ریمنڈ ڈیوس کا تعلق امریکا کی ریاست کولوراڈو سے تھا‘ یہ جاسوسی‘ ٹارگٹ کلنگ اور سیکیورٹی افیئرز کا ایکسپرٹ تھا‘ یہ ’’کانٹریکٹر‘‘ کی حیثیت سے سی آئی اے کے ساتھ کام کرتا تھا‘ سی آئی اے مختلف ممالک میں اپنے مختلف مشنز کیلیے عارضی بھرتیاں کرتی ہے‘ امریکا کی مختلف پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیاں اور جاسوس کمپنیاں سی آئی اے کو عارضی ملازمین فراہم کرتی ہیں‘ یہ ملازمین پرائیویٹ کمپنیوں کے پے رول پر ہوتے ہیں‘ سی آئی اے کمپنیوں کو کام دیتی ہے اور یہ کمپنیاں ریمنڈ ڈیوس جیسے ملازمین کو مشن سونپ دیتی ہیں‘ یہ لوگ کانٹریکٹرز کہلاتے ہیں‘ امریکا کو دو مئی 2011ء کے آپریشن سے قبل اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی بھنک پڑ چکی تھی چنانچہ سی آئی اے نے ہزاروں کی تعداد میں کانٹریکٹر بھرتی کیے‘ امریکا میں موجود پاکستانی سفیر حسین حقانی سے ویزے لگوائے اور یہ کانٹریکٹرز پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیلا دیئے‘ 2010-11ء میں صرف اسلام آباد میں ہزار سے زائد کانٹریکٹرز تھے۔
یہ لوگ پرائیویٹ گھروں میں رہتے تھے‘ امریکی سفارتخانے کے کاغذات استعمال کرتے تھے اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے تھے ‘ان کانٹریکٹرزکو گولی تک مارنے کی اجازت تھی‘ ریمنڈ ڈیوس کسی خفیہ مشن کی تکمیل کیلیے لاہور پہنچا‘ یہ لاہور کے امریکی قونصل خانے میں رہتا تھا‘ قونصل خانے کی گاڑیاں استعمال کرتا تھا اور سارا دن شہرکے مختلف حصوں میں پھرتا رہتا تھا‘ یہ 27 جنوری 2011ء کی صبح پرائیویٹ کار پر قونصل خانے سے نکلا‘ لاہور کے دو نوجوانوں محمد فہیم اور فیضان حیدر نے اس کا پیچھا کیا‘ یہ پریشان ہوا اور اس نے مزنگ کے قرطبہ چوک پر دونوں نوجوانوں کو گولی مار دی‘ یہ گولی مارنے کے بعد گاڑی سے اترا اور اس نے موبائل سے ان دونوں مقتولین کی تصویریں بنائیں‘ ریمنڈ ڈیوس کو ریسکیو کرنے کیلیے قونصل خانے سے خصوصی ٹیم نکلی‘ یہ ٹیم سفید رنگ کی ٹویوٹا لینڈ کروزر میں سوار تھی‘ انھوں نے ون وے کی خلاف ورزی کی‘ نوجوان عبادالرحمن ان کی گاڑی کی زد میں آیا‘ گاڑی نے اس کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور یہ نوجوان گاڑی تلے روندا گیا‘ لوگ اکٹھے ہوئے‘ پولیس آئی اور ریمنڈ ڈیوس گرفتار ہو گیا‘ میڈیا کو علم ہوا تو بات پورے ملک میں پھیل گئی‘ یہ وہ کہانی ہے جس سے پوری قوم واقف تھی‘ ریمنڈ ڈیوس نے کانٹریکٹر کے نام سے پچھلے دنوں اپنی آپ بیتی تحریر کی‘ریمنڈ ڈیوس نے اس خودنوشت میں بے شمار انکشافات کیے‘ یہ کتاب حقائق کا ایک پہلو پیش کرتی ہے‘ میں آپ کو ایک دوسرا پہلو بھی بتانا چاہتا ہوں‘ یہ پہلو اور ریمنڈ ڈیوس کا پہلو مل کرحقائق کی تصویر مکمل کریں گے۔
آصف علی زرداری اس وقت صدر تھے‘ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم‘ رحمن ملک وزیر داخلہ‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف‘ جنرل احمد شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی اور افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان۔ ریمنڈ ڈیوس کی کہانی کا ایک حصہ ان تمام لوگوں کے گرد گھومتا ہے‘ اس خفیہ حصے میں تھوڑے عرصے کیلیے سینیٹر جان کیری‘ شاہ محمود قریشی اور میاں شہباز شریف بھی آتے ہیں‘ لیون پنیٹا اس وقت سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے‘ جنرل پاشا نے فوری طور پر لیون پنیٹا سے رابطہ کیا اور ان سے کہا ’’ لیون اگر یہ آپ کا بندہ ہے تو آپ مجھے اسی وقت بتا دو‘ میں اسے شام سے پہلے چھوڑ دوں گا‘‘ لیون پنیٹا نے جواب دیا ’’ نہیں یہ ہمارا بندہ نہیں‘ یہ حقیقتاً ڈپلومیٹ ہے‘‘ جنرل پاشا مطمئن ہو گئے لیکن لیون پنیٹا کا دعویٰ غلط نکلا‘ ریمنڈ ڈیوس بعد ازاں سی آئی اے کا کانٹریکٹر ثابت ہو ا‘جنرل پاشا آج تک پریشان ہیں لیون پنیٹا نے ان سے جھوٹ کیوں بولا تھا۔
سی آئی اے نے صدر اوبامہ سے بھی غلط بیانی کی تھی‘ صدر اوبامہ نے اس غلط بیانی کی بنیاد پر 15 فروری 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس کو ڈپلومیٹ ڈکلیئر کر دیا اور اس غلط بیانی نے آنے والے دنوں میں امریکا کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا‘لیون پنیٹا کی غلط بیانی کی وجہ سے پاکستانی حکومت‘ فوج اور آئی ایس آئی نے ریمند ڈیوس کو ملک میں رکھنے اور ٹرائل کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن معاملہ بہت الجھ گیا اور امریکا اور پاکستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے‘فروری 2011ء میں سینیٹر جان کیری نے پاکستان آنے کا اعلان کر دیا‘ یہ پاکستان کے دوست ہیں‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جان کیری کو فون کیا اور ان سے کہا’’آپ پاکستان نہ آئیں‘ آپ ہمارے دوست ہیں‘ ہمیں انکار کرتے ہوئے شرمندگی ہو گی‘ہم ریمنڈ ڈیوس آپ کے حوالے نہیں کر سکیں گے‘‘ لیکن جان کیری اس کے باوجود15 فروری کو پاکستان آگئے‘ یہ پہلے لاہور گئے‘ میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور یہ پھر اسلام آبادآگئے‘ شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا‘قریشی صاحب اس وقت تک کابینہ سے الگ ہو چکے تھے ‘امریکا اور پاکستان کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی شروع ہوئی‘ امریکا نے حسین حقانی کو استعمال کیا‘ حسین حقانی صدر آصف علی زرداری سے ملے یوں مارچ کے شروع میں حکومت نرم پڑ گئی۔
صدر آصف علی زرداری نے ایون صدر میں میٹنگ بلوائی‘ میٹنگ میں صدر‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ جنرل پاشا اور وزیرداخلہ رحمن ملک شریک تھے‘ میٹنگ شروع ہوئی تو صدر نے اعلان کیا ’’ریمنڈ ڈیوس پاکستان اور امریکا کے تعلقات سے بڑا نہیں‘ ہم نے اس بلا سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘ وہ اس کے بعد جنرل کیانی سے مخاطب ہوئے ’’آپ جنرل پاشا سے کہیں یہ ہماری اس معاملے میں مدد کریں‘‘ جنرل کیانی نے جنرل پاشا کی طرف دیکھا اور دونوں خاموش رہے‘ رحمن ملک نے ہاتھ اٹھایا اور کہا ’’جناب صدر آپ یہ ٹاسک مجھے دے سکتے ہیں‘‘ صدر نے انھیں جھڑک دیا ’’رحمن نہیں‘ یہ تمہارے بس کی بات نہیں یہ کام جنرل پاشا کو کرنے دو‘‘ صدر نے دوبارہ جنرل کیانی سے کہا ’’ آپ جنرل پاشا کو کہیں یہ ہماری مدد کریں‘‘ جنرل کیانی نے جنرل پاشا کی طرف دیکھا اور انھیں بولنے کا اشارہ کر دیا‘ جنرل پاشا نے کہا ’’ سر ہمارے پاس اس کا ایک حل موجود ہے مگر مسئلہ حل نہیں‘ اس حل کی اونر شپ ہے‘‘ جنرل پاشا کا کہنا تھا ’’ ریمنڈ ڈیوس جب رہا ہو گا تو ملک میں کہرام برپا ہو جائے گا۔
اس وقت بدنامی کا یہ ڈھول کس کے گلے میں پڑے گا‘ یہ اہم ہے‘‘ صدر نے فوراً جواب دیا ’’ حکومت ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے اگلے دن پریس ریلیز جاری کرے گی اور ہم اس پریس ریلیز کے ذریعے یہ ذمے داری اٹھا لیں گے‘ آپ یہ فکر نہ کریں‘ آپ بس کام کریں‘‘ میٹنگ میں فیصلہ ہوا جنرل پاشا لواحقین کو خون بہالینے پر راضی کریں گے‘خون بہا کی رقم وزیراعظم اپنے خصوصی سے فنڈ سے ادا کریں گے‘ میٹنگ میں فیصلہ ہوا جنرل پاشا تمام بڑے سیاسی لیڈروں سے بھی ملیں گے اوریہ انھیں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد خاموش رہنے پر رضا مند کریںگے اور یہ بھی فیصلہ ہوا جنرل پاشا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی مدد کیلیے تیار کریں گے‘ جنرل پاشا نے تینوں ذمے داریاں اٹھا لیں۔جنرل احمد شجاع پاشا نے اس کے بعد تمام بڑے سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی‘ تمام لیڈروں کا خیال تھا ’’ہمیں ریمنڈ ڈیوس کے بھوت سے جلد از جلد جان چھڑا لینی چاہیے‘‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جنرل پاشا کے سامنے اس خطرے کا اظہار بھی کیا ’’ریمنڈ ڈیوس کی جان کو خطرہ ہے‘ ہمیں اندیشہ ہے‘ سرکاری گارڈز اسے قتل کر دیں گے‘‘ یہ خدشہ درست تھا کیونکہ ریمنڈ ڈیوس کے سرکاری محافظ وردی پر ایک مذہبی جماعت کے بیجز لگاتے تھے۔
ان لوگوں نے جج کے حکم کے باوجود یہ بیجز اتارنے سے انکار کر دیا تھاچنانچہ تمام سیاسی لیڈر ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پرجنرل پاشا سے متفق تھے۔ اس کے بعد لواحقین کوخون بہا لینے پر تیار کرایا گیا‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی ’’کو آپریٹ‘‘ کرنے کا وعدہ کر لیا، یوں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا دن طے ہو گیا‘ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے قبل میاںنواز شریف طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے جب کہ میاں شہباز شریف بڑے میاں صاحب کی عیادت کیلیے اچانک بیرون ملک روانہ ہو گئے‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خفیہ فنڈسے جنرل پاشا کو خون بہا کی رقم ٹرنسفر کر دی‘ یہ رقم21 کروڑ روپے تھی‘ جنرل پاشا نے یہ رقم لواحقین میں تقسیم کر دی‘16 مارچ کے دن امریکی سفیر کیمرون منٹر خصوصی طیارہ لے کر لاہور پہنچ گئے جب کہ جنرل پاشا اس وقت اسلام آباد میں تھے‘ کیمرون منٹرلاہور سے مسلسل جنرل پاشا کے ساتھ رابطے میں تھے‘ ریمنڈ ڈیوس کو عدالت میں پیش کیا گیا‘جج صاحب کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا پیغام مل چکا تھا‘ لواحقین نے جج کے سامنے ریمنڈڈیوس کو معاف کر دیا۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا آرڈر جاری ہوا‘ یہ خصوصی گاڑی میں بیٹھا‘ائیرپورٹ پہنچا اور جہاز اسے لے کر بگرام روانہ ہو گیا‘ ریمنڈ ڈیوس کے روانہ ہوتے ہی یہ خبر پنجاب حکومت کے ذرایع سے میڈیا کو لیک ہو گئی‘ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ جنرل پاشا اگلے دن صدر آصف علی زرداری سے ملے ‘ ان کو وعدہ یاد دلایا اور ان سے درخواست کی ’’آپ پریس ریلیز جاری کر کے صورتحال کلیئر کر دیں‘‘ صدر نے ہنس کر جواب دیا’’ جنرل صاحب چھوڑیئے رات گئی بات گئی‘یہ معاملہ پنجاب حکومت کے گلے پڑرہا ہے تو ہمیں بے عزتی کرانے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ بھگت رہے ہیں‘ انھیں بھگتنے دیں‘‘میں تین سال پہلے جنرل پاشا سے ملا‘ میں نے جنرل پاشا سے پوچھا’’ آپ کواس سارے معاملے میںکس چیز نے زیادہ حیران کیا‘‘ جنرل پاشا نے جواب دیا’’میں آج تک لیون پنیٹا کے جھوٹ اور صدر آصف علی زرداری کی دلیل پر حیران ہوں‘لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں‘ آپ عوامی نمائندوں کا احترام کیوں نہیں کرتے‘ میں ان لوگوں کو کیسے بتاؤں‘ میں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ان کا احترام کیسے کروں؟‘‘۔