شریف تو سارے مرد ہی ہوتے ہیں، آپ نے کسی عورت کا نام شریف سنا ہے آج تک
ڈاکٹر صاحب آپ نے محبت کو جس طرح بیان کیا ہے۔۔وہ بہت درست ہے لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ absolute تعریف ہے اور انسانی زندگی میں کچھ بھی absolute نہیں ہے؟؟؟؟ تھیوری کو چھوڑیں۔۔۔کیونکہ جب میں ان ساری باتوں کو انسانی زندگی پر لاگو کرتی ہوں تو مجھے وہ کیا کہتے ہیں ۔۔کہ تھیوری اور پریکٹس میں بہت بڑا خلا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ عام زندگی میں یہ باتیں کہاں تک درست ہیں۔۔میرے خیال میں تو یہ محبت کا کوئی super-lative مقام ہے۔۔۔جہاں انکار اقرار اور فنا و جذب کی ایسے مرحلے آتے ہیں اور میرے خیال میں یہ مجاز کی بجائے حقیقت کے سفر میں ہوتا ہے۔۔۔ انسانی رشتے تو اس سے بہت نیچے کا درجہ ہیں۔۔۔۔تو پھر یہ والی پوسٹ ہو گی ڈاکٹر صاحب کی :
وہ بات رہی الچھی سی اب ایئے ذرا سہل انداز میں بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ابتدا ہے بے شک اسکا کوئی انت نہیں ہے، بے شک یہ ایک آفاقی جذبہ ہے، اس کا کوئی انت نہیں ہے یہ بھی درست ہے اور اس میں انکار اور اقرار کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہ بھی درست ہے، رہی بات عشق کی تو محبت میں جذب کا عالم عشق ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے بڑہتے ہیں، محبت میں اقرار کا جنم انکار سے کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے ۔۔۔ ہم ہمیشہ محبت کو نہیں اس کے میڈیم کو دیکھتے ہیں جو کہ دو طرفہ ہوتا ہے، یعی محب اور محبوب۔۔۔۔۔۔ رشتہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔ روپ کوئی بھی ہوسکتا ہے، زیر بحث عموما یہ دونوں میڈیم آتے ہیں ان کی کیفیات اور ثانوی جذبات آتے ہیں۔ غم ، جدائی، ہجر و وصل،دھوکہ، نطر انداز ہونا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ یہ تمام چیزیں جہاں سے جنم لے رہی ہیں وہ ہمیشہ ایک آفاقی جذبہ کے تحت آ کر سوچ میں محدود ہو جاتا ہے بس محبت ہے۔۔۔۔ اور بات پھر دونوں کے میڈیم کے متعلق چل پڑتی ہے،
مختصرا ۔۔۔ محبت صرف اقرار کا نام ہے یہ ایک ایسا جنوں ہے جس میں صرف جذبیت ہے ، گم ہونا ہے، فنا ہونا ہے، اس کا انت سانس کی آخری ڈور سے بھی ماورا ہے، اس میں اقرار کی دلیل کیا ہے ؟۔۔۔۔۔ کبھی رونا ، کبھی ہنسنا ، ہجر و وصل ، آہ و زاری، مگر اس سے انکار نہیں، خود اپنی ذات میں مبتلائے جنگ رہنا مگر فرار نہیں، بار زخمی ہونا کراہنا مگر فرار نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکار ہوتا تو فرار ہوتا ۔۔۔ اور فرار ہوتا تو اقرار کی نفی ہوتی، اور اقرار کی نفی ہوتی تو محبت بحث سے خارج ہوجاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیرتی ہوں چشم کے آگے دھرا ہے آئینہ
مستقل دیکھو تو جانو اک بلا ہے آئینہ
کچھ نہیں مقصود چشم حیرت ہے سوا
آنکھ جو رکھتا ہے اس کا مدعا ہے آئینہ
کس کے ٹہرائیں مماثل کیا رکھیں تمثیل میں
کسے سے دیں تشبیہ آخر ائینہ ہے آئینہ
اب نگہ حائل نہیں لے دیکھ یہ رنگ وصال
چشم خوں آلود ہے ٹوٹا پڑا ہے آئینہ
سوال در سوال باعث زحمت نہیں ہوا کرتا ۔۔۔ اس سے مجھ جیسے نالائق کو بھی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔۔۔۔
سلام
فرحت معصوم پنے سوال ڈھونڈ رہی ہے کوئی انہیں لبھ کے لاؤ
شریف تو سارے مرد ہی ہوتے ہیں، آپ نے کسی عورت کا نام شریف سنا ہے آج تک
:س: شکریہ تعبیر۔۔لیکن 'انکل کیوں' کی طرح مجھے بھی اپنے اکثر سوالوں کے جواب نہیں ملتے
شکریہ ڈاکٹر صاحب تفصیلاً جواب کے لیے اور بہت شکریہ شمشاد بھائی اس پوسٹ کو ڈھونڈ لانے کے لیے۔۔۔
میرا خیال ہے کہ گفتگو کا سلسلہ واقعی تھوڑا موضوع سے ہٹ گیا ہے۔۔سوال سے سوال نکلیں تو شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔۔میں اصل میں صرف یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ کامیاب رشتوں کی بنیاد کیا ہے؟؟ لوگ کہتے ہیں کہ ‘محبت‘ رشتوں کی بنیاد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے برقرار رہنے کی ضمانت ہے۔۔۔جبکہ میرے نزدیک ‘خلوص‘ اور ‘احساس‘ کسی بھی رشتے کی بنیاد ہے اور اس کو برقرار رکھنے میں بھی بہت سے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ یہ دونوں جذبے بھی کارفرما ہیں۔۔۔
ڈاکٹر یونس رضا صاحب نے محبت کا فلسفہ بہت گہرائی میں جا کر بیان کیا۔۔لیکن میری نالائقی فلسفے کے میدان میں اپنی انتہا پر جا پہنچتی ہے اور یوں میں شاید اس ایسنس کو سمجھنے میں ناکام ہوں۔۔ویسے بھی جس طرح پاکستان میں ‘جمہوریت‘ کی ان گنت تعریفیں ہیں وہی حال محبت کی تعریف کا ہے۔۔۔میرا سوال تھا کہ اگر محبت دینا ہی دینا ہے تو کیا یہ کسی بھی رشتے کو برقرار رکھ سکتی ہے؟؟ اگر جواب ہاں ہے تو ہمارے اردگرد رشتوں میں دراڑیں کیوں پڑتی ہیں جبکہ ہم ‘خالق‘ سے لیکر ‘عباد' تک ہر رشتے میں محبت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔۔اور یہ کوئی بھی رشتہ ہو سکتا ہے۔۔۔ خونی رشتوں میں تو محبت رگوں میں ویسے ہی دوڑتی پھرتی ہے پھر کیوں بہن بھائی محبت کے دعوے کے باوجود ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہوتے ہیں؟؟؟ اس لیے کہ وہ کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔۔انسانی زندگی کی عمارت رشتوں کی اینٹوں سے تعمیر ہوتی ہے اور جب تک اینٹیں ایک دوسرے کو سہارا دیتی رہیں گی عمارت کھڑی رہے گی لیکن جہاں ایک اینٹ دوسری کو سہارا دینے کو موجود نہ ہو وہاں عمارت کے کھنڈر ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔۔۔ یعنی ‘دے‘ اور ‘لے‘ والا حساب ہے تو میری ناقص عقل صرف دینے کو رشتوں کی کامیابی کا ضامن نہیں سمجھتی۔۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اکثر ایک فریق ایثار اور برداشت کے معاملے میں بازی لے جاتا ہے۔۔۔ میرے نزدیک بشری رشتوں میں بےغرض محبت صرف ماں باپ کی ہو سکتی ہے باقی سب رشتوں میں توقعات کا پورا ہونا یا نہ ہونا ان کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ ہے۔ اور باہم فریقین کے لیے اس سلسلے میں ایک متوازن اپروچ ہی رشتوں کو خوشگوار بناتی ہے۔
فرحت ، بھئی مجھے تو اب بھی سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ آپکو اگر آئی تو شام مجھے بھی بتائیے گا
ظفری کے لکھے ہوئے کو پھر بھی میں سمجھ لیتی ہوں یہ رضا یونس ص کا فلسفہ
نہیں سمجھ آتا ۔۔ میں کیوں اتنی نکمی ہوں
:س: شکریہ تعبیر۔۔لیکن 'انکل کیوں' کی طرح مجھے بھی اپنے اکثر سوالوں کے جواب نہیں ملتے
میں آپ کو ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں ۔ بات مختصر کروں گا کہ طوالت کی صورت میں موضوع اپنے پیرائے سے باہر نکل جائے گا ۔خلوص کی تھوڑی سیdefinition کہ آپ دونوں نے اسے محبت سے بالکل الگ مانا ہے اور کسی کے خلوص کو کیسے پرکھا جا سکتا ہے
میں آپ کو ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں ۔ بات مختصر کروں گا کہ طوالت کی صورت میں موضوع اپنے پیرائے سے باہر نکل جائے گا ۔
فرض کریں کہ آپ ایک آرٹیکٹ ہیں ۔ آپ نے سوچا کہ ایک عمارت بنائی جائے ۔ یہ احساس ہے ۔ آپ نے پوری تندہی سے اس منصوبے " احساس " پر کام کیا کہ کہاں کیسے چوکھٹیں لگائیں جائیں ۔ کہاں کیسا در ہوگا ۔ عمارت کا کلر کیسا ہوگا ۔ غرض یہ کہ آپ نے اس کی بھرپور ڈیزائنگ کی ۔ یہ خلوص ہے ۔ جب عمارت بن کے سامنے آگئی تو یہ محبت ہے ۔ یعنی محبت ایک آؤٹ پٹ ہے ۔ خلوص ایک پروسیجیر ہے ۔ اور احساس ایک پروگرام ہے ۔
اب میری پچھلی تحریر کے اس جملے کو دیکھیں " محبت خلوص سے مشروط ہے اور خلوص احساس سے ۔ "
میرا خیال ہے کہ اب احساس ، خلوص اور محبت کے درمیان کا تیکنکی فرق واضع ہوگیا ہوگا ۔
اپ کا جواب بڑا سادہ اور پیارا ہے ۔۔۔ خوش رہیئے مسکراتی رہیے ۔۔۔ "ہو کیئرز کے فارمولے پر"
اگر وش ہے تو تھینکس،،
اور آپکو کیسے لگا کہ میرا فارمولہ ہو کیئرز والا ہے
اب اگر مجھے سمجھ نہیں آئی تو یہ تو آپکا فرض تھا سمجھاتے ، اب ظفری کو ہی دیکھ لیں تعبیر کو سمجھ نہیں آئی تو ظفری نے پھر سمجھا ڈالا ہے کہ نہیں ؟
اس فارمولے پر اگر بندہ کار بند رہے تو پھر ٹینشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ اور ظفری کا تو یہ کمال ہے نا ۔۔۔۔ اس کمال پر اسکو داد دینی چاہیے ۔۔۔ بہرحال یہ اچھا ہوا کہ کم از کم بحث ایک نہج کو تو پہنچی ۔۔۔۔ اب دیکھنا یہ کہ آگے کونسے سوال پیدا ہوتے ہیں ۔۔۔
کمال تو ظفری کا ہی ہوا ناں ۔؟ آپ نے کیا کیا جمال ہی کرلیتے ؟
باقی ظفری کی سمجھ اسلئے اب باآسانی سے آتی ہے کہ اس سے لڑتے جھگڑتے اب چھے سال تو ہونے کو ہیں ، اس لئے ظفری کے کمال سے ہم سب واقف ہیں ۔۔ آپ اپنی کہئیے ،۔۔
فرحت ۔ ۔۔۔ کہاں ہیں آپ