بہت خوبصورت لکھا ہے سید عمران بھائی۔ بڑی اچھی ملاقات رہی ہوگی ۔ملاقات کراچی محفلین بتاریخ ۲۵ اگست۲۰۱۹ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھپا رستم تو آپ نے سنا ہوگا اب چھپا مفتی بھی سن لیجیے۔ لیکن پہلے تذکرہ سن لیجیے اس تذکرہ کی وجہ کا۔۔۔
اے خان کا فون آیا۔ میں پھر کراچی آگیا۔ آپ پھر ملاقات کریں۔ ہم نے سوچا اکیلے ملنے سے بہتر ہے کراچی کے احباب محفلین کو بھی شامل کرلیا جائے، ان سے ملے بھی کئی دن ہوگئے تھے۔۔۔
واٹس ایپ گروپ پر خبر دی اے خان بھی آئے ہوئے ہیں اور ہم کو ملے بھی کافی دن ہوئے ہیں۔ کیا خیال ہے اس اتوار کو مل نہ لیا جائے۔ نو بجے صبح ۔ جگہ وہی استعمال شدہ!!!
دعوت کی اطلاع جاتے ہی آمادگی کی اطلاع آنے لگیں۔ دو احباب کو ان کے ذاتی واٹس ایپ نمبر پر اطلاع دی۔ بھائی امان اللہ خان اور بھائی شیخ محمد نواز ۔۔۔
اتوار کو صبح آٹھ بجے اے خان کا فون آگیا۔ کہنے لگا میں نکل رہا ہوں۔ ہم نے کہا زیادہ ایفیشینسی نہ دکھاؤ اور آدھے گھنٹہ بعد ہمارے گھرآؤ۔ وہاں سے ساتھ روانہ ہوتے ہیں۔ وہ آدھے گھنٹے بعد اپنے گھر سے روانہ ہوئے۔ ٹھیک نو بجے نواز بھائی کا فون آگیا۔کہا مالک ہوٹل کے بالکل سامنے کھڑا ہوں۔ اس طرح ہمارے کل کے ونر ٹھہرے نواز بھائی جو ٹھیک وقت پر پہنچ گئے تھے ۔۔۔
ہم نے کہا اے خان آیا ہی چاہتے ہیں، ان کے آتے ہی ہم نکلا ہی چاہتے ہیں ۔ اس دوران آپ ہمت و حوصلہ سے کام لیں۔ اور ہاں، گھبرانا بالکل نہیں ہے۔۔۔
ذرا دیر بعد فاخر رضا بھائی کا فون آگیا۔ میں تو پہنچ گیا، آپ کہاں تک پہنچے؟ ہم نے کہا ہر کوئی آپ کی طرح پہنچا ہوا نہیں ہے۔ ہم تھوڑی دیر میں پہنچیں گے۔ آپ کو نواز بھائی کا نمبر دیتے ہیں، ان سے رابطہ کریں، پھر دونوں مل کر ہمارے لیے جگہ گھیریں۔۔۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ امان اللہ بھائی کا فون آگیا۔ ہم نے فاخر بھائی والا عمل کاپی پیسٹ کیا۔ اس کے بعد محمد امین صدیق بھائی کو فون کیا۔ انہوں نے کہا میں بیس منٹ میں پہنچ رہا ہوں ۔ آپ میرا انتظار کرنا۔ اور میرے پہنچنے سے قبل ناشتہ نہ چٹ کرجانا۔ غالباً وہ ہماری بچپن والی اس حرکت سے خوفزدہ تھے ۔۔۔
ان سے فارغ ہو کر ہم نے اے خان کو فون کیا۔ وہ گھر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ہم باہر نکل آئے،وہ ہمارے سامنے نکل آئے۔پھر ہم دونوں ہوٹل جانے والے راستہ پر نکل آئے۔۔۔
ہوٹل پہنچے تو دیکھا سب بے تکلفی سے گھلے ملے بیٹھے ہیں جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ ہم زندگی میں پہلی بار بھائی امان اللہ خان اور بھائی نواز سے ملے۔ ۔۔
تعارف ہوا تو معلوم ہوا امان اللہ بھائی مفتی ہیں۔ یہ تھے وہ چھپے مفتی جن کا شروع میں تذکرہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد کاؤ بوائے ہیٹ پہنے امین بھائی آگئے۔ امین بھائی اطمینان رکھیں، مجال ہے جو ہم نے آپ کی آمد سے قبل ناشتہ کے نام پر پانی کا ایک گھونٹ بھی پیا ہو۔اب بھوک زوروں پر تھی اور صبر کا یارا نہ تھا۔ لہٰذا ناشتہ کا آرڈر دے دیا ۔۔۔
جلد ہی حلوہ پوری، قیمہ اور مغز نہاری آگئے۔ پوریاں سالن آیا تو فاخر بھائی نے کہا یہ کیا مذاق ہے۔ حلوہ پوری میں حلوہ کہاں ہے؟ کہا حلوہ کا الگ سے آرڈر دیں ۔ انہوں نے حلوہ کا الگ سے آرڈر دیا۔ حلوہ الگ سے آگیا۔ تھوڑی دیر بعد خالد محمود چوہدری بھائی کو بھی جوش اٹھا۔ انہوں نے منیجر کو بلوایا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا پراٹھا۔ انہوں نے کہا آئندہ پراٹھے کے نام پر اس شے کو بنانا بند کردیں۔ اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا جو حکم جناب۔ ناشتہ کے بعد چائے آئی۔ ہم نے خالد بھائی سے کہا چائے میں پاؤڈر کا دودھ ڈالا گیا ہے۔ ذرا بھی اچھا ذائقہ نہیں۔ آپ فوراً منیجر کو بلوا کر چائے بھی بند کروادیں۔
چائے اور پراٹھے کے علاوہ ہر ڈش لذیز تھی۔ سب نے خوب سیر ہوکر کھایا۔ کھانے کے دوران خوب گپ شپ رہی۔ دو نئے مہمان بھی اس طرح شامل رہے کہ اجنبیت کا کوئی احساس نہ تھا۔۔۔
ناشتے کے تھوڑی دیر بعد امان اللہ بھائی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مصروفیات کی بنا پر میں ناشتے کے بعد چلا جاؤں گا ۔ امان بھائی کے جانے کے بعد سب ہل پارک روانہ ہوئے۔ امین بھائی ہوں اور محفل گائیکی نہ ہو۔ ایں خیال است و محال است وغیرہ۔۔۔
ہل پارک میں سنگی چھتری تلے امین بھائی کی پرسوز آواز سے لطف اندوز ہوئے۔ موسم سہانا تھا، آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور ہوا تیز تھی۔ ساتھ ساتھ موسم سے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں کیں۔ اگلی ملاقات پہ ملنے کا ارادہ کیا۔ اور گلے مل کر خوشی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے!!!