آپ صرف پرائمری پاس بھی ہیں
یہ ٹائپنگ مسٹیک ٹائپ غلطی نہیں ہے بلکہ جہالت اور بدنیتی پر مبنی غلطی ہے۔صاف ظاہر ہے انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ نادرہ اس قسم کے اغلاط کیلئے بہت مشہور ہے۔
آپ صرف پرائمری پاس بھی ہیں
یہ ٹائپنگ مسٹیک ٹائپ غلطی نہیں ہے بلکہ جہالت اور بدنیتی پر مبنی غلطی ہے۔صاف ظاہر ہے انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ نادرہ اس قسم کے اغلاط کیلئے بہت مشہور ہے۔
اس "عزت افزائی" پر آپ کا شکریہ۔اوہو میں نے تو صرف ایک مثال دی تھی۔ یقین کریں اگر آپ صرف پرائمری پاس بھی ہیں تو اس وجہ سے آپ کی میرے دل میں عزت و احترام کم نہیں ہوا۔ جہاں تک عبید انصاری بھائی کا معاملہ ہے تو وہ صاف ظاہر ہے انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ نادرہ اس قسم کے اغلاط کیلئے بہت مشہور ہے۔
ہم عمران خان کے پٹواری اس دورخے نظام سے خوب واقف ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ اسے جلد از جلد ختم کیا جائے۔ کیا مدرسوں کے بچے ہمارے پاکستانی بچے نہیں ہیں؟۔ کیونکہ یہی دو رخا نظام تعلیم
بات انفرادی علما کی نہیں بلکہ جمہور علما کی ہے۔الحمد للّٰہ کہ ضبط اور برداشت کا سبق جو میں اردو محفل میں پڑھ رہا ہوں، مجھے کئی اہم مواقع پر کام آرہا ہے۔ آپ سب حضرات کا شکریہ۔
سین خے بہن اور زیک بھائی یہاں ایک اہم بات کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ محسوس نہ فرمائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ ہم ایک نازک صورتحال سے دوچار ہیں۔ علماء کرام جن کا فرض منصبی قال اللہ وقال الرسول کا پرچار کرنا، اپنے عمل سے اس کا اظہار کرنا اور افراط وتفریط کے درمیان ایک متوازن سوچ کو اجاگر کرنا ہے، بسا اوقات ان کے عمل سے، کبھی ان کی تحریر و تقریر سے اور کبھی رویے سے ایسی صورتحال سامنے آتی ہے کہ ایک صلح جو اور سلیم الفطرت شخص بھی چونکے بغیر نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ کہ ہم ان کی اس بے احتیاطی کے نتیجے میں بہت سے نقصانات اٹھا چکے ہیں اور مسلسل اٹھاتے جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ صرف یہی ایک لڑی ہی علماء کے کردار پر اتنے سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ علماء کوئی قابل قدر، قابل احترام یا کم از کم رعایت دیے جانے اور درگذر کیے جانے کے لائق طبقہ نہیں بلکہ ایک لائق نفرت، غیر عاقل اور معاشرے کی اقدار سے قطعاً جاہل طبقہ ہے جس سے اس زمانے کو کسی قسم کی رغبت نہیں اور ان کا عملی زندگی میں کوئی مثبت کردار نہیں۔
اس وقت دنیا کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جسے مثبت تنقید کی ضرورت نہ ہو۔ سیاست دانوں، وکلاء، انجینئیرز، صحافیوں، سکول ٹیچرز، کالج لیکچرار، ڈاکٹرز وغیرہ کس طبقے کو آپ تنقید سے بالا تر سمجھتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ ضرور ان کی بھی بہت سی غلطیاں ہیں جن کی نشاندہی کرنا آپ کی نظر میں بھی معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ہوگا۔
اسی ضمن میں علماء کا طبقہ بھی آتا ہے۔ ایک انسان ہونے کے ناطے اور ایک زوال پذیر معاشرے کے افراد ہونے کے ناطے ان سے بے شمار غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن انہیں بھی آپ کی مثبت تنقید کی ضرورت ہے۔ اگر زیک کہیں گے کہ (اکثر "حضرات" ہی ہیں) یا آپ کہیں گی کہ اگر میں فلاں فلاں باتیں بتا دوں تو عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے، تو آپ بتائیں کہ اس تنقید کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے؟
یہ انداز تنقید اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کا کہنے والا یاس اور قنوطیت کا شکار ہے اور اسے کسی طرف بھی روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ بحیثیت طبقہ اس جماعت سے بالکل ہی بیزار ہو چکا ہے۔
کیا جن دوسرے طبقات ڈاکٹرز وغیرہ کا میں نے ذکر کیا ہے، آپ حضرات ان سے ایسی ہی بیزاری اور تنفّر کا اظہار کرتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہاں غلطی اور غلط کار کی نشاندہی کرنے کے ساتھ بحیثیت مجموعی اس طبقہ پر اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک باشعور انسان کو وہاں کے کھرے اور کھوٹے لوگوں کا علم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ لوگ عطائی ڈاکٹروں کو پسند نہیں کرتے اور اس کے ساتھ ہی اچھے ڈاکٹرز پر اعتماد کے بارے کسی شک اور شبہ میں مبتلا بھی نہیں ہوتے۔ اچھے صحافیوں کی بھی ویسے ہی تعریفات کی جاتی ہیں جیسے برے صحافیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔ وعلیٰ ہذا۔۔۔
میں بذات خود ایک مولوی ہوں۔ میں خود کو بالکل عالم نہیں مانتا بلکہ صرف ایک طالب علم سمجتا اور دوسروں کو یہی باور بھی کرواتا ہوں۔ میں جب اس قسم کے تیزوتند تبصروں کو پڑھتا ہوں جو بعض لوگوں کی غلطیوں کے سبب پورے کے پورے طبقے پر ہتھوڑوں کی مانند برسائے جاتے ہیں تو بخدا مجھے سخت صدمہ ہوتا ہے۔ اپنی وجہ سے نہیں، کہ میری حیثیت ہی کیا ہے بلکہ ان ہستیوں کی وجہ سے جن کو میں نے نہ صرف دیکھا ہے بلکہ طویل رفاقت کے ذریعے انہیں پرکھا ہے۔ خدا کی قسم وہ ان سب باتوں سے بری ہیں جو آپ پوری جماعت کو لے کر بیان کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کی ایک ہی دھن ہے کہ اللہ راضی ہوجائے اور مخلوق خدا کو ہم سے فائدہ پہنچ جائے اور اس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔آہ! مگر میری بات یہاں کوئی مانے گا؟
اس لیے بس اتنی سی درخواست ہے کہ اپنی باتوں میں ان کی بھی جگہ رکھیں اور اپنے رویے سے اس اظہار کریں کہ آپ ان میں سے اچھے لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں اور حقیقت میں انہیں مقتدائیت کے لائق خیال کرتے ہیں۔ کہیں آپ کی ان باتوں کی وجہ سے سادہ لوح لوگ اس پوری جماعت ہی سے بیزار نہ جائے جس میں ایسے اللہ والے بھی شامل ہیں جن کا وجود اس زمانے میں غنیمت ہے۔
کسی کو برا لگے تو معذرت!
نہیں نہیں۔ کہیں مت جائیے گا۔ آپ کی یہاں ضرورت ہے۔
میں اکثر اختلافی معاملات میں اس قسم کی پریشانی کا شکار ہوجاتا ہوں۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے میرے نزدیک اس کا سبب ہمارا طبقاتی نظام تعلیم ہے۔ دیکھیے جن مختلف عصری طبقات کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کے شعبہ جات میں انتہائی درجے کا تنوع ہونے کے با وجود ایک اکائی ہے جو ان کو جوڑتی ہے۔ اور وہ ہے ان کا نظام تعلیم۔ اس لیے سب لوگ باہمدگر متحد اور یک آواز ہیں۔ دوسری جانب علماء کا طبقہ ہے جس سے دوسرے طبقات کے لوگوں کو بسا اوقات عمر بھر عملی تعلقات کا اتفاق نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ "الناس اعداء لما جہلوا" کے مصداق ان کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ اور اگر تھوڑا سا تلخ تجربہ ان کے بارے میں کسی کو ہوجاتا ہے تو گویا جلتی پر آگ کا کام ہوجاتا ہے۔
اور میں صاف گوئی سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ غلط فہمیاں عصری نظام تعلیم کے بارے میں ہمارے یہاں (علماء میں) بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔
مجھے الحمد للّٰہ شروع ہی سے دونوں طبقوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔ عزیز رشتہ داروں میں بھی اور سوسائٹی کی مسجد میں بھی۔ اور اب اردو محفل نے تو میرا مشاہدہ اور تجربہ بہت وسیع کردیا ہے۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کچھ ظاہری صورت کے فرق کے ساتھ اندرونی طور پر سب اسلام پسند ہیں، اصلاح پسند ہیں لیکن ایک دوسرے کے بارے میں شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔
اللہ ہم پر رحم فرمائے۔
یہ ایک جنرل بات ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ اچھی سوچ کی مالک ہیں۔ لیکن میں عرض کروں گا کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ اور اپنے اسی مراسلے کا اقتباس لے کر میں نے اس کی دو مثالیں بھی دی ہیں۔ویسے تو میرا اب بالکل بھی ارادہ نہیں تھا کہ ادھر جواب دوں لیکن آپ کی غلط فہمی کا شکار والی بات کا میں ضرور جواب دینا چاہوں گی
میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں۔ میں نے ہر مسلک کا موقف پڑھا ہے۔ فقہی مسائل بھی پڑھتی رہتی ہوں۔ میں علماء کے لیکچرز بھی سنتی ہوں اور مجھے کچھ مسئلہ ہوتا ہے تو میں کسی ایک مسئلے پر 20 گھنٹے بھی انٹرنیٹ پر سرچ کرتی ہوں۔ میں علماء جو ایک دوسرے کے مسلک یا فرقے کے بارے میں بولتے رہتے ہیں، وہ بھی سنتی اور پڑھتی رہتی ہوں۔ ہماری مسلم امہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ اسی وجہ سے یہ مسائل کھڑے ہوئے ہیں۔ میں ہر چیز کا ثبوت لا سکتی ہوں اور میں جو کہوں گی اس کے لئے ثبوت کے طور پر کتب اور آفشیل ویب سائٹس کا بھی حوالہ دے سکتی ہوں۔
میں یہاں کسی کو ناراض کرنے یا بے عزت کرنے یا محفل کا ماحول خراب کرنے نہیں آتی ہوں۔ بات یہیں ختم کرتے ہیں میں عام زندگی میں بھی جب معاملہ ناراضگی کی طرف جا رہا ہو تو پیچھے ہٹ جاتی ہوں اور یہاں بھی یہی کروں گی کیونکہ بہرحال میں اختلافات کے چکر میں کسی کو دکھ پہچانا پسند نہیں کرتی
خوش رہیں
آپ کی بات سے کافی حد تک اتفاق ہے۔ بہت سے علما ایسے دیکھے ہیں جو انتہائی شفیق، مخلص، ایماندار، اور متقی ہیں۔الحمد للّٰہ کہ ضبط اور برداشت کا سبق جو میں اردو محفل میں پڑھ رہا ہوں، مجھے کئی اہم مواقع پر کام آرہا ہے۔ آپ سب حضرات کا شکریہ۔
سین خے بہن اور زیک بھائی یہاں ایک اہم بات کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ محسوس نہ فرمائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ ہم ایک نازک صورتحال سے دوچار ہیں۔ علماء کرام جن کا فرض منصبی قال اللہ وقال الرسول کا پرچار کرنا، اپنے عمل سے اس کا اظہار کرنا اور افراط وتفریط کے درمیان ایک متوازن سوچ کو اجاگر کرنا ہے، بسا اوقات ان کے عمل سے، کبھی ان کی تحریر و تقریر سے اور کبھی رویے سے ایسی صورتحال سامنے آتی ہے کہ ایک صلح جو اور سلیم الفطرت شخص بھی چونکے بغیر نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ کہ ہم ان کی اس بے احتیاطی کے نتیجے میں بہت سے نقصانات اٹھا چکے ہیں اور مسلسل اٹھاتے جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ صرف یہی ایک لڑی ہی علماء کے کردار پر اتنے سوالیہ نشان اٹھا رہی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ علماء کوئی قابل قدر، قابل احترام یا کم از کم رعایت دیے جانے اور درگذر کیے جانے کے لائق طبقہ نہیں بلکہ ایک لائق نفرت، غیر عاقل اور معاشرے کی اقدار سے قطعاً جاہل طبقہ ہے جس سے اس زمانے کو کسی قسم کی رغبت نہیں اور ان کا عملی زندگی میں کوئی مثبت کردار نہیں۔
اس وقت دنیا کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جسے مثبت تنقید کی ضرورت نہ ہو۔ سیاست دانوں، وکلاء، انجینئیرز، صحافیوں، سکول ٹیچرز، کالج لیکچرار، ڈاکٹرز وغیرہ کس طبقے کو آپ تنقید سے بالا تر سمجھتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ ضرور ان کی بھی بہت سی غلطیاں ہیں جن کی نشاندہی کرنا آپ کی نظر میں بھی معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ہوگا۔
اسی ضمن میں علماء کا طبقہ بھی آتا ہے۔ ایک انسان ہونے کے ناطے اور ایک زوال پذیر معاشرے کے افراد ہونے کے ناطے ان سے بے شمار غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن انہیں بھی آپ کی مثبت تنقید کی ضرورت ہے۔ اگر زیک کہیں گے کہ (اکثر "حضرات" ہی ہیں) یا آپ کہیں گی کہ اگر میں فلاں فلاں باتیں بتا دوں تو عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے، تو آپ بتائیں کہ اس تنقید کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے؟
یہ انداز تنقید اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کا کہنے والا یاس اور قنوطیت کا شکار ہے اور اسے کسی طرف بھی روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ بحیثیت طبقہ اس جماعت سے بالکل ہی بیزار ہو چکا ہے۔
کیا جن دوسرے طبقات ڈاکٹرز وغیرہ کا میں نے ذکر کیا ہے، آپ حضرات ان سے ایسی ہی بیزاری اور تنفّر کا اظہار کرتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہاں غلطی اور غلط کار کی نشاندہی کرنے کے ساتھ بحیثیت مجموعی اس طبقہ پر اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک باشعور انسان کو وہاں کے کھرے اور کھوٹے لوگوں کا علم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ لوگ عطائی ڈاکٹروں کو پسند نہیں کرتے اور اس کے ساتھ ہی اچھے ڈاکٹرز پر اعتماد کے بارے کسی شک اور شبہ میں مبتلا بھی نہیں ہوتے۔ اچھے صحافیوں کی بھی ویسے ہی تعریفات کی جاتی ہیں جیسے برے صحافیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔ وعلیٰ ہذا۔۔۔
میں بذات خود ایک مولوی ہوں۔ میں خود کو بالکل عالم نہیں مانتا بلکہ صرف ایک طالب علم سمجتا اور دوسروں کو یہی باور بھی کرواتا ہوں۔ میں جب اس قسم کے تیزوتند تبصروں کو پڑھتا ہوں جو بعض لوگوں کی غلطیوں کے سبب پورے کے پورے طبقے پر ہتھوڑوں کی مانند برسائے جاتے ہیں تو بخدا مجھے سخت صدمہ ہوتا ہے۔ اپنی وجہ سے نہیں، کہ میری حیثیت ہی کیا ہے بلکہ ان ہستیوں کی وجہ سے جن کو میں نے نہ صرف دیکھا ہے بلکہ طویل رفاقت کے ذریعے انہیں پرکھا ہے۔ خدا کی قسم وہ ان سب باتوں سے بری ہیں جو آپ پوری جماعت کو لے کر بیان کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کی ایک ہی دھن ہے کہ اللہ راضی ہوجائے اور مخلوق خدا کو ہم سے فائدہ پہنچ جائے اور اس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔آہ! مگر میری بات یہاں کوئی مانے گا؟
اس لیے بس اتنی سی درخواست ہے کہ اپنی باتوں میں ان کی بھی جگہ رکھیں اور اپنے رویے سے اس اظہار کریں کہ آپ ان میں سے اچھے لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں اور حقیقت میں انہیں مقتدائیت کے لائق خیال کرتے ہیں۔ کہیں آپ کی ان باتوں کی وجہ سے سادہ لوح لوگ اس پوری جماعت ہی سے بیزار نہ جائے جس میں ایسے اللہ والے بھی شامل ہیں جن کا وجود اس زمانے میں غنیمت ہے۔
کسی کو برا لگے تو معذرت!
1-کیا حکومت نے معاہدے کے مطابق راجہ ظفرالحق رپورٹ من و عن شایع کردی ہے؟
حکومت کی کہانی اور جو میڈیا نے دکھایا اس میں تضاد ہے۔ خفیہ ایجسنیاں جو دھرنے والوں کی نگرانی کر رہے تھے بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان عناصر کو سزا ملے۔2- جب حکومت تحریری طور پر اس جماعت کو پر امن مان رہی ہے اور املاک کے نقصان کی ذمہ داری اٹھا رہی ہے تو عدالت کو کیا تکلیف ہے؟
کیا تضاد ہے؟حکومت کی کہانی اور جو میڈیا نے دکھایا اس میں تضاد ہے۔
شاید وہ ایسا نہیں چاہتے، کچھ اور چاہتے ہیں۔خفیہ ایجسنیاں جو دھرنے والوں کی نگرانی کر رہے تھے بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان عناصر کو سزا ملے
اس معاہدے میں پاکستان کی بری فوج کے سربراہ کا ذکر کیا جانا شاید مناسب نہیں تھا۔ متعین مقام پر دھرنا دینا ہر گروہ کا حق ہے، تاہم، دونوں فریقین کی جانب سے قانون شکنی کا مظاہرہ کیا گیا۔ عدالت اس دھرنے اور حکومت کی کارگزاری کا نوٹس لینے کا حق رکھتی ہے۔ اس پر اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا دھرنا دینے والے اور حکومتی زعماء ہر قسم کے قانون سے بالاتر ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ آئندہ دھرنا دینے والے متعین مقام پر ہی دھرنا دیں اور حکومت دھرنا دینے والوں پر کسی قسم کا تشدد نہ کرے۔ تاہم، اگر معاملہ ہنگامہ آرائی کی طرف بڑھے تو فوج کو بہرصورت سول حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور معاہدے کا فریق یا ثالث بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر حکومت کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے تو فوج سے پہلے عدالت کو ایکشن میں آ جانا چاہیے۔
آخر کی لائنیں آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیںآپ کی اس بات پر کہ میرا ذہن دین کی فلاں بات قبول نہیں کررہا ہے...
حضرت علی کا ایک قول یاد آیا...
کہ ناقص علم فساد کا باعث بنتا ہے...
اس لیے یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسلام کے قوانین کسی ایک فرد یا چند افراد کو سامنے رکھ کر نہیں بنائے گئے...
سارے عالم کے انسانوں کے لیے بنائے گئے ہیں...
اس کے ساتھ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ نابالغوں کے نکاح کا اختیار ان کے ولی کے پاس ہے...
کتنی صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اس اختیار کا ہونا عظیم نعمت معلوم ہوتا ہے...
اس پر ایک واقعہ محفل ہی میں کہیں پوسٹ کیا تھا...
بالغ ہونے پر اسے اختیار ہوتا ہے کہ اس نکاح کو برقرار رکھے یا نہیں...
دوسرے یہ کہ غیر مسلموں کی فکر اس لحاظ سے کرنا چھوڑ دیں کہ اسلام کے فلاں حکم پر وہ کیا کہیں گے یا اسلام قبول نہیں کریں گے...
جن کی طبیعت میں کجی ہوتی ہے وہ اسلام تو کیا، ہمیں آپ کو تو کیا براہ راست اللہ و رسول پر دشنام طرازی کرنے سے نہیں چوکتے...
مثلا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اعزاز بخشتے ہوئے کس خوبصورت انداز میں فرمایا...
من یقرض اللہ قرضا حسنہ
کون اللہ کو قرض دے گا...
سب جانتے ہیں یہاں مراد غریبوں کو صدقہ دینا ہے...
جسے اللہ نے خود کو قرض دینے سے تعبیر فرمایا...
یہودیوں نے اس بات کا بھی مذاق بنالیا اور کہا...
مسلمانوں کا خدا فقیر ہوگیا جو ہم سے قرض مانگتا ہے...
اس پر یہ آیت نازل ہوئی...
لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیۡرٌ وَّ نَحۡنُ اَغۡنِیَآءُ ۘ سَنَکۡتُبُ مَا قَالُوۡا وَ قَتۡلَہُمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ
یقینا اللہ نے ان کی یہ بات سن لی جو انہوں نے کہی کہ خدا فقیر ہے اور ہم امیر، انہوں نے جو کہا وہ ہم نے لکھ لیا، یہ وہی لوگ ہیں جو انبیاء تک کو بلا قصور قتل کردیتے ہیں...
خدا کے منکرین کا خدائی احکامات پر اعتراض کرنا تو بہت چھوٹی بات وہ تو انبیاء تک کو قتل کردیتے تھے...
اسلام اللہ کا دین ہے، ناپاکوں کی غلاظتوں سے خراب نہیں ہوگا...
ان کی فکر کرنے کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے...
ہمارا آج کا دن آج کا گھنٹہ کیسا گزرا...
کیا ایسا کچھ چھوٹ گیا کہ ہم کرسکتے تھے، آخرت میں بھیج سکتے تھے اور نہ بھیجا...
یہ ہے اصل کام....
باقی سب راہ مارنے والے ہیں...
ان کے پیچھے پڑے تو یہ تو نہ سدھریں ہیں نہ سدھریں گے...
ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا اعتراض کرتے رہیں گے...
اور ان کے چکر میں پڑ کر ہم سراسر اپنا نقصان کربیٹھیں گے!!!
اس معاہدے میں پاکستان کی بری فوج کے سربراہ کا ذکر کیا جانا شاید مناسب نہیں تھا۔ متعین مقام پر دھرنا دینا ہر گروہ کا حق ہے، تاہم، دونوں فریقین کی جانب سے قانون شکنی کا مظاہرہ کیا گیا۔ عدالت اس دھرنے اور حکومت کی کارگزاری کا نوٹس لینے کا حق رکھتی ہے۔ اس پر اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا دھرنا دینے والے اور حکومتی زعماء ہر قسم کے قانون سے بالاتر ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ آئندہ دھرنا دینے والے متعین مقام پر ہی دھرنا دیں اور حکومت دھرنا دینے والوں پر کسی قسم کا تشدد نہ کرے۔ تاہم، اگر معاملہ ہنگامہ آرائی کی طرف بڑھے تو فوج کو بہرصورت سول حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور معاہدے کا فریق یا ثالث بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر حکومت کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے تو فوج سے پہلے عدالت کو ایکشن میں آ جانا چاہیے۔
جنابِ من! اگر آپ عدالت پر تکیہ کر رہے ہیں تو پھر ان کے فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر وہ طلبی کے پروانے جاری کرے تو ان کی تعمیل کرنا ہو گی۔ ہمیں تو اس معاہدے کی بعض شقوں پر اعتراض ہیں تاہم ہم اسے ہم زیادہ تر حکومتی نااہلی ہی تصور کرتے ہیں۔ اب جب آپ نے فرما دیا کہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لے کہ کون معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو عرض یہ ہے کہ عدالت کا دائرہء سماعت اور دائرہء اختیار اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ عدالت چاہے تو اس پورے معاہدے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ فوج کے حوالے سے آپ کا موقف بالکل درست ہے۔ اول تو عسکریان کو اس معاہدے میں پڑنا نہیں چاہیے تھا اور اب اگر وہ ثالث بن ہی چکے ہیں تو عدالت میں اپنا موقف پیش کریں۔ اس کے علاوہ کیا چارہء کار ہے؟ ادارے اپنا کام اپنی حدود و قیود میں رہ کر ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ معاملہ بھی عدالتوں میں ہی طے ہو گا۔یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کون کررہا ہے، فوج اس معاہدے کی ضامن تھی، اس کا کام ہے کہ معاہدہ پر عمل درآمد کروائے ورنہ اس کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔
جنابِ من! اگر آپ عدالت پر تکیہ کر رہے ہیں تو پھر ان کے فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر وہ طلبی کے پروانے جاری کرے تو ان کی تعمیل کرنا ہو گی۔ ہمیں تو اس معاہدے کی بعض شقوں پر اعتراض ہیں تاہم ہم اسے ہم زیادہ تر حکومتی نااہلی ہی تصور کرتے ہیں۔ اب جب آپ نے فرما دیا کہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لے کہ کون معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو عرض یہ ہے کہ عدالت کا دائرہء سماعت اور دائرہء اختیار اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ عدالت چاہے تو اس پورے معاہدے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ فوج کے حوالے سے آپ کا موقف بالکل درست ہے۔ اول تو عسکریان کو اس معاہدے میں پڑنا نہیں چاہیے تھا اور اب اگر وہ ثالث بن ہی چکے ہیں تو عدالت میں اپنا موقف پیش کریں۔ اس کے علاوہ کیا چارہء کار ہے؟ ادارے اپنا کام اپنی حدود و قیود میں رہ کر ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ معاملہ بھی عدالتوں میں ہی طے ہو گا۔
معاہدہ کی پابندی ضروری ہوتی ہے اور اگر کوئی اس سے پھرتا ہے تو عدالت نے حکم کرنا ہوتا ہے کہ معاہدہ کی پابندی کی جائے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے، بجائے اس کے منکر پر عدالت گرفت کرے اور اسے معاہدے کی پابندی کا حکم دے وہ الٹ کررہی ہے۔جنابِ من! اگر آپ عدالت پر تکیہ کر رہے ہیں تو پھر ان کے فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر وہ طلبی کے پروانے جاری کرے تو ان کی تعمیل کرنا ہو گی۔ ہمیں تو اس معاہدے کی بعض شقوں پر اعتراض ہیں تاہم ہم اسے ہم زیادہ تر حکومتی نااہلی ہی تصور کرتے ہیں۔ اب جب آپ نے فرما دیا کہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لے کہ کون معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو عرض یہ ہے کہ عدالت کا دائرہء سماعت اور دائرہء اختیار اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ عدالت چاہے تو اس پورے معاہدے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ فوج کے حوالے سے آپ کا موقف بالکل درست ہے۔ اول تو عسکریان کو اس معاہدے میں پڑنا نہیں چاہیے تھا اور اب اگر وہ ثالث بن ہی چکے ہیں تو عدالت میں اپنا موقف پیش کریں۔ اس کے علاوہ کیا چارہء کار ہے؟ ادارے اپنا کام اپنی حدود و قیود میں رہ کر ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ معاملہ بھی عدالتوں میں ہی طے ہو گا۔
حضرت! عدالتی احکامات بہرصورت تسلیم کرنے پڑتے ہیں تاہم، عدالتی فیصلوں پر اعتراضات ضرور کیے جا سکتے ہیں۔ شریف خاندان بھی اِسی روش پر گامزن ہے۔ ہم بھی آپ کے لیے دعاگو ہیں۔معاہدہ کی پابندی ضروری ہوتی ہے اور اگر کوئی اس سے پھرتا ہے تو عدالت نے حکم کرنا ہوتا ہے کہ معاہدہ کی پابندی کی جائے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے، بجائے اس کے منکر پر عدالت گرفت کرے اور اسے معاہدے کی پابندی کا حکم دے وہ الٹ کررہی ہے۔