مسجد کمیونیٹی سنٹر ہوتے ہیں۔ اگر بزنس ٹھپ ہونے کا اندیشہ تھا تو راشن کی تقسیم وغیرہ کا کام مسجدوں سے کیا جا سکتا تھا۔ مستحقین کے لئے پیسہ اکھٹا کیا جا سکتا تھا وغیرہ۔ الخدمت والے یہی کچھ کر کے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ان سے ہی کچھ سیکھ لیں۔وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بزنس کھلے رہیں گے۔ کیا مفتی منیب صاحب مسجدوں اور مدرسوں کو بزنس قرار دے رہے ہیں؟
ایک چیئرمین ہلال کمیٹی اور دوسرے مفتی اعظم پاکستان۔مفتی منیب اور مفتی تقی عثمانی کون ہوتے ہیں یہ اعلان کرنے والے؟ کیا یہ مفتیان ریاست و حکومت ہیں؟
درست ہے البتہ ان کی اتھارٹی حکومت اور ریاست پاکستان سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک حکومت NOC نہ دے کوئی مسجد و مدرسہ نہیں کھل سکتا۔ایک چیئرمین ہلال کمیٹی اور دوسرے مفتی اعظم پاکستان۔
بالکل!درست ہے البتہ ان کی اتھارٹی حکومت اور ریاست پاکستان سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک حکومت NOC نہ دے کوئی مسجد و مدرسہ نہیں کھل سکتا۔
موصوف آجکل پوسٹ کرونا ورلڈ پر کام کر رہے ہیں۔ہاں یاد آیا کہ پوچھوں کہ وہ معاشی ایڈوائزر عاطف میاں کیسے جا رہے ہیں؟ کچھ سننے میں نہیں آیا کہ ایڈوائزر کی پچھلے دو سالوں میں کیا پرفارمنس رہی ہے؟
پائن۔۔۔۔۔۔موصوف آجکل پوسٹ کرونا ورلڈ پر کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے تو ٹھیک ہی ہیں۔ مگر انہوں نے کبھی دین پڑھا ہی نہیں۔کراچی کا حال بھی دیکھ لیں۔ لوگوں نے مساجد بند ہونے پر اپنی چھتوں پہ مجمع لگا کر نمازیں ادا کرنی شروع کر دی ہیں۔ پھر کتنی ڈھٹائی سے کہتے ہیں یہ دین فطرت ہے۔
لگتا نہیں ہے لگ گیا ہے ۔ رسمی حکم نامہ کب کا صادر ہو چکا ۔یہ لگتا ہے کہ بند ہی رہیں گی۔
عین ممکن ہے کہ انہوں نے کسی کو کوئی تفصیلات ہی نہ بتائی ہوں ۔دوسرا کیس سسرال والی گلی میں پیش آیا ان خاتون کو صرف کھانسی تھی۔ جھاڑو دے رہی تھیں اچانک ہی گرگئیں اور دار فانی کوچ کرگئیں۔ ان کا صرف اتنا پتا ہے کہ وہ کورونا انفیکٹڈ تھیں۔
یہاں پر گو کہ رمضان کی آمد آمد ہے لیکن مساجد ابھی تک بند ہیں اور رمضان میں بھی یہ لگتا ہے کہ بند ہی رہیں گی۔
میرے علم میں نہیں تھا۔لگتا نہیں ہے لگ گیا ہے ۔ رسمی حکم نامہ کب کا صادر ہو چکا ۔
اور بیماری کے دوران دیگر افراد کو جو وائرس لگوایا وہ کس کھاتے میں؟لیکن دونوں جگہ یہ افسوسناک پہلو نظر آیا کہ ان لوگوں نے حکومت کو مطلع نہیں کیا۔ اب ان کی تدفین کے دوران اگر کوئی دوسرا متاثر ہوا ہو تو قصوروار یہ خود ہوں گے نہ کہ انتظامیہ۔
آپ سعودیہ میں ہوں تو علم میں ہو نامیرے علم میں نہیں تھا۔
اپنے شہر کی تو کوئی اطلاع نہیں۔ لیکن اپنے سسرال کی اطلاع ہے۔ مطلب حیدرآباد کی۔
وہاں کے دو کیس پتا ہیں اور انتہائی عجیب بات یہ ہے کہ ان دونوں مریضوں کی اچانک موت واقع ہوئی۔
ایک تو میرا سسرالی رشتے دار تھا۔ ان بھائی کی کہانی یہ ہے کہ انہوں نے کورونا کا ٹیسٹ کروایا تھا جو پازیٹیو آیا تھا۔ اس کے بعد اس نے خود کو اور اپنی بیگم اور بچی (جو پانچ ماہ کی ہے۔) کو اپنے کمرے میں قید کرلیا تھا۔ اب نہ تو اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا اور نہ ہی اپنی بیگم کو بتا یا کہ میں کورونا انفیکٹیڈ ہوں۔ اسے سانس میں گھٹن تھی اور بس۔ پورا دن ڈائری لکھتا رہتا تھا۔ دو دن پہلے گھر والوں سے نیبولائزر مانگا اور لگایا۔ لگانے کے کچھ دیر ہی بعد ناک سے خون آنے لگا۔ گھر والے ہسپتال لے کر بھاگے تو راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اب کل اس کی بیگم نے اتفاقا اس کی ڈائری کھولی تو یہ کورونا والی بات اس میں سامنے آئی۔ اب پورا سسرال پریشان ہے کہ میت میں گئے تھے کہیں وائرس نہ لگ گیا ہو۔
دوسرا کیس سسرال والی گلی میں پیش آیا ان خاتون کو صرف کھانسی تھی۔ جھاڑو دے رہی تھیں اچانک ہی گرگئیں اور دار فانی کوچ کرگئیں۔ ان کا صرف اتنا پتا ہے کہ وہ کورونا انفیکٹڈ تھیں۔
لیکن دونوں جگہ یہ افسوسناک پہلو نظر آیا کہ ان لوگوں نے حکومت کو مطلع نہیں کیا۔ اب ان کی تدفین کے دوران اگر کوئی دوسرا متاثر ہوا ہو تو قصوروار یہ خود ہوں گے نہ کہ انتظامیہ۔
ایک چیئرمین ہلال کمیٹی اور دوسرے مفتی اعظم پاکستان۔
آج اسی سلسلے میں متوفی سے ملنے جلنے والے افراد اور ایک مقامی ہسپتال کے عملے بشمول ڈاکٹرز کو ملا کر بتیس لوگوں کی ٹیسٹ رپورٹ آئی ہے جس کے مطابق صرف کورونا مریض کی بیوہ میں رزلٹ پوزیٹو آیا ہے جنہیں ڈی ایچ کیو، اٹک کے آئسولیشن وارڈ میں شفٹ کردیا گیا ہے۔مقامی صحافیوں کے مطابق ہماری تحصیل کے ایک گاؤں غورغشتی میں کورونا کے ایک کنفرم مریض فوت ہوگئے ہیں۔جنہیں آج شہر کے سرکاری قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ ان کی عمر 72 سال تھی۔ شاید یہ مریض چھپایا گیا تھا کہ اس سے قبل ہماری طرف کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔یہ گاؤں یہاں سے بمشکل آٹھ دس کلو میٹر ہوگا۔کل اسی گاؤں کے ایک دوست سے پانچ سات منٹ ملاقات بھی رہی لیکن تب تک ایسی کوئی خبر نہیں سنی تھی۔
بڑی افسوس ناک صورتحال ہے کہ یہاں تو لوگ حد سے زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کررہے تھے اب شاید عقل کریں۔
یہ سائنس کا وزیر اپنا دماغ کہیں بھول گیا ہے اور رویت ہلال کمیٹی کے بارے میں وہی گھسی پٹی باتیں دہرا رہا ہے جن میں زرہ برابر بھی حقیقت نہیں ہے۔ مفتی منیب سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن اتنا معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا کام چاند دیکھنے کا نہیں۔ رویت ہلال کمیٹی چاند کی رویت کی رپورٹوں، محکمہ موسمیات کی رپورٹوں، سپارکو کی رپورٹوں (چاند کی پیدائش ہو چکی ہے کہ نہیں، دیکھنے کا امکان کتنا ہے وغیرہ) پر فیصلہ کرتی ہے کہ چاند دیکھا گیا یا نہیں۔ اور دنیا بھر کے ممالک کے مقابلے میں رویت کا یہ بہترین نظام ہے۔ انڈیا کا نظام بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔
جی بالکل۔ یہ بند ڈبہ دوربین تو رویت ہلال کمیٹی محض فوٹوشوٹ کیلئے استعمال کرتی ہے۔مفتی منیب سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن اتنا معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا کام چاند دیکھنے کا نہیں۔