خالد محمود چوہدری
محفلین
پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے ضلع جہلم کی ایک مسجد میں میلاد کروانے پر ایک تنازع کے بعد مسجد کے منتظم کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بدھ کی شام پولیس نے مذہبی جماعت تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کے ایک رکن کی درخواست پر ایک شخص کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 اے یعنی توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
جمعرات کی صبح عدالت نے گرفتار شخص کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔ جہلم کے تھانہ صدر کے ایس ایچ او غلام عباس شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہلم کے ایک محلے کی مسجد کے منتظم اور ایک مقامی رہائشی کے درمیان مسجد میں میلاد کروانے کے سلسلے میں تنازع جاری تھا جس میں پولیس ثالث کا کردار ادا کر رہی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ اسی دوران مسجد کے منتظم نے درود کے حوالے سے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’آپ اس درود کو مسجد میں نہیں پڑھ سکتے‘۔ جس کے بعد مولوی کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
جہلم کے ڈی پی او عبد الغفار قیصرانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بادی النظر میں یہ بیان توہینِ مذہب کے زمرے میں آ سکتا ہے تاہم پولیس اب اس بارے میں مزید تفتیش کرے گی۔
انھوں نے بتایا کہ اب وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ عدالت سے درخواست کی جائے کہ وہ فیصلہ آنے تک اس مسجد کو بند کر دیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بطور ثالث انھوں نے میلاد کروانے والوں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس میلاد کرانے کا کوئی اجازت نامہ ہے تو انھوں نے کہا ’نہیں‘، اور جب پولیس نے پوچھا کہ کیا ماضی میں اس مسجد میں میلاد کرایا گیا ہے تو اس کا جواب بھی نفی میں تھا۔
بدھ کی شام پولیس نے مذہبی جماعت تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کے ایک رکن کی درخواست پر ایک شخص کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 اے یعنی توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
جمعرات کی صبح عدالت نے گرفتار شخص کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔ جہلم کے تھانہ صدر کے ایس ایچ او غلام عباس شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہلم کے ایک محلے کی مسجد کے منتظم اور ایک مقامی رہائشی کے درمیان مسجد میں میلاد کروانے کے سلسلے میں تنازع جاری تھا جس میں پولیس ثالث کا کردار ادا کر رہی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ اسی دوران مسجد کے منتظم نے درود کے حوالے سے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’آپ اس درود کو مسجد میں نہیں پڑھ سکتے‘۔ جس کے بعد مولوی کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
جہلم کے ڈی پی او عبد الغفار قیصرانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بادی النظر میں یہ بیان توہینِ مذہب کے زمرے میں آ سکتا ہے تاہم پولیس اب اس بارے میں مزید تفتیش کرے گی۔
انھوں نے بتایا کہ اب وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ عدالت سے درخواست کی جائے کہ وہ فیصلہ آنے تک اس مسجد کو بند کر دیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بطور ثالث انھوں نے میلاد کروانے والوں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس میلاد کرانے کا کوئی اجازت نامہ ہے تو انھوں نے کہا ’نہیں‘، اور جب پولیس نے پوچھا کہ کیا ماضی میں اس مسجد میں میلاد کرایا گیا ہے تو اس کا جواب بھی نفی میں تھا۔