پڑھنے والوں کی آسانی کی خاطر کالم یہاں نقل کیا جاتا ہے:
احمد رضا
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
ہمارے معاشرے کو خون کی بو کا چسکا آنے لگ گیا ہے‘
پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز کی لائیو کوریج ہو، صبح کے شوز ہوں یا شام کے مقبول ٹاک شوز، سب پر ان دنوں ایک ہی موضوع چھایا ہوا ہے اور وہ ہے ’طاہر القادری کا لانگ مارچ‘۔
لیکن کوئٹہ میں جمعرات کے بم حملوں میں ہلاک ہونے والے درجنوں شیعہ افراد کی میتوں سمیت ان کے ورثاء اور شیعہ ہزاری برادری کے دھرنے کی خبر ٹی وی چینلز کے نیوز بلیٹنز میں ہی نظر آتی ہے اور انتہائی سرد موسم میں جاری یہ احتجاج طاہر القادری کے پرجوش خطابات اور اخباری کانفرنسوں جیسی لائیو کوریج حاصل نہیں کرسکا ہے۔
اس کی وجہ مصلحت ہے، لاتعلقی یا کاروباری ترجیحات، اس پر رائے تقسیم ہے۔
صحافی اور ٹی وی اینکر پرسن معید پیرزادہ کہتے ہیں کہ ‘اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ نے بہت زیادہ توجہ حاصل کر رکھی ہے اور اس پر میڈیا کی ایک بڑی غیرمتناسب توجہ ہے۔’
معید پیرزادہ سمجھتے ہیں کہ کوئٹہ کے احتجاج پر میڈیا کے اس ردعمل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
’دہشتگردی کے واقعات بہت زیادہ تعداد میں ہورہے ہیں، پچاس، ساٹھ، ستّر لوگوں کا گھائل ہوجانا ایک معمول بن چکا ہے۔ دہشتگردی پر پاکستانی ٹاک شوز میں اتنی بار بحث ہوچکی ہے اور سینکڑوں پروگرام ہوچکے ہیں کہ دہشتگردی کے ہر نئے واقعے پر وہ توجہ دے نہیں پاتے۔‘
لیکن ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کا ایجنڈہ تو بہت سوچ بچار کرکے طے کیا جاتا ہے۔ کوئٹہ کا احتجاج ٹاک شوز کا بھی بڑا موضوع نہیں بن سکا۔
معید پیرزادہ کہتے ہیں ’ٹاک شوز، نیوز بلیٹن سے تھوڑے سے تو مختلف ہوتے ہیں۔ ٹاک شوز محض حقائق اور واقعات پر بحث نہیں کرتے۔ کرتے بھی ہیں لیکن وہ بہت حد تک اس سے آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری چونکہ سیاسی نظام پر حملے کررہے ہیں اور مجموعی حالات سے اس کا زیادہ تعلق ہے اس لیے ٹاک شوز میں وہ نمایاں ہے۔‘
لیکن ڈان ٹی وی پر ٹاک شو کی میزبان عاصمہ شیرازی معید پیرزادہ کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتیں۔
‘میرا خیال ہے کہ ہم بے حس ہوچکے ہیں۔ جو دہشتگردی کے باقی واقعات ہوتے ہیں وہ بھی ہم تھوڑی دیر بحث کرنے کے بعد چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن شیعہ مسلمانوں کا قتل تو تواتر سے جاری ہے۔ شاید ان لوگوں کے ہاتھوں میں مشعل ہوتی ہے، شمع ہوتی ہے، بندوق نہیں ہوتی اس لیے یہ مجبور نہیں کرسکتے پاکستانی میڈیا کو کسی بھی طریقے سے۔‘
انہوں نے طنزیہ طور پر کہا ’کاش کے طاہر القادری جیسی اشتہاری مہم شیعہ برادری بھی کر سکتی یا احمدی بھی کرسکتے تو ان کو بھی اتنی کوریج مل جاتی۔ میں تو یہ کہوں گی کہ ہمارے معاشرے کو خون کی بو کا چسکا آنے لگ گیا ہے۔ ہمیں جتنی بھی خون کی بو آئے ہم اسے ویلکم کرتے ہیں اور اگلے خون کی بو کا انتظار کرتے ہیں۔‘
عاصمہ شیرازی کے بقول ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیا خود شدت پسندی اور دہشتگردی سے خوفزدہ ہے۔
’میڈیا کے ادارے چونکہ آسان ہدف بھی ہیں، صحافی بھی آسان ہدف ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی نشانہ بنایا جائے جو کہ بہت حد تک ممکن ہے۔ لیکن میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے۔ اگر ہم اب بھی نہیں بولیں گے تو کب بولیں گے۔ میں تو اپنے بچوں کے لیے بول رہی ہوں اور بولنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہماری خاموشی سے مزید کتنی زندگیاں خاموش ہوجائیں گی شاید اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہے۔
پاکستان کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے یا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر پرویز شوکت کہتے ہیں کہ مقابلے کی دوڑ نے بھی میڈیا میں لاتعلقی یا بے حسی کے ایک مخصوص رجحان کو فروغ دیا ہے۔
‘مجھے افسوس ہے کہ اب تک 90 سے زیادہ ہمارے ساتھی مارے جاچکے ہیں لیکن آج بھی ہر چینل اپنے اپنے صحافی یا کارکن کے ہلاک ہونے پر احتجاج کرتا ہے یا اس کی خبریں چلاتا ہے اور وہ بھی کچھ دن بعد خاموش ہوجاتا ہے۔‘
ایک حقیقت اور بھی ہے کہ پاکستانی میڈیا میں بلوچستان کو کم ہی جگہ مل پاتی ہے۔ بعض لوگوں کے بقول اس کی ایک وجہ وہ ایڈوائسز بھی ہیں جو پاکستان میں جمہوریت ہونے کے باوجود تحریری یا زبانی طور پر آج بھی نجی میڈیا کو جاری کی جاتی ہیں۔