ثابت ہوا کہ آپ واقعی بڑے آدمی ہیں، کہ یہ عارضہ جو آپ نے فرمایا ہے ’’خلجان‘‘ ، یہ بڑے لوگوں کا ’’چونچلا‘‘ ہے۔
حکیم چورن کے استغناء کا ہمارا ایک عرصے کا مشاہدہ تھا۔ اُس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
کھاٹ پہ بیٹھے بیٹھے کہنے لگے: ’’میاں صاحب زادے، پانی کا ایک پیالہ تو لانا‘‘۔ ہم نے گھڑونجی سے پانی کا پیالہ بھرا ۔ تب تک حکیم صاحب کسی نوع کا چورن چمچ بھر اپنی ہتھیلی پہ رکھ چکے تھے۔ اسے پھانکا، پانی کا پورا پیالہ پی لیا اور لمبی سانس کے ساتھ الحمد اللہ کہا۔ کھاٹ پر ہی لمبے لیٹ گئے، آنکھیں موند کے کہنے لگے: ’’میاں ذرا میرے پاؤں تو داب دو‘‘۔ ہمارے لئے اس سے زیادہ خوشی کا مقام اور کیا ہوتا بھلا۔ ہم پورے خلوص اور زور سے اس خدمت میں جُٹ گئے۔ آنکھیں ذرا سی کھولیں، مسکرا کر بولے: ’’میاں پاؤں دابنے کو کہا ہے، تم ہمیں دابنے کو تلے بیٹھے ہو کیا؟‘‘ ہم تو خفت کےمارے چپ رہے اور ہاتھوں کا دباؤ کچھ گھٹا دیا۔ وہ بولے: ’’چلو یوں ہی سہی‘‘، اور پھر چپکے ہو گئے۔ پاؤں دابتے ہمیں کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی، ہمیں لگا جیسے انہوں نے ٹانگ کو سکیڑنے کی کی ہو، پر کھینچی نہیں! نیند سے پہلے کا عالم ہو گا شاید۔ہم نے ان کے چہرے پر نگاہ ڈالی،ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھے سوچا حسبِ معمول کچھ نہ کچھ پڑھ رہے ہوں گے۔
انہوں نے جیسے ہچکی سی لی ہو۔اور پھر۔ ۔ ۔ وہاں حکیم صاحب نہیں تھے، ان کا جسم تھا بس! ہمارے ذہن میں ان کے الفاظ گویا دھماکے کر رہے تھے جو انہوں نے کچھ ہی دن پہلے کہے تھے: ’’خلجان، خفقان، سوہان؛ یہ سب بڑے آدمیوں کے چونچلے ہیں میاں صاحب زادے! ہم جیسوں کا کیا ہے، تپ چڑھا مر گئے! بہت نخرہ کیا تو دل کی چھٹی ہو گئی، اور ساتھ اپنی بھی۔ نہ ہسپتال نہ ٹیسٹ نہ داخلہ نہ کوئی جھنجھٹ! ارے دنیا سےجانا ہی تو ہے نا، بس۔ اتنے سے کام کے لئے کون ان سب جھمیلوں میں پڑا رہے! چپکے سے سدھار لو، جسے جس کو خبر کرنی ہو گی کر لے گا۔ تم اپنی راہ ناپو!‘‘
میاں، بس اٹھو اور یاں سے چلو اَب
بہت جی لئے، اس جہاں سے چلو اَب
چلو، سر کریں کچھ منازل یقیں کی
مقاماتِ وہم و گماں سے چلو اَب
۔۔