ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ میڈیا اور محفلین کی نظر میں

اسلام آباد میں مداری کی طرح تماشا کرنے کے بعد میثاقِ اسلام آباد نامی کاغذی چیتھڑے کے ذریعے اپنے جبہ و دستار کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے والا طاہرالقادری کسی رشوت خور کلرک اور بدعنوان پٹواری سے بھی گری ہوئی اخلاقیات کا مالک ہے اور اسے آپ صلح حدیبیہ کرنے والی کائنات کی محترم ترین ہستی کے ہم پلہ کھڑا کررہے ہیں؟ آپ کے شیخ کے بارے میں تو اتنا کچھ منظرعام پر آچکا ہے کہ اگر آپ اندھی عقیدت کی عینک اتار دیں تو اس سب کو سمجھنے اور جانچنے کے لئے آپ کو کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی!
یہ پوسٹ بھی آپکی کم عقلی کی دلیل ہے۔۔۔میں نے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی مثال دی ہے اور اس بات سے یہ مطلب نکالنا کہ میں کسی کو اس عظیم ہستی کے ہم پلہ کھڑا کر رہا ہوں ، انتہا درجے کی جہالت اور غباوت کی دلیل ہے۔۔آپ بھی اندھی نفرت کی عینک اتار دیں تو بہت کچھ صاف ستھرا نظر آئے گا۔
اور یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون کسی رشوت خور کلرک اور بدعنوان پٹواری سے بھی گری ہوئی اخلاقیات کا مالک ہے ۔ فی الحال تو یہ سب اشارے آپکے اخلاقی افلاس کی طرف ہی جا رہے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے اس بات پر حیرت ہورہی ہے کہ چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں پہلی مرتبہ کوئی مذاکرات کیسے کامیاب ہوئے۔;)
حالانکہ چودھری صاحب کا مذاکرات کے حوالے سے ریکارڈ اچھا نہیں ۔ لال مسجد انتظامیہ اور نواب اکبر بگٹی کی مشرف حکومت سے مذاکرات کو مثال کے طور پر دیکھیے ۔

اس زمانے میں ایک ڈکٹیٹر تھا جو تمام فیصلے کرتا تھا۔ ورنہ لال مسجد اور بگٹی کے مزاکرات ناکام نہیں ہوئے تھے، مشرف نے ان کو ویٹو کر دیا تھا۔ یہی فرق ہے آمریت اور جمہوریت میں!
 
اسلام آباد میں مداری کی طرح تماشا کرنے کے بعد میثاقِ اسلام آباد نامی کاغذی چیتھڑے کے ذریعے اپنے جبہ و دستار کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے والا طاہرالقادری کسی رشوت خور کلرک اور بدعنوان پٹواری سے بھی گری ہوئی اخلاقیات کا مالک ہے اور اسے آپ صلح حدیبیہ کرنے والی کائنات کی محترم ترین ہستی کے ہم پلہ کھڑا کررہے ہیں؟ آپ کے شیخ کے بارے میں تو اتنا کچھ منظرعام پر آچکا ہے کہ اگر آپ اندھی عقیدت کی عینک اتار دیں تو اس سب کو سمجھنے اور جانچنے کے لئے آپ کو کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی!
بالکل درست ،کینیڈا کے خیراتی اداروں سے خیرات لے کر علاج کروانے والا غریب کنٹینر اونر ۔
 
ذبردست عاطف بٹ بھائی ،باقی سب تو ٹھیک ، پر اسکی جراءت کیسے ہوئی جناب شیخ السلام پروفیسر ڈاکٹر مولانا مولوی طاہر القادری کینڈی صاحب کو اسطرح کے القابات دینے کی ؟ :laughing:

اسی قسم کے صحافیوں نے سچ بول بول کر ہم جیسوں کا دماغ خراب کیا ہوا ہے، انکو میڈیا سے بین ہونا چاہیے ، :phbbbbt:
 

باباجی

محفلین
معذرت کے ساتھ
مجھے پورے دھاگے میں کوئی غیر جانبدارانہ بات نظرنہیں آئی
مجھے تو یہی محسوس ہوا کہ
ہم لوگ حظ اٹھارہے ہیں ان تمام حالات و واقعات سے
اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ کی طرف جا رہے ہیں
دیکھیئے بجائے آپس میں بھڑنے کے یہاں موجود آپشنز جو ہیں پسند نا پسند متفق غیر متفق والے ان کو استعمال کریں
ہر انسان کی اپنی سوچ اپنا مزاج ہے اس کا اظہار ضرور کریں لیکن آپس میں نہ ٹکرائیں
میں نے غیر جانبداری سے سوچنے کی کوشش کی تو کچھ باتیں سمجھ آئیں

اگر میں عوام کی طرف سے سوچوں تو یہ مذاکرات کوئی اتنے زیادہ اطمینان بخش نہیں لگتے، میں تو چاہتا تھا کہ کوئی جادو کی چھڑی گھومے
اور حکومت چشم زدن میں تحلیل ہوجائے اور ایماندار نگران سیٹ اپ کا اعلان ہوجائے ، لوڈشیڈنگ، اوور چارجنگ ختم ہوجائے، گیس کی کمی پوری
ہوجائے، پٹرول سستا ہوجائے، اشیائے خورد و نوش سستی ہوجائیں، دہشت گردی ختم ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔

اب آئینی نظر سے دیکھیں تو مذاکرات کی کامیابی کا کسی حد تک یقین ہوتا ہے، کہ جو آئینی شرائط پیش کی گئی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہمارے کام آئیں گی ، اور ظاہر ہے ان کے لیئے ہمیں مقررہ مدت کا انتظار کرنا ہوگا ۔

سیاست دان کی نظر سے دیکھوں تو پتا چلتا ہے کہ آگے اندھیر ہے ، جتنی بد عنوانی اور جرم کیئے ہیں ان کا بھانڈا پھوٹنے والا ہے اور ہم قانون کی
گرفت میں آیا چاہتے ہیں لہٰذا بات چیت کریں پروپیگنڈا کریں اپنے بچ نکلنے کا راستہ تلاش کریں-

تو محفلین میرے خیال میں جب اتنے مسئلےہونگے تو ظاہر تصادم کی صورتحال پیدا ہوگی اور ہمیں اسی چیز سے بچنا ہے
یہ میری آپ سے گزارش ہے :) کہ اظہار رائے کریں ، ایک دوسرے پر طعنہ زنی نہ کریں

(کوشش کے باوجود میں جانبداری سے نہ بچ سکا)
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر جمعرات کا دن تناؤ آمیز تھا تو اس کی نسبت بہ حیثیت ایک پاکستانی کے جمعے کا دن میرے لیے اطمینان بخش ثابت ہوا۔ کوئی طاہر القادری کا جتنا چاہے مذاق اڑائے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے میدان مار لیا ہے۔ انہوں نے کوئی انقلاب برپا نہیں کیا، وہ حکومت کا خاتمہ نہیں کر سکے اور حتیٰ کہ انہوں نے انتخابات کے لیے حتمی تاریخ بھی حاصل نہیں کی مگر ایسا ممکن تھا اور نہ ہی یہ نتائج متوقع تھے۔ تا ہم چار دن اور راتوں پر محیط بے نظیر دھرنے کے اختتام پر حکومت بات چیت اور مذاکرات پر آمادہ ہو گئی۔ کیوں؟ کیوں کہ طاہر القادری ایک ایسی قوم کے جذبات کو چھیڑنے اور اس کے ضمیر کو بیدار کرنے میں کام یاب رہے جس نے اپنی امیدوں کا دامن جھاڑ دیا تھا اور اگر کوئی نظام کسی حد تک بچا بھی تھا تو وہ اس میں اپنا اعتماد کھو چکی تھی۔ طاہر القادری نے کام یابی سے ان کے دلوں میں امیدوں کی جوت روشن کی اور خود ان کی اپنی ذات اور ملک کے بارے میں ان کے اعتماد کو بحال کیا۔ میرے نکتہ نظر کے مطابق یہ ہی وہ عوامل ہیں جو طاہر القادری کے لانگ
مارچ سے مملکت پاکستان کو حاصل ہوئے۔ وہ لاکھوں لوگوں کے جذبات کو آواز کا روپ دینے میں کام یاب رہے جب کہ اس دوران عمران خان سمیت دیگر اہم سیاسی کھلاڑیوں نے خاموشی اور ’اسٹیٹس کو‘ کو ترجیح دی۔ مزید یہ کہ ’گلیوں کی سیاست‘ کے ماہر صدر آصف علی زرداری ایک بار پھر ان طاقت ور سیاست دانوں کے چھکے چھڑانے میں کام یاب رہے جو ایک دن قبل کہیں اور بات چیت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اپنے مخالفین کی نظروں میں طاہر القادری ایک ایسے رہ نما کے روپ میں سامنے آئیں گے جنہوں نے شکست تسلیم کر لی اور اپنے پیروکاروں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کر سکے۔ مگر ایک عام پاکستانی کے سامنے وہ اعتدال پسند جدت، تبدیلی، صاف و شفاف سیاست اور پر امن جمہوری اختلاف رائے کی ایک نئی اور مسرت بخش آواز بن جائیں گے۔ کسی نے بھی تشدد کی حمایت نہیں کی۔ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ اسلام آباد کے جناح ایوینیو پر خون بہے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ بہادر خواتین اور ان کے بچے شدید ٹھنڈ اور بے رحم سرد ہواؤں کی نذر ہو جائیں اور کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ آئین کی خلاف ورزی ہو۔ اور طاہر القادری اس بات سے واقف تھے۔ یہ صبر و تحمل اور دانش مندی تھی جو فتح یاب ہوئی۔ مگر اس صبر و تحمل اور عقلیت پسندی کے تلے ان ہزاروں مرد، خواتین اور بچوں کی استقامت اور عزم کے ستون کھڑے تھے جنہوں نے سرد ترین موسم کے علاوہ ہر نوعیت کی تکالیف اور بے آرامی کو خوش دلی سے جھیلا۔ طاہر القادری کس طرح فتح یاب ہوئے؟ مضبوط اصطلاحات کے تحت آئین کے آرٹیکل62اور63کے تحت انتخابی امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال کے لیے30دنوں کی مدت کا حصول ان کی فتح ہے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان امید واروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال عموماً دو سے تین دن میں کرتا تھا جس کی وجہ سے جعلی ڈگری یافتہ، ٹیکس چور اور حتیٰ کہ سزا یافتہ مجرم تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے کے قابل ہو جاتے تھے۔ پاکستانی کی جمہوری تاریخ میں سیاسی صفائی کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔ طاہر القادری نے سپریم کورٹ کے8جون2012کے فیصلے کے نفاذ کی یقین دہانی بھی حاصل کی جس میں انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق کے سخت ترین نفاذ کا حکم دیا گیا تھا۔ طاہر القادری کی سب سے اہم کام یابی جس پر تا حال سب سے کم توجہ دی گئی ہے وہ یہ حکومتی آمادگی ہے کہ اسمبلیوں اور بطور خاص قومی اسمبلی کو ان کی مدت سے کچھ دن پہلے تحلیل کر دیا جائے گا۔ اس طرح عبوری حکومت کو60کے بجائے90دن کی آئینی مدت حاصل ہو گی جس کے دوران کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے30دن کا عرصہ دست یاب ہو گا اور ایک محدود پیمانے پر حکومتی نظام کی صفائی بھی کی جا سکے گی۔ میرے خیال میں یہ اس امر کے با وجود ایک اہم کام یابی ہے کہ اس کا اتفاقی طور پر حکمراں اتحاد کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور اسی وجہ سے حکومت نے اس مطالبے کو نہایت تیزی سے قبول کر لیا کیوں کہ اس طرح حکومتی اتحاد کو اس عرصے کے دوران اپنے آپ کو سیاسی طور پر دوبارہ تیار کرنے کا وقت مل جائے گا جب عبوری حکومت ایمرجنسی وارڈ میں پڑی معیشت کو آکسیجن فراہم کرنے کے لیے نا گزیر طور پر سخت ترین معاشی فیصلے کرے گی۔ اسی طرح طاہر القادری کو آئین کے تحت حکومت کی طرف سے عبوری وزیر اعظم کے لیے حتمی طور پر دو ناموں کی تجویز کے سلسلے میں دی گئی یقین دہانی بھی مساوی اہمیت کی حامل ہے۔ اس طرح طاہر القادری کے الفاظ میں ’مک مکا‘ کے ذریعے عبوری وزیر اعظم کی تقرری کے خدشے سے بھی قوم کا پیچھا چھوٹ گیا ہے۔ ابھی کوئی نہیں جانتا کہ اس پر پاکستان مسلم لیگ نواز کا کیا رد عمل ہو گا مگر حقیقت یہ ہے کہ طاہر القادری نہ صرف میڈیا کی توجہ اور قومی شناخت کے حصول میں کام یاب رہے ہیں بلکہ انہوں نے محض چند ہفتوں کے اندر پاکستانی سیاست کے میدان میں اپنا واضح اور مضبوط مقام بنا لیا ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کانسٹی ٹیوشن ایوینیو سے طاہر القادری کی واپسی سے کہانی کا اختتام ہو گیا تو اس کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنی سوچ میں تھوڑی احتیاط کا مظاہرہ کرے۔ طاہر القادری واپس نہیں جائیں گے۔ وہ بے شمار لوگوں کی نا گواری کے با وجود کچھ عرصہ ملک میں رہیں گے، اگرچہ مجھے طاہر القادری کے متعدد خیالات پر شدید تحفظات ہیں لیکن اس کے با وجود میں اپنے تحریر کردہ الفاظ پر قائم ہوں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
یہ پوسٹ بھی آپکی کم عقلی کی دلیل ہے۔۔۔ میں نے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی مثال دی ہے اور اس بات سے یہ مطلب نکالنا کہ میں کسی کو اس عظیم ہستی کے ہم پلہ کھڑا کر رہا ہوں ، انتہا درجے کی جہالت اور غباوت کی دلیل ہے۔۔آپ بھی اندھی نفرت کی عینک اتار دیں تو بہت کچھ صاف ستھرا نظر آئے گا۔
اور یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون کسی رشوت خور کلرک اور بدعنوان پٹواری سے بھی گری ہوئی اخلاقیات کا مالک ہے ۔ فی الحال تو یہ سب اشارے آپکے اخلاقی افلاس کی طرف ہی جا رہے ہیں۔
موصوف و مجبور پیروِ قادری المعروف حضرتِ غزنوی، آپ کی آنکھوں پر اگر اندھی عقیدت کی عینک نہ چڑھی ہوتی اور عقل قادری کی ٹوپی شریف کے گرد طواف کرنے سے فرصت پالیتی تو آپ کو سمجھ آجاتی کہ یہاں ہم پلہ کھڑا کرنے سے مراد عملی طور پر ویسا ثابت کرنا تھی جس کی ناکام کوشش آپ فرما چکے ہیں۔ عزت و مرتبت میں ہم پلہ ہونے کی بات نہیں کی گئی۔
آپ کی ’اخلاقی بلندی‘ کا عالم یہ ہے کہ شیخ کنٹینری کا بھانڈہ پھوٹنے پر بھی اس کے جبے کا پلو پکڑے صدقے واری جارہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اسلام آباد میں چار روز تک شدید سردی اور بارش میں جاری رہنے والا دھرنا اس وقت اختتام کو پہنچا جب تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور حکومتی اتحاد کے درمیان مذاکرات میں آئندہ عام انتخابات اور انتخابی اصلاحات کے بارے میں باہمی افہام و تفہیم سے ایک متفقہ معاہدہ طے پا گیا جسے اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ کا نام دیا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت قومی اسمبلی 16مارچ کے مقررہ وقت سے پہلے تحلیل کر دی جائے گی اور اس کے بعد 90روز کے اندر انتخابات کرا دیئے جائیں گے۔
الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اہلیت پر آئین کے آرٹیکل 62اور63 کا سختی سے اطلاق کیا جائے گا اس مقصد کے لئے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی مدت بڑھا کر ایک ماہ کر دی گئی ہے۔
معاہدے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور مذاکرات کے شرکاء نے دستخط کئے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی اس کی منظوری دے دی ہے۔ معاہدہ طے پانے اور دھرنے کے خاتمے سے سیاسی تناؤ اور ہیجان کی وہ کیفیت ختم ہو گئی ہے جس نے تقریباً پچھلے تین ہفتے سے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ فریقین میں سے کسی نے بھی اپنے اس سخت گیرموقف پر اصرار نہیں کیاجس کا اظہار اس سے قبل دونوں طرف سے کیا جا رہا تھا اور معاملات بدامنی کا ایک نیا محاذ شروع ہونے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران دہشت گردی سمیت کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ اس لحاظ سے پوری دنیا کے لئے ایک مثال قائم ہوئی ہے کہ فرسودہ نظام میں تبدیلی کیلئے اتنا بڑا لانگ مارچ کسی کی نکسیر بھی پھوٹے بغیر پرامن طور پر منتشر ہوگیا۔ اس سے اقوام عالم پر ظاہر ہو گیا کہ پاکستانی ایک پرامن قوم ہیں اور دہشت گردی کے جس عذاب کا وہ شکار ہیں یہ ان کا اپنا مزاج نہیں بلکہ باہر سے مسلط کردہ ہے ۔لانگ مارچ کے محرکین نے ویسے تو کئی نکاتی ایجنڈا اٹھارکھا تھا مگر ان کا بنیادی مقصد انتخابی نظام کو ٹیکس چوروں، رسہ گیروں، دھوکے بازوں، بنک ڈیفالٹرز،کرپٹ اور قانون شکن عناصر، جعلی ڈگریاں رکھنے والوں ، دہری شہریت کے حامل افراد اور دوسرے بددیانت اور بدعنوان لوگوں سے بچانا اور انہیں پارلیمنٹ سے دور رکھنا تھا۔ اس حوالے سے آئین کی دفعات 62اور 63 میں پہلے سے واضح احکامات موجود ہیں اور سپریم کورٹ بھی اس کی صراحت کر چکی ہے۔ لانگ مارچ اعلامیہ میں ان قوانین پر سختی سے پابندی کی بات کی گئی ہے اور امیدواروں کے کاغذات نامزدگی سرسری جائزے یکطرفہ سماعت اور افراتفری میں منظور کرنے کی بجائے ان پر غور و خوض کیلئے ایک ماہ کی معقول مدت مقرر کی گئی ہے۔ اس دوران امیدواروں کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ تمام مالی اور قانونی اداروں سے کلیئرنس حاصل کرکے اپنی اہلیت کے سرٹیفکیٹ جمع کرائیں تاکہ کوئی بددیانت شخص انتخاب لڑنے کا اہل نہ قرار پا سکے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ مارچ کے ذریعے حکومت پر کامیاب دباؤ ڈالا
 
موصوف و مجبور پیروِ قادری المعروف حضرتِ غزنوی، آپ کی آنکھوں پر اگر اندھی عقیدت کی عینک نہ چڑھی ہوتی اور عقل قادری کی ٹوپی شریف کے گرد طواف کرنے سے فرصت پالیتی تو آپ کو سمجھ آجاتی کہ یہاں ہم پلہ کھڑا کرنے سے مراد علمی طور پر ویسا ثابت کرنا تھی جس کی ناکام کوشش آپ فرما چکے ہیں۔ عزت و مرتبت میں ہم پلہ ہونے کی بات نہیں کی گئی۔
آپ کی ’اخلاقی بلندی‘ کا عالم یہ ہے کہ شیخ کنٹینری کا بھانڈہ پھوٹنے پر بھی اس کے جبے کا پلو پکڑے صدقے واری جارہے ہیں۔
سبحان اللہ ۔۔۔یک نہ شد دو شد۔۔۔اب یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہم پلہ کھڑا کرنے سے مراد علمی طور پر ویسا ثابت کرنا تھا۔ بٹ صاحب لگتا ہے کہ آپ بھی روایتی مشقِ خوردو نوش کے دوران ذرا سانس لینے اور سستانے کے دوران عالمِ نیم غنودگی میں دوسروں کی پوسٹوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسی حالتِ مدہوشہ میں الٹا سیدھا جواب لکھنے کے بعد از سرِ نو مصروفِ ناؤ نوش ہوجاتے ہیں۔۔۔حجرت یہ علمی طور پر ہم پلہ ہونے کی پخ کہاں سے نکالی ذرا ہمیں بھی تو سمجھائیں۔ بہت خوب۔ یعنی اگر کوئی شخص اسوہِ صلح حدیبیہ پر عمل کرنے کی کوشش کرے، تو وہ دراصل نبی پاک کے علمی طور پر ہم پلہ ہونے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ انّا للہ و ناّ الیہ راجعون۔
لگے رہو منا بھائی:D
 

عاطف بٹ

محفلین
سبحان اللہ ۔۔۔ یک نہ شد دو شد۔۔۔ اب یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہم پلہ کھڑا کرنے سے مراد علمی طور پر ویسا ثابت کرنا تھا۔ بٹ صاحب لگتا ہے کہ آپ مشقِ خوردو نوش کے دوران ذرا سانس لینے اور سستانے کے دوران عالمِ نیم غنودگی میں دوسروں کی پوسٹوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسی حالتِ مدہوشہ میں الٹا سیدھا جواب لکھنے کے بعد از سرِ نو مصروفِ ناؤ نوش ہوجاتے ہیں۔۔۔ حجرت یہ علمی طور پر ہم پلہ ہونے کی پخ کہاں سے نکالی ذرا ہمیں بھی تو سمجھائیں۔ بہت خوب۔ یعنی اگر کوئی شخص اسوہِ صلح حدیبیہ پر عمل کرنے کی کوشش کرے، تو وہ دراصل نبی پاک کے علمی طور پر ہم پلہ ہونے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ انّا للہ و ناّ الیہ راجعون۔
لگے رہو منا بھائی:D
حضرت جی، باقی بات کا جواب بعد میں پہلے تصحیح فرما لیں کہ میں نے عملی لکھنا تھا جو غلطی سے علمی لکھا گیا۔
میں معذرت خواہ ہوں۔ باقی بات وہی ہے جو میں پہلے کہہ چکا ہوں۔
 
Top