پاکستان کا لبیک دھرنا

پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے ضلع جہلم کی ایک مسجد میں میلاد کروانے پر ایک تنازع کے بعد مسجد کے منتظم کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

بدھ کی شام پولیس نے مذہبی جماعت تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کے ایک رکن کی درخواست پر ایک شخص کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 اے یعنی توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

جمعرات کی صبح عدالت نے گرفتار شخص کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
جہلم کے تھانہ صدر کے ایس ایچ او غلام عباس شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہلم کے ایک محلے کی مسجد کے منتظم اور ایک مقامی رہائشی کے درمیان مسجد میں میلاد کروانے کے سلسلے میں تنازع جاری تھا جس میں پولیس ثالث کا کردار ادا کر رہی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اسی دوران مسجد کے منتظم نے درود کے حوالے سے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’آپ اس درود کو مسجد میں نہیں پڑھ سکتے‘۔ جس کے بعد مولوی کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

جہلم کے ڈی پی او عبد الغفار قیصرانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بادی النظر میں یہ بیان توہینِ مذہب کے زمرے میں آ سکتا ہے تاہم پولیس اب اس بارے میں مزید تفتیش کرے گی۔

انھوں نے بتایا کہ اب وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ عدالت سے درخواست کی جائے کہ وہ فیصلہ آنے تک اس مسجد کو بند کر دیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بطور ثالث انھوں نے میلاد کروانے والوں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس میلاد کرانے کا کوئی اجازت نامہ ہے تو انھوں نے کہا ’نہیں‘، اور جب پولیس نے پوچھا کہ کیا ماضی میں اس مسجد میں میلاد کرایا گیا ہے تو اس کا جواب بھی نفی میں تھا۔
 

زیک

مسافر
پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے ضلع جہلم کی ایک مسجد میں میلاد کروانے پر ایک تنازع کے بعد مسجد کے منتظم کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

بدھ کی شام پولیس نے مذہبی جماعت تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کے ایک رکن کی درخواست پر ایک شخص کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 اے یعنی توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

جمعرات کی صبح عدالت نے گرفتار شخص کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
جہلم کے تھانہ صدر کے ایس ایچ او غلام عباس شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہلم کے ایک محلے کی مسجد کے منتظم اور ایک مقامی رہائشی کے درمیان مسجد میں میلاد کروانے کے سلسلے میں تنازع جاری تھا جس میں پولیس ثالث کا کردار ادا کر رہی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اسی دوران مسجد کے منتظم نے درود کے حوالے سے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’آپ اس درود کو مسجد میں نہیں پڑھ سکتے‘۔ جس کے بعد مولوی کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

جہلم کے ڈی پی او عبد الغفار قیصرانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بادی النظر میں یہ بیان توہینِ مذہب کے زمرے میں آ سکتا ہے تاہم پولیس اب اس بارے میں مزید تفتیش کرے گی۔

انھوں نے بتایا کہ اب وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ عدالت سے درخواست کی جائے کہ وہ فیصلہ آنے تک اس مسجد کو بند کر دیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بطور ثالث انھوں نے میلاد کروانے والوں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس میلاد کرانے کا کوئی اجازت نامہ ہے تو انھوں نے کہا ’نہیں‘، اور جب پولیس نے پوچھا کہ کیا ماضی میں اس مسجد میں میلاد کرایا گیا ہے تو اس کا جواب بھی نفی میں تھا۔
ابھی تو ابتدائے عشق ہے۔
 
آپ کا اختلاف تو اکثر علمائے اسلام سے ہے کیونکہ علماء کی غالب اکثریت قرآن کے ساتھ حدیث کو بھی حجت مانتی ہے مگر آپ صرف قرآن پاک کو مانتے ہیں۔
بہت خوب، مذہبی سیاسی بازیگروں سے اتنا دھوکہ کھائے ہوئے بیٹھے ہیں؟ برادر من ، احتراماً عرض ہے کہ رسول پاک کی وہ حدیث یمارے علم میں لائیے جس میں رسول اکرم نے ڈھائی فی صد زکواۃ کا حکم دیا ہو؟ بہت ہی مہربانی ہوگی۔

میں درست بات کی حمایت کر رہا ہوں چاہے یہ کسی نے بھی کی ہو وہ یہ ہے کہ جن بھی افراد نے ختم نبوت قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا ان کو سزا ملنی چاہئے۔
اللہ کے سوا، کس کی ہمت ہے کہ وہ آج رسول اکرم کی حفاظت کا ذمہ لے؟ نعوذ باللہ ، یہ تو عین توہین رسالت اور اللہ تعالی کے ذات سے بھی بڑھ جانے پر، توہین اللہ ہے۔ نعوذ باللہ
 

امان زرگر

محفلین
پاکستان میں موجود توہینِ مذہب کے قوانین برطانوی دور میں بنائے گئے، تاہم مختلف اوقات میں ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔ 1860ء میں برطانوی حکومت نے برصغیر میں بڑھتے ہوئے مذہبی جرائم کے سبب دفعہ 295، 296 اور 298 کے نام سے تین قوانین انڈین ضابطہ اخلاق میں شامل کئے تھے۔ اِن قوانین کے تحت کسی عبادت گاہ کی بے حرمتی، مذہبی تقریبات میں فساد اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنا جرم قرار دیا گیا، تاہم اِن قوانین کے تحت توہینِ مذہب کی سزا موت نہیں رکھی گئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ضیاء الحق دور میں ملک کے آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے مزید پانچ شقیں توہینِ مذہب کے قانون میں شامل کی گئیں۔ 1990ء میں 295C کے تحت توہینِ رسالت کی سزا موت قرار دے دی گئی۔
 
آخری تدوین:
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشادفرمایا عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ یعنی علم ختم ہوجائےگا۔ اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہونگی ان کے علما آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین ہونگے۔ (عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ۔ اُن کے علماء کی اب نشاندہی ہوگئی کہ اُن کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں بد ترین ہوں گے) ان میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور ان میں ہی لَوٹ جائیں گے یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔

(بہیقی بحوالہ مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ۳۸ کنزالعمّال ۶ صفحہ ۴۳)

یعنی تمام خرابیوں کی جَڑ مولوی ہونگے۔اور وہی ہرقسم کے فساد کا سرچشمہ ہوں گے۔ فرمایا آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے اور میری اُمّت میں میری طرف منسوب ہورہے ہوں گے لیکن فرمایا عُلَمَآءُ ھُمْ ہوں گے یہ اُن لوگوں کے علماء ہوں گے میرے ساتھ ان کا کوئی رُوحانی تعلق نہیں ہوگا۔
پھر ایک اور موقع پر آقا علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

تَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ فَزْعَۃٌ فَیَصِیْرُالنَّاسُ اِلَی عُلَمَاءِھِمْ فَاِذَا ھُمْ قِرَدَۃٌ وَ خَنَازِیْرُ۔
(کنزالعمّال جلد ۷ صفحہ ۱۹۰)

یعنی میری اُمّت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں جھگڑے ہوں گے لڑائیاں ہوں گی۔ اختلافات پیدا ہوجائیں گے بظاہر تو لوگ یعنی عوام الناس ہی لڑتے ہیں لیکن ان کا کوئی قصور نہیں ہوگا وہ اپنے علماء کی طرف رجوع کریں گے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آخر اُن کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے، وہ کیوں فتنہ و فساد کا شکار ہوگئے ہیں۔ پس جب وہ اپنے علماء کے پاس رہنمائی کی اُمید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے۔ یعنی وہ علماء نہیں ہیں بلکہ سؤراوربندر ہیں۔



تو پھر اس کا کیا مطلب ہے؟
شکریہ خالد بھائی حدیث شریف شئیر کرنے کے لیے۔
یہ احادیث اور اس جیسی دوسری احادیث پڑھ کر میں تو کانپ جاتا ہوں۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
البتہ ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ احادیث جو کسی خاص طبقہ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ان سے خود عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ان کا مقصود ہے۔ کسی جماعت کو خطاب کرکے نہیں سنانی چاہئیں، کیونکہ فردا فردا اس کا مصداق اس جماعت میں سے کون ہے؟ یہ اللہ تعالی ہی جانتے ہیں۔
علماء کرام میں سے تو ایک جماعت قیامت تک وہ بھی رہے گی جس کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاہلین
یعنی ہر بعد کے آنے والے لوگوں میں اس علم کو منصف مزاج لوگ اٹھائیں گے جو اس سے غالیوں کی تحریفات، اہل باطل کے من گھڑت جھوٹ اور جاہلوں کی تاویلات دور کردیں گے۔
 
علم بمقابلہ جہل
404921-NajmaAlamNEW-1446747951.JPG

بلکہ ہمارا کھانا اس وقت تک ہضم ہی نہیں ہوتا جب تک ہم دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
نجمہ عالم
جمع۔ء 6 نومبر 2015

’’اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں، دوسرے کا چھیڑو نہیں‘‘ اس مشہور قول پر اگر عمل کر لیا جائے تو ہم کتنی پرسکون اور دلآویز زندگی بسر کر سکتے ہیں، مگر مشکل یہ ہے کہ ہم اس قول کے خلاف عمل پیرا ہیں یعنی اپنا عقیدہ تو جانے کب کا چھوڑ چکے ہیں مگر دوسروں کے عقائد کو ہر وقت چھیڑتے رہتے ہیں۔

بلکہ ہمارا کھانا اس وقت تک ہضم ہی نہیں ہوتا جب تک ہم دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا دوسروں کی آنکھ کا تنکا نکالنے پر ہر وقت کمر بستہ۔ یہ تم نے کیسے کپڑے پہنے ہیں، تم حجاب کیوں لیتی ہو، آج کل تو یہ بالکل دقیانوسی لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تعلیمی ادارے طلبا سے کھچا کھچ بھرے پڑے ہیں بلکہ کتنے تو داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

گویا تعلیم کو فروغ ہو رہا ہے مگر علم کا حصول جس کا حصول ترقی پسند دین نے ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے اس کا کہیں دور دور پتہ نہیں۔ علم کیا ہے؟ ہدایت و آگاہی کی روشنی جب کہ جہالت گمراہی اور فکر کا اندھیرا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 152 میں ارشادِ رب العزت ہے کہ ’’اللہ ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لا چکے ہیں کہ انھیں گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست شیاطین ہیں کہ ان کو ایمان کی روشنی سے نکال کر گمراہی کی تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں، یہی لوگ تو جہنمی ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔‘‘

حضرت علیؓ سے کسی نے سوال کیا کہ علم کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا علم ہدایت ہے علم روشنی ہے جب کہ جہل گمراہی اور تاریکی ہے، دوسرے شخص نے یہی سوال کیا تو اس کو جواب دیا علم روشن خیالی ہے جب کہ جہل تنگ دلی و تعصب ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیان کردہ ان تعریفوں کی روشنی میں جب ہم آیت مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا سرپرست بناتے ہیں وہ روشن خیال اور ہر طرح کے تعصب سے پاک ہوتے ہیں اور جو تعصب اختیار کرتے ہیں وہ جہل و کفر کے پیروکار اور ان کا سرپرست شیطان ہے۔

ان تینوں حوالوں کے بعد ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم علم حاصل ہی نہیں کر رہے۔ اگر ہم بھاری فیس دے کر جدید تعلیمی اداروں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں تو وہ صرف ڈگری تو ہو سکتی ہے ’’علم‘‘ نہیں، کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں ڈگری یافتہ ہونے کے باوجود معاشرے میں ہر قسم کا، ہر سطح پر تعصب روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، سیاسی، علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصب تو آج کل اپنے عروج پر ہے، سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں میں اپنی ذیلی تنظیمیں بنا کر تعلیمی اداروں کے ماحول کو بھی اس قدر برباد کر دیا ہے کہ علم تو دور تک نظر نہیں آتا اور تعلیمی ادارے ہر طرح کے تعصب کے اکھاڑے بن چکے ہیں۔

سیاسی جماعتیں جب مذہب کی بھی ٹھیکیدار بن جائیں اور اپنا مخصوص مسلک دوسروں پر بھی زبردستی تھوپنے لگیں تو دوسرے مسلک اور خیالات والے کا اس کو قبول نہ کرنے سے تصادم کی صورت پیدا ہوتی ہے پھر ہدایت گمراہی اور روشن خیالی جہالت کے اندھیروں میں ڈھلنے لگتی ہے۔ میرے ذہن ناقص میں یہ بات نہیں سما سکی کہ ہمارے علما ایک غیر متعصب، روشن خیال اور مائل بہ ترقی معاشرہ تشکیل دینے میں کیوں ناکام رہے؟

مسلمانوں کے تمام مسالک کے بنیادی اصول ایک ہیں، سب کا اللہ ایک، رسول ایک، کتاب ہدایت ایک پھر ہمارے درمیان جو معمولی نظریاتی اختلافات ہیں ان کو بنیاد بنا کر ہم ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا کر قیامت سے قبل ’’یومِ حساب‘‘ منا کر جہنمی اور جنتی ہونے کے فیصلے ازخود کیوں کرنے لگے ہیں؟ علما تو صاحبان علم ہیں، معمولی سا شعور رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ یہ اختیار تو صرف ذات واحد کا ہے کہ وہ کس کو واصل جہنم کرے اور کس کو داخل بہشت۔ پھر کتاب ہدایت میں مجھ جیسی کم علم کی نظر سے گزرا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود جوابدہ اور ذمے دار ہو گا حتیٰ کہ والدین اولاد کے بھائی بھائی کے اعمال سے بری الذمہ ہوں گے۔

پھر ہم کیسے اتنی آسانی سے کسی کے عمل کو غلط اور اپنے عمل کو درست قرار دے دیتے ہیں؟ اور اپنی بات زبردستی دوسروں سے منوانے پر کیسے اصرار کرتے ہیں؟ جب کہ ارشاد رب العزت ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں۔‘‘

چند روز قبل جامعہ کراچی میں لڑکیوں کے کرکٹ کھیلنے پر کئی لڑکیوں کو ایک طلبا تنظیم کے کارکنان نے زدوکوب کیا وجہ کیا تھی یہی کہ وہ لڑکیوں کا کرکٹ کھیلنا اپنے نظریے کے خلاف سمجھتے تھے اب ان سے پوچھیے کہ غلط کام کو غلط طریقے سے روکنا کیا شریفانہ، مہذب اور اسلامی طریقہ ہے؟ میں نے جب حیات رسول مقبولؐ پر نظر ڈالی تو مجھے صفحہ تاریخ پر واقعہ طائف ثبت ملا کہ طائف والوں نے ختمی المرتبؐ کو لہولہان کر دیا، جبرئیل امین حضورؐ کی مدد کے لیے حاضر ہوئے اور اہل طائف کو برباد کرنے کی اجازت طلب کی۔

سردار انبیاؐ نے بے چین ہو کر فرمایا کہ ’’نہیں میں ان کی آنے والی نسلوں میں مومن دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یعنی آپؐ نے برائی کے خاتمے کے لیے بروں کو ختم کرنے کی مخالفت کی، اسلامی طریقہ ہدایت ہے کہ برائی کو اپنے مثبت رویے سے ختم کرنے کی کوشش کرو، اگر ہم بروں کو ختم کرتے رہیں گے تو برائی اپنی جگہ موجود رہے گی اور برے پہلے سے زیادہ تعداد میں سامنے آتے رہیں گے۔ اگر آپ برائی ختم کرنے میں مخلص ہیں تو برے افراد کو درست راہ دکھانے کے لیے نرم رویہ اختیار کرنا اور ان کی جائز ضروریات زندگی فراہم کرنے سے بہت بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اس طلبا تنظیم کے سخت رویے یعنی لڑکیوں کو زد وکوب کرنے اور پرتشدد انداز کے خلاف بطور احتجاج لڑکیوں نے جامعہ کے انتظامی بلاک کے سامنے کرکٹ کھیل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی کوشش کی تو اس کی کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کو ایک بلاک میں مقید کر کے باہر جانے سے روک دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی۔

انھیں زبردستی گرفتار کر کے سیکیورٹی اہلکار نے اپنی گاڑیوں میں ڈالنے کی بھی کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک رپورٹر کے کپڑے پھٹ گئے اور ایک کا موبائل فون چھین لیا گیا۔ اس صورتحال کی نگرانی جامعہ کے سیکیورٹی انچارج بذات خود فرما رہے تھے انھوں نے صحافیوں کو نہ صرف دھمکیاں دیں بلکہ جامعہ کراچی کے ایڈمن بلاک کی سمت آنے اور جانے کے راستوں کو بھی بند کر دیا، سیکیورٹی اہلکاروں نے رجسٹرار اور وائس چانسلر کی بھی کوئی بات نہ سنی حتیٰ کہ وی سی مردہ باد کے نعرے بھی لگوائے گئے۔

انتظامیہ کی مداخلت پر بھی سیکیورٹی اہلکاروں نے راستے کھولنے سے انکار کر دیا۔ وائس چانسلر کو خود آ کر صحافیوں کو انتظامی عمارت سے باہر جانے دینے کی درخواست کرنا پڑی، برسوں سے جامعہ میں مقیم رینجرز نے بھی صحافیوں کو چھڑانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس ساری صورتحال پر حسب روایات گورنر سندھ نے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایات جاری کر دیں اور وی سی صاحب نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جو تین روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ امید واثق ہے جیسے ہر مسئلے پر کمیٹیاں بنتی رہتی ہیں اور ان کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آ سکتی یہی کچھ اس کمیٹی کے ساتھ بھی ہو گا۔

اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اعلیٰ ڈگری یافتہ افراد کو علم اور پیشہ ورانہ تہذیب چھو کر بھی گئی ہے؟ جو اپنے افسر اعلیٰ کے احکامات کی نہ صرف کھلی خلاف ورزی کرتے رہے بلکہ ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگوا کر نہ صرف اپنی ذمے داری سے بدیانتی اختیار کرتے ہوئے اس واقعے میں ایک فریق کا کردار بھی ادا کرتے رہے۔ یہ سارا واقعہ ’’علم کی روشنی اور رواداری‘‘ کی مثال ہے یا جہالت کی تاریکی اور تعصب کی؟ جس ملک میں تعلیمی اداروں میں اس قدر بدنظمی اور طاقت کا مظاہرہ ہو وہاں ’’علم کا فروغ‘‘ ممکن ہے؟
 
علم بمقابلہ جہل
404921-NajmaAlamNEW-1446747951.JPG

بلکہ ہمارا کھانا اس وقت تک ہضم ہی نہیں ہوتا جب تک ہم دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
نجمہ عالم
جمع۔ء 6 نومبر 2015

’’اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں، دوسرے کا چھیڑو نہیں‘‘ اس مشہور قول پر اگر عمل کر لیا جائے تو ہم کتنی پرسکون اور دلآویز زندگی بسر کر سکتے ہیں، مگر مشکل یہ ہے کہ ہم اس قول کے خلاف عمل پیرا ہیں یعنی اپنا عقیدہ تو جانے کب کا چھوڑ چکے ہیں مگر دوسروں کے عقائد کو ہر وقت چھیڑتے رہتے ہیں۔

بلکہ ہمارا کھانا اس وقت تک ہضم ہی نہیں ہوتا جب تک ہم دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا دوسروں کی آنکھ کا تنکا نکالنے پر ہر وقت کمر بستہ۔ یہ تم نے کیسے کپڑے پہنے ہیں، تم حجاب کیوں لیتی ہو، آج کل تو یہ بالکل دقیانوسی لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تعلیمی ادارے طلبا سے کھچا کھچ بھرے پڑے ہیں بلکہ کتنے تو داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

گویا تعلیم کو فروغ ہو رہا ہے مگر علم کا حصول جس کا حصول ترقی پسند دین نے ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے اس کا کہیں دور دور پتہ نہیں۔ علم کیا ہے؟ ہدایت و آگاہی کی روشنی جب کہ جہالت گمراہی اور فکر کا اندھیرا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 152 میں ارشادِ رب العزت ہے کہ ’’اللہ ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لا چکے ہیں کہ انھیں گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست شیاطین ہیں کہ ان کو ایمان کی روشنی سے نکال کر گمراہی کی تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں، یہی لوگ تو جہنمی ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔‘‘

حضرت علیؓ سے کسی نے سوال کیا کہ علم کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا علم ہدایت ہے علم روشنی ہے جب کہ جہل گمراہی اور تاریکی ہے، دوسرے شخص نے یہی سوال کیا تو اس کو جواب دیا علم روشن خیالی ہے جب کہ جہل تنگ دلی و تعصب ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیان کردہ ان تعریفوں کی روشنی میں جب ہم آیت مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا سرپرست بناتے ہیں وہ روشن خیال اور ہر طرح کے تعصب سے پاک ہوتے ہیں اور جو تعصب اختیار کرتے ہیں وہ جہل و کفر کے پیروکار اور ان کا سرپرست شیطان ہے۔

ان تینوں حوالوں کے بعد ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم علم حاصل ہی نہیں کر رہے۔ اگر ہم بھاری فیس دے کر جدید تعلیمی اداروں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں تو وہ صرف ڈگری تو ہو سکتی ہے ’’علم‘‘ نہیں، کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں ڈگری یافتہ ہونے کے باوجود معاشرے میں ہر قسم کا، ہر سطح پر تعصب روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، سیاسی، علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصب تو آج کل اپنے عروج پر ہے، سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں میں اپنی ذیلی تنظیمیں بنا کر تعلیمی اداروں کے ماحول کو بھی اس قدر برباد کر دیا ہے کہ علم تو دور تک نظر نہیں آتا اور تعلیمی ادارے ہر طرح کے تعصب کے اکھاڑے بن چکے ہیں۔

سیاسی جماعتیں جب مذہب کی بھی ٹھیکیدار بن جائیں اور اپنا مخصوص مسلک دوسروں پر بھی زبردستی تھوپنے لگیں تو دوسرے مسلک اور خیالات والے کا اس کو قبول نہ کرنے سے تصادم کی صورت پیدا ہوتی ہے پھر ہدایت گمراہی اور روشن خیالی جہالت کے اندھیروں میں ڈھلنے لگتی ہے۔ میرے ذہن ناقص میں یہ بات نہیں سما سکی کہ ہمارے علما ایک غیر متعصب، روشن خیال اور مائل بہ ترقی معاشرہ تشکیل دینے میں کیوں ناکام رہے؟

مسلمانوں کے تمام مسالک کے بنیادی اصول ایک ہیں، سب کا اللہ ایک، رسول ایک، کتاب ہدایت ایک پھر ہمارے درمیان جو معمولی نظریاتی اختلافات ہیں ان کو بنیاد بنا کر ہم ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا کر قیامت سے قبل ’’یومِ حساب‘‘ منا کر جہنمی اور جنتی ہونے کے فیصلے ازخود کیوں کرنے لگے ہیں؟ علما تو صاحبان علم ہیں، معمولی سا شعور رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ یہ اختیار تو صرف ذات واحد کا ہے کہ وہ کس کو واصل جہنم کرے اور کس کو داخل بہشت۔ پھر کتاب ہدایت میں مجھ جیسی کم علم کی نظر سے گزرا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود جوابدہ اور ذمے دار ہو گا حتیٰ کہ والدین اولاد کے بھائی بھائی کے اعمال سے بری الذمہ ہوں گے۔

پھر ہم کیسے اتنی آسانی سے کسی کے عمل کو غلط اور اپنے عمل کو درست قرار دے دیتے ہیں؟ اور اپنی بات زبردستی دوسروں سے منوانے پر کیسے اصرار کرتے ہیں؟ جب کہ ارشاد رب العزت ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں۔‘‘

چند روز قبل جامعہ کراچی میں لڑکیوں کے کرکٹ کھیلنے پر کئی لڑکیوں کو ایک طلبا تنظیم کے کارکنان نے زدوکوب کیا وجہ کیا تھی یہی کہ وہ لڑکیوں کا کرکٹ کھیلنا اپنے نظریے کے خلاف سمجھتے تھے اب ان سے پوچھیے کہ غلط کام کو غلط طریقے سے روکنا کیا شریفانہ، مہذب اور اسلامی طریقہ ہے؟ میں نے جب حیات رسول مقبولؐ پر نظر ڈالی تو مجھے صفحہ تاریخ پر واقعہ طائف ثبت ملا کہ طائف والوں نے ختمی المرتبؐ کو لہولہان کر دیا، جبرئیل امین حضورؐ کی مدد کے لیے حاضر ہوئے اور اہل طائف کو برباد کرنے کی اجازت طلب کی۔

سردار انبیاؐ نے بے چین ہو کر فرمایا کہ ’’نہیں میں ان کی آنے والی نسلوں میں مومن دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یعنی آپؐ نے برائی کے خاتمے کے لیے بروں کو ختم کرنے کی مخالفت کی، اسلامی طریقہ ہدایت ہے کہ برائی کو اپنے مثبت رویے سے ختم کرنے کی کوشش کرو، اگر ہم بروں کو ختم کرتے رہیں گے تو برائی اپنی جگہ موجود رہے گی اور برے پہلے سے زیادہ تعداد میں سامنے آتے رہیں گے۔ اگر آپ برائی ختم کرنے میں مخلص ہیں تو برے افراد کو درست راہ دکھانے کے لیے نرم رویہ اختیار کرنا اور ان کی جائز ضروریات زندگی فراہم کرنے سے بہت بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اس طلبا تنظیم کے سخت رویے یعنی لڑکیوں کو زد وکوب کرنے اور پرتشدد انداز کے خلاف بطور احتجاج لڑکیوں نے جامعہ کے انتظامی بلاک کے سامنے کرکٹ کھیل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی کوشش کی تو اس کی کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کو ایک بلاک میں مقید کر کے باہر جانے سے روک دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی۔

انھیں زبردستی گرفتار کر کے سیکیورٹی اہلکار نے اپنی گاڑیوں میں ڈالنے کی بھی کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک رپورٹر کے کپڑے پھٹ گئے اور ایک کا موبائل فون چھین لیا گیا۔ اس صورتحال کی نگرانی جامعہ کے سیکیورٹی انچارج بذات خود فرما رہے تھے انھوں نے صحافیوں کو نہ صرف دھمکیاں دیں بلکہ جامعہ کراچی کے ایڈمن بلاک کی سمت آنے اور جانے کے راستوں کو بھی بند کر دیا، سیکیورٹی اہلکاروں نے رجسٹرار اور وائس چانسلر کی بھی کوئی بات نہ سنی حتیٰ کہ وی سی مردہ باد کے نعرے بھی لگوائے گئے۔

انتظامیہ کی مداخلت پر بھی سیکیورٹی اہلکاروں نے راستے کھولنے سے انکار کر دیا۔ وائس چانسلر کو خود آ کر صحافیوں کو انتظامی عمارت سے باہر جانے دینے کی درخواست کرنا پڑی، برسوں سے جامعہ میں مقیم رینجرز نے بھی صحافیوں کو چھڑانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس ساری صورتحال پر حسب روایات گورنر سندھ نے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایات جاری کر دیں اور وی سی صاحب نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جو تین روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ امید واثق ہے جیسے ہر مسئلے پر کمیٹیاں بنتی رہتی ہیں اور ان کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آ سکتی یہی کچھ اس کمیٹی کے ساتھ بھی ہو گا۔

اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اعلیٰ ڈگری یافتہ افراد کو علم اور پیشہ ورانہ تہذیب چھو کر بھی گئی ہے؟ جو اپنے افسر اعلیٰ کے احکامات کی نہ صرف کھلی خلاف ورزی کرتے رہے بلکہ ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگوا کر نہ صرف اپنی ذمے داری سے بدیانتی اختیار کرتے ہوئے اس واقعے میں ایک فریق کا کردار بھی ادا کرتے رہے۔ یہ سارا واقعہ ’’علم کی روشنی اور رواداری‘‘ کی مثال ہے یا جہالت کی تاریکی اور تعصب کی؟ جس ملک میں تعلیمی اداروں میں اس قدر بدنظمی اور طاقت کا مظاہرہ ہو وہاں ’’علم کا فروغ‘‘ ممکن ہے؟
انتہائی غمناک
 

فاخر رضا

محفلین
یعنی سو سال پہلے حرمین شریفین میں میلاد ہوتی تھی۔ کوئی مصدقہ حوالہ؟
میرے کہنے کا صرف یہ مقصد ہے کہ آل سعود کا ایجاد کردہ طریقہ حجت نہیں ہے. چونکہ آج وہاں ان کا ہولڈ ہے اس لئے نہیں ہوتا میلاد. مگر مدینہ میں میں نے میلاد اور مجالس میں شرکت کی ہے. سرکاری مذہب دین کے لئے حجت نہیں ہے
دوسری بات یہ ہے کہ بدعات کی قسمیں ہیں اور ہر بدعت حرام نہیں ہے
شرک ہر قسم کا حرام ہے
میلاد شرک نہیں ہے
بدعت اگر حرام بھی ہو تو انسان گناہ گار تو ہوسکتا ہے مگر مشرک نہیں اور بدعت کرنے والا اسلام سے خارج بھی نہیں ہوتا.
ہمارے پیارے نبی خدا کے عبد ہیں. وہ خدا نہیں ہیں. ہم ان کی پرستش نہیں کرتے. ہم تو درود پڑھتے ہیں اور ان کو سلام کرتے ہیں. اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں. ان کو لبیک کہتے ہیں کہ ان کے مقصد کو آگے بڑھائیں گے. لوگوں کے دلوں میں عشق رسول بڑھاتے ہیں. رسول کی پیروی اگر ان کے عشق کے ساتھ ہو تو طبیعت بوجھل نہیں ہوتی اور پیروی آسان بلکہ شوق سے ہوتی ہے. خشک شے کا نگلنا مشکل ہوتا ہے.
 
واسطہ؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!
پیارے حنیف صاحب آ پ ایک ایسے شخص کے پیروکار ہیں جس کی زندگی بےشمار لن ترانیوں، بے انتہاء تضادات، لاتعداد ایسی پیشینگوئیوں سے بھری ہوئی ہے جن کے صادق ہونے کی خواہش دل میں لے وہ دنیا سے چلا گیا۔
اگر اس مختصر اور جامع بات پر یقین نہ ہو تو مجھے اہل محفل اجازت دیں کہ میں مرزا صاحب کے محمدی بیگم پر ڈورے ڈالنے اور اس غریب کو حبالہ عقد میں لانے کے جتن اور اس میں بطور حیلہ کے اپنی لاحاصل پیشینگوئیوں کا سہارا لینا یہاں بیان کردوں۔
آ پ کتنے سادہ ہیں کہ اب بھی پوچھتے ہیں کہ ہماری مظلومیت کو اس کے تعلق سے کیا سروکار؟
یا کوئی اور مقام اس بحث کے متعلق مختص کر لیں، میں حاضر ہوں۔
ویسے بھی سیرت کے بعد صورت دیکھی جاتی ۔۔۔۔۔۔جناب کے پاس سیرت تو درکنار صورت بھی نہیں تھی۔۔۔
کوئی بے وقوف کا بچہ ہی عاشق ہو سکتا ایسے پہ۔۔۔۔
ویسے یہ چسکے دار سٹوری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے
 
Top