ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ میڈیا اور محفلین کی نظر میں

الف نظامی

لائبریرین
کہا گیا ہے کہ اس لانگ مارچ نے جمہوریت کو داؤ پر لگادیا تھا اور ایک لمحے کو تو جمہوریت کے ناخدا اس کی کشتی کو گرداب میں دیکھ کر سینہ کوبی میں مصروف تھے ۔ اس دوران لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس، جس میں کئی علماء اور قوم کے نجات دہندہ موجود تھے، کی تصاویر دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا۔ کیا ہم نے اسے کوئی تاریخی حقیقت سمجھ لیا ہے کہ جمہوریت میں ہی ہماری نجات ہے؟اگر یہی افراد جمہوریت کے چیمپئن ہیں توپھر میرے جذبات کے لئے صحافتی زبان ناکافی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور تصویر عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان کی ہے جب وہ پنجاب اسمبلی، جس کی عمارت مخصوص شخصی رویوں کی علامت بن چکی ہے، کے سامنے موم بتیاں روشن کر رہے تھے۔ واہ، میرے یہ دونوں دوست کتنے جذباتی ہورہے تھے!اب ذرا لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ جمہوریت کے خلاف وہ کون سی خفیہ سازش تھی جس کے تانے بانے ڈاکٹر قادری صاحب بن رہے تھے؟خدا کی پناہ، وہ صرف جمہوری عمل کو شفاف بنانے اور بدعنوان ، ٹیکس چور اور قرضہ معاف کرانے والے دولت مند افراد کا اقتدار میں راستہ روکنا چاہتے تھے۔ اسے جمہوریت کے خلاف سازش کیسے کہا جا سکتا ہے؟لیکن پروفیسر صاحب پر تنقید کی بوچھاڑ جاری رہی کہ وہ کچھ خفیہ مقاصد رکھتے ہیں۔ بعض دانشوروں نے یہ بھی کہا کہ وہ بلٹ پروف کیبن میں کیوں ہیں جبکہ اُن کے پیروکار باہر سخت سردی کا عذاب اپنی جان پر جھیل رہے ہیں ۔ کچھ کو اس ساری کارروائی میں کوئی خفیہ ہاتھ بھی نظر آگیاجو جمہوریت کو پٹری سے اتارنا چاہتا تھا۔ جن کو کچھ نظر نہ آیا اُنھوں نے ان کی دہری شہریت اور ٹوپی پر ہی تنقید کرتے ہوئے خود کو جمہوریت کا محافظ ثابت کر لیا۔
 
حضرت جی، باقی بات کا جواب بعد میں پہلے تصحیح فرما لیں کہ میں نے عملی لکھنا تھا جو غلطی سے علمی لکھا گیا۔
میں معذرت خواہ ہوں۔ باقی بات وہی ہے جو میں پہلے کہہ چکا ہوں۔
یعنی عذرِ گناہ بدتر از گناہ۔۔یہ پہلے والی سے بھی بدتر بات ہے۔گویا اسوہِ حدیبیہ کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ عملی طور پر اس عظیم ہستی کے ہم پلہ ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین۔۔بٹ صاحب آپ ذرا قیلولہ فرماکر پوری طرح ہوش و حواس میں آجائیں اسکے بعد بات کریں گے;)
 
بہت سی باتیں صرف محسوس کی جا سکتی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ ناصحانہ توپوں کا رخ واضح طور پر جانب دار ہے ۔ جب روحانیت چھینٹے اڑاتی ہے تو کسی کی نظر نہیں پڑتی ۔ تصوف کی پیشہ ورانہ مجبوری ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
یعنی عذرِ گناہ بدتر از گناہ۔۔گویا اسوہِ حدیبیہ کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ عملی طور پر اس عظیم ہستی کے ہم پلہ ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین۔۔بٹ صاحب آپ ذرا قیلولہ فرماکر پوری طرح ہوش و حواس میں آجائیں اسکے بعد بات کریں گے;)
حضرت جی، اگر آپ کے شیخ واقعہ کربلا کا ذکر کر کے خود کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور اپنے ساتھیوں کو ان کے ساتھیوں کے جیسا قرار دیں تو جائز اور قبول لیکن اگر کوئی اور ویسی ہی بات دلیل کے طور پر کرے تو اعوذ باللہ، اعوذ باللہ؟ اس تضاد کی وجہ سمجھا دیجئے!
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت سی باتیں صرف محسوس کی جا سکتی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ ناصحانہ توپوں کا رخ واضح طور پر جانب دار ہے ۔ جب روحانیت چھینٹے اڑاتی ہے تو کسی کی نظر نہیں پڑتی ۔ تصوف کی پیشہ ورانہ مجبوری ۔
محترمہ آپ براہ کرم مسلمانوں اور کافروں کے مابین گفتگو کا قرآنی اصول دیکھ لیجیے اور جب غیر مسلموں سے گفتگو کا یہ عالم ہے تو مسلمانوں میں باہم گفتگو کا انداز کیا ہونا چاہیے آپ خود اخذ کر لیجیے۔
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃ وَالْمَوْعِظَۃ الْحَسَنَۃ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِہ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ. [النحل:125]
 
حضرت جی، اگر آپ کے شیخ واقعہ کربلا کا ذکر کر کے خود کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور اپنے ساتھیوں کو ان کے ساتھیوں کے جیسا قرار دیں تو جائز اور قبول لیکن اگر کوئی اور ویسی ہی بات دلیل کے طور پر کرے تو اعوذ باللہ، اعوذ باللہ؟ اس تضاد کی وجہ سمجھا دیجئے!
حضرت واقعہ کربلا کا ذکر کرنے سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ ان ہستیوں جیسا کوئی ہوسکتا ہے۔۔۔ڈاکٹر طاہر القادری نے حسینیت اور یزیدیت کا ذکر کیا ہے حسین (علیہ السلام) اور یزید کا ذکر نہیں کیا۔چنانچہ کوئی بھی معقول شخص جو بقائمی ہوش و حواس ہے اس بات سے یہ مطلب نہیں نکال سکتا کہ حسینیت سے inspirationلینے کی بات کرنے والا بندہ خود نعوذ باللہ حسین علیہ السلام کے ہم پلہ ہونے کی بات کر رہا ہے۔۔۔
 

عاطف بٹ

محفلین
حضرت واقعہ کربلا کا ذکر کرنے سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ ان ہستیوں جیسا کوئی ہوسکتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے حسینیت اور یزیدیت کا ذکر کیا ہے حسین (علیہ السلام) اور یزید کا ذکر نہیں کیا۔چنانچہ کوئی بھی معقول شخص جو بقائمی ہوش و حواس ہے اس بات سے یہ مطلب نہیں نکال سکتا کہ حسینیت سے inspirationلینے کی بات کرنے والا بندہ خود نعوذ باللہ حسین علیہ السلام کے ہم پلہ ہونے کی بات کر رہا ہے۔۔۔
غزنوی صاحب، ذرا اپنے شیخ کی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کی گئی تقریریں سن لیں تاکہ آپ بات تو صحیح حوالوں کے ساتھ کرنے کے قابل ہوسکیں۔
 
غزنوی صاحب، ذرا اپنے شیخ کی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کی گئی تقریریں سن لیں تاکہ آپ بات تو صحیح حوالوں کے ساتھ کرنے کے قابل ہوسکیں۔
اول تو وہ "میرے" شیخ نہیں ہیں۔ البتہ میں انہیں ایک قابل آدمی سمجھتا ہوں اور انکی عزت کرتا ہوں۔۔دوسرے یہ کہ دعویٰ اور الزام تو آپ نے عائد کیا ہے، ثبوت بھی آپ ہی دیں کہ کہاں انہوں نے کہا ہے کہ نعوذ باللہ "میں اور میرے ساتھی حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں جیسے ہیں"۔۔اور اگر یہ ثبوت نہ لاسکیں تو اخلاقی جرات کا ثبوت دیتے ہوئے یہاں معذرت کریں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
اول تو وہ "میرے" شیخ نہیں ہیں۔ البتہ میں انہیں ایک قابل آدمی سمجھتا ہوں اور انکی عزت کرتا ہوں۔۔دوسرے یہ کہ دعویٰ اور الزام تو آپ نے عائد کیا ہے، ثبوت بھی آپ ہی دیں کہ کہاں انہوں نے کہا ہے کہ نعوذ باللہ "میں اور میرے ساتھی حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں جیسے ہیں"۔۔اور اگر یہ ثبوت نہ لاسکیں تو اخلاقی جرات کا ثبوت دیتے ہوئے یہاں معذرت کریں۔
مجھ میں اخلاقی جرات کتنی ہے اس کا ثبوت میں کچھ دیر پہلے دے چکا ہوں، البتہ آپ ذرا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کی طرح ایک ہی رٹ لگانے کی بجائے خود بھی کچھ چیزیں پر دھیان دے لیں تاکہ آپ کو بار بار ثبوت مانگنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔
 
مجھ میں اخلاقی جرات کتنی ہے اس کا ثبوت میں کچھ دیر پہلے دے چکا ہوں، البتہ آپ ذرا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کی طرح ایک ہی رٹ لگانے کی بجائے خود بھی کچھ چیزیں پر دھیان دے لیں تاکہ آپ کو بار بار ثبوت مانگنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔
میں نے تو کسی پر الزام نہیں لگایا بلکہ میں ایک مسلمان آدمی پر اندھادھند الزامات کی بارش کرنے والوں کی جہالتوں اور حماقتوں کی نشاندہی ضرور کر رہا ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کی حرمت میرے نزدیک کعبۃاللہ کی حرمت سے زیادہ ہے (حجتہ الوداع کے خطبے کی روشنی میں)۔۔۔اور جب جب آپ جیسے متعصب افراد اپنی اندھی نفرت کے جوش میں کسی مسلمان کی حرمت کو پامال کرتے ہیں، مجھے اس پر دکھ ہوتا ہے اور میں اپنی بساط کے مطابق اس بات کو غلط کہتا رہتا ہوں۔۔الحمد للہ علیٰ ذٰلک
 

عاطف بٹ

محفلین
میں نے تو کسی پر الزام نہیں لگایا بلکہ میں ایک مسلمان آدمی پر اندھادھند الزامات کی بارش کرنے والوں کی جہالتوں اور حماقتوں کی نشاندہی ضرور کر رہا ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کی حرمت میرے نزدیک کعبۃاللہ کی حرمت سے زیادہ ہے (حجتہ الوداع کے خطبے کی روشنی میں)۔۔۔ اور جب جب آپ جیسے متعصب افراد اپنی اندھی نفرت کے جوش میں کسی مسلمان کی حرمت کو پامال کرتے ہیں، مجھے اس پر دکھ ہوتا ہے اور میں اپنی بساط کے مطابق اس بات کو غلط کہتا رہتا ہوں۔۔الحمد للہ علیٰ ذٰلک
حضور، آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو سفید دن کو رات کہنے کی ضد پر اڑے رہنا چاہتے ہیں، سو آپ سے بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
 

متلاشی

محفلین
میں نے تو کسی پر الزام نہیں لگایا بلکہ میں ایک مسلمان آدمی پر اندھادھند الزامات کی بارش کرنے والوں کی جہالتوں اور حماقتوں کی نشاندہی ضرور کر رہا ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کی حرمت میرے نزدیک کعبۃاللہ کی حرمت سے زیادہ ہے (حجتہ الوداع کے خطبے کی روشنی میں)۔۔۔ اور جب جب آپ جیسے متعصب افراد اپنی اندھی نفرت کے جوش میں کسی مسلمان کی حرمت کو پامال کرتے ہیں، مجھے اس پر دکھ ہوتا ہے اور میں اپنی بساط کے مطابق اس بات کو غلط کہتا رہتا ہوں۔۔الحمد للہ علیٰ ذٰلک
ویسے یہ بھی عجب گورکھ دھندہ ہے ایک مسلمان کی حرمت کی حفاظت کرتے ہوئے دوسرے مسلمان کی حرمت کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں ۔۔۔!
 
ویسے یہ بھی عجب گورکھ دھندہ ہے ایک مسلمان کی حرمت کی حفاظت کرتے ہوئے دوسرے مسلمان کی حرمت کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں ۔۔۔ !
بات تو واقعی افسوسناک ہے ۔۔لیکن بقول اقبال۔۔
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
:)
 

نایاب

لائبریرین
بہتر ہوتا اگر آپ دونوں بھائی طاہرالقادری کو سمن جاری ہونے والے دھاگے میں موصوف کے ڈنمارکی کارٹونسٹ سے ملاقات کو بنیاد بنا کر شہریت حاصل کرنے، کینیڈین حکومت سے خرابیِ صحت کی بنیاد پر مالی امداد لینے اور جدید لشکرِ حسینی کے کربلائے ڈی چوک میں یزیدیوں کے ساتھ مذاکرات و مفاہمت پر بھی روشنی ڈال دیتے!
ملعون کارٹونسٹ سے ملاقات کنیڈین شہریت کی بنیاد ۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے ۔
قادری صاحب کیوں ملے اس ملعون سے ۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا نیت تھی ان کی یہ قادری صاحب جانیں اور ان کا رب جانے ۔۔
اور ویسے بھی یہ صرف " فیس بکیئے " دانشوروں کی دانشوری محسوس ہوتی ہے ۔ جو اکثر ایسی شرلیاں چھوڑتے رہتے ہیں ۔
ویسے اگر ممکن ہو تو میرے بھائی افادہ عام کے لیئے کنیڈین گورنمنٹ کی جانب سے جاری کردہ وہ ثبوت جو اس افسانے کی بنیاد ہے اسےبھی لنک دیکر پوسٹ کر دیں ۔
کنیڈین گورنمنٹ سے خرابی صحت پر مالی امداد حاصل کرنا ۔ اک غیر مسلم مملکت اپنی شہریت کے حامل شہریوں کو بلا تخصیص مذہب وہ تمام سہولیات فراہم کرتی ہے ۔ جو کہ اس کا حق تسلیم کیا گیا ہے ۔ یہ تو کنیڈین گورنمنٹ کی جانب سے اک سہولت ہے ۔ اور اس سہولت کو ٹھکرانا جوکہ انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے " کفران نعمت " قرار پاتا ہے ۔
اگر قادری صاحب کہیں کسی اسلامی ملک میں ہوتے تو شہریت ملنا تو دور کی بات امداد ملنا اک خواب ۔۔۔۔ بلکہ اپنے پلے سے اسلامی ملک کو " سہولت " ادا کرتے ۔
ویسے یہ اک فقہی مسلہ ثابت ہو سکتا ہے کہ " کیا اک مسلم کسی غیر مسلم ملک سے امداد لے سکتا ہے ۔" اک دھاگہ شروع کرتے ہیں اور اس مسلے کی سنگینی کو سامنے لاتے ہیں ۔۔۔۔
آپ جیسی پڑھی لکھی صاحب علم ہستی کی جانب سے فلسفہ " حسینیت اور یزیدیت " کو اس قدر محدود کرنا ۔ تعجب کا سبب ہے ۔
اس " لانگ مارچ " میں " حسینیت و یزیدیت " کن معنوں اور مفہوم میں استعمال کیئے گئے یہ آپ جیسی صاحب علم استاد ہستی بخوبی جانتی ہے ۔
مذاکرات کرتے مفاہمت کی راہ تلاش کرنا ہر عاقل و باشعور انسان کا فرض ہے ۔ یہ تو پاکستان کی منتخب حکومت اور اس کی اتحادیوں سے مذاکرات ہوئے ہیں ۔ اور ان مذاکرات سے لانگ مارچ کی بنیاد " امیدواروں کی مکمل چھان بین " کی شرط 30 دن کی مدت کے ساتھ منوائی گئی ہے ۔
اور یہی قادری صاحب کا قصور ہے ۔ کہ انہوں نے پر امن اختتام کی راہ اپنائی ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بھائی اردو محفل پر میری تمام پوسٹس پڑھ لیں، اگر کہیں میں نے یہ امیر المومنین والی بات کہی ہو تو میں مجرم۔۔۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ یہ امیرالمومنین والا شوشہ آپ مجھ سے کیوں منسوب کر رہے ہیں۔
نہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ ان کو امیر المؤمنین کہہ رہے ہیں، آپ ان کے بارے میں صرف اتنا فرماچکے کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کی تقلید کی ہے اور میرا بیان اس ضمن میں یہی ہے کہ اس کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، ہم اور آپ کچھ نہ کہیں تو بہتر ہے۔۔۔
محمود احمد غزنوی صاحب آپ بین بجاتے رہیں یہ بھینسیں آپ کے قابو میں نہیں آنے کی کیونکہ ان کو جو چارہ آتا ہے وہ میڈ ان نجد ہے۔
محترم آپ بات کو بالکل غلط سمت میں لے گئے ۔۔۔ طاہر القادری صاحب سے تو جہاں تک میرا ناقص علم کہتا ہے، اہلسنت اور شیعان بھی اتفاق نہیں کریں گے ۔۔۔ اہل نجد یا کسی اور چھوٹے موٹے مٹھی بھر تعداد والے فرقوں کی تو بات ہی کیا ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
حضور، آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو سفید دن کو رات کہنے کی ضد پر اڑے رہنا چاہتے ہیں، سو آپ سے بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
اس پورے دھاگے کا مزاج جیسا بن گیا ہے، میں سمجھتا ہوں اس سے احتراز ہی بہتر ہے۔۔۔ سو میں تو یہاں سے واک آؤٹ کر رہا ہوں ۔۔ کسی نے آواز دی تو شاید مجبورا آنا پڑے ۔۔۔ ورنہ نہیں ۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
علامہ ناگہانی کا سفر انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔جس حکومت کو ختم کرنے کی قسم کھائی تھی، اسی سے قطار اندر قطار ’’جپھیاں‘‘ ڈال کر تصویریں بنوائیں اور فتح کا اعلان کر دیا۔ اسمبلیاں بدستور قائم ہیں اور16 مارچ تک قائم رہیں گی یا شاید ایک دو دن پہلے ٹوٹ جائیں گی۔ الیکشن کمیشن بھی جوں کا توں رہے گا۔ حکومت بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔ وہی حکومت جو علامہ ناگہانی کے اسلام آباد نازل ہوتے ہی ’’سابق‘‘ ہوگئی تھی۔ان چند چھوٹے چھوٹے معاملات کو چھوڑ کر باقی جتنے ’’جائز‘‘ مطالبات تھے، تسلیم کر لئے گئے اور ڈیکلریشن آف دی کنٹینر عرف اعلان لانگ مارچ آف اسلام آباد میں سمو دیئے گئے۔ کامیاب دھرنے کو کامیاب ترین کامیابی مل گئی اور کیا چاہئے۔
بظاہر امریکی مولانا کا لانگ مارچ ٹھس ہو چکا۔اس لئے کہ مارچ کا آغاز یہ قسم اٹھانے سے ہوا تھا کہ اس کے اسلام آباد جاتے ہی حکومت ختم ہو جائے گی۔ وہ نہیں ہوئی۔ پھر افتتاحی خطاب میں حکومتوں اور اسمبلیوں کو آج ’’صبح گیارہ بجے تک ختم ہو جاؤ‘‘ کا حکم صادر فرمایا گیا لیکن گیارہ بجے، حکومت تحلیل ہوئی نہ اسمبلیاں۔ پھر الٹی میٹم پر الٹی میٹم اور ڈیڈ لائنوں پر ڈیڈ لائنیں دی جاتی رہیں جو سب ہوائیاں ثابت ہوئیں کہ چھوٹیں اور بجھ گئیں۔ مولانائے ڈیڈ لائن اپنے چالیس لاکھ جمع دس لاکھ ٹوٹل40ہزار شرکائے لانگ مارچ کو نئی نئی تاویلیں بتا کر بہلاتے رہے۔ اس دوران عدالت سے وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم آیا۔ مولانا نے عدالتی کارروائی کو بھی اپنے لانگ مارچ کا نتیجہ قرار دے دیا۔ نتیجہ کیا قرار دیا، اپنی فتح کا اعلان کر دیا اور مبارک ہو مبارک ہو کے اتنے زور دار نعرے لگائے کہ مریدین کو یوں لگا کہ ان کے مولانائے انقلاب کی بادشاہی شروع ہوگئی۔ پھر کہا کہ یہ آدھی فتح ہے، آدھی فتح کل کی تقریر کے بعد مل جائے گی۔ لیکن اگلے روز مزید آدھی فتح کیا ملتی، گزشتہ روز ملنے والی آدھی فتح بھی غائب غلّہ ہوگئی۔ پتہ چلا کہ وزیراعظم نہ صرف گرفتار نہیں ہوئے بلکہ انہیں گرفتار کئے جانے کا ارادہ بھی نہیں ہے ۔ایک ستم ظریف نے کہا، مولانا اتنی زور زور سے فتح کا ڈھول نہ کھڑکاتے اور مبارکباد وں کا توپ خانہ نہ چلاتے تو وزیراعظم کو اگلے روز ضرور گرفتار ہو جانا تھا۔مولانا نے اسلام آباد کی حدود میں قدم رنجہ فرماتے ہی فرمایا تھا کہ ’’حکومت ختم ہوگئی۔ اب یہ سابق ہو چکی ہے۔ اب یہ صدر سابق صدر ہے۔ یہ وزیراعظم سابق وزیراعظم ہے اور اب یہ ساری کابینہ سابق کابینہ ہے‘‘۔ حکومت کے سابق ہونے کے چوتھے روز انہوں نے سابق حکومت کو پیغام بھیجا، آؤ مذاکرات کر لو تاکہ میں واپس جا سکوں۔ فائیو سٹار شاہی کنٹینر میں بیٹھے بیٹھے لیٹے لیٹے کھڑے کھڑے بولتے بولتے قسمیں اٹھاتے اٹھاتے، ڈیڈ لائنیں دیتے دیتے حکمرانوں کو یزید کہتے کہتے تھک گیا ہوں۔ چنانچہ سابق حکومت کے سابق وزیروں کا وفد کنٹینر میں ایسے داخل ہو گیا جیسے خالی گھر میں بھوت آتا ہے۔(بلکہ بھوت آتے ہیں)
پھر تاریخ نے مسکراتے ہوئے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ کسی قائد انقلاب نے ’’سابق حکومت‘‘ سے مذاکرات کئے۔ سابق حکومت سے مذاکرات کامیاب رہے اور 40ہزاری مارچ کے10+40 لاکھ شرکاء کا پنڈال قائد انقلاب جیوے جیوے کے نعروں سے گونج اٹھا۔ تین صفحات پر مشتمل انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ انقلاب سابق حکومت کے دستخطوں سے برپا ہوا۔ یہ دستخط نہ ہوتے تو انقلاب برپا ہونے سے رہ جاتا۔چنانچہ برپا ہونے والی شے برپا ہوگئی، مارچ کے 40لاکھ10+لاکھ ٹوٹل40ہزار شرکاء گھروں کو سدھارے اور سابق حکومت حسب سابق کاروبار حکومت میں مصروف ہوگئی۔دوسرے لفظوں میں سابق حکومت نے تین صفحات پر دستخط کرکے انقلاب کو واپس اس کے گھر بھیج دیا۔
لیکن نہیں، انقلاب کو گھر کہاں بھیجا۔ حسینی قافلہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے اسی حکومت کے ’’اتحادی‘‘ بن گئے جسے وہ ایک ان پہلے تک کچھ اور ہی کہا کرتے تھے اور جسے اکھاڑ پھینکنے کی ایک ہزار ایک قسمیں انہوں نے کھائی تھیں۔ اب حکومت اور اس کے نئے اتحادی مل کر نگران وزیراعظم کا نام تجویز کریں گے۔ ہم ایک تھے ، ہم ایک ہیں۔ خود علامہ نے کہہ دیا ’’آئندہ ہم ساتھ بیٹھیں گے‘‘ ظاہر ہے، اب یہ یزیدی حکومت کہاں رہی، اب تو ۔۔۔!
_______________________
سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جو ’’جائز مطالبات‘‘ منظور کئے گئے ہیں، ان کی آئینی اور قانونی پوزیشن کیا ہوگی۔ بالکل بچگانہ سوال ہے۔ کسے پڑی ہے کہ ان مطالبات پر عمل ہوتا بھی دیکھے۔ علامہ کو ایک کٹّے(کٹڑے) کی تلاش تھی جس کی دم پکڑ کر وہ گھسٹتے گھسٹتے گھر پہنچ جائیں۔ حکومت نے ایک چھوڑ، دس دس کٹّے بھیج دیئے۔ ان دس ’’کٹوں‘‘ کو علامہ نے پہلے آلوستی‘‘ وفد قرار دیا، پھر تصحیح کی کہ اعلیٰ سطحی وفد۔ ظاہر ہے، نہ تھکنے والی زبان آخر تھک گئی، اور مارے تھکن کے اعلیٰ کو آلو اور سطحی کو ستی پڑھ دیا۔ بہرحال، یہ ’’آلو ستی کٹّے ‘‘خوش باش آئے، خوش باش گئے۔ ان میں وزیر اطلاعات کائرہ بھی تھے، جو علّامہ سے بغلگیر ہو کر ’’کائرالقادری‘‘ بن گئے۔ افسوس ان دس کٹّوں میں رحمان ملک شامل نہیں ہو سکے۔ باقی سب کو ملنے والا یزیدی خطاب واپس ہوگیا کہ کنٹینر میں آکر سب حر بن گئے، رحمن ملک کو ملنے والا شیطان کا خطاب واپس نہ ہو سکا۔ لگتا ہے وہ اندر کی بات سے بے خبر تھے، بے خبری میں مارے گئے۔ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ سب طے تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے معاہدہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا، وہ بھی مرا ہوا۔
بالکل غلط۔۔۔صحیح یہ ہے، کھودا پہاڑ، نکلے دس کٹّے بنادُم کے،
______________________________
دھرنا ئی انقلاب کی اس شاندار ناکامی اور ’’خیرہ کن ‘‘ رسوائی کا مطلب یہ نہیں کہا مریکہ بہادر آرام سے بیٹھ جائے گا یا اسٹیبلشمنٹ چپکی ہو رہے گی۔ انقلاب کے اصل مقاصد واپس نہیں لئے گئے اس لئے جو لوگ انقلاب کی اس ناکامی اور رسوائی کا مزہ لے رہے ہیں، انہیں خبردار رہنا ہوگا۔
انقلاب کا اصل مقصد الیکشن روکنا ہے۔ فی الحال یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا لیکن دوسرے وار کا اندیشہ جوں کا توں ہے۔ اور اگر الیکشن ملتوی نہ ہو سکے توامریکہ کی ناپسندیدہ جماعتوں کو شکست دینے کے لئے کئی طرح کے اتحاد بنائے جائیں گے۔ فی الوقت علامہ ناگہانی اور گجرات کے غریب بھائیوں کی سدابہار جھولی بردار جوڑی کے اتحاد کی تیاری مکمل ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان کو بھی ساتھ ملایاجائے کہ ان کے بغیر پنجاب میں اپ سیٹ نہیں دیا جا سکتا ۔لیکن رکاوٹ یہ ہے کہ عمران خاں امریکہ کے اتنے خلاف ہیں کہ وہ اس اتحاد کے نزدیک پھٹکنے کے لئے بھی تیار نہیں جس کا مقصد امریکہ نواز حکومت بنانا ہواور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ایسی خفیہ فائلیں بھی موجود نہیں ہیں جن کو ہتھیار بنا کر عمران خاں کو ڈرایا جا سکے۔ متحدہ اس محاذ میں شامل ہوگی لیکن اس کی شمولیت سے انتخابی نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کا پنجاب میں یا صوبہ خیبر میں کوئی ووٹ ہی نہیں ہے۔ بس کراچی میں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ یہ بات کبھی نہیں بھول سکتی کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو کس رسوا کن انداز میں گرفتار کیا تھا۔وہ یہ پینٹا گانی اتحاد ضرور بنائے گی جس کے جیتنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے لیکن جتوانے کا ہر جتن ضرور کرے گی۔
_______________________
ایک وفاقی وزیر نے یہ دلچسپ دعویٰ کیا ہے کہ پیپلزپارٹی جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش ناکام بنا دے گی۔
شاید وفاقی وزیر اصل میں یہ کہنا چاہتی تھیں کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لئے کسی دوسری جماعت کی طرف سے کی گئی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔ اس لئے کہ اس کام کے لئے ہم ہی کافی ہیں اور ہم نے پانچ سال محنت کی ہے، اب آخری لمحات میں اس نقصان کا کریڈٹ کسی اور کو مل جائے، یہ ہم گوارا نہیں کریں گے۔
_______________________
بشکریہ:
روزنامہ روزنامہ نئی بات
 

یوسف-2

محفلین
بلی کو سمجھانے آئے چوہے کئی ہزار​
ابونثر کا کالم​
شبہ ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے بھی ہمارے پیر و مرشد حضرت مولانا حافظ حسین احمد کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔علامہ اقبالؒ نے فارسی میں ایک قصہ سنایا تھا کہ ایک صبح مرغِ چمن نے خاکِ چمن سے پوچھا:
’’تجھ میں ایسی شوخ خوشبوکہاں سے آئی؟‘‘
خاکِ چمن نے مرغِ چمن کو جواب دیا:
’’میں نے ایک عمرپھُولوں کی صحبت میں بسر کی ہے۔۔۔‘‘
اس کے بعد جو بات کہی اُس کا مزہ فارسی ہی میں ہے۔مٹی کہتی ہے:
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
’’میرے ہم نشیں کے جمال نے مجھ میں یہ اثر پیدا کردیا ہے۔ورنہ میں توسراسر مٹی ہی ہوں‘‘۔
توگویا حافظ صاحب کی شوخ�ئ جمال نے مولانا صاحب پربھی اثر کردیا ہے، ورنہ وہ تو نرے مولاناکے مولانا ہی ہیں۔پہلے تو اُنھوں نے نوازشریف کی دعوت پر عمرہ جاتی میں ہونے والے حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں کے اجلاس کے بعد یہ گُل افشان�ئ گفتار دِکھائی کہ:
’’طاہرالقادری مسلمانوں کے جے سالک ہیں‘‘۔
ہم تو خیر ’’پنجرے‘‘ اور ’’کنٹینر‘‘کی رعایت سے بہت محظوظ ہوئے۔ لیکن یار لوگوں نے جھٹ پٹ اِس سے ایک بالعکس (Vice Versa) نتیجہ بھی نکال لیاکہ گویا:’’جے سالک مسیحیوں کے علامہ طاہر القادری ہیں‘‘۔
اِس پر وہ طوفان اُٹھاکہ الحفیظ و الامان۔شہریوں نے۔۔۔ اور بالخصوص اسلام آباد کے شہریوں نے۔۔۔شور مچادیا کہ:
’’جے سالک سے طاہرالقادری کو تشبیہ دینا درست نہیں۔جے سالک کی تو اپنی برادری کے لیے بڑی خدمات ہیں‘‘۔
اوراب علامہ طاہر القادری نے وقت کے ’’چوروں، ڈکیتوں، لٹیروں، خائنوں اور یزیدوں‘‘ وغیرہ وغیرہ سے ہاتھ اور چھاتی ملاکر جو اُنھیں چت کردیاہے اور تاریخ اقوامِ عالم میں ’’شاندار ترین فتح‘‘ حاصل کر لی ہے تواس پر بھی مولانا فضل الرحمٰن نے یہ فرمایا ہے کہ:
’’کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔۔۔ وہ بھی مرا ہوا‘‘۔
ہم نے مانا کہ آخر آخرمیں شیخ الاسلام کے چہرے پرکچھ مُردنی سی چھا گئی تھی اور ہمیں یہ بھی تسلیم کہ 95گھنٹے تک مسلسل کنٹینر میں بند رہنا پہاڑ کاٹنے ہی کے نہیں، پہاڑ کھودنے کے بھی مترادف ہے۔(ہرچند کہ۔۔۔ سامانِ عیش جملہ مہیا رہے وہاں)مگر یہاں پھر وہی بات آگئی۔ڈاکٹر صاحب کے کنیڈا چلے جانے سے پہلے ہی مولانا صاحب نے فتح کے نتائج (اورغالباً خودڈاکٹر صاحب) کو اﷲ کی جس مخلوق سے تشبیہ دی ہے، اُس پر ہم تن تنہا احتجاج کرتے ہیں۔یہ مخلوق تو نہ صرف بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دیتی ہے، بلکہ اُس سے ’’میوزیکل چیئر‘‘ بھی کھیلتی ہے۔جسے عُرفِ عام میں’’چوہے بلی کا کھیل‘‘ کہاجاتاہے۔ مگرچوں کہ ہمیں موقع بے موقع ’’شعر بکنے‘‘ کی عادت پڑگئی ہے، چناں چہ اِس موقع پر۔۔۔ یعنی فتح کے موقع پر۔۔۔ ہمارے منہ سے بھی صوفی تبسم کا یہ شعر نکل گیا:​
بلی کو سمجھانے آئے چوہے کئی ہزار
بلی نے اِک بات نہ مانی، روئے زار و زار
جب کہ بلی رہی ویسی ہی چوہا مار کی چوہا مار۔۔۔ شیخ الاسلام بھی اپنے دھرنے میں شریک’’لاکھوں ملین‘‘ عوام کے دو وقت کے چھیچھڑوں کی رکھوالی انھی بلیوں کو سونپ کر ایک خبر کے مطابق کنیڈا کو رحلت فرمارہے ہیں۔۔۔ رحلۃ سعیدہ! کرسی پارٹی اور ٹی پارٹی
حکومت سے،علامہ طاہر القادری کے’’ کامیاب مذاکرات‘‘سے جل کر۔۔۔ جس کے بعد علامہ نے اپنے سابق یزیدوں، سابق ٹیکس چوروں، سابق لٹیروں اور سابق ڈکیتوں کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیے(اورجس پر آسمان ٹھنڈی آہیں بھر بھر کر خاصی دیر تک روتا رہا)۔۔۔ جل ککڑوں اورحاسدوں نے یہ ’’پراپاگنڈہ‘‘ شروع کردیا ہے کہ علامہ صاحب حکومتی اتحاد یعنی ’’کرسی پارٹی‘‘ میں شامل ہوگئے ہیں۔جب کہ ہم نے کل کے کالم میں اُن کی چائے نوشی کے مناظر اُن کے کنٹینر سے براہِ راست آپ کو دکھائے تھے۔ باہر لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے تھے اور وہ اپنے گرماگرم کنٹینر میں بار بار ٹشوپیپر کی مددسے۔۔۔پسینہ پونچھتے اپنی جبیں سے۔۔۔ نیز چائے کے گرما گرم جرعات سے باربار لطف اندوز ہوتے۔یوں سمجھیے کہ وہ چائے پی پی کر حکومت کو کوس رہے تھے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ کرسی پارٹی میں شامل ہیں۔ ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ہماری پارٹی یعنی ’’ٹی پارٹی‘‘میں شامل ہیں۔اِسی شمولیت کی خوشی میں، ہمارا کل کا کالم پڑھ کر، ٹی پارٹی کی ایک سرگرم کارکن محترمہ قانتہ رابعہ صدیقی نے، گلستانِ جوہر کراچی سے ، ہمارے اور ہمارے قارئین کے لیے جناب اثرؔ جون پوری کی یہ گرما گرم بھاپ اُڑاتی نظم ارسال کی ہے:​

آٹھوں پہر اُسے تو ضرورت ہے چائے کی
چھٹتی نہیں ہے، جس کو بھی عادت ہے چائے کی
سرگرم ہوں جو اپنے مشن میں مَیں ہر نفس
در اصل مخفی اِس میں بھی حدت ہے چائے کی
لگتا ہے بعض وقت دسمبر جو ماہِ جون
اِس میں بھی کار فرما کرامت ہے چائے کی
ہم اِک برس میں پیتے ہیں اربوں روپئے کی چائے
یعنی ہماری قوم کو چاہت ہے چائے کی
اِس کی دوا نہیں ہے مسیحا کے پاس بھی
ناقابلِ علاج یہ علّت ہے چائے کی
چائے نہیں ملے تو سبھی اُونگھتے رہیں
ہم جاگتے ہیں یہ بھی عنایت ہے چائے کی
پیتے ہیں اِس کو اولیا اﷲ بھی اثرؔ
سچ پوچھیے تو یہ بھی سعادت ہے چائے کی​
بشکریہ:
روزنامہ روزنامہ نئی بات
 
Top