیا ضرورت ہے؟صرف دو اڑھائی ماہ قبل کون سوچ سکتا تھا کہ میڈیا پر خادم حسین رضوی ، ڈاکٹر طاہر القادری اور صاحبزادہ حمید الدین سیالوی کا طوطی بول رہا ہوگا اور پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین ان کی خوشنودی کے خواہاں ہوں گے۔
حضرت علامہ خادم حسین رضوی، ڈاکٹر طاہر القادری اور صاحب زادہ حمید الدین سیالوی کے ایک دوسرے سے متعلق 'زریں خیالات' پر محترم ارشاد احمد عارف کی ایک نگاہ پڑ جاتی تو شاید قلم کاری کا حق بھی کافی حد تک ادا ہو جاتا۔
یہ جاہل مولوی پاکستان میں ایران اسٹائل ملا گردی چاہتے ہیں۔ مگر انکا یہ خواب دیگر سیاسی جماعتیں کبھی پورا ہونے نہیں دیں گی۔حضرت علامہ خادم حسین رضوی، ڈاکٹر طاہر القادری اور صاحب زادہ حمید الدین سیالوی کے ایک دوسرے سے متعلق زریں خیالات پر بھی محترم ارشاد احمد عارف کی ایک نگاہ پڑ جاتی تو قلم کاری کا حق بھی کافی حد تک ادا ہو جاتا۔
ایک قادیانی کی جانبدار رائے سے کیا ہوتا ہے؟تحریک انصاف تو ابھی تک اکیلے ہی جلسے کر رہی ہے اور ٹھیک ٹھاک تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ ان دو نمبر مذہبی جتھوں کی خوشنودی کی کیا ضرورت ہے؟
عمران خان نے ہمیشہ ہی طالبان کی حمایت کی ہے بلکہ کچھ سال قبل تک انکے لئے دفتر کھولنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔اب تو تحریک انصاف بھی طالبان کی حمایت کر رہی ہے جس کی تمام بریلوی دیوبندی اہل حدیث حمایت کرتے ہیں۔
احمدیوں کے دو بڑے شہر قادیان اور ربوہ میں سیکولرازم کا نام و نشان نہیں ہے۔ ہاں وہاں دیگر مذاہب بڑی تعداد میں آباد ہیں اور کبھی سرکاری مسلمانوں جیسا غل غپاڑہ نہیں ہوا۔اگرچہ قادیانی تھنک ٹینک نے تحریک انصاف میں بھی نقب لگانے کی کوشش کی تھی لیکن بھلا ہو مولانا طارق جمیل کا جن کے مشورہ پر عمران خان نے بروقت اقدام کیا اور سیکولر اقدار کے فروغ کی کوششوں کو صفر کر دیا۔
پیر صاحب نے اپنے مرید اکٹھے کر لئے ہیں۔ اب انکی جہالت سے ووٹ لینے کی ناکام کوشش کریں گے۔حمید الدین سیالوی
بھائی جان آپ میرے ان دونوں مراسلوں کا اقتباس یہاں نقل کر دیجئے تاکہ مجھے یہ سمجھنے میں آسانی رہے کہ یہ کنفیوژن کیوں پیدا ہوئیمحترم لئیق احمد بھیا! اسی لڑی میں آپ فرما چکے کہ طریقہء کار غلط تھا، بعدازاں، آپ نے طریقہء کار کو بھی دبے لفظوں میں درست قرار دیا
یہاں ملائیت سے آپ کی کیا مراد ہے؟خیال رہے کہ ہم ہر قسم کی ملائیت کے خلاف ہیں، چاہے وہ مذہبی ملائیت ہو یا لبرل ملائیت
"ملائیت کے خلاف ہونا" آج کل بولے تو فیشن ہے بھیا فیشن۔بھائی جان آپ میرے ان دونوں مراسلوں کا اقتباس یہاں نقل کر دیجئے تاکہ مجھے یہ سمجھنے میں آسانی رہے کہ یہ کنفیوژن کیوں پیدا ہوئی
میں البتہ ایک دفعہ پھر یہ وضاحت سے کہ دوں کہ رضوی صاحب کا طریقہ اور زبان مناسب نہیں تھی ۔ مگر تمام سیاستدان جو ضرورت پڑنے پر خود بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کرتے ہیں ان کو رضوی صاحب کے طریقے پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں ہے البتہ عوام کرسکتے ہیں جن کو ہرجانب سے تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ اور میں یہ بھی کہوں گا احتجاج کرنے والوں اور اپنا حق مانگنے والوں کو یہ غلط طریقہ اختیار کرنے پر خود حکمرانوں نے مجبور کیا ہے۔
یہاں ملائیت سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جب بھی اسلامی اقدار کی سیاسی سطح پر مخالفت کی جائے گی تو شدید ردعمل ملے گا عمومی طور پر علما مسجد و محراب تک محدود رہتے ہیں۔ انہیں سیاسی میدان میں لانے کی ذمہ دار بھی موجودہ سیاسی قیادت ہے۔لئیق بھیا، ملائیت شدت پسندانہ رویوں کو کہہ لیں جو کہ کسی بھی شعبے سے متعلقہ افراد کے اندر تب در آتی ہے جب ان کے پاس دلیل کی قوت ختم ہو جائے۔ بسا اوقات یہ ملائیت دشنام طرازی اور گالم گلوچ کی شکل اختیار کرتی ہے اور کبھی کبھار تو یوں ہوتا ہے کہ ایسے انتہاپسند افراد جتھے تشکیل دے کر مخالفین کی گردنیں مارنے لگ جاتے ہیں؛ اس طرح کے انتہاپسندانہ رویے معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ اب یہ بحث تو مناظرے کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، اس لیے کیا یہاں فل اسٹاپ لگا دینا مناسب نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا لہجہ تلخ ہو جائے۔ ٹیگ لئیق احمد