ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ میڈیا اور محفلین کی نظر میں

سویدا

محفلین
یہ وقت بتادے گا جب علامہ اپنی ماورائی شخصیت اور کردار کے ذریعے ناممکن کو ممکن بنادیں گے
باقی سب سے بڑی مثال سب کے سامنے ہے
علامہ نے میدان تو مار ہی لیا ہے
پرنٹ ، الیکٹرانک ، سوشل ہر قسم کے میڈیا کی مکمل توجہ علامہ پر ہی مرتکز ہے
اور کونسی مثال چاہیے
 
پہلے بھی عرض کی تھی کہ یہ سب لوگ سیاست دان نہیں ہیں
یہ فوجی حکومتوں کی باقیات ہیں
ان سے چھٹکارہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ دھرنے دیں اور پھر امریت کی راہ ہموار کریں۔
بلکہ یہ ہے کہ گرانڈ روٹ لیول پر مزید کام کیا جائے۔ لوگوں کو ازادانہ انتخابی عمل سے بار بار گزاریں۔ ہر بار انتخابی عمل کی بہتری کی طرف کا م کریں۔ اپٹمائزیشن کریں۔ کم ازکم دو مرتبہ انتخابات کے بعد یہ لوگ منظر عام سے ہٹیں گے۔ یہ لوگ سے میری مراد حکومت اور اپوزیشن ہے بشمول قادری کے۔
بس آپ بات کو پا گئے ہیں اور آپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اتفاق کر دیا ہے۔
طاہرالقادری صاحب بھی فقط آزادانہ انتخابات کو ممکن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فقط
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
دو ہی باتیں ہیں ۔۔۔ اگر طاہر القادری صاحب کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے تو پھر موجودہ حکومت کے لیے بہت مشکل ہو گا اس لانگ مارچ کو روکنا ۔۔۔ لیکن اگر اس لانگ مارچ کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ہاتھ نہیں ہے تو پھر اس لانگ مارچ کی "کامیابی" تبھی ممکن ہے جب پانچ لاکھ سے زائد افراد اسلام آباد میں جمع ہو جائیں ۔۔۔ اس دوسری صورت میں بھی ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ ۔۔۔ طاہر القادری صاحب کو "فوج" "ضمانت" دے دے گی، جو وہ چاہیں گے، اور یوں لانگ مارچ میں شریک افراد "منتشر" ہو جائیں گے ۔۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آخری فیصلہ "جی ایچ کیو" میں ہی ہو گا ۔۔۔ جس کو ماننا "سب" کے لیے لازم ہو گا ۔۔۔ البتہ "چالیس لاکھ" لوگ جمع ہو گئے (گو ایسا ہونا بہت مشکل ہے) تو پھر آخری فیصلہ علامہ صاحب ہی کریں گے ۔۔۔
 
بس آپ بات کو پا گئے ہیں اور آپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اتفاق کر دیا ہے۔
طاہرالقادری صاحب بھی فقط آزادانہ انتخابات کو ممکن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فقط
لگ رہا ہے اپ بھی قادری ہیں

بھائی میں قاردی کے طالبان اسٹائل کا مخالف ہوں
 
3659.gif
 

الف نظامی

لائبریرین
ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کے حوالے سے کوئی تبصرہ کیے بغیر الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ فی الوقت انتخابات میں کم وقت رہ گیا ہے اور وقت پر الیکشن کرانا ہی الیکشن کمشن آف پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ "ریٹرن آف انکم" جمع کرانے کا لازمی قانون بنائے جانے کے باوجود 70 فیصد ارکان پارلیمنٹ( 437 میں سے 305) نے 2011ء میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے اور اس وجہ سے وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوچکے ہیں۔
سینٹر فار دی انوسٹی گیٹو رپورٹنگ ان پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 67.3 فیصد ارکان پارلیمنٹ نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے اور یہ تعداد پیپلز پارٹی کے ریٹرن جمع نہ کرانے والے ارکان کی تعداد( 66.8 فیصد) سے زیادہ ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ 87.5 فیصد اے این پی کے ارکان کی ہے جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی قانون کی اس خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر ایف بی آر کے اعداد و شمار کی پڑتال کی جائے تو صوبائی اسمبلیوں کے ایسے سینکٹروں ارکان پارلیمنٹ بے نقاب ہو سکتے ہیں جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔
اگرچہ الیکشن کمشن آف پاکستان اس بارے میں کچھ نہیں کہتا کہ وہ قانون کی ایسی خلاف ورزی کرنے والے ارکان کو دوبارہ پارلیمنٹ / اسمبلی میں آنے سے روکے گا ؛لیکن آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 کے تحت قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے ایسا ارتکاب کرنے والا شخص انتہائی مشکوک ہوجاتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 62 رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کی خواہش رکھنے والے کی اہلیت کے متعلق ہے کہ اسے ایماندار اور اچھی شہرت کا حامل شخص ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق سینکڑوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ایسے ملیں گے جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور ایسے شخص کو کس طرح صادق اور امین قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب یہ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں وضع کردہ خصوصیات کے حامل شخص کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
بحوالہ
روزنامہ جنگ 6 فروری2013
کیا اب بھی کرپٹ انتخابی میں اصلاحات کا مطالبہ غلط ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاوٴ نے الزام لگایا ہے کہ وفاقی حکومت انتخابات سے قبل ترقیاتی اسکیموں کے اعلانات کے ذریعے دھاندلی کی مرتکب ہورہی ہے۔
پشاور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفت گو کرتے ہوئے آفتاب شیرپاوٴ نے کہا کہ حکومت ان اسکیموں کے ذریعے ووٹرز کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔چیف الیکشن کمشنر کو وفاقی حکومت کے اس اقدام کا نوٹس لینا چاہئے۔
آفتاب شیرپاوٴ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا صوابدیدی فنڈ بھی 37 ارب روپے سے بڑھا کر 42 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 16 مارچ کے بعد عبوری حکومت قائم ہونی چاہیے۔


---------------------

الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسے اشتہارات جن میں کسی سیاستدان کی تصویر سیاسی جماعت کا مونو گرام یا جھنڈا موجود ہو اسے سرکاری خرچ پر شائع یا نشر نہیں کیا جاسکتا خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی الیکشن کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان احکامات پر ان کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ہدایت بھی کی ہے
اعلامیہ میں کہاگیاہے کہ یہ بات الیکشن کمیشن کے علم میں آئی ہے کہ انتخابات کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس طرح اشتہار بازی کی جارہی ہے جس کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی کارکردگی کو پیش کر رہی ہیں اور اس اشتہاربازی کے ذریعے سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنے انتخابی نشان بلکہ اپنی جماعتوں اور پارٹی سربراہوں کی مشہوری بھی کر رہی ہیں قوم اور عوام کے پیسے سے جماعتی مفادات کی تشہیر نہیں کی جاسکتی جبکہ یہ بات امتیازی بھی ہے کیونکہ قومی خزانے کی رقم سے صرف ان جماعتوں کو فائدہ حاصل ہوسکتاہے جو برسراقتدار ہیں لہذا اسے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی نہ ہی جماعتی مفادات کے لئے پبلک کے پیسے کے استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے
اعلامیہ میں کہاگیاہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے تحت آزادانہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا پابند ہے اور اس بات کو سپریم کورٹ بھی اپنے انتخابی اصلاحات کیس کے فیصلے میں تسلیم کر چکی ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے قومی سرمائے سے جماعتی مقاصد کے تحت اشتہارات کی مہم بند کرنے کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے احکامات بلاشبہ غیر جانبدارانہ انتخابات کے سلسلے میں ایک اہم اقدام ہے
یقیناً یہ امتیازی بات ہے کہ جوسیاسی جماعتیں حکومتوں میں نہیں یہ ان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے لیکن ہم چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے تمام ارکان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جماعتی اور انتخابی مقاصد کے تحت سرکاری اختیارات کے استعمال سے روکنے کے سلسلے میں بھی کمیشن کو مزید بہت سے اقدامات کرنے ہوں گے مرکز اور صوبوں میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنے صوابدیدی فنڈز کوجس طرح مخصوص انتخابی حلقوں میں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں ہم حیران ہیں کہ اس پر ابھی تک الیکشن کمیشن نے کیوں توجہ نہیں کی حال ہی میں راجہ پرویز اشرف نے گوجر خان کے اپنے انتخابی حلقے کے لئے متعدد اسکیموں کے لئے خطیر رقوم دی ہیں کیا اس حلقے کے دوسرے امیدواروں کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی الیکشن کمیشن اس سلسلے کو روکنے کے لئے کب فیصلہ صادر کرے گا یہ اطلاعات بھی سننے میں آئی ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مختلف محکموں میں سینکڑوں نئی بھرتیاں کرنے کے معاملے میں بھی بعض فیصلے کئے ہیں اس موقع پر جبکہ ان حکومتوں کی آئینی مدت دوماہ کے لگ بھگ رہ گئی ہے اور انتخابات سر پر ہیں ان بھرتیوں کا انتخابی مقاصد کے علاوہ اور کوئی جواز نہیں ہوسکتا الیکشن کمیشن کو فوری طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نئی بھرتیوں سے بھی روکنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کیاجائے
سرکاری خرچ سے جماعتوں کی تشہیری مہم روکنے کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے اپنے احکامات کی روح پر عمل کرنے کی بات کی ہے سوال یہ ہے کہ کیا محض الیکشن کمیشن کے اعلامیہ سے وفاقی وصوبائی حکومتیں اس اقدام سے باز آجائیں گی؟ اس کے امکانات بہت کم ہیں متعلقہ حکومتیں کوئی نہ کوئی ایسا راستہ ضرور نکال لیں گی جو انتخابات کے غیر جانبدارانہ انعقاد کو مشکوک بنادے گا
اس ضمن میں ہم الیکشن کمیشن کو یہ تجویز پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے صدر دفتر اور اس کے صوبائی دفاتر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر وفاقی وصوبائی حکومتوں کی تشہیری مہم کی مانیٹرنگ کے لئے خصوصی سیل قائم کئے جائیں جو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ مرتب کریں تاکہ کمیشن کے احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ حکومت یا اس کے متعلقہ محکمے کے خلاف فوری کارروائی کی جاسکے
یہ ضروری ہے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی طرف سے صوابدیدی فنڈ کو مخصوص انتخابی حلقوں میں استعمال کرنے کے عمل کو فوری طور پر روکا جائے اگر اس معاملے میں مزید تاخیر کی گئی تو سرکاری پیسے سے ووٹروں کو برسراقتدار جماعتوں کی طرف راغب کرنے کا عمل انتخابات کی غیر جانبداری کو متاثر کرنے کا باعث بنے گاتاخیر سے نوٹس لینے یا احکامات جاری کرنے کا اقدام محض رسمی خانہ پری تو ہوسکتاہے منصفانہ انتخابات میں معاونت نہ کر سکے گا اس وقت الیکشن کمیشن کو نہ صرف فوری فیصلے کرنے ہوں گے بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا سست روی یا تاخیر سے کئے جانے والے فیصلے مطلوبہ مقاصد کو حل نہیں کرسکیں گے۔
 
لگ رہا ہے اپ بھی قادری ہیں
نظامی ہوں۔
اور گذارش ہے کہ ذاتیات پر بات نہ کریں!
بھائی میں قاردی کے طالبان اسٹائل کا مخالف ہوں
طالبان سٹائل کیا ہے؟
اگر یہ طالبان سٹائل ہے تو پھر نون لیگ، پیپلز پارٹی، وکلاء سبھی دہشت گرد ہی ہیں۔
 
نظامی ہوں۔
اور گذارش ہے کہ ذاتیات پر بات نہ کریں!

طالبان سٹائل کیا ہے؟
اگر یہ طالبان سٹائل ہے تو پھر نون لیگ، پیپلز پارٹی، وکلاء سبھی دہشت گرد ہی ہیں۔

طالبان اسٹائل یہ ہے کہ الیکشن کو نہ ماننا، دھمکیاں دینا، دھرنے دینا، پھر یہ کہنا کہ دھرنے لاہور بھی جائے گا اور بے قابو بھی ہوگا
دھمکیاں ہی دھمکیاں
 
طالبان اسٹائل یہ ہے کہ الیکشن کو نہ ماننا، دھمکیاں دینا، دھرنے دینا، پھر یہ کہنا کہ دھرنے لاہور بھی جائے گا اور بے قابو بھی ہوگا
دھمکیاں ہی دھمکیاں
کس نے الیکشن کا انکار کیا؟
دھمکیاں کس نے دیں؟
باقی دھرنے کی بات تو حضرت یہ بھی دیکھیں کہ یہ عمل کس چیز کا رد عمل ہے۔ جمہوریت نواز قوتوں کو پانچ سال خبر نہیں ہوئی کہ عوام بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری سے مر رہی تھی تب یہ قوتیں اور فرینڈلی اپوزیشن ان چیزوں میں اصلاحات کرتیں۔
وہ کریں بھی کیوں الیکشن جیتنے کی ساری تیاری تو ہو چکی اب ایک نئی فٹیک پڑ گئی ان لوگوں کو۔:pak:
 
کس نے الیکشن کا انکار کیا؟
دھمکیاں کس نے دیں؟
باقی دھرنے کی بات تو حضرت یہ بھی دیکھیں کہ یہ عمل کس چیز کا رد عمل ہے۔ جمہوریت نواز قوتوں کو پانچ سال خبر نہیں ہوئی کہ عوام بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری سے مر رہی تھی تب یہ قوتیں اور فرینڈلی اپوزیشن ان چیزوں میں اصلاحات کرتیں۔
وہ کریں بھی کیوں الیکشن جیتنے کی ساری تیاری تو ہو چکی اب ایک نئی فٹیک پڑ گئی ان لوگوں کو۔:pak:

قادری نے دیں ہیں
انارکی اور فساد پھیلانے کی باتیں کیں ہیں
20 لاکھ لاہور اور 20 لاکھ اسلام اباد لانے کی باتیں کیں ہیں
اور ہجوم کے بے قابو ہونے کی باتیں کیں ہیں
کل کو یہ 20 لاکھ لاڑکانہ بھی بھجوائے گا

ایک ادمی کنویں میں چھلانگ رہا ہو اور ساتھ ہی کہہ رہا ہوک میں نہیں ڈوبوں گا۔ یہ خودکشی نہیں۔ کوئی یقین کرے گا؟
 
Top