اضطراب میں کوئی انتہائی انقلابی بات لکھ ڈالی ہو گی مومن نے، جس کا جواب قاتل ادا، سحاب صفت، موصول کنندہ نے بطرزِ سلف یعنی بزورِ شمشیر نقد قاصد کے حوالے کیا، جو وہ بجسدِ خود اما بشانہ ہائے دگراں لے کر لوٹے۔آج یہ شعر پڑھا ۔ ہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ ایسا کیا لکھ دیا مومن بھیا نے۔
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
مومن خاں مومن
اپنا شعر اس طرح لکھ گئے ہوں گےآج یہ شعر پڑھا ۔ ہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ ایسا کیا لکھ دیا مومن بھیا نے۔
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
مومن خاں مومن
لیکن شاعرِ انقلاب تو غالباً کوئی اور تھے۔اضطراب میں کوئی انتہائی انقلابی بات لکھ ڈالی ہو گی مومن نے
اللہ اللہ!جس کا جواب قاتل ادا، سحاب صفت، موصول کنندہ
واہ واہ !جس کا جواب قاتل ادا، سحاب صفت، موصول کنندہ نے بطرزِ سلف یعنی بزورِ شمشیر نقد قاصد کے حوالے کیا
جو وہ بجسدِ خود اما بشانہ ہائے دگراں لے کر لوٹے۔
اپنا شعر اس طرح لکھ گئے ہوں گے
تم مرے پاس ہوتی ہو گویا
جب کوئی دوسری نہیں ہوتی
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
نارسائی کا کمال ہے ۔واہ تابش بھائی!
کیا ذہنِ رسا پایا ہے۔
شکر ہے خود نہیں گئے ملاقات کو، ورنہ خود اپنی لاش کو آٹھاکر لانا پڑجاتا!!!تم مرے پاس ہوتی ہو گویا
جب کوئی دوسری نہیں ہوتی
یہ باطنی خارجی ، نصابی کتب کی تشکیل کے بعد کی باتیں ہیں ، لونڈوں لمڈیوں کو "حقیقت" سے بھٹکانے کے لیےویسے میں سوچ رہا ہوں کہ اس حادثے کے بعد عاشقوں کو خط کی ایک نقل ضرور رکھنی چاہیے اپنے پاس !
تاکہ پتہ چلے کہ اشتعالِ معشوق باطنی تھا یا خارجی۔
قاصد بھیجا ہے، سیاست دان نما شاعر لگتے ہیں :ڈشکر ہے خود نہیں گئے ملاقات کو، ورنہ خود اپنی لاش کو آٹھاکر لانا پڑجاتا!!!
اب اس کا جواب لکھنے کے لیے مجھے اقتباس لینا نہیں آتا :پلیکن شاعرِ انقلاب تو غالباً کوئی اور تھے۔
اللہ اللہ!
سب پتہ ہے آپ کو۔
شکر ہے مجھے کہیں نہیں بھیجا آپ نے خط لے کر۔
واہ واہ !
موصوفہ کے وکیلِ صفائی لگ رہے ہیں آپ !
موٹے موٹے لفظوں میں دبا کر کتنا بے ضرر سا کر دیا "قتل" کو ۔
یہ جب سمجھ آئے گا تب اس کا جواب دیں گے ہم۔
ممکن ہے قاصد نے خود ہی خط پڑھ کے خودکُشی کر لی ہو۔
اب اس کا جواب لکھنے کے لیے مجھے اقتباس لینا نہیں آتا :پ
ممکن ہے قاصد نے خود ہی خط پڑھ کے خودکُشی کر لی ہو۔
گڈآج صبح میں ایک صاحب کو دیکھ رہا تھا کہ وہ دو سڑکوں کے بیچ فُٹ پاتھ پر کھڑے ہیں اور انتظار کر ر ہے کہ ٹریفک کا زور کچھ کم ہو تو سڑک کراس کریں۔ کچھ دیر اُن کو انتظار کرنا پڑا پھر جیسے تیسے جان پر کھیل کر اُنہوں نے سڑک پار کی۔
اس طرف پہنچے تو ایک خاتون کو کھڑے پایا ۔ خاتون نے غالبا ً اُن سے درخواست کی (دور ہونے کی وجہ سے میں اُن کی گفتگو نہیں سُن سکا) کہ اُنہیں سڑک کے اُس پار جانا ہے سو وہ ( صاحب ) اُنہیں (اُن خاتون کو) سڑک پار کرو ا دیں۔ وہ صاحب کچھ سٹپٹائے۔ ایک آدھ جملوں کا مزید تبادلہ ہوا ۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ صاحب اُن خاتون کے ساتھ پھر سڑک کے اُس پار جانے کی کوشش کر رہے تھے جہاں سے وہ بامشکل یہاں پہنچے تھے۔ صبح کا وقت تھا ، اُن صاحب کو جلدی بھی ہوگی۔ لیکن پھر بھی اُنہوں نے انکار نہیں کیا ۔
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں