چند دن پہلے(15دسمبر کو) چائے کا عالمی دن بنایا گیا ۔ ہم یہ پڑھ کے حیران ہوئے کہ ہر روز دو ارب لوگوں کی صبح کا آغاز اس ناہنجار مشروب سے ہوتا ہے۔ اور روز بروز یہ تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ یہ مضمون یقیناً کسی چائے فروش کمپنی نے ہی چھپوایا ہو گا وگرنہ ” دو ارب نادان لوگ “ دماغ نہیں مانتا۔ چائے کا آغاز 1500 سو سال قبل حادثاتی طور پر ہوا تھا جب ابلے پانی میں اسکی کچھ پتیاں گریں تو پانی کا ذاٸقہ بدل گیا ۔ بس اس وقت سے اسی گھاس پھوس کو پانی اور دودھ میں ابال ابال کے پیا اور پلایا جا رہا ہے۔ شروع شروع میں یہ مریضوں کو صحتیابی کے لیے دی جاتی تھی اور اب صحتیاب لوگوں کو مریض بنانے کے کام آتی ہے۔ گھر آئے مہمان کی کتنی خاطر داری کر لو مگر جب تک چائے نہ پلاو ، مہمان خوش نہیں ہوتے ۔ چائے کی لت ایسی ہے جس کو لگ جائے تو تا زندگی چھوٹتی نہیں ۔ بعض لوگ اتنی چائے پیتے ہیں کہ بلڈ ٹیسٹ کروانے جاٸیں،
تو رپورٹ میں بلڈ گروپ کے بجائے چائے کی برانڈ لکھی ہوتی ہے ۔ اور کبھی ایسے لوگ بیمار پڑ جاٸیں تو انکی خواہش ہوتی ہے انکو ڈرپ بھی گلوکوز کے بجائے چائے کی ہے لگے ۔
چائے کو رواج دینے میں ادیبوں، اداکاراٶں اور میڈیا کا ہاتھ ہے ۔ ہم نے ” غبار خاطر ” پڑھی اس میں اگر آپ چائے اور فارسی اشعار نکال دو تو پیچھے زنداں نامہ ہی بچتا ہے ۔ لوگ ادیبوں کی تخلیقات اور حسیناٶں کی تجلیات کی وجہ صرف چائے ہی کو سمجھتے ہیں اور کپ کے کپ چڑھا کے بھی انکے حالات بدلتے ہیں نہ خیالات ۔ ہم نے کل ایک چائے کا ایڈ دیکھا جس میں ایک شوگر کے مریض صاحب کو انکی بیٹی ایک نٸے انداز میں چائے میٹھی کر کے دے رہی تھے ۔ اس وقت ہمیں خیال آیا کوٸی ایسی ہی حسینہ ہمیں بھی اسی طریقے سے چائے میٹھی کر کے دیتی رہے پھر ہم چائے پی سکتے ہیں ورنہ یہ تلخ و شیریں مشروب پینا محال ہے ۔
چائے پہ لکھا جانا والا ادب بھی کافی زیادہ ہے ۔ پورے گروپ کے گروپ چائے پہ بنے ہوئے ہیں ، جہاں سارے چائے نوش جمع ہوکے اپنی اس ” لیلیٰ “ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں ۔ نثر و شاعری کے بیچ بیچ مختلف اقسام کی چائے اور کراکری کی تصویریں شٸیر کر کے چائے نوشوں کو للچاتے ہیں ۔ ہمیں چائے سے نفرت کے باوجود چائے پہ لکھے جانے والے ادب سے کافی دلچسپی ہے ۔ چائے پہ لکھے جانے والے اشعار میں سے ہمارا پسندیدہ شعر یہ ہے ۔
ہم نے قطرہ قطرہ زندگی جینی ہے
اس کے ہونٹوں پہ لگی چائے پینی ہے
چائے کی مختلف اقسام ہوتی ہیں ۔جن میں عام چائے ، کشمیری چائے، سبز چائے ، سیلمانی چائے اور وغیرہ وغیرہ ہیں ۔ اور لیمن گراس کے نام کی ایک گھاس بھی چائے ہی کی طرح پی جاتی ہے ۔ ایک دفعہ ایک دوست نے ہمیں سیلمانی چائے کی آفر کی تو ہم اس کو ٹھکرا نہیں سکے ۔ ہم نے سوچا اتنے اولعزم نبی اور بادشاہ سے منسوب چائے تو پی کر دیکھیں کیسی ہوتی ہے ۔ جب چائے بن کے سامنےآٸی اور پی کر دیکھی تو پتہ چلا بغیر دودھ کے عام سی چائے ہے جس میں مٹھاس کچھ زیادہ تھی۔ ہم نے ایک گھونٹ پیا اور سیلمانی چائے واپس لوٹا دی ۔ چائے میں کچھ بہتر چائے کشمیری چائے ہوتی ہے ۔ گلابی چائے مں بادام ، کھوپڑا اور کھویا پڑا ہوتا ہے۔ مگر کشمیر کی آزادی کی طرح اسے بھی اچھے سے بنانا کافی مشکل ہے ۔