اردو کا جنازہ
محفل میں کسی شخص نے سر عبد القادر کے سامنے عطاء اللہ بخاری کی جادو بیانی کی بہت تعریف کی۔ سر عبد القادر بولے، " ہاں بھائی، عطاء اللہ شاہ بخاری خوب بولتے ہیں لیکن محسن الملک مرحوم بھی کسی سے کم نہ تھے۔"
پھر انہوں نے نواب محسن الملک مرحوم کی جادو بیانی کا ذکر کرتے ہوئے دو واقعات سنائے، کہنے لگے۔
1900ء میںیوپی کے لفٹیننٹ گورنر سر انتونی میکڈانل نے اردو کے خلاف مہم شروع کی تو نواب محسن الملک نے اس کا جواب دینے کے لیے لکھنؤ میں ایک بہت بڑا جلسہ کیا جس میں، میں بھی شریک ہوا۔ محسن الملک نے اس جلسے میں جس جوش و خروش سے تقریر کی، اس کی نظیر میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ یوں سمجھئے کہ الفاظ کا ایک لاوا تھا جو اُبل اُبل کر پہاڑ سے نکل رہا تھا۔ آخر میں نواب محسن الملک نے یہ کہتے ہوئے کہ اگر حکومت اردو کو مٹانے پر ہی تُل گئی ہے تو بہت اچھا، ہم اردو کی نعش کو گومتی دریا میں بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے اور والہانہ انداز میں یہ شعر پڑھا :
چل ساتھ کہ حسرت دل محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
(اقتباس : نور احمد چشتی کی کتاب "یادگار چشتی" سے)