پاکستان کا لبیک دھرنا

ربیع م

محفلین
ان میں ایک ملائیت کی تعریف کے بارے میں تھا جس پر سیر حاصل بحث ہو چکی۔
کیا ہر محفلین جو ایسا سوال دو بار کرے جس پر پہلے سیر حاصل بحث ہو چکی ہو لیکن ایک فریق مطمئن نہ ہو اس کا مراسلہ بھی حذف کیا جاتا ہے؟
یاد رہے کہ مراسلے میں اخلاق سے گری کوئی بات نہ ہو
اگر تو اس کا جواب نفی میں ہے
تو پھر یہ سوال اور اعتراض بھی بنتا ہے
دوسرا مدیر کے اختیارات سے متعلق تھا، جو کہ غیر متعلقہ ہے۔ محفل انتظامیہ کو ہر معاملے میں ملوث کرنا اک ذرا زیادتی ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
اگر ایک محفلین سے ایسا سوال دو بار کیا جائے تو جس پر پہلے سیر حاصل بحث ہو چکی ہو لیکن ایک فریق مطمئن نہ ہو تو کیا اس کا مراسلہ بھی حذف کیا جائے گا؟
یاد رہے کہ مراسلے میں اخلاق سے گری کوئی بات نہ ہو
اگر تو اس کا جواب نفی میں ہے
تو پھر یہ سوال اور اعتراض بھی بنتا ہے
سوال تو دس بار بھی کیا جا سکتا ہے، تاہم، جب کسی اور لڑی میں اس موضوع پر بحث ہو رہی ہو تو اپنی مرضی کے موضوع پر بحث کرنے کے لیے اصرار کرنا درست رویہ نہ ہے۔ اس کے باوجود، اس موضوع پر بحث کی گئی اور ان کا مراسلہ بھی غیر محذوف کیا گیا۔ اس کے باوصف، اگر آپ کو ہماری ذات سے کوئی شکوہ ہے تو آپ انتظامیہ سے ہمارے رویے کی شکایت کر سکتے ہیں، شکریہ!
یہ رہا ربط

نوٹ: آپ سے مودبانہ درخواست ہے کہ اب اس معاملے کو مزید طول نہ دیا جائے۔
 

ربیع م

محفلین
سوال تو دس بار بھی کیا جا سکتا ہے، تاہم، جب کسی اور لڑی میں اس موضوع پر بحث ہو رہی ہو تو اپنی مرضی کے موضوع پر بحث کرنے کے لیے اصرار کرنا درست رویہ نہ ہے۔ اس کے باوجود، اس موضوع پر بحث کی گئی اور ان کا مراسلہ بھی غیر محذوف کیا گیا۔ اس کے باوجود، اگر آپ کو ہماری ذات سے کوئی شکایت ہے تو آپ انتظامیہ سے ہمارے رویے کی شکایت کر سکتے ہیں، شکریہ!
یہ رہا ربط

نوٹ: آپ سے مودبانہ درخواست ہے کہ اب اس معاملے کو مزید طول نہ دیا جائے۔
شکریہ
 

فرقان احمد

محفلین
اتفاق کی بات ہے کہ انہی دنوں خورشید ندیم صاحب نے اسی موضوع پر ایک کالم تحریر کیا ہے۔

لبرل سیاست کا مستقبل ÷÷÷ خورشید ندیم

کیا اس ملک کی سیاست کو مذہبی استحصال سے پاک کیا جا سکتا ہے؟

نوازشریف صاحب نے ایک اقدام کیا۔داماد نے اُس کے خلاف قومی اسمبلی میں قراردارپیش کر دی۔اسمبلی نے متفقہ طور پرداماد کا ساتھ دیا۔اب یہ خسر اور داماد کا معاملہ نہیں رہا،قوم کی متفقہ رائے قرار پائی۔اس پیش رفت کے بعد،ایک سوال مسلسل میرے تعاقب میں ہے:کیا اس ملک میں لبرل سیاست کا کوئی مستقبل ہے؟اس سوال کو زیرِ بحث لانے سے پہلے،یہ وضاحت لازم ہے کہ لبرل سیاست سے میری مراد لبرل ازم پر مبنی سیاست نہیں،ان اقدار کی سیاست ہے جو کسی مذہبی یا غیر مذہبی تعصب پر مبنی نہ ہوں۔

پاکستان میں دوطرح کے لبرلز پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو لبرل ازم پر بطور فلسفۂ زندگی ایمان رکھتے ہیں۔انہیں ہم نظریاتی لبرل کہہ سکتے ہیں۔'لبرل ازم‘ مذہب کے بالمقابل ایک تصورِ حیات ہے۔اس تصور میں انسان کو ایک آزاد مخلوق خیال کیا جاتا ہے جو کسی خارجی قوت کا یہ استحقاق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ اس کے لیے انفرادی یا اجتماعی سطح پرکوئی لائحہ عمل طے کرے۔انسانوں کی اجتماعی دانش کوالبتہ وہ یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے طور پر چاہے تو نظم ِ اجتماعی کو قائم رکھنے کے لیے کوئی قانون یا ضابطہ تشکیل دے سکتا ہے۔پاکستان میں نظریاتی لبرل عددی طور پر بہت کم ہیں۔
دوسرے لبرل وہ ہیں جنہیں عملی لبرلز کہا جا سکتاہے۔یہ ممکن ہے انفرادی سطح پر مطلق انسانی آزادی کو تسلیم نہ کرتے ہوں مگر اس بات کے قائل ہیں کہ اپنے لیے کسی تصورِ حیات کا انتخاب انفرادی معاملہ ہے۔ہم کسی کو جبراً پابند نہیں کر سکتے کہ وہ لازماً کسی خاص تصورِ حیات پر ایمان لا ئے یا اس کے تحت زندگی گزارے۔فرد کے ساتھ،یہ جبر ریاستی یا معاشرتی سطح پر بھی نہیںکیا جا سکتا۔یہ طبقہ اجتماعی امور میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔اس کے خیال میں اگر کسی معاشرے کی اکثریت کسی خاص تصورِ حیات کے تحت ریاستی یا سماجی زندگی کی تشکیل چاہتی ہے تووہ اس کا حق رکھتی ہے۔کسی معاشرے کا اجتماعی شعور اگر کسی خاص مذہب کا پابند رہنا چاہتاہے تواس کا یہ حق ثابت ہے۔ تاہم کسی جمہوری اصول کے تحت بھی، فرد کی یہ آزادی سلب نہیں کی جا سکتی‘ جو مذہب یا کسی فلسفہ کو اختیار کرنے کے باب میں اسے حاصل ہے۔جمہوری ریاستوں میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جا تا ہے کہ کوئی قانون بنیادی حقوق کے خلاف نہیں بن سکتا۔
نوازشریف صاحب کی شخصیت کا خمیر روایتی مذہبیت سے اٹھاہے۔ وہی،کیپٹن صفدر آج جس کے علم بردار ہیں۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس میں ایک واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔یہ کسی مکتب کی کرامت نہیں،زندگی کے تجربات کا حاصل ا ور پرویز رشید صاحب جیسے نظریاتی لبرلز کی صحبت کا فیضان دکھائی دیتا ہے۔نوازشریف صاحب کو سیاسی تجربے نے یہ سکھایا ہے کہ ایک جدید ریاست کی ساخت روایتی مذہبیت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ شہریوں میں مذہب کی بنیادپر امتیاز ،دورِ حاضر میں ایک ناقابل ِقبول تصور ہے۔پھر جس طرح روایتی مذہبیت سے انتہا پسندی نمودار ہوئی،اس نے بھی ان کے فکری ارتقامیں اہم کردار ادا کیاہے۔

نوازشریف صاحب کے خیالات میں یہ تبدیلی ان کے اقدامات میں بھی منعکس ہوئی جب وہ وزیراعظم بنے۔جیسے وہ ہولی کے پروگرام میں شریک ہوئے اورمذہبی اقلیتوں میں انہوں نے مساوی شہری حقوق کاتصور اجاگر کیا۔ اسی سلسلے کا ایک اقدام قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنا تھا۔جب قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر انتخابی قوانین میں اصلاحات کا فیصلہ کیاتوختمِ نبوت کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔نوازشریف صاحب کو قادیانی نواز ثابت کرنے کے لیے جو مواد جمع کیا گیا،اس میں ایک جرم ادارے کے نام کی تبدیلی بھی تھی۔کیپٹن صفدر اس کی تلافی کی کوشش میں ہیں۔قومی اسمبلی میں ان کی طرف سے جو قرارداد سامنے آئی،وہ بھی بنظرِ غائر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ قرارداد دراصل اس ابہام کاایک مظہر ہے ،ہمارے اہلِ سیاست جس میں مبتلا ہیں۔ریاست کے معاملات سے براہ راست متعلق ہونے سے،ان پر یہ واضح ہے کہ روایتی مذہبی تعبیرات کے ساتھ کوئی نظامِ مملکت اب چلایا نہیں جا سکتا۔وہ اس سے نجات چاہتے ہیں ،مگر دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ بدستور اسی کی گرفت میں ہے۔ ہر لمحہ انہیں یہ خوف دامن گیر ہے کہ کہیں وہ توہینِ مذہب کے مرتکب نہ قرار پاجائیں۔اگر ایسا ہوگیا تو ان کا ووٹ بینک ان سے چھن جائے گا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ انتخابی قوانین میں تبدیلی متفقہ طور پر ہوئی اور تمام سیاسی جماعتیں اس میں شریک تھیں۔مگرجب ختمِ نبوت کا مسئلہ اٹھا تو سب نے جان چھڑا نے کی کوشش کی اورذمہ داری دوسروں کے کاندھے پر ڈالنا چاہی۔

قومی اسمبلی میںکیپٹن صفدر کی پیش کردہ قرارداد اس رویے کا تازہ ترین مظہر ہے۔یہ قرارداد انہوں نے ن لیگ کا دامن صاف کرنے کے لیے پیش کی۔دیگر جماعتوں کو خیال ہوا کہ اگر انہوں نے مخالفت کی تو کہیں وہ بھی قادیانی نواز نہ ٹھہرائے جائیں۔یوں قومی اسمبلی نے اسے متفقہ طورپر منظور کر لیا۔ظاہر ہے کہ اس کی تائید کرنے والوں میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہے جو پاکستان میں لبرل سیاست کی علم بردار ہے۔یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے،اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ پاکستان میں لبرل سیاست کا مستقبل کیا ہے؟

اگر ایک معاشرہ رویے کے اعتبار سے لبرل نہ ہو تو وہ جمہوری نہیں ہو سکتا ہے۔آزادیٔ فکر و نظر کے بغیر معاشرتی ارتقا کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ایسے معاشرے افکار کا جوہڑ بن جاتے ہیں جہاں تنقیدی شعور پروان نہ چڑھ سکے۔مذہبی خیالات کی زندگی بھی اس پر موقوف ہے کہ وہ تنقید سے گزریں اور وقت کی کسوٹی پر کھرے قرار پائیں۔یہی کارِ تجدید ہے۔میں ایک مذہبی آدمی ہوتے ہوئے،اطمینان رکھتا ہوں کہ مذہب انسان کی فطری طلب ہے اور کسی دور کا انسان اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔تاہم مذہب انسان کے اس حق کا سب سے بڑا علم بردار ہے کہ انسانوںکومذہبی آزادی ملنی چاہیے۔

اسلام کے نزدیک تو اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اس نے مذہبی آزادی کے لیے جہاد کا حکم دیا ہے۔قرآن مجید نے فتنے کے خاتمے کو جہاد کی ایک علت بتایا ہے۔ فتنے سے مراد مذہبی جبر(persecution) ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ وہی ہو سکتا ہے کہ جہاں لوگوں کو اپنی پسند کی زندگی گزارنے کی آزادی ہو الا یہ کہ یہ آزادی سماجی امن کے لیے خطرہ بن جائے۔تاہم یہ اسی لبرل رویے کا حصہ ہے کہ عوامی رائے سے قائم ہونے والی پارلیمنٹ اگر کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے قبول کیا جائے۔

قائداعظم یونیورسٹی کے باب میں پارلیمنٹ کی قرارداد اس بات کا اظہار ہے کہ ہمارے اراکینِ پارلیمان جبریت سے نکلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔یہ نوازشریف صاحب کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ووٹ کی عزت ایک سماجی تبدیلی سے مشروط ہے۔اگر ووٹر جبر کا شکار ہے تو بھی اس کی عزت مجروح ہو گی۔واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ووٹررکوریاستی اداروں ہی کے نہیں، انتہا پسندوں کے جبر سے بھی نجات دلانے کی ضرورت ہے۔نوازشریف صاحب کو سب کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔

کیپٹن صفدر کی قرارداد اگرخود کو ایسے طبقات کے جبر سے بچانے کے لیے ہے تو یہ کمزوری کی دلیل ہے۔اگر یہ سوچی سمجھی رائے ہے تو یہ رجعت پسندی کا اظہار ہے۔دونوں صورتوں میں نوازشریف صاحب کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ نوازشریف صاحب کا امتیاز یہ ہے کہ ان کا بیانیہ ایک سیاسی تبدیلی کی بنیاد بن رہا ہے۔اگر وہ ریاستی اداروں کے خوف سے باہر آرہے ہیں تو انہیں دوسری قوتوں کے خوف سے بھی نکلنا ہوگا۔وہ لیڈر ہیں تو انہیں آگے بڑھ کر سٹیٹس کو کی تمام قوتوں کے خوف کو ختم کر نا ہوگا۔ان میں مذہبی انتہا پسند بھی شامل ہیں۔ادارے کے نام کی تبدیلی دراصل اسی جنونیت کا مسئلہ ہے۔

ربط
 

ضیاء حیدری

محفلین
پہلے نواز شریف صاحب پر حملہ کیا گیا، اس کے بعد کئی دیگر سیاست دانوں کے گھروں پر حملہ کر نے کی کوشش کی گئی اور اب ختم نبوت کی آڑ لے کر ملک کے وزیرِ داخلہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناح اسی لیے ملک میں ملائیت کے نظام کے حامی نہ تھے۔ علامہ اقبال نے بھی کہا تھا، دین ملا فی سبیل اللہ فساد! بصد معذرت عرض ہے کہ جب آپ عوام کو اس حد تک مشتعل کر دیں گے تو اس کے بعد یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ کسی کے بھی کہے میں رہیں گے، یہ تو ناممکن بات معلوم ہوتی ہے۔ ہماری کوشش رہے گی کہ اس مسئلے کو تاریخی تناظر میں بھی دیکھیں کہ آخر کس طرح مذہب کا نام استعمال کر کے ماضی میں بھی ملا حضرات عوام کو مشتعل کرتے رہے ہیں۔ حکومت سے ایک غلطی ہوئی تھی تو اس کا تدارک کیا گیا۔ تاہم ملا حضرات نے معاملے کو سمیٹنے کی بجائے گلی گلی، محلے محلے اور ہر ایک چوک میں نفرتوں کی سیل لگا دی۔ یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا۔ ہمارا تبصرہ شاید بہتوں کو بہت برا لگے تاہم ہماری دانست میں کڑوا سچ یہی ہے۔ ایک واقعے کی آڑ لے کر نفرت کا بازار گرم کر دینا کہاں کا انصاف ہے! یہی کچھ ہوتا رہا تو عوام مذہب سے ہی متنفر ہو جائیں گے۔
برا کیوں لگے؟ یہی بات تو ہم دوسری لڑائیوں میں کر چکے ہیں کہ جب ختم نبوت اور قادیانیوں کا تنازع آئین ساز اسمبلی میں کب کا ختم ہو چکا ہے تو ہر سال اس پر سیاست کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس تسلسل کو کیسے ختم کیا جائے؟

شعبہ طبیعات کا نام بدلنے کا مطالبہ کوئی ایک ماہ قبل اسی دھرنے والی سرکار کی جانب سے آیا تھا۔ یعنی آپ ان شدت پسند مولویوں کی ایک بات مان لیں تو یہ معاملہ رفع دفع نہیں ہوتا بلکہ ان کی طرف سے نئے مطالبات آجاتے ہیں
یاز

قائداعظم کا نام ادب سے لیا کرو، لادین طبقہ ان کو جناح کہتا اور لکھتا ہے، ان کو موت پڑتی ہے ان کا نام عزت و تکریم سے لیا کرے، افسوس ہوتا ہے کہ مدیران فورم اس پر کوئی گرفت نہیں کرتے ہیں،
محمد علی جناح ابتلاو آزمائش میں نہ جھکے نہ بکے وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے جب آپ کی صلاحیت دیانتداری اور فرض شناسی کی قدر کرتے ہوئے آپ کو سر کا خطاب دینا چاہا توآپ نے انکار فرماتے ہوئے کہا:میں یہ زیادہ پسند کروں گا کہ مجھے صرف مسٹر محمد علی جناح کہا جائے آخر قدرت نے پوری ملت کی زبان سےآپ کو قائد اعظم کہلوادیا قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں ہندو، سکھ، انگریز اور کانگریسی مسلمان شکست فاش کھا گئے اور یہ اکیلے میدان مار گئے آپ کے نام کا ایک جز حضرت محمد ﷺ اور دوسرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مبارک نام پر ہے آپ کو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔
میں نے دیکھا ہے کہ ہندو اور لادین ان سے جلتے ہیں ان کا نام پورا لینے کی بجائے جناح کا لفظ لکھتے ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں مسلمانوں کے لئے عظیم وطن کا قیام وقوع پذیر ہوا، یہ ایک عظیم حقیقت ہے، مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی جدوجہد اسی لئے کی گئی تھی کہ مسلمان اسلامی قوانین کے تحت آذادانہ زندگی گذاریں۔
 

ضیاء حیدری

محفلین
برا کیوں لگے؟ یہی بات تو ہم دوسری لڑائیوں میں کر چکے ہیں کہ جب ختم نبوت اور قادیانیوں کا تنازع آئین ساز اسمبلی میں کب کا ختم ہو چکا ہے تو ہر سال اس پر سیاست کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس تسلسل کو کیسے ختم کیا جائے؟

شعبہ طبیعات کا نام بدلنے کا مطالبہ کوئی ایک ماہ قبل اسی دھرنے والی سرکار کی جانب سے آیا تھا۔ یعنی آپ ان شدت پسند مولویوں کی ایک بات مان لیں تو یہ معاملہ رفع دفع نہیں ہوتا بلکہ ان کی طرف سے نئے مطالبات آجاتے ہیں
یاز

ختم نبوت اور قادیانیوں کا تنازع آئین ساز اسمبلی میں کب کا طے ہوچکا ہے اس قانون کے خلاف سازشیں کرنا بند کرو، جب بھی اس کے خلاف کوئی سازش ہوگی پاکستان کے عوام اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
 

زیک

مسافر

شاہد شاہ

محفلین
کونسے اسلامی قوانین کے تحت آزاد زندگی گزارنی ہے؟ آئین ساز اسمبلی میں آج تک صرف اینٹی قادیانی اسلامی قوانین پر اتفاق ہوا ہے۔ اور یہاں بھی آئے دن کوئی نہ کوئی رولا لگا رہتے ہیں کہ یہ قوانین کافی نہیں۔ قادیانیوں کیخلاف مزید سختیاں کریں نہیں تو ہم دنگا فساد کریں گے۔ اگر آپکے نزدیک یہ آزادی ہے تو بہتر ہے ہم انگریز کے غلام ہی رہتے
مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی جدوجہد اسی لئے کی گئی تھی کہ مسلمان اسلامی قوانین کے تحت آذادانہ زندگی گذاریں۔
 

شاہد شاہ

محفلین
کیسی سازش؟ قادیانی تو ویسے ہی ۱۹۷۴ سے سیاست میں نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ان قوانین کی مبینہ تبدیلی سے وہ واپس آجائیں گے۔ اس معاملہ میں آپ بے فکر رہیں۔
ختم نبوت اور قادیانیوں کا تنازع آئین ساز اسمبلی میں کب کا طے ہوچکا ہے اس قانون کے خلاف سازشیں کرنا بند کرو، جب بھی اس کے خلاف کوئی سازش ہوگی پاکستان کے عوام اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
 

ضیاء حیدری

محفلین
جو طبقہ جناح کو کافر اعظم کہا کرتا تھا، آج وہی جناح کہنے پر بھی ہماری سرزنش کرتا ہے۔جناح زندہ ہوتے تو ہم بھی ان کو مبارک باد پیش کرتے۔
دیوبندی علماء کے ایک بہت بڑےگروپ نے مسلم اور غیرمسلم کے نام پر ہونے والی سیاست کی مخالفت کی، جس کی سربراہی قائد اعظم محمد علی جناح فرما رہے تھے اور ان کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ آزاد مملکت کا حصول تھا۔ جمعیت علماءِ ہند کی طرح مجلس احرار اسلام، ایک دیوبندی سیاسی پارٹی کی بنیاد 29 دسمبر 1929ء کو لاہور میں رکھی گئی۔ جس کے بانیان میں سے چودھری افضل حق، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، حبیب الرحمن لدھیانوی، مظہر علی اظہر، ظفر علی خان اور داؤد غزنوی قابل ذکر ہیں۔ اس پارٹ کے قیام کا مقصد بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی مخالفت اور ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنا تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
دیوبندی علماء کے ایک بہت بڑےگروپ نے مسلم اور غیرمسلم کے نام پر ہونے والی سیاست کی مخالفت کی، جس کی سربراہی قائد اعظم محمد علی جناح فرما رہے تھے اور ان کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ آزاد مملکت کا حصول تھا۔ جمعیت علماءِ ہند کی طرح مجلس احرار اسلام، ایک دیوبندی سیاسی پارٹی کی بنیاد 29 دسمبر 1929ء کو لاہور میں رکھی گئی۔ جس کے بانیان میں سے چودھری افضل حق، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، حبیب الرحمن لدھیانوی، مظہر علی اظہر، ظفر علی خان اور داؤد غزنوی قابل ذکر ہیں۔ اس پارٹ کے قیام کا مقصد بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی مخالفت اور ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنا تھا۔
فرقہ واریت کا معاملہ آپ جانیں۔ ہم بحیثیت مجموعی مذہبی طبقے کی بات کر رہے ہیں۔ آپ جناح کو اتنا اکرام دیتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمیں اس بات سے بھی زیادہ غرض نہیں کہ قیامِ پاکستان کے مخالف طبقے کو اچھا یا برا کہا جائے۔ معاملہ تو شدت پسندانہ اور انتہاپسندانہ رویوں کا ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
 
دیوبندی علماء کے ایک بہت بڑےگروپ نے مسلم اور غیرمسلم کے نام پر ہونے والی سیاست کی مخالفت کی، جس کی سربراہی قائد اعظم محمد علی جناح فرما رہے تھے

حضرت قائداعظمؒ دیوبندی تھے؟ عالم تو وہ یقیناً تھے
 

شاہد شاہ

محفلین
1929 میں پاکستان کا دور دور تک کوئی وجودنہیں تھا۔ احرار الاسلام کا بنیادی مقصد اینٹی قادیانی تحریک چلانا تھا جو پاکستان بننے کے بعد پورے زور سے چلی اور ملک تباہ ہوگیا
اس پارٹ کے قیام کا مقصد بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی مخالفت اور ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنا تھا۔
 
ہمیں تو یوں لگا جیسے خود کو دائیں بازو کا فرد ثابت کرنے کے لیے کچھ اس طرح کے لوازمات پورے کرنے ہوں گے۔

قبلہ خادم رضوی کی طرح زبان کا استعمال کر کے؛
کسی خاص مسلک میں شامل ہو کر مخصوص نعرے لگا کر؛
اپنی ذمہ داریوں کی پروا کیے بغیر حکمرانوں کے سامنے صرف مطالبات رکھ کر؛
ریاست کی مجبوریوں کو پیش نظر رکھے بغیر یک رخی انتہاپسندانہ سوچ اپنا کر؛
یہ آپ کے سمجھنے کی غلطی ہے ۔
احسن اقبال و دیگر پر حملے کی مذمت نہ کر کے؛
تحریک لبیک کے ترجمان نے خود اس حملہ آور سے اظہار لا تعلقی اور مذمت کی ہے ۔ حیرت ہے کہ یہ خبر آپ کی نظروں سے یہ تحریک لبیک کی مذمت نہیں گزری حالانکہ حملے اور مذمت کی خبریں اکٹھی نیوز ویب سائٹس پر رپورٹ ہوئیں تھیں۔
ممکن ہے کہ آپ کی سوچ ایسی نہ ہو تاہم بظاہر تو ہمیں آپ کے مراسلے سے بین السطور یہی معلوم پڑتا ہے۔ یہ فہرست خاصی طویل ہو سکتی ہے تاہم ہمیں تو یہی سب کچھ ملائیت کی ذیل میں معلوم ہوتا ہے۔ اور پھر آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ملائیت ایک مذموم اصطلاح ہے۔
ملائیت یقینا ایک مذموم اصطلاح ہے کیونکہ اس سے تمام علماء کی طرف اشارہ نظر آتا ہے ۔ آپ ملائیت کی بجائے علماء سوء کی اصطلاح کیوں استعمال نہیں کر لیتے؟ "ملائیت " مذہب بیزار لوگوں کی پسندیدہ اصطلاح ہے ۔ یہ لوگ براہ راست مذہب اور خدا تو تنقید نہیں کرتے مگر علماء پر تنقید کرتے ہیں۔

دایاں بازو یا right wing کنزرویٹو سوچ رکھنے والوں کو کہا جاتا ہے Right | ideology جو مذہب اور ریاست کو سپورٹ کرتے ہیں، آپ کے مراسلے اکثر اس سوچ کی عکاسی نہیں کرتے ۔
 
Top