علامہ ناگہانی کا سفر انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
جس حکومت کو ختم کرنے کی قسم کھائی تھی، اسی سے قطار اندر قطار ’’جپھیاں‘‘ ڈال کر تصویریں بنوائیں اور فتح کا اعلان کر دیا۔ اسمبلیاں بدستور قائم ہیں اور16 مارچ تک قائم رہیں گی یا شاید ایک دو دن پہلے ٹوٹ جائیں گی۔ الیکشن کمیشن بھی جوں کا توں رہے گا۔ ح
کومت بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔ وہی حکومت جو علامہ ناگہانی کے اسلام آباد نازل ہوتے ہی ’’سابق‘‘ ہوگئی تھی۔ان چند چھوٹے چھوٹے معاملات کو چھوڑ کر باقی جتنے ’’جائز‘‘ مطالبات تھے، تسلیم کر لئے گئے اور ڈیکلریشن آف دی کنٹینر عرف اعلان لانگ مارچ آف اسلام آباد میں سمو دیئے گئے۔ کامیاب دھرنے کو کامیاب ترین کامیابی مل گئی اور کیا چاہئے۔
بظاہر امریکی مولانا کا لانگ مارچ ٹھس ہو چکا۔اس لئے کہ
مارچ کا آغاز یہ قسم اٹھانے سے ہوا تھا کہ اس کے اسلام آباد جاتے ہی حکومت ختم ہو جائے گی۔ وہ نہیں ہوئی۔ پھر افتتاحی خطاب میں حکومتوں اور اسمبلیوں کو آج ’’صبح گیارہ بجے تک ختم ہو جاؤ‘‘ کا حکم صادر فرمایا گیا لیکن گیارہ بجے،
حکومت تحلیل ہوئی نہ اسمبلیاں۔ پھر الٹی میٹم پر الٹی میٹم اور ڈیڈ لائنوں پر ڈیڈ لائنیں دی جاتی رہیں جو سب ہوائیاں ثابت ہوئیں کہ چھوٹیں اور بجھ گئیں۔ مولانائے ڈیڈ لائن اپنے
چالیس لاکھ جمع دس لاکھ ٹوٹل40ہزار شرکائے لانگ مارچ کو نئی نئی تاویلیں بتا کر بہلاتے رہے۔ اس دوران
عدالت سے وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم آیا۔ مولانا نے عدالتی کارروائی کو بھی اپنے لانگ مارچ کا نتیجہ قرار دے دیا۔ نتیجہ کیا قرار دیا، اپنی فتح کا اعلان کر دیا اور مبارک ہو مبارک ہو کے اتنے زور دار نعرے لگائے کہ مریدین کو یوں لگا کہ ان کے مولانائے انقلاب کی بادشاہی شروع ہوگئی۔ پھر کہا کہ یہ آدھی فتح ہے،
آدھی فتح کل کی تقریر کے بعد مل جائے گی۔ لیکن اگلے روز مزید آدھی فتح کیا ملتی، گزشتہ روز ملنے والی آدھی فتح بھی غائب غلّہ ہوگئی۔ پتہ چلا کہ وزیراعظم نہ صرف گرفتار نہیں ہوئے بلکہ انہیں گرفتار کئے جانے کا ارادہ بھی نہیں ہے ۔ایک ستم ظریف نے کہا، مولانا اتنی زور زور سے فتح کا ڈھول نہ کھڑکاتے اور مبارکباد وں کا توپ خانہ نہ چلاتے تو وزیراعظم کو اگلے روز ضرور گرفتار ہو جانا تھا۔مولانا نے اسلام آباد کی حدود میں قدم رنجہ فرماتے ہی فرمایا تھا کہ ’’
حکومت ختم ہوگئی۔ اب یہ سابق ہو چکی ہے۔ اب یہ صدر سابق صدر ہے۔ یہ وزیراعظم سابق وزیراعظم ہے اور اب یہ ساری کابینہ سابق کابینہ ہے‘‘۔ حکومت کے سابق ہونے کے چوتھے روز انہوں نے سابق حکومت کو پیغام بھیجا، آؤ مذاکرات کر لو تاکہ میں واپس جا سکوں۔ فائیو سٹار شاہی کنٹینر میں بیٹھے بیٹھے لیٹے لیٹے کھڑے کھڑے بولتے بولتے قسمیں اٹھاتے اٹھاتے، ڈیڈ لائنیں دیتے دیتے حکمرانوں کو یزید کہتے کہتے تھک گیا ہوں۔ چنانچہ سابق حکومت کے سابق وزیروں کا وفد کنٹینر میں ایسے داخل ہو گیا جیسے خالی گھر میں بھوت آتا ہے۔(بلکہ بھوت آتے ہیں)
پھر تاریخ نے مسکراتے ہوئے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ کسی
قائد انقلاب نے ’’سابق حکومت‘‘ سے مذاکرات کئے۔ سابق حکومت سے مذاکرات کامیاب رہے اور 40ہزاری مارچ کے10+40 لاکھ شرکاء کا پنڈال قائد انقلاب جیوے جیوے کے نعروں سے گونج اٹھا۔ تین صفحات پر مشتمل انقلاب برپا ہوگیا۔
یہ انقلاب سابق حکومت کے دستخطوں سے برپا ہوا۔ یہ دستخط نہ ہوتے تو انقلاب برپا ہونے سے رہ جاتا۔چنانچہ برپا ہونے والی شے برپا ہوگئی، مارچ کے 40لاکھ10+لاکھ ٹوٹل40ہزار شرکاء گھروں کو سدھارے اور سابق حکومت حسب سابق کاروبار حکومت میں مصروف ہوگئی۔دوسرے لفظوں میں سابق حکومت نے تین صفحات پر دستخط کرکے انقلاب کو واپس اس کے گھر بھیج دیا۔
لیکن نہیں، انقلاب کو گھر کہاں بھیجا۔ حسینی قافلہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے اسی حکومت کے ’’اتحادی‘‘ بن گئے جسے وہ ایک ان پہلے تک کچھ اور ہی کہا کرتے تھے اور
جسے اکھاڑ پھینکنے کی ایک ہزار ایک قسمیں انہوں نے کھائی تھیں۔ اب حکومت اور اس کے نئے اتحادی مل کر نگران وزیراعظم کا نام تجویز کریں گے۔ ہم ایک تھے ، ہم ایک ہیں۔ خود علامہ نے کہہ دیا ’’آئندہ ہم ساتھ بیٹھیں گے‘‘ ظاہر ہے، اب یہ یزیدی حکومت کہاں رہی، اب تو ۔۔۔!
_______________________
سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جو ’’جائز مطالبات‘‘ منظور کئے گئے ہیں، ان کی آئینی اور قانونی پوزیشن کیا ہوگی۔ بالکل بچگانہ سوال ہے۔ کسے پڑی ہے کہ ان مطالبات پر عمل ہوتا بھی دیکھے۔ علامہ کو ایک کٹّے(کٹڑے) کی تلاش تھی جس کی دم پکڑ کر وہ گھسٹتے گھسٹتے گھر پہنچ جائیں۔ حکومت نے ایک چھوڑ، دس دس کٹّے بھیج دیئے۔ ان دس ’’کٹوں‘‘ کو علامہ نے پہلے آلوستی‘‘ وفد قرار دیا، پھر تصحیح کی کہ اعلیٰ سطحی وفد۔ ظاہر ہے، نہ تھکنے والی زبان آخر تھک گئی، اور مارے تھکن کے اعلیٰ کو آلو اور سطحی کو ستی پڑھ دیا۔ بہرحال، یہ ’’آلو ستی کٹّے ‘‘خوش باش آئے، خوش باش گئے۔ ان میں وزیر اطلاعات کائرہ بھی تھے، جو علّامہ سے بغلگیر ہو کر ’’کائرالقادری‘‘ بن گئے۔ افسوس ان دس کٹّوں میں رحمان ملک شامل نہیں ہو سکے۔ باقی
سب کو ملنے والا یزیدی خطاب واپس ہوگیا کہ کنٹینر میں آکر سب حر بن گئے، رحمن ملک کو ملنے والا شیطان کا خطاب واپس نہ ہو سکا۔ لگتا ہے وہ اندر کی بات سے بے خبر تھے، بے خبری میں مارے گئے۔ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ سب طے تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے معاہدہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا، وہ بھی مرا ہوا۔
بالکل غلط۔۔۔صحیح یہ ہے، کھودا پہاڑ، نکلے دس کٹّے بنادُم کے،
______________________________
دھرنا ئی انقلاب کی اس شاندار ناکامی اور ’’خیرہ کن ‘‘ رسوائی کا مطلب یہ نہیں کہا مریکہ بہادر آرام سے بیٹھ جائے گا یا اسٹیبلشمنٹ چپکی ہو رہے گی۔ انقلاب کے اصل مقاصد واپس نہیں لئے گئے اس لئے جو لوگ انقلاب کی اس ناکامی اور رسوائی کا مزہ لے رہے ہیں، انہیں خبردار رہنا ہوگا۔
انقلاب کا اصل مقصد الیکشن روکنا ہے۔ فی الحال یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا لیکن دوسرے وار کا اندیشہ جوں کا توں ہے۔ اور اگر الیکشن ملتوی نہ ہو سکے توامریکہ کی ناپسندیدہ جماعتوں کو شکست دینے کے لئے کئی طرح کے اتحاد بنائے جائیں گے۔ فی الوقت علامہ ناگہانی اور گجرات کے غریب بھائیوں کی سدابہار جھولی بردار جوڑی کے اتحاد کی تیاری مکمل ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان کو بھی ساتھ ملایاجائے کہ ان کے بغیر پنجاب میں اپ سیٹ نہیں دیا جا سکتا ۔لیکن رکاوٹ یہ ہے کہ عمران خاں امریکہ کے اتنے خلاف ہیں کہ وہ اس اتحاد کے نزدیک پھٹکنے کے لئے بھی تیار نہیں جس کا مقصد امریکہ نواز حکومت بنانا ہواور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ایسی خفیہ فائلیں بھی موجود نہیں ہیں جن کو ہتھیار بنا کر عمران خاں کو ڈرایا جا سکے۔ متحدہ اس محاذ میں شامل ہوگی لیکن اس کی شمولیت سے انتخابی نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کا پنجاب میں یا صوبہ خیبر میں کوئی ووٹ ہی نہیں ہے۔ بس کراچی میں ہے۔
اسٹیبلشمنٹ یہ بات کبھی نہیں بھول سکتی کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو کس رسوا کن انداز میں گرفتار کیا تھا۔وہ یہ پینٹا گانی اتحاد ضرور بنائے گی جس کے جیتنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے لیکن جتوانے کا ہر جتن ضرور کرے گی۔
_______________________
ایک وفاقی وزیر نے یہ دلچسپ دعویٰ کیا ہے کہ پیپلزپارٹی جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش ناکام بنا دے گی۔
شاید وفاقی وزیر اصل میں یہ کہنا چاہتی تھیں کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لئے کسی دوسری جماعت کی طرف سے کی گئی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔ اس لئے کہ اس کام کے لئے ہم ہی کافی ہیں اور ہم نے پانچ سال محنت کی ہے، اب آخری لمحات میں اس نقصان کا کریڈٹ کسی اور کو مل جائے، یہ ہم گوارا نہیں کریں گے۔
_______________________
بشکریہ:
روزنامہ روزنامہ نئی بات