دسویں جماعت کا طالب علم اتنا بھی بچہ نہیں ہوتا۔۔۔۔آپ اسکی شادی تو کروا کر دیکھیںجب کوئی فوجی بنے تو جا کر پڑھ لے ساری جنگیں اسٹریٹیجی مشہور جنگیں جنگی چالیں اور بے شک سارے غزوے سریے بھی پر ایک بچے کو ایک آپ کیسے یہ سب پڑھا سکتے ہیں ؟ میں نے کب کہا نا پڑھائیں پر عمر کے حساب سے
صد فیصد متفق۔ بجا ارشاد فرمایا۔ لیکن جنہوں نے ”میں نہ مانوں“ سے آگے نہ بڑھنے کا تہیہ کر رکھا ہو، اُن سے آپ کوئی مثبت امید نہ ہی رکھیں۔ ہاں صدائے حق بلند کرتے رہئے کہ یہ ہمارا فرض بھی ہے اور اسی پر ہمیں اجر کی توقع بھی۔ آپ تو ایک استاد بھی ہیں۔ لہٰذا ہم ”شاگردوں“ کے منفی رویوں سے دلبرداشتہ نہ ہوں۔اس سلسلے میں بنیادی سی بات یہ ہے کہ جب تک آپ روایتی تعلیمی ادارے قائم نہیں کرتے تب تک تو نصاب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی آپ کوئی درسگاہ قائم کرتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو کوئی نصاب بھی طے کرنا پڑتا ہے اور دنیا بھر میں دستور یہی ہے کہ طے کیا جانے والا نصاب اس علاقے، خطے یا ملک کے رہنے والوں کی غالب اکثریت کے نظریات اور حکومتی بزرجمہروں کے ظاہری فکری رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔ اسی نکتے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں ایسا نصاب بنانے کی کوشش کی گئی جو عوام کی غالب اکثریت کے مذہبی نظریات اور فکری رجحانات سے ہم آہنگ ہو (یہ الگ بحث ہے کہ کتنے فیصد لوگ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر اس نصاب سے کوئی مثبت راہنمائی لینے کے قابل ہوپائے)۔ دنیا کے ہر ملک میں نصاب وہاں کے باسیوں کے مذہبی و معاشرتی رویوں کے رنگوں میں گندھا ہوا ہوتا ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں جہاں نوے فیصد سے زائد لوگ اسلام سے وابستگی کے دعویدار ہیں وہاں اس بات کو بحث کا موضوع بنادینا محض اس ملک کو غیرمستحکم کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
اسلام کی ترویج و اشاعت کیسے ہوئی اور اس میں کن عوامل و عناصر نے کتنا کردار ادا کیا، یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے۔ وہ عوامل جو اسلام کو انسان کے لئے لازم قرار دیتے ہیں انسان کے اپنے ہی فطری اور جبلی تقاضے ہیں۔ انہی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں نسلِ نو کے لئے ایسا نصاب تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جو اسے اس کے ماضی کے بارے میں آگاہی مہیا کرسکے۔ ایک سوچ یہ تھی کہ مستقبل کی بہتری کے لئے اس نئی نسل کو حال میں جو رویے اپنانے ہیں وہ بھی ماضی کی اسی آگاہی کے رہینِ منت ہوں گے۔ مسلم رویے اسی نصاب کے تابع جیسے تشکیل پائے تھے اس کے دسیوں یا بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں مثبت نمونے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں مگر افسوس کہ ہمارے اپنے ہی لوگوں نے ہماری اجتماعی دانش اورمجموعی فکر کو اغیار کے سامنے یوں مزاح بنا کر رکھ دیا کہ آج محض منفی مثالیں پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارے نصاب نے یہ غلط رویہ تشکیل دیا ہے یا ہماری تعلیم فکری کجی کے ایسے رجحان کو پروان چڑھا رہی ہے۔
یہ موضوع بہت بحث طلب ہے اور دامنِ وقت میں گنجائش پاتا تو اس پر مزید بھی کافی کچھ کہتا!
اس سلسلے میں بنیادی سی بات یہ ہے کہ جب تک آپ روایتی تعلیمی ادارے قائم نہیں کرتے تب تک تو نصاب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی آپ کوئی درسگاہ قائم کرتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو کوئی نصاب بھی طے کرنا پڑتا ہے اور دنیا بھر میں دستور یہی ہے کہ طے کیا جانے والا نصاب اس علاقے، خطے یا ملک کے رہنے والوں کی غالب اکثریت کے نظریات اور حکومتی بزرجمہروں کے ظاہری فکری رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔ اسی نکتے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں ایسا نصاب بنانے کی کوشش کی گئی جو عوام کی غالب اکثریت کے مذہبی نظریات اور فکری رجحانات سے ہم آہنگ ہو (یہ الگ بحث ہے کہ کتنے فیصد لوگ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر اس نصاب سے کوئی مثبت راہنمائی لینے کے قابل ہوپائے)۔ دنیا کے ہر ملک میں نصاب وہاں کے باسیوں کے مذہبی و معاشرتی رویوں کے رنگوں میں گندھا ہوا ہوتا ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں جہاں نوے فیصد سے زائد لوگ اسلام سے وابستگی کے دعویدار ہیں وہاں اس بات کو بحث کا موضوع بنادینا محض اس ملک کو غیرمستحکم کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
اسلام کی ترویج و اشاعت کیسے ہوئی اور اس میں کن عوامل و عناصر نے کتنا کردار ادا کیا، یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے۔ وہ عوامل جو اسلام کو انسان کے لئے لازم قرار دیتے ہیں انسان کے اپنے ہی فطری اور جبلی تقاضے ہیں۔ انہی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں نسلِ نو کے لئے ایسا نصاب تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جو اسے اس کے ماضی کے بارے میں آگاہی مہیا کرسکے۔ ایک سوچ یہ تھی کہ مستقبل کی بہتری کے لئے اس نئی نسل کو حال میں جو رویے اپنانے ہیں وہ بھی ماضی کی اسی آگاہی کے رہینِ منت ہوں گے۔ مسلم رویے اسی نصاب کے تابع جیسے تشکیل پائے تھے اس کے دسیوں یا بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں مثبت نمونے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں مگر افسوس کہ ہمارے اپنے ہی لوگوں نے ہماری اجتماعی دانش اورمجموعی فکر کو اغیار کے سامنے یوں مزاح بنا کر رکھ دیا کہ آج محض منفی مثالیں پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارے نصاب نے یہ غلط رویہ تشکیل دیا ہے یا ہماری تعلیم فکری کجی کے ایسے رجحان کو پروان چڑھا رہی ہے۔
یہ موضوع بہت بحث طلب ہے اور دامنِ وقت میں گنجائش پاتا تو اس پر مزید بھی کافی کچھ کہتا!
نایاب بھائی! لگتا ہے آپ ”انسانیت“ کو ”اسلامیت“ سے کوئی ”بلند ترین شئے“ سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف دین اسلام میں ہی انسانیت کی معراج کو پہنچا جاسکتا ہے، اسلام کو ترک کر کے یا سائیڈ میں رکھ کر نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھا انسان اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما ”آغوش اسلام“ میں آنے کے بعد ہی انسانیت کے بہترین مدارج پر پہنچے تھے، جو آج بھی ہمارے لئے رول ماڈل ہیں۔محترم بٹ بھائی ۔ سرخ کشیدہ تحریر " تعلیمی نصاب کا قائم کرنا " کی حقیقت کو پوری معنویت سے بیان کر رہی ہے ۔
اور نصاب بنانے والے بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہو چکے کہ
اسلام پر عمل پیرا ہونا الگ بات ہے اور اسلام سے وابستگی کا دعوی کرنا الگ بات ۔
اسلام کے جس ماضی کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ۔ اس سے تو " جھوٹ دھوکہ ملاوٹ منافقت مفاد پرستی " کے ناجائز و حرام ہونے کا اثبات ہوتا ہے ۔
مگر اس نصاب سے آگہی پانے والوں میں یہ برائیاں پوری شدت سے محو عمل نظر آتی ہیں ۔
اب اگر اک کوشش نصاب سے مسلمان بنانے کی بجائے انسان بنانے کی کر لی جائے ۔ تو شائد اصل مسلمان سامنے آ جائے ۔۔۔ ۔
نہیں جناب عمران ارشد صاحب کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے اوپر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔۔۔!عمران۔۔یعنی کہ عمران خان؟؟؟
ناقابلِ یقین کام ہے
نابینا جنم لیتی ہے اولاد بھی ان کی
جو قوم دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں
محترم بٹ بھائی ۔ سرخ کشیدہ تحریر " تعلیمی نصاب کا قائم کرنا " کی حقیقت کو پوری معنویت سے بیان کر رہی ہے ۔
اور نصاب بنانے والے بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہو چکے کہ
اسلام پر عمل پیرا ہونا الگ بات ہے اور اسلام سے وابستگی کا دعوی کرنا الگ بات ۔
اسلام کے جس ماضی کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ۔ اس سے تو " جھوٹ دھوکہ ملاوٹ منافقت مفاد پرستی " کے ناجائز و حرام ہونے کا اثبات ہوتا ہے ۔
مگر اس نصاب سے آگہی پانے والوں میں یہ برائیاں پوری شدت سے محو عمل نظر آتی ہیں ۔
اب اگر اک کوشش نصاب سے مسلمان بنانے کی بجائے انسان بنانے کی کر لی جائے ۔ تو شائد اصل مسلمان سامنے آ جائے ۔۔۔ ۔
نایاب بھائی! لگتا ہے آپ ”انسانیت“ کو ”اسلامیت“ سے کوئی ”بلند ترین شئے“ سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف دین اسلام میں ہی انسانیت کی معراج کو پہنچا جاسکتا ہے، اسلام کو ترک کر کے یا سائیڈ میں رکھ کر نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھا انسان اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما ”آغوش اسلام“ میں آنے کے بعد ہی انسانیت کے بہترین مدارج پر پہنچے تھے، جو آج بھی ہمارے لئے رول ماڈل ہیں۔
آپ کو میری رائے سے اختلاف کا اسی طرح پورا پورا ”حق“ ہے، جیسے مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے۔
نایاب بھائی، یہ بات آپ نے کہاں سے اخذ کرلی کہ ’اس نصاب سے آگہی پانے والوں میں یہ برائیاں پوری شدت سے محو عمل نظر آتی ہیں‘؟ پاکستان کی کتنی آبادی ہے جو پرائمری اسکول کی سطح سے آگے بڑھ پاتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی موازنہ کر کے دیکھا ہے کہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور اسی عمر کے ایک ان پڑھ کے رویوں میں کیا فرق ہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اندازاَ کتنے لوگوں کو دیکھ کر آپ نے یہ رائے قائم کی ہے اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو میرا مشورہ ہے کہ آئندہ جب بھی آپ پاکستان آئیں تو کچھ نوجوانوں سے مل کر موازنہ ضرور کیجئے، حقیقت آپ پر خود بخود واضح ہوجائے گی۔
میں ایک ایسے علاقے میں استاد کے طور پر فرائض انجام دے رہا ہوں جو خالص دیہی علاقہ ہے۔ وہاں میری ان بچوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو اسکول کالج میں پڑھتے ہیں اور ایسے نوجوانوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے جنہوں نے کبھی اسکول کالج کی شکل نہیں دیکھی۔ میں آپ کو دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جو بچے اسکول اور کالج جا کر باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کی غالب اکثریت ایسی ہے جس میں اچھے برے کی تمیز، چھوٹے بڑے کا لحاظ اور حلال حرام کا تصور ان نوجوانوں سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی۔
آپ کی تمام باتون سے مجھے اتفاق ہے مگر سرخ کشیدہ الفاط کی وضاحت کریں تو ممنون ہوں گامیرے محترم بھائی یہ " دین اسلام " جسے آپ انسانیت کی معراج ٹھہرا رہے ہیں ۔
کیا آپ کی نگاہ میں اس کی ابتدا آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک سے ہے ۔۔۔ ۔؟
اور جہاں تک بات ہے کہ " آغوش اسلام " میں آنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہما " انسانیت " کے مفہوم کو جان کر " انسانیت کی معراج تک پہنچے ۔ تو میرے بھائی یہ انسانیت سے آگاہی ہی تھی جس کی بنا پر جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق پر ہونے کی گواہی دینے میں کوئی تاخیر نہ کی تھی ۔۔۔
جناب ابراہیم علیہ السلام کس " دین اسلام " کی آغوش میں تھے ۔۔۔ ۔؟
آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی کس " دین اسلام " کی آغوش میں بسر کرتے " صادق و امین سچا اور راستباز " کے مدارج طے کیئے تھے ۔۔۔ ۔۔؟
قران پاک جس دین اسلام کو بیان کرتا ہے ۔ وہ کون سی اسلامیت کو انسانیت سے برتر قرار دیتا ہے ۔۔ ؟
انسانیت سب سے برتر سب سے اعلی ہے ۔ اور اس کی دلیل " عبدہ و رسولہ " ہے ۔
اور اس پر آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خالق حقیقی کی جانب سے " رحمت للعالمین " کا خطاب پانا ہے ۔
دین اسلام ۔ سلامتی کا دین ہے ۔ اور انسان اول کے وجود میں آنے کے بعد سے رائج ہے ۔
قران پر قائم " دین اسلام " گزرے وقت میں اللہ کی جانب سے انسانوں تک پہنچنے والے تمام پیغامات کو " تحریف " سے پاک کرتا سچے اسلام کو سامنے لاتا ہے ۔ اور انسانیت کے شرف کو واضح سمجھنے کے لیئے اللہ کی اپنے منتخب و محبوب پیارے رسول سے اک نابینا بارے گفتگو مددگار ہے ۔
بلا شک " عنداللہ دین اسلام ہی ہے " اور یہ گزرے وقت کے تمام عظیم انسانوں کے عمل و کردار کے نمونے اک ذات پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارکہ میں روشن " اسوہ حسنہ " کے اتباع پر استوار ہے ۔ اور کون نہیں جانتا کہ آپ کی ہستی پاک کسی بھی تفاخر و تفریق سے پاک انسانیت کا روشن چراغ ہے ۔
اسلامیت اگر کوئی سچا دین ہوتا تو " رب العالمین " کی جگہ " رب المسلمین " پکارا جاتا ۔۔۔ ۔ اسلامیت تو نام ہے انسانیت کی فلاح کے لیئے مصروف عمل رہنے کا ۔ اسلامیت انسانیت سے الگ کچھ بھی نہیں ۔ " مسلمان وہ ہے جو کہ اپنے ہر عمل سے انسان اور انسانیت کے لیئے بھلائی پھیلائے "