یہ معاملہ بھی وہیں طے ہوگا جہاں عام طور پر معاملات طے ہوتے ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ معاملہ بھی عدالتوں میں ہی طے ہو گا۔
یہ معاملہ بھی وہیں طے ہوگا جہاں عام طور پر معاملات طے ہوتے ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ معاملہ بھی عدالتوں میں ہی طے ہو گا۔
اسٹیبلشمنٹ ماضی میں بھی ان جہادیوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ قمر باجوہ سے امید تھی کہ یہ مختلف ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوایہ معاملہ بھی وہیں طے ہوگا جہاں عام طور پر معاملات طے ہوتے ہیں۔
بات تو ادارے کی ہے جس کے قمر باجوہ صاحب نمائندہ ہیں۔ باجوہ صاحب کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساتھی جرنیلوں کی بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ ماضی میں بھی ان جہادیوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ قمر باجوہ سے امید تھی کہ یہ مختلف ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوا
فیصلے جہاں کہیں بھی ہوں، معاملات طے تو عدالت میں آ کر ہی ہوتے ہیں، عام طور پر۔یہ معاملہ بھی وہیں طے ہوگا جہاں عام طور پر معاملات طے ہوتے ہیں۔
جہادیوں والا معاملہ کچھ اور ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جب تک ضرورت ہو، استعمال کرتی ہے، رضوی صاحب کو ان کے ساتھ احتیاط سے چلنا ہوگا، ن لیک ہائیکورٹ کے جج کو استعمال کر رہی ہے ، بظاہر اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ جیت رہی ہے اور ن لیک اپنی بدنیتی اور روایتی منافقت کی وجہ سے مار کھا رہی ہے۔اسٹیبلشمنٹ ماضی میں بھی ان جہادیوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ قمر باجوہ سے امید تھی کہ یہ مختلف ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوا
عدالتوں کے ٹائپسٹ اچھے ہوتے ہیں شاید، کاغذی کاروائی کے لئے مناسب رہتے ہیں۔فیصلے جہاں کہیں بھی ہوں، معاملات طے تو عدالت میں آ کر ہی ہوتے ہیں، عام طور پر۔
اسکرپٹ رائٹر اچھا ہونا چاہیے، ٹائپسٹ بہتیرے!عدالتوں کے ٹائپسٹ اچھے ہوتے ہیں شاید، کاغذی کاروائی کے لئے مناسب رہتے ہیں۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ایک کمانڈو شاید دس ہزار میں تیار ہوتا ہے۔ جبکہ جہادی"جگہ جگہ" دستیاب ہیں اور وہ بھی جذبات سے لبریز!! کس ظالم کے منہ میں پانی نہ آئے۔اسٹیبلشمنٹ ماضی میں بھی ان جہادیوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ قمر باجوہ سے امید تھی کہ یہ مختلف ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوا
الحمد للّٰہ کہ ضبط اور برداشت کا سبق جو میں اردو محفل میں پڑھ رہا ہوں، مجھے کئی اہم مواقع پر کام آرہا ہے۔ آپ سب حضرات کا شکریہ۔
سین خے بہن اور زیک بھائی یہاں ایک اہم بات کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ محسوس نہ فرمائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ ہم ایک نازک صورتحال سے دوچار ہیں۔ علماء کرام جن کا فرض منصبی قال اللہ وقال الرسول کا پرچار کرنا، اپنے عمل سے اس کا اظہار کرنا اور افراط وتفریط کے درمیان ایک متوازن سوچ کو اجاگر کرنا ہے، بسا اوقات ان کے عمل سے، کبھی ان کی تحریر و تقریر سے اور کبھی رویے سے ایسی صورتحال سامنے آتی ہے کہ ایک صلح جو اور سلیم الفطرت شخص بھی چونکے بغیر نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ کہ ہم ان کی اس بے احتیاطی کے نتیجے میں بہت سے نقصانات اٹھا چکے ہیں اور مسلسل اٹھاتے جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ صرف یہی ایک لڑی ہی علماء کے کردار پر اتنے سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ علماء کوئی قابل قدر، قابل احترام یا کم از کم رعایت دیے جانے اور درگذر کیے جانے کے لائق طبقہ نہیں بلکہ ایک لائق نفرت، غیر عاقل اور معاشرے کی اقدار سے قطعاً جاہل طبقہ ہے جس سے اس زمانے کو کسی قسم کی رغبت نہیں اور ان کا عملی زندگی میں کوئی مثبت کردار نہیں۔
اس وقت دنیا کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جسے مثبت تنقید کی ضرورت نہ ہو۔ سیاست دانوں، وکلاء، انجینئیرز، صحافیوں، سکول ٹیچرز، کالج لیکچرار، ڈاکٹرز وغیرہ کس طبقے کو آپ تنقید سے بالا تر سمجھتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ ضرور ان کی بھی بہت سی غلطیاں ہیں جن کی نشاندہی کرنا آپ کی نظر میں بھی معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ہوگا۔
اسی ضمن میں علماء کا طبقہ بھی آتا ہے۔ ایک انسان ہونے کے ناطے اور ایک زوال پذیر معاشرے کے افراد ہونے کے ناطے ان سے بے شمار غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن انہیں بھی آپ کی مثبت تنقید کی ضرورت ہے۔ اگر زیک کہیں گے کہ (اکثر "حضرات" ہی ہیں) یا آپ کہیں گی کہ اگر میں فلاں فلاں باتیں بتا دوں تو عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے، تو آپ بتائیں کہ اس تنقید کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے؟
یہ انداز تنقید اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کا کہنے والا یاس اور قنوطیت کا شکار ہے اور اسے کسی طرف بھی روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ بحیثیت طبقہ اس جماعت سے بالکل ہی بیزار ہو چکا ہے۔
کیا جن دوسرے طبقات ڈاکٹرز وغیرہ کا میں نے ذکر کیا ہے، آپ حضرات ان سے ایسی ہی بیزاری اور تنفّر کا اظہار کرتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہاں غلطی اور غلط کار کی نشاندہی کرنے کے ساتھ بحیثیت مجموعی اس طبقہ پر اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک باشعور انسان کو وہاں کے کھرے اور کھوٹے لوگوں کا علم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ لوگ عطائی ڈاکٹروں کو پسند نہیں کرتے اور اس کے ساتھ ہی اچھے ڈاکٹرز پر اعتماد کے بارے کسی شک اور شبہ میں مبتلا بھی نہیں ہوتے۔ اچھے صحافیوں کی بھی ویسے ہی تعریفات کی جاتی ہیں جیسے برے صحافیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔ وعلیٰ ہذا۔۔۔
میں بذات خود ایک مولوی ہوں۔ میں خود کو بالکل عالم نہیں مانتا بلکہ صرف ایک طالب علم سمجتا اور دوسروں کو یہی باور بھی کرواتا ہوں۔ میں جب اس قسم کے تیزوتند تبصروں کو پڑھتا ہوں جو بعض لوگوں کی غلطیوں کے سبب پورے کے پورے طبقے پر ہتھوڑوں کی مانند برسائے جاتے ہیں تو بخدا مجھے سخت صدمہ ہوتا ہے۔ اپنی وجہ سے نہیں، کہ میری حیثیت ہی کیا ہے بلکہ ان ہستیوں کی وجہ سے جن کو میں نے نہ صرف دیکھا ہے بلکہ طویل رفاقت کے ذریعے انہیں پرکھا ہے۔ خدا کی قسم وہ ان سب باتوں سے بری ہیں جو آپ پوری جماعت کو لے کر بیان کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کی ایک ہی دھن ہے کہ اللہ راضی ہوجائے اور مخلوق خدا کو ہم سے فائدہ پہنچ جائے اور اس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔آہ! مگر میری بات یہاں کوئی مانے گا؟
اس لیے بس اتنی سی درخواست ہے کہ اپنی باتوں میں ان کی بھی جگہ رکھیں اور اپنے رویے سے اس اظہار کریں کہ آپ ان میں سے اچھے لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں اور حقیقت میں انہیں مقتدائیت کے لائق خیال کرتے ہیں۔ کہیں آپ کی ان باتوں کی وجہ سے سادہ لوح لوگ اس پوری جماعت ہی سے بیزار نہ جائے جس میں ایسے اللہ والے بھی شامل ہیں جن کا وجود اس زمانے میں غنیمت ہے۔
کسی کو برا لگے تو معذرت!
شکریہ آپیعبید!
میں آپ سے سو فی صد متفق ہوں۔آپ نے میرے جذبات کی بھی ترجمانی کی ہے۔
پسندیدہ۔متفق۔زبردست۔آپ سے نہ تو کوئی ناراض ہے، نہ آپ کی کسی بات سے کسی کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بغض و عداوت سے نہیں دلائل سے بات کرتی ہیں۔۔۔
اپنا مدعا بھی بیان کرتی ہیں اور دوسروں کا مدعا سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔۔۔
مدارس کے نظام میں ہزاروں طلباء داخل ہوتے ہیں۔۔۔
جو معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔
اکثریت طبیعت کی سلامتی والے اور شریف النفس ہوتے۔۔۔
ان میں سے بعض طبعاً جذباتی ہوتے ہیں، طبیعت کے لحاظ سے کجی ہوتی ہے یا ایسا خاندانی پس منظر رکھتے ہیں جسے تہذیب یافتہ نہیں کہہ سکتے۔۔۔
پھر ان میں بھی اکثر قرآن و حدیث پڑھ کر ایسا بدلتے ہیں کہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔۔۔
ہمارے ایک دوست کی کلاس میں ایسے طبقے کا ایک لڑکا داخل ہوا جس کی زبان پر انتہائی غلیظ گالیاں کاما اور فل اسٹپ کی طرح جاری رہتی تھیں۔۔۔
لیکن جامعہ کے ماحول اور نصاب کے اثر سے کچھ عرصے بعد یہ بھی بھول گیا کہ کیا گالیاں دیتا تھا۔۔۔
بہرحال ایسے معدودے چند بد طینت لوگ جن کا ماحول اور درس کچھ نہ بگاڑ سکے ان کی وجہ سے اکثریت کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں۔۔۔
اب علماء کی اس اکثریت کو بھی دیکھیں جو انتہائی کم تنخواہ میں صبح سے شام نہیں بلکہ رات گئے تک سبق پڑھاتے ہیں۔۔۔
کسی دور دراز گاؤں کے نہیں بلکہ کراچی کے کتنے مدارس کے اساتذہ کو جانتا ہوں کہ آج کے اس دور میں بھی وہ اور ان کے بیوی بچے مسلسل کئی مہینوں سے روٹی پیاز یا دال روٹی کھا رہے ہیں۔۔۔
کبھی ان کے دل میں وسوسہ بھی نہیں گزرتا کہ حالات سے پریشان ہوکر کوئی دوسری ’’جاب‘‘ یا ’’بزنس‘‘ کرلیں۔۔۔
دفتری بابوؤں یا اسکول ٹیچروں کی طرح تنخواہ کی کمی کا رونا نہیں روتے رہتے۔۔۔
تنخواہ میں ذرا ذرا سے اضافے کی خاطر در بدر بدحواسوں کی طرح نہیں بھٹکتے۔۔۔
اسکول، کالج، یونیورسٹیوں کے ٹیچروں اور پروفیسروں کی طرح طلباء سے بے اعتنائی نہیں برتتے۔۔۔
بظاہر ان کو دنیاوی یا مادّی کیا آسائش حاصل ہے؟؟؟
لیکن ہر آدمی ہر وقت ہر کام دنیا کے لیے نہیں کرتا۔۔۔
کتنے صحابہ صفہ پر صرف علم دین حاصل کرنے کے لیے بھوکے پیاسے رہتے تھے۔۔۔
آج بھی ان کے غلاموں میں ان کی اتباع کی نظیریں موجود ہیں۔۔۔
لیکن یہ سب مثالیں ان کے لیے ہیں جن کے دل میں دنیا کی حقارت اور آخرت کی عظمت ہے۔۔۔
ہمارا ان سے کیا تقابل؟؟؟
ہمیں تو آج تک دین کے لیے ایک کانٹا بھی نہیں چبھا۔۔۔
اے ترا خارے بپا نہ شکستہ کے دانی کہ چیست
حال شیرانے کہ شمشیر بلا بر سر خورند
’’اے معترضو! تمہیں تو کبھی ایک کانٹا بھی خدا کے راستہ میں نہیں چبھا، تمہیں ان شیروں کا حال کیا معلوم جو ہر وقت اپنے سر پر شمشیر بلا کھا رہے ہیں، ہر وقت اﷲ کے حکم کی تلوار اپنی خواہشات پر چلا رہے ہیں۔اگر تم کو ایک کانٹا بھی کہیں چبھ گیا تو تم اس راہِ محبت سے راہِ فرار اختیار کر لو گے، بھاگ نکلو گے۔‘‘
ان ہی شیرانِ خدا برکت سے آج تک قرآن اور حدیث زندہ ہے۔۔۔
ان ہی بھوکے پیاسوں کے دم سے ہم جیسا بھی ہے اللہ کا نام لے رہے ہیں۔۔۔
اس طبقے کے علاوہ کون ہے جو اللہ اور رسول کی بات کرتا ہے، دین سکھاتا ہے؟؟؟
کیا کوئی جج، سیاستدان، ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، اکاؤنٹنٹ؟؟؟
میری سنجیدہ باتوں کو زیادہ سیریس نہ لیا کریں۔ میں خود بھی نہیں لیتا۔ میرے نزدیک سب محفلین یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ خواہ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر زیک ہوں یا مدرسے کے مڈل کلاس پاس عبید انصاری ۔ یہاں محفل میں شمولیت کے بعد ہم سب ایک ہی خاندان کے فرد بن جاتے ہیں۔ اگر میری کسی پوسٹ سے کسی کو رنج پہنچا ہو تو وہ جان لیں کہ ایسا جان بوچھ کر نہیں کیا گیا۔ اور اسکے لئے میں صدق دل سے معافی کا طلب گار ہوں۔
وسلام
اور یہی جگہ جگہ دستیاب جہادی جب الٹے پڑ جائیں تو جو حال ہوتا ہے وہ بھی واقفان حال جانتے ہیںجبکہ جہادی"جگہ جگہ" دستیاب ہیں اور وہ بھی جذبات سے لبریز!! کس ظالم کے منہ میں پانی نہ آئے۔
اے میرے بھائی’’بھراوا‘‘ کا کیا مطلب؟؟؟
معاف کیجئے گا حضور مگر اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، میری ناقص رائے میں۔معاہدہ کی پابندی ضروری ہوتی ہے اور اگر کوئی اس سے پھرتا ہے تو عدالت نے حکم کرنا ہوتا ہے کہ معاہدہ کی پابندی کی جائے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے، بجائے اس کے منکر پر عدالت گرفت کرے اور اسے معاہدے کی پابندی کا حکم دے وہ الٹ کررہی ہے۔
کیا ہمارے آئین یا کسی بھی ملک کے آئین میں گنجائش ہے کہ ایک قابلِ تعزیر جرم کو ایک معاہدے کے ذریعے معاف کر دیا جائے؟
کیا یہاں احتجاج کرنے والوں کی تعداد کوئی حیثیت رکھتی ہے ؟ قادری اور عمران کےدھرنوں سے ریاست معاہدے پر اسلئے راضی نہیں ہو رہی تھی کہ انکی تعداد ’’معمولی ‘‘ تھی۔ جبکہ یہی کام مولانا رضوی کے کہیں کم تعداد والےدھرنے نے بہت جلد کر دیا۔ مطلب ریاست کو اس معاملہ میں دوغلی پالیسی کی بجائے واضح پالیسی اپنانی ہوگی۔ نہیں تو ہر گروہ یا ٹولا بات بات پر دھرنا لگا کر بیٹھ جائے گا۔ریاست ایسا نہیں کر سکتی کہ دو ہزار بندے سڑک بند کر کے بیٹھ جائیں تو ان کے ساتھ معاہدے شروع کر دے۔
نواز شریف اور بینظیر کو جو مشرف حکومت کی طرف سے این آر اوملا تھا ، اور جسکی وجہ سے انکی سیاست میں واپسی ہوئی تھی، وہ بھی یہی ٹوپی ڈرامہ تھا۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔کیا ہمارے آئین یا کسی بھی ملک کے آئین میں گنجائش ہے کہ ایک قابلِ تعزیر جرم کو ایک معاہدے کے ذریعے معاف کر دیا جائے؟
ایک شخص ملکی املاک کو نقصان پہنچاتا ہے اور معاہدہ کے ذریعے بری الذمہ ہو جائے؟
اصولی طور پہ آپ کی بات سے اتفاق ہے، گو کہ وہاں ایک آرڈیننس جاری کیا گیا، جو کہ ایک غیر قانونی کام کا قانونی طریقہ ہے، مگر یہ تو اس تکلف سے بھی ماورا ہے۔نواز شریف اور بینظیر کو جو مشرف حکومت کی طرف سے این آر اوملا تھا ، اور جسکی وجہ سے انکی سیاست میں واپسی ہوئی تھی، وہ بھی یہی ٹوپی ڈرامہ تھا۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔