تفسیر نے کہا:میں نے بہت پہلے لکھا تھا - شاید اپ کو اس میں جواب مل جائے -
تفسیر۔۔۔۔۔
مددوجزر
سید تفسیر احمد
( سمندر مجھ پہ غصہ تھا۔ اُ س آواز میں گرج تھی اوراِس گرج سے میرے کان بہرے ہورے تھے۔میں سوچا،کیا اس شور میں دوسری آوازیں کھوگئ ہیں؟ ہوا سے ریت کی اُڑنے کی آواز اور ہوا کی گھاس سے سرگوشیاں۔ کیا میں اُن آوازوں کو بھی پہچان سکتا ہوں؟ )
کبھی غم ،کبھی خوشی، کیوں؟ ایک انسان خود کی تلاش میں نکلتاہے او ر غم اور خوشی کا حل دریافت کرلیتا ہے
٭
زندگی میں بعض دفعہ اِسے بھی مواقع آتے ہیں کہ انسان پر یاسیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ نہ یاسیت کوسمجھ پاتا ہے اور نہ ہی اِس کا اظہار کرسکتا ہے مگر اُس کو ہر وقت کسی بات کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے آپ کو زندگی کے ایک ایسے موڑ پر پایا ۔
مجھ کو نا تو علم نفسیات پر اعتبار ہے اور نا ہی نفسیات کے ماہروں پر بھروسہ ہے۔ اِس لیے میں نے ماہرِ نفسیات کے پاس جانا گوارا نہیں کیا مگر جیسے جیسے وقت گزرا میری یاسیت نے گہرایئ اخیتارکرلی۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے اِس کا حل جلد نا تلاش کیاتو میں شاید اس یاسیت کو برداشت ناکرپاؤں۔
میں نے میری دوست سُہانہ سے اِس بات کا ذکرکیا۔ سُہانہ اِس بات کو سن کر ہنستے ہنستے دوہری ہوگیئ ۔ تم الّوہو،تم پاگل ہو۔تم اباجان کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ تم الّو ہو،تم پاگل ہو، سُہانہ کا تکیہ کلام بن چکے ہیں۔ وہ مجھے پاگل کہتی ہے اور میں بھی اُس کو پاگلوں کی سردار کہتاہوں۔
ہاں ،کہتی توسچ ہے۔ یہ میری پاگلوں کی سردار۔ ٹھیک تو ہے میں شاید الّو ہی ہوں۔ میں نے خود سے یہ کیوں نہیں سوچا؟ وہ اب مجھے بے وقوف بھی کہے گی۔میں نے ماں کوٹیلیفوں کرا اور اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا ۔ ماں نے بھی یہ ہی کہا۔۔ بیٹے تم ابّو سے کیوں چھپاتے ہو ؟ میںنے ہفتہ کو ماں کے ہاں جانے کا پروگرام بنایا۔
میرے والدین کا گھر سمندر کے پاس ہے۔ ہفتہ کے دن گاڑی نکا لی اورریڈیو کوآن کیا۔تو یہ گانابج رہاتھا۔
میری سانسوں میں ہے تو سمایا
میر١ جیون تو ہے تیرا سایہ
تیری پوجا کروں میں ہر دم
یہ ہے تیرا کرم کبھی خوشی کبھی غم
نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم
صبع شام چرنوں میں دیئے ہم جلایئیں
دیکھیں جہاں بھی دیکھیں تم ہی کو پایئیں
ان لبوں پہ تیرا بس تیرا نام ہو
پیار دل ے کبھی بھی نہ ہو کم
نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم
جب پہنچا تو ماں ہمیشہ کی طرح باورچی خانہ میں تھیں۔
میں نے ماں سے سوال کیا۔
کیا اباجان کے پاس اس کا حل ہے؟
ماں نے کہا بیٹا میں تو یہ جانتی ہوں کہ اگر تو شادی کرلے تو سب ٹھیک ہوجاے گا۔ اِس سے پہلے کہ ہم اِس دنیا سے چل بسیں ہمیں ہمارے پوتے اورپوتیاں دیکھادے۔
ماں کی یہ رَٹ اُس وقت سے ہے جب میں اٹھارہ سال کا تھا۔ ماں کے پاس صرف ہر پریشانی کا ایک ہی حل ہے پیارومحبت،شادی بیوی اور بچے۔
میں نے آگے بڑھ کر ماں کا ماتھا چوما ۔ اباجان کہاں ہیں؟
ماںنے پیا رسے میرے سر پر چپت لگایئ میرے منے وہ بھلا کہاں ہوں گے ، کتب خانے کے علاوہ۔
جب میں برآمدہ سے گزرا تو ایک کمرے سے زبردست قہقے کی آواز آرہی تھی۔ ہاں میں تو بھول گیا کہ میری ایک بہن ہے جس کا نام یاسمین ہے ۔ میں یاسمین کو خوابوں کی شہزادی کہتا ہوں۔ وہ ہر وقت نیٹ پر ہوتی ہے اور لڑکوں سے گپ شپ لڑاتی ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ یاسمین کی بے باکی اور لطف امیز باتوں کی و جہ سے نیٹ پر ہر لڑکا اُس کا پروانہ ہوگا۔
میں نے کمرے میں سر ڈال کر کہا ، دنیا کو تم سے محبت ہے اور مجھ کو میری ننھی سے محبت ہے۔
یاسمین نے زور سے چیخ ماری اور دوڑکر مجھ سے لپٹ گی۔
آپ ہمیشہ ہی غلط وقت پرآتے ہیں ۔ میں ریمشا سے بات کرہی ہوں وہ ضلع کوھاٹ کے ایک شہر میں رہتی ہے ۔ اُس کے پاس تو ویب کیم ہے ۔ چلیے آپ کی بات اُس سے کرواتی ہوں۔
میں یاسمین کے دونوں گالوں کو پیار سے چوما اور کہا۔پھر کبھی سہی ۔ابھی اباجان انتظار کررہے ہیں۔
میں آپ سے بعد میں کھانے کے وقت پرملوں گی ۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا یاسمین نے پھر سے ھیڈسیٹ پہن لیا ۔
کتب خانہ میں ہمیشہ کی طرح اباجان اپنی پسندیدہ آرامدہ کرسی پربیٹھے کوئ کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں نے کمرے میں نظر پھیری۔ یہ وہی تو کمرہ ہے جہاں اباجان نے مجھے پڑھنا سیکھایا، جہاں ماں نے مجھے چلنا سیکھایا اور جہاں میں اور یاسمین نے سارا سارا دن آنکھ مچولیاں کیھلیں۔
جب ابا جان نے میری موجودگی کا احساس کیا تو کتاب کو رکھ کرمیری طرف توجہ دی ۔ آنکھوں سے چشمہ کو اُتارا ۔
آباجان آپ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ میں نے سرسری طور پر پوچھا ۔
سقراط کے چھ سوال۔ اباجان نے کچھ سوچھتے ہوے کہا ۔
تقویئ کیا ہے؟
جرا ئت کیا ہے؟
انصاف کیا ہے؟
تقدس کیا ہے؟
اعتدال کیا ہے؟ اور
اچھایئ کیا ہے؟
سقراط یہ نہیں جانناچاہتا تھا کہ تقوئ کن اجزا سے مل کر بنا ہے۔ یا جرآ ت، انصاف، تقدوس ، اعتدال اور اچھائ کی خصوصیات مل کر تقوئ بناتی ہیں؟ کیا یہ اجزا برابرکی مقدار میں تقوی کا حصہ ہیں؟ سقراط کا مقصد تو دنیاکو یہ بتانا تھا کہ بشر ہی دنیا کو صحیح عمر اور صحیح سوچ سے بہتر بناسکتاہے۔
آج تم اِس لیے نہیں آے ہو کہ میں اور تم سقراط کے سوالوں کا تجزیہ کریں۔
اباجان، ماں نے آپ کو بتایا ہوگا۔ میں نے دھیرے سے کہا۔ زندگی ایک موڑ پرآ کرروک گئ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔
میں نے بولنا شروع کیا اور تقریباً پندرہ منٹ تک بولتا رہا۔ میں نے اباجان کو میری یاسیت کا بتایا۔ سُہانہ سے میرے ربط و رشتہ کا ذکرکیا۔ اسکول، کام وکاج اور دوسری چیزوں میں دل کے نہ لگنے اظہار کیا۔ میں نے جب اپنی کہانی ختم کی تودیکھا کہ اباجان کی آنکھیں بند ہیں۔ میں نے سوچا شاید سورہے ہیں۔
کیا تم پہلے کی طرح ساحلِ سمندر پراب بھی جاتے ہو؟ اباجان نے آنکھیں کھول کر مجھ سے پوچھا۔
بچپن سے مجھے سمندر سے بہت لگاؤ ہے۔ تقریباً میرا ہر روز ساحلِ سمندر پر گزارتا تھا۔ کالج کے ختم کرنے کے بعد میں نے شہر میں ایک فیلٹ لے لیا تھا اوراپنا کاروبار شروع کردیا تھا۔
اب جانا نہیں ہوتا، کام سے بہت کم فرصت ملتی ہے۔ میں نے کہا۔
جس طرح ایک حکیم مریض کو نسخہ دیتا ہے اباجان نے ایک کاغذ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ۔ ہر پرچہ پر کچھ لکھا اور اُن سب کوتہہ کر کے میری طرف بڑھایا۔یہ تمہاری دوا ہے۔ میں نے اباجان کو حیرت سے دیکھا اور سوچا کہ پوچھوں، اباجان، کیا آپ سنجیدہ ہیں؟ مگر یہ جرّت نہ ہوئ۔
کل صبع تم ساحلِ سمندر پر جانا۔ یہ چار وقت کا نسخہ ہے۔ ایک ٩ بجے، ایک ١٢بجے، ایک٣ بجے اورآخرئ ٦ بجے۔ بیٹا اگر اِن کی تاثرچاہتے ہو تو ہر نسخہ کواس کے صحیح وقت پرکھولنا مگر اِن نسخہ کے لیے پرہیزگاری کی بھی ضرورت ہے۔کل صبع اُٹھنے کے بعد شام کے ٦ بجے تک موسیقی اور ریڈیو کو مت سُننا اور نہ ہی ٹیلیویزن کو دیکھنا۔ یہاں تک کے لوگوں سے بھی مت بولنا۔
اس وقت ماں نے کمرے میں سرڈال کر کہا، ارے بیٹا کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے، چل کھالے۔ تیرے ابّو تو سارا دن بولتے رہیں گے۔
بقیہ دن ماں نے مجھے تمام رشتے داروں کے خبریں بتائ ۔ سونیا کے بچے کی پیدایئش، فو زیہ کے لڑکے کی اسکول ختم ہونے کی خبر۔ یاسمین، جتنی دفعہ بھی اپنے کمرے سے باہر نِکلی تو ماں کو باتوں سے روک کر اپنے ایک نیٹ کے دوستوں کے قصے سنائے۔
رات کو گھر جاتے ہوے ساری راستہ میں سوچتا رہا کہ اباجان نے اِن پرچوں پر کیا لکھا ہے۔ لیکن یہ ہمت نہ ہوئ کہ ان کو کھول کر دیکھوں۔ ساری رات بے چینی سے گزری۔
اس سے پہلے کہ سورج کی پہلی کِرن نکلتی میں ساحلِ سمندرپر پہنچ گیا۔ ھوا میںخنکی تھی۔ میں نے گاڑی سے کوٹ نکال کر پہنا اور ساحلِ سمندر پر ٹہلنے لگا۔ دور دور تک کویئ بندہ موجود نہ تھا۔
سمندر کی لہریں بے تابی سے میری طرف آتیں جیسے ایک بچھڑے دوست کو مدتوں بعد دیکھا اور گلے ملنے کی شدید خواھش ہو اور پھر مایوس ہو کر ایسے لوٹ جاتیں جیسے مجھے پہچان نہ پارہی ہوں۔ میں نے اُداس نظروں سے سمندر کو دیکھا۔
میرے دوست، میرے ہمدم، میرے ساتھی، کیا تم بھی مجھے بھول گے ہو؟
جب ٩ بجے تو میں نے پہلا نسخہ کھولا۔ اس پر لکھا تھا ۔
غور اور چوکس ہوکر سنو۔
میں نے اِن لفظوں کو با ربار پڑھا ۔کیا اباجان کی عقل خراب ہوگی ہے؟ اُنہوں نے موسیقی اور ریڈیو کو سننے سے منع کیا ہے۔ یہاں تک کے لوگوں سے بول چال پر بھی پابندی لگادی ہے۔ تو سننے کے لیے کیا رہ گیا ہے؟
میںنے بہت کوشش کی۔ لیکن بلکل خاموشی تھی ۔ صرف موجوں کی آواز، بگلے کی چوں چوں اور اونچائ پر ایک جہاز کی بھن بھناہٹ کے سوا مجھ کوکوئ آواز نہ سننائ دی۔ کیا میں چوکس ہو کر اِن آوازوں کو سنوں؟ میں نے اپنے دل میں کہا۔
ایک ریت کے ٹیلے پر چڑھا اور ساحل کا نظارا کرنے لگا۔
سمندر مجھ پر غصہ تھا۔ اُس کی آواز میں گرج تھی۔ اور اس گر ج سے میرے کان بہرے ہو رہے تھے۔ میں سوچا، کیا اس شور میں دوسری آوازیں کھوگئ ہیں؟ ہوا سے ریت کی اُڑنے کی آواز اور ہوا کی گھاس سے سرگوشیاں۔ کیا میں اُن آوازوں کو بھی پہچان سکتا ہوں؟
میرا دل اُن آوازوں کو سننا چاہتا تھا۔ یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ میں نے ریت پر بیٹھ کر اپنا سرگھانس میں رکھ دیا۔ میری تمام توجہ سُکڑ کر اس خواہش پر مرکوز ہوگی۔ اور میں نے ہوا کی سرساہٹ کو سننا۔ وقت دم گیا۔
میں اب ہوا کی لہر کے ساتھ تھا۔ جب لہر نے گھاس کا پتہ چھوا تو میں نے ہوا اور پتہ کے ملاپ کو محسوس کیا۔اب میں پتہ بن گیا۔ میں نے ہوا کے ہلکے بوجھ سے پتے کا جُھکنا محسوس کیا۔میں اب پھرسے ہوا کی لہر تھا اور میں نے پتہ کو پھر سے سیدھا ہوتا دیکھا ۔اس دھیرے دھیرے چلنے والے وقت پر میں نے ایک سرسراہٹ سنی۔ یہ ہوا کا گھانس سے کہنا تھا ۔ میں پھرآوں گی۔اور گھانس نے کہا تم پھرمجھے یہاں پاؤ گی ۔ دیکھو بھول نہ جانا ۔
اچانک سمندر کی لہرؤں نے گرج کرکہا۔ کیا تم میرے بچھڑے دوست ہو؟
اگرآپ غور اور چوکس ہو کر سننے، تو ایک مختصر لمحہ پر یہ لگتا ہے کہ ہر چیز رُک گیئ ہے۔ اس کوتاہ اور ساکن لمحہ پرآپ کے تمام خیالات ٹھہر جاتے ہیںاور آپ بیرو نی دنیا کی تمام آوازوں کو سن سکتے ہیں۔ آپ نے اندرونی آوازوں کو خاموش کرلیاہے۔ دماغ اب پر سکون ہے۔
میں واپس گاڑی کے پاس آیا۔ بیٹھ کر میں نے اس پرچہ کو پھر سے پڑھا۔
غور اور چوکس ہو کر سنو۔
سمندر چلایا کیا تم میرے وہی دوست ہوجس کو میں صبرپسندی، قدر، ان گنت اوربعیدُالفم با ہمی انحصار چیزوں سے آگائ سکھای تھی؟ کیا تم سب بھول گے؟
ہاں میرے دوست، میں تو سب بھول گیا تھا۔ مگر اب مجھے یادآرہا ہے۔
سمندر کے مدوجزر کو کوئ قابو میں نہیں لاسکتا اسلے تیرنے والے کو صبرپسند ہونا چاہیے۔
سمندر اپنی خوشی سے بے وقوفوں کو نہیں ڈوباتا اسلے عقل مند اپنی بندشوں کو جانتا ہے۔
ہوا، مدوجزر، کرنٹ، بھیانک خاموشی، کالی آندھی اور طوفان بادو دباراں سب پرندوں کو ہوا میں اورمچھلیوںکو پانی کو گہرائ میں
راستہ دیکھاتے ہیں۔
مجھے و ہاں پر بیٹھے ہوے یہ خیال آیا کہ میں ان چیزوں کے بارے سوچ رہا ہوں جوکہ میری سمجھ سے بلند ہیں ۔
صبع بہت آہستہ سے گزری۔ دوپہر تک بادل جاچکے تھے اور سمندر کے پانی میں چمک اور جھلملاہٹ تھی۔ جب میں دوسرہ پرچہ کھولا تو میں ھکا بکا ہوگیا۔ اس پرچہ پر تین الفاظ لکھے تھے۔
ماضی میں جھانکو۔
کہاں؟ ماضی، ظاھراً ۔ لیکن کیوں؟ جب کہ میری تمام پریشانی ابھی ہیں یا مستقبل میں ہونگی؟
میں گاڑی سے نکل کر بدددلی سے، ریت کے ٹیلوں کے درمیان ٹہلنے لگا۔ اباجان نے مجھے ساحلِ سمندر پر اس لیے بھیجا تھا کہ میری خوشیوں اس جگہ سے وابستہ تھیں۔ اور مجھے اُن خوشیوں کی پنہچ اور رسائ پھر سے کرنی ہوگی۔
میں نے ٹیلے کے نزدیک ایک سایہ دار جگہ دیکھی اور ہلکی تپتی ہوئ ریت پر لیٹ گیا۔ جب ماضی کے کنویں میں جھانکا تو تھوڑی کدوکاوش کے بعدکچھ خوشی کے لمحات سطح پر اُبھرے مگراُن پر دھند سی چھائ ہوئ تھی۔ میں نے ایک مصّور کی طرح اُن خیالوں سے کھیلا۔ تھوڑی سی رنگوں کی اصلاح کی۔ تھوڑا سا خاکے میں گہرا پن کیا۔ ایک سانچہ کو لیے کر میں نے اس کی تفصیل کو دوبارہ سے اُ بارنے کی کوشش کی۔ یہ لمحہ بلکل صاف ہوگیا۔ سانچوں کو مکمل کرنے میں اُن کا حصہ بن گیا۔ اس دماغی کیفیت میں اپنے آپ کو خوشیوں سے گھیرا پایا۔ میں اب اُس دنیا میں تھا جہاں صرف سرور رہتا ہے۔
مدوجزر اب اتر رہاتھا ۔کفِ سمندر میں اب بھی گرج تھی۔ میں نے ان یادوں کے ڈھیر سے ایک ایسی یاد کو چننا جس نے میرے دل کو خوشیوں سے بھر دیا۔
میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ ماضی میں جاؤ۔ خوش لوگ ہمیشہ متیقن اور معتقد ہوتے ہیں تو اگر میں خود جان کر ماضی میں جاؤں اور اُن خوشی کے سرچشمہ کو چھوؤں تو کیا مجھے اس سے توانائ کی کرن ہمشہ ملے گی؟
دن کا دوسرا پہر بہت تیری میں گزرا۔ جیسے سورج نے اپنا سفراُفق اور مغرب کی طرف اختیار کیا ایسے ہی میرے ذہین نے بھی ماضی کے واقیات کو ایک دوسرے سے الگ کرنا شروع کیا۔ مثال طور پر جب میں ١٤ سال کا تھا اور یاسمین ٨ سال کی تھی اباجان نے ایک دن ہم سے وعدہ کیا کہ میں تم دونوں کو آج سرکس لیے جاؤں گا۔ اس دن اباجان بیوپار پر نہں گے۔
ہم سب لوگ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ یہ جان کرکہ ٹیلیفون پر اباجان کا منشی ہے میرا اور یاسمین کا منہ لٹک گیے۔ ہم کو پتہ تھا کہ جب اباجان گھرپر ہوتے ہیں تو منشی ان کو صرف اس وقت ٹیلیفون کرسکتا ہے جب کے کام اباجان کی موجودگی کے بغیرنہیں کیا جاسکتا۔ ماں نے اباجان کو کہتے ہوے سننا نہیں میں آج نہیں آؤں گا اس کام کو میرا کل تک انتظار کر نا ہو گا۔
اباجان جب واپس آے توماں نے کہا تم جانتے ہو کہ سرکس ہمیشہ آتا ہے اور آتا رے گا اباجان نے کہا ہاں میں جانتا ہوں، مگر بچپن تو کبھی بھی نہیں لوٹ کر آتا۔ اور ہم سب سرکس گے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مجھے یہ خیال آیا تومیرا دل ، اس دن کی خوشیوں سے بھر گیا ۔ مہربانی کبھی ضایئع نہیںہوتی اور نہ ہی ہمیشہ کہ لیے کھوجاتی ہے۔
جب یاسمین ١٠ سال کی تھی ایک دن میں اور وہ ایک ٹیلے پر بیٹھے لہروں کو دیکھ رہے تھے۔ سورج کے غروب ہونے کا وقت تھا۔ یہ ایک خاموش اور دودھیا ، قزح رنگی شام تھی۔ لہریں سنہرے رنگ کی پتلی چادر ساحل پہ بھیج رہی تھیں ۔ نزدیک اور نزدیک ۔ آخرکار پانی نے ٹیلے کو ہر طرف سے ایسے گیھرا جیسے ماں اپنے لاڈلے کو گلے سے لگاتی ہے۔ یاسمین نے سوچ میں ڈھوبی آواز سے کہا ۔ بھائ جان آپ دیکھیں نا، زمین سمندر کی آنکھوںکا تارہ ہے۔ وہ اس سے کتنا پیار کرتاہے!
وہ ایک معصوم کی طرح صحیح کہا یہ ایک قسم کا لاڈ ہے۔ زمین سُست ہے اور وہ انتظار کرتی ہے مگر سمندر کو لگاؤ ہے تو وہ آتا ہے۔ تم اس میں عشق کا سبق پڑھ سکھتے ہو۔ خیال ، نزدیک آنے کی آ مادگی اورپھر جذب ہونا اور جذب ہونے میں وصال کاپانا۔
تین بجے تک سمندرکا پانی واپس لوٹ چکاتھا اور لہروں کی آواز ایک سُہانی سرگوشی کی طرح من بھری اور سُست سی تھی۔ جیسے کوئ دیو نیند میں سانس لے رہا ہو۔ اباجان کی نصحیتوں پر عمل کرنا تو آسان لگ رہاتھا۔
میں تیسرے پرچے کے لیے بلکل تیار نہ تھا۔ اس دفعہ یہ الفاظ ایک دھمیی گزارش نہیں تھے ۔ یہ الفاظ ایک حکم تھے۔
تمہارے مقاصد کو دوباہ سے جانچو۔
میرا پہلا بچاؤ اپنا دفاع کرنا تھا۔ میرے مقاصد میں کویئ خرابی نہیں ہے۔ میں نے خود سے کہا۔ میں کامیابی چاہتا ہوں، کون نہیں؟ میں کچھ قدر شناسی چاہتا ہوں ،کون نہیں؟ ابھی میرے پاس جو تحفظ ہے مجھے کچھ اور اُس سے زیادہ چاہیے۔ اور کیوں نہیں؟
ذہین میں ایک سرگوشی ہوئ، شاید میرے مقاصد صحیح نہیں ہیں اور شاید اسی وجہ سے میری گاڑی کا پہیا چلنے سے روک گیا ہے۔میں نے مٹھی بھر ریت اُٹھایئ اور اُس کو اُنگلیوں کے درمیان سے گزرنے دیا۔ جب بھی میرے کام میں خود روی، کوئ بندیش یا ٹالم ٹول نہ تھی، ہرکام وقت پر، فایدے کے ساتھ، صحیح ہوا۔ اور میں خوش تھا۔
اب میں ہر کام میں حساب کتاب، فایدہ نقصان اور یکسانیت کا خیال کرتا ہوں۔ اسلیے کہ میرا رجہان اب کام کی طرف نہیں ہے بلکہ اس کے صلہ کیطرف ہے۔ کام ایک وجہ نہیں رہا ہے۔ یہ ایک مال بنانے کا وصلہ اور اخراجات ادا کرنے کا ذریع ہے۔ لوگوں کی مدد کرنا اور اچھای میں حصہ لینا، تحفظ کے غضب ناک شکنجہ میں پھنس چکا ہے۔
میں نے اس لمحہ میںسچائ کو ایک بجلی کی کوند کی طرح دیکھا۔
اگر میرے مقاصد غلط ہیں توکچھ بھی صحیح نہیں۔ اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کےآپ ڈاکیا ہیں یا وزیر داخلہ، گھریلی خاتون ہیں یا کسی قسم کے ہنرمند انسان جب تک آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں آپ کو اطمینان اور خوشی نصیب ہوتی ہے لیکن جب آپ صرف اپنی مدد کریں اور دوسروں کی نہیں تب آپ کو ذہنی کوفت ہوتی ہے اور خوشی کے بجے ناخوشی ملتی ہے۔ یہ اصول ایک ایسی حقیقت ہے جیسے کششِِِ مرکز ہے۔
میں بہت دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔ میں نے دور باڑ پر مدوجزر کے تبدیلی کی سرسراہٹ سننی۔ میری نصحیتوں کا وقت اختیام پر پہنچ چکا تھا اور اباجان کی عقلمندی پر مجھے حسد اور حیرت تھی کہ انہوں نے کتنی نا دیدہ و دانستگی سے میرے لیے دوا بنائ ۔
غور اور چوکسی سے سنو: اپنے ذہین کو خاموش کرنے کے لیے اپنی توجہ کو اندرونی پریشانیوں کے بجاے بیرونی حالات کی طرف مایئل کرو۔
ماضی میں جاؤ : کیوں کہ انسان کا دماغ صرف ایک وقت میں ایک ہی خیال کو سوچ سکتا ہے اس لیے اگر تم ماضی کے خوشگوار لمحہ کو واپس لاؤ تو موجودہ پریشانیوں کو مٹاسکتے ہو۔
اپنے مقاصد کو دوبارہ سے جانچو: اباجان کی نصیحت کی بنیاد اپنے مقاصد کی دوبارہ سے جانچ کرنے پراور اپنے مقاصد ، ایمان، بھلایئ اور اپنی صلاحیت کے درمیان موافقت پیدا کرنے پر ہے۔اِن مقاصد کو جانچنے کے لیے بیدار اور روشن ذہین کی ضرورت ہے اس لیے ابا جان نے پہلی اور دوسری نصیحت کے درمیان چھ گھنٹوں کا وقفہ رکھاہے۔
مشرق میں آسمان قرمزی ہوچکا تھا۔
چھ بجے اور میں نے آخری پرچہ کھولا اس دفعہ سات الفاظ تھے۔ میں نے اُن کو پڑھا اور دھیرے دھیرے سمندر کی طرف چلا ۔ جب میں گیلی ریت پر پہنچا تو میں نے روک کر اس آخری نصیحت کو پھر سے پڑھا۔
اپنی پریشانیوں کو ریت پر لکھ دو۔
میں نے پرچہ کو ہوا میں اڑنے کی لیے چھوڑ دیا ۔ نیچے جھک کر ایک سیپ کا ٹکڑا اُٹھایا اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر ریت پر لکھنا شروع کیا۔ میں لکھتا گیا۔ آنکھوں سے میرے آنسوؤں کی ایک دھار بن گئ۔
جب لکھنے کو کچھ نہ رہا میں نے کھڑے ہوکر اپنا منہ گاڑی کی طرف کیا اور چلنے لگا۔ دل نے کہا موڑ کر مت دیکھو، لہریں واپس آہی ہیں۔ سمندر تمہارا دوست ہے اور وہ تمہاری پریشانیوںکو خود میں سما لے گا۔
میں نے اپنے بچپن کے گھر کی طرف دیکھا۔ گھر شبِ برات کی طرح روشن تھا ۔ ا چانک سارے روشنیو ں کے بلب بجھ گے پھر جب بلب جلے تو ا ور ایسا لگا جسے کوئ پیام لکھ رہا ہو۔ میں نے جلدی جلدی قدم بڑھاے۔ یہاں تک کے میں اُن کی طرف دوڑنے لگا۔ میری سانس پوھل گئ ۔
مجھے روشنی کے نیچے، گیلری میں تین سایہ کھڑے نظر آے۔ اب میں اتنا قریب تھا کہ پڑھ سکوں۔
تیری خوشی کیلے میں اپنی ساری خوشیاں نثار کرتی ہوں، بیٹا۔ ماں نے لکھا تھا۔
میں آپکی خوشی کیلے اپنی جان دے دوں گی نا۔ دوسری سطر پر یاسمین نے لکھا تھا ۔
میرے آنسو خوشی سے بہنے لگے ۔میں نے جلدی جلدی قدم گاڑی کی طرف بڑھاے تاکہ میں میری خوشیوں میں میل جاؤں۔
گاڑی کے پاس ایک دوسری گاڑی کھڑی تھی اور کوئ میری طرف پیٹھ کیے پیغام کو پڑھ رھا تھا۔ میں جب اُس سایے کے قریب پہنچا تو سایے نے مڑکر اپنے لمبے بازو میری گردن میں ڈال دیے۔ اور دھیرے سے کہا ۔
تم الّو ہو ۔ تم گدھے اور اب میں یہ جانتی ہوں کے تم بے وقوف بھی ہو۔ اور سُہانہ کے آنسو بہنے لگے۔ میں نے اِن آنسوں کو خوشی سے پی لیا۔
دورکہیں ایک نخمہ بج رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم ۔
شمشاد نے کہا:اب بتا ہی دیں، لوگوں کو بہت تجسس ہو رہا ہے اور ہاں یہ نہ تو تخلض ہوتا ہے اور نہ ہی تحلض بلکہ یہ تخلص ہوتا ہے۔
تو ہو جائے پھر کوئی نئی تازہ غزل
تفسیر نے کہا:میں نے بہت پہلے لکھا تھا - شاید اپ کو اس میں جواب مل جائے -
تفسیر۔۔۔۔۔
مددوجزر
سید تفسیر احمد
( سمندر مجھ پہ غصہ تھا۔ اُ س آواز میں گرج تھی اوراِس گرج سے میرے کان بہرے ہورے تھے۔میں سوچا،کیا اس شور میں دوسری آوازیں کھوگئ ہیں؟ ہوا سے ریت کی اُڑنے کی آواز اور ہوا کی گھاس سے سرگوشیاں۔ کیا میں اُن آوازوں کو بھی پہچان سکتا ہوں؟ )
کبھی غم ،کبھی خوشی، کیوں؟ ایک انسان خود کی تلاش میں نکلتاہے او ر غم اور خوشی کا حل دریافت کرلیتا ہے
٭
زندگی میں بعض دفعہ اِسے بھی مواقع آتے ہیں کہ انسان پر یاسیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ نہ یاسیت کوسمجھ پاتا ہے اور نہ ہی اِس کا اظہار کرسکتا ہے مگر اُس کو ہر وقت کسی بات کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے آپ کو زندگی کے ایک ایسے موڑ پر پایا ۔
مجھ کو نا تو علم نفسیات پر اعتبار ہے اور نا ہی نفسیات کے ماہروں پر بھروسہ ہے۔ اِس لیے میں نے ماہرِ نفسیات کے پاس جانا گوارا نہیں کیا مگر جیسے جیسے وقت گزرا میری یاسیت نے گہرایئ اخیتارکرلی۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے اِس کا حل جلد نا تلاش کیاتو میں شاید اس یاسیت کو برداشت ناکرپاؤں۔
میں نے میری دوست سُہانہ سے اِس بات کا ذکرکیا۔ سُہانہ اِس بات کو سن کر ہنستے ہنستے دوہری ہوگیئ ۔ تم الّوہو،تم پاگل ہو۔تم اباجان کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ تم الّو ہو،تم پاگل ہو، سُہانہ کا تکیہ کلام بن چکے ہیں۔ وہ مجھے پاگل کہتی ہے اور میں بھی اُس کو پاگلوں کی سردار کہتاہوں۔
ہاں ،کہتی توسچ ہے۔ یہ میری پاگلوں کی سردار۔ ٹھیک تو ہے میں شاید الّو ہی ہوں۔ میں نے خود سے یہ کیوں نہیں سوچا؟ وہ اب مجھے بے وقوف بھی کہے گی۔میں نے ماں کوٹیلیفوں کرا اور اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا ۔ ماں نے بھی یہ ہی کہا۔۔ بیٹے تم ابّو سے کیوں چھپاتے ہو ؟ میںنے ہفتہ کو ماں کے ہاں جانے کا پروگرام بنایا۔
میرے والدین کا گھر سمندر کے پاس ہے۔ ہفتہ کے دن گاڑی نکا لی اورریڈیو کوآن کیا۔تو یہ گانابج رہاتھا۔
میری سانسوں میں ہے تو سمایا
میر١ جیون تو ہے تیرا سایہ
تیری پوجا کروں میں ہر دم
یہ ہے تیرا کرم کبھی خوشی کبھی غم
نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم
صبع شام چرنوں میں دیئے ہم جلایئیں
دیکھیں جہاں بھی دیکھیں تم ہی کو پایئیں
ان لبوں پہ تیرا بس تیرا نام ہو
پیار دل ے کبھی بھی نہ ہو کم
نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم
جب پہنچا تو ماں ہمیشہ کی طرح باورچی خانہ میں تھیں۔
میں نے ماں سے سوال کیا۔
کیا اباجان کے پاس اس کا حل ہے؟
ماں نے کہا بیٹا میں تو یہ جانتی ہوں کہ اگر تو شادی کرلے تو سب ٹھیک ہوجاے گا۔ اِس سے پہلے کہ ہم اِس دنیا سے چل بسیں ہمیں ہمارے پوتے اورپوتیاں دیکھادے۔
ماں کی یہ رَٹ اُس وقت سے ہے جب میں اٹھارہ سال کا تھا۔ ماں کے پاس صرف ہر پریشانی کا ایک ہی حل ہے پیارومحبت،شادی بیوی اور بچے۔
میں نے آگے بڑھ کر ماں کا ماتھا چوما ۔ اباجان کہاں ہیں؟
ماںنے پیا رسے میرے سر پر چپت لگایئ میرے منے وہ بھلا کہاں ہوں گے ، کتب خانے کے علاوہ۔
جب میں برآمدہ سے گزرا تو ایک کمرے سے زبردست قہقے کی آواز آرہی تھی۔ ہاں میں تو بھول گیا کہ میری ایک بہن ہے جس کا نام یاسمین ہے ۔ میں یاسمین کو خوابوں کی شہزادی کہتا ہوں۔ وہ ہر وقت نیٹ پر ہوتی ہے اور لڑکوں سے گپ شپ لڑاتی ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ یاسمین کی بے باکی اور لطف امیز باتوں کی و جہ سے نیٹ پر ہر لڑکا اُس کا پروانہ ہوگا۔
میں نے کمرے میں سر ڈال کر کہا ، دنیا کو تم سے محبت ہے اور مجھ کو میری ننھی سے محبت ہے۔
یاسمین نے زور سے چیخ ماری اور دوڑکر مجھ سے لپٹ گی۔
آپ ہمیشہ ہی غلط وقت پرآتے ہیں ۔ میں ریمشا سے بات کرہی ہوں وہ ضلع کوھاٹ کے ایک شہر میں رہتی ہے ۔ اُس کے پاس تو ویب کیم ہے ۔ چلیے آپ کی بات اُس سے کرواتی ہوں۔
میں یاسمین کے دونوں گالوں کو پیار سے چوما اور کہا۔پھر کبھی سہی ۔ابھی اباجان انتظار کررہے ہیں۔
میں آپ سے بعد میں کھانے کے وقت پرملوں گی ۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا یاسمین نے پھر سے ھیڈسیٹ پہن لیا ۔
کتب خانہ میں ہمیشہ کی طرح اباجان اپنی پسندیدہ آرامدہ کرسی پربیٹھے کوئ کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں نے کمرے میں نظر پھیری۔ یہ وہی تو کمرہ ہے جہاں اباجان نے مجھے پڑھنا سیکھایا، جہاں ماں نے مجھے چلنا سیکھایا اور جہاں میں اور یاسمین نے سارا سارا دن آنکھ مچولیاں کیھلیں۔
جب ابا جان نے میری موجودگی کا احساس کیا تو کتاب کو رکھ کرمیری طرف توجہ دی ۔ آنکھوں سے چشمہ کو اُتارا ۔
آباجان آپ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ میں نے سرسری طور پر پوچھا ۔
سقراط کے چھ سوال۔ اباجان نے کچھ سوچھتے ہوے کہا ۔
تقویئ کیا ہے؟
جرا ئت کیا ہے؟
انصاف کیا ہے؟
تقدس کیا ہے؟
اعتدال کیا ہے؟ اور
اچھایئ کیا ہے؟
سقراط یہ نہیں جانناچاہتا تھا کہ تقوئ کن اجزا سے مل کر بنا ہے۔ یا جرآ ت، انصاف، تقدوس ، اعتدال اور اچھائ کی خصوصیات مل کر تقوئ بناتی ہیں؟ کیا یہ اجزا برابرکی مقدار میں تقوی کا حصہ ہیں؟ سقراط کا مقصد تو دنیاکو یہ بتانا تھا کہ بشر ہی دنیا کو صحیح عمر اور صحیح سوچ سے بہتر بناسکتاہے۔
آج تم اِس لیے نہیں آے ہو کہ میں اور تم سقراط کے سوالوں کا تجزیہ کریں۔
اباجان، ماں نے آپ کو بتایا ہوگا۔ میں نے دھیرے سے کہا۔ زندگی ایک موڑ پرآ کرروک گئ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔
میں نے بولنا شروع کیا اور تقریباً پندرہ منٹ تک بولتا رہا۔ میں نے اباجان کو میری یاسیت کا بتایا۔ سُہانہ سے میرے ربط و رشتہ کا ذکرکیا۔ اسکول، کام وکاج اور دوسری چیزوں میں دل کے نہ لگنے اظہار کیا۔ میں نے جب اپنی کہانی ختم کی تودیکھا کہ اباجان کی آنکھیں بند ہیں۔ میں نے سوچا شاید سورہے ہیں۔
کیا تم پہلے کی طرح ساحلِ سمندر پراب بھی جاتے ہو؟ اباجان نے آنکھیں کھول کر مجھ سے پوچھا۔
بچپن سے مجھے سمندر سے بہت لگاؤ ہے۔ تقریباً میرا ہر روز ساحلِ سمندر پر گزارتا تھا۔ کالج کے ختم کرنے کے بعد میں نے شہر میں ایک فیلٹ لے لیا تھا اوراپنا کاروبار شروع کردیا تھا۔
اب جانا نہیں ہوتا، کام سے بہت کم فرصت ملتی ہے۔ میں نے کہا۔
جس طرح ایک حکیم مریض کو نسخہ دیتا ہے اباجان نے ایک کاغذ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ۔ ہر پرچہ پر کچھ لکھا اور اُن سب کوتہہ کر کے میری طرف بڑھایا۔یہ تمہاری دوا ہے۔ میں نے اباجان کو حیرت سے دیکھا اور سوچا کہ پوچھوں، اباجان، کیا آپ سنجیدہ ہیں؟ مگر یہ جرّت نہ ہوئ۔
کل صبع تم ساحلِ سمندر پر جانا۔ یہ چار وقت کا نسخہ ہے۔ ایک ٩ بجے، ایک ١٢بجے، ایک٣ بجے اورآخرئ ٦ بجے۔ بیٹا اگر اِن کی تاثرچاہتے ہو تو ہر نسخہ کواس کے صحیح وقت پرکھولنا مگر اِن نسخہ کے لیے پرہیزگاری کی بھی ضرورت ہے۔کل صبع اُٹھنے کے بعد شام کے ٦ بجے تک موسیقی اور ریڈیو کو مت سُننا اور نہ ہی ٹیلیویزن کو دیکھنا۔ یہاں تک کے لوگوں سے بھی مت بولنا۔
اس وقت ماں نے کمرے میں سرڈال کر کہا، ارے بیٹا کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے، چل کھالے۔ تیرے ابّو تو سارا دن بولتے رہیں گے۔
بقیہ دن ماں نے مجھے تمام رشتے داروں کے خبریں بتائ ۔ سونیا کے بچے کی پیدایئش، فو زیہ کے لڑکے کی اسکول ختم ہونے کی خبر۔ یاسمین، جتنی دفعہ بھی اپنے کمرے سے باہر نِکلی تو ماں کو باتوں سے روک کر اپنے ایک نیٹ کے دوستوں کے قصے سنائے۔
رات کو گھر جاتے ہوے ساری راستہ میں سوچتا رہا کہ اباجان نے اِن پرچوں پر کیا لکھا ہے۔ لیکن یہ ہمت نہ ہوئ کہ ان کو کھول کر دیکھوں۔ ساری رات بے چینی سے گزری۔
اس سے پہلے کہ سورج کی پہلی کِرن نکلتی میں ساحلِ سمندرپر پہنچ گیا۔ ھوا میںخنکی تھی۔ میں نے گاڑی سے کوٹ نکال کر پہنا اور ساحلِ سمندر پر ٹہلنے لگا۔ دور دور تک کویئ بندہ موجود نہ تھا۔
سمندر کی لہریں بے تابی سے میری طرف آتیں جیسے ایک بچھڑے دوست کو مدتوں بعد دیکھا اور گلے ملنے کی شدید خواھش ہو اور پھر مایوس ہو کر ایسے لوٹ جاتیں جیسے مجھے پہچان نہ پارہی ہوں۔ میں نے اُداس نظروں سے سمندر کو دیکھا۔
میرے دوست، میرے ہمدم، میرے ساتھی، کیا تم بھی مجھے بھول گے ہو؟
جب ٩ بجے تو میں نے پہلا نسخہ کھولا۔ اس پر لکھا تھا ۔
غور اور چوکس ہوکر سنو۔
میں نے اِن لفظوں کو با ربار پڑھا ۔کیا اباجان کی عقل خراب ہوگی ہے؟ اُنہوں نے موسیقی اور ریڈیو کو سننے سے منع کیا ہے۔ یہاں تک کے لوگوں سے بول چال پر بھی پابندی لگادی ہے۔ تو سننے کے لیے کیا رہ گیا ہے؟
میںنے بہت کوشش کی۔ لیکن بلکل خاموشی تھی ۔ صرف موجوں کی آواز، بگلے کی چوں چوں اور اونچائ پر ایک جہاز کی بھن بھناہٹ کے سوا مجھ کوکوئ آواز نہ سننائ دی۔ کیا میں چوکس ہو کر اِن آوازوں کو سنوں؟ میں نے اپنے دل میں کہا۔
ایک ریت کے ٹیلے پر چڑھا اور ساحل کا نظارا کرنے لگا۔
سمندر مجھ پر غصہ تھا۔ اُس کی آواز میں گرج تھی۔ اور اس گر ج سے میرے کان بہرے ہو رہے تھے۔ میں سوچا، کیا اس شور میں دوسری آوازیں کھوگئ ہیں؟ ہوا سے ریت کی اُڑنے کی آواز اور ہوا کی گھاس سے سرگوشیاں۔ کیا میں اُن آوازوں کو بھی پہچان سکتا ہوں؟
میرا دل اُن آوازوں کو سننا چاہتا تھا۔ یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ میں نے ریت پر بیٹھ کر اپنا سرگھانس میں رکھ دیا۔ میری تمام توجہ سُکڑ کر اس خواہش پر مرکوز ہوگی۔ اور میں نے ہوا کی سرساہٹ کو سننا۔ وقت دم گیا۔
میں اب ہوا کی لہر کے ساتھ تھا۔ جب لہر نے گھاس کا پتہ چھوا تو میں نے ہوا اور پتہ کے ملاپ کو محسوس کیا۔اب میں پتہ بن گیا۔ میں نے ہوا کے ہلکے بوجھ سے پتے کا جُھکنا محسوس کیا۔میں اب پھرسے ہوا کی لہر تھا اور میں نے پتہ کو پھر سے سیدھا ہوتا دیکھا ۔اس دھیرے دھیرے چلنے والے وقت پر میں نے ایک سرسراہٹ سنی۔ یہ ہوا کا گھانس سے کہنا تھا ۔ میں پھرآوں گی۔اور گھانس نے کہا تم پھرمجھے یہاں پاؤ گی ۔ دیکھو بھول نہ جانا ۔
اچانک سمندر کی لہرؤں نے گرج کرکہا۔ کیا تم میرے بچھڑے دوست ہو؟
اگرآپ غور اور چوکس ہو کر سننے، تو ایک مختصر لمحہ پر یہ لگتا ہے کہ ہر چیز رُک گیئ ہے۔ اس کوتاہ اور ساکن لمحہ پرآپ کے تمام خیالات ٹھہر جاتے ہیںاور آپ بیرو نی دنیا کی تمام آوازوں کو سن سکتے ہیں۔ آپ نے اندرونی آوازوں کو خاموش کرلیاہے۔ دماغ اب پر سکون ہے۔
میں واپس گاڑی کے پاس آیا۔ بیٹھ کر میں نے اس پرچہ کو پھر سے پڑھا۔
غور اور چوکس ہو کر سنو۔
سمندر چلایا کیا تم میرے وہی دوست ہوجس کو میں صبرپسندی، قدر، ان گنت اوربعیدُالفم با ہمی انحصار چیزوں سے آگائ سکھای تھی؟ کیا تم سب بھول گے؟
ہاں میرے دوست، میں تو سب بھول گیا تھا۔ مگر اب مجھے یادآرہا ہے۔
سمندر کے مدوجزر کو کوئ قابو میں نہیں لاسکتا اسلے تیرنے والے کو صبرپسند ہونا چاہیے۔
سمندر اپنی خوشی سے بے وقوفوں کو نہیں ڈوباتا اسلے عقل مند اپنی بندشوں کو جانتا ہے۔
ہوا، مدوجزر، کرنٹ، بھیانک خاموشی، کالی آندھی اور طوفان بادو دباراں سب پرندوں کو ہوا میں اورمچھلیوںکو پانی کو گہرائ میں
راستہ دیکھاتے ہیں۔
مجھے و ہاں پر بیٹھے ہوے یہ خیال آیا کہ میں ان چیزوں کے بارے سوچ رہا ہوں جوکہ میری سمجھ سے بلند ہیں ۔
صبع بہت آہستہ سے گزری۔ دوپہر تک بادل جاچکے تھے اور سمندر کے پانی میں چمک اور جھلملاہٹ تھی۔ جب میں دوسرہ پرچہ کھولا تو میں ھکا بکا ہوگیا۔ اس پرچہ پر تین الفاظ لکھے تھے۔
ماضی میں جھانکو۔
کہاں؟ ماضی، ظاھراً ۔ لیکن کیوں؟ جب کہ میری تمام پریشانی ابھی ہیں یا مستقبل میں ہونگی؟
میں گاڑی سے نکل کر بدددلی سے، ریت کے ٹیلوں کے درمیان ٹہلنے لگا۔ اباجان نے مجھے ساحلِ سمندر پر اس لیے بھیجا تھا کہ میری خوشیوں اس جگہ سے وابستہ تھیں۔ اور مجھے اُن خوشیوں کی پنہچ اور رسائ پھر سے کرنی ہوگی۔
میں نے ٹیلے کے نزدیک ایک سایہ دار جگہ دیکھی اور ہلکی تپتی ہوئ ریت پر لیٹ گیا۔ جب ماضی کے کنویں میں جھانکا تو تھوڑی کدوکاوش کے بعدکچھ خوشی کے لمحات سطح پر اُبھرے مگراُن پر دھند سی چھائ ہوئ تھی۔ میں نے ایک مصّور کی طرح اُن خیالوں سے کھیلا۔ تھوڑی سی رنگوں کی اصلاح کی۔ تھوڑا سا خاکے میں گہرا پن کیا۔ ایک سانچہ کو لیے کر میں نے اس کی تفصیل کو دوبارہ سے اُ بارنے کی کوشش کی۔ یہ لمحہ بلکل صاف ہوگیا۔ سانچوں کو مکمل کرنے میں اُن کا حصہ بن گیا۔ اس دماغی کیفیت میں اپنے آپ کو خوشیوں سے گھیرا پایا۔ میں اب اُس دنیا میں تھا جہاں صرف سرور رہتا ہے۔
مدوجزر اب اتر رہاتھا ۔کفِ سمندر میں اب بھی گرج تھی۔ میں نے ان یادوں کے ڈھیر سے ایک ایسی یاد کو چننا جس نے میرے دل کو خوشیوں سے بھر دیا۔
میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ ماضی میں جاؤ۔ خوش لوگ ہمیشہ متیقن اور معتقد ہوتے ہیں تو اگر میں خود جان کر ماضی میں جاؤں اور اُن خوشی کے سرچشمہ کو چھوؤں تو کیا مجھے اس سے توانائ کی کرن ہمشہ ملے گی؟
دن کا دوسرا پہر بہت تیری میں گزرا۔ جیسے سورج نے اپنا سفراُفق اور مغرب کی طرف اختیار کیا ایسے ہی میرے ذہین نے بھی ماضی کے واقیات کو ایک دوسرے سے الگ کرنا شروع کیا۔ مثال طور پر جب میں ١٤ سال کا تھا اور یاسمین ٨ سال کی تھی اباجان نے ایک دن ہم سے وعدہ کیا کہ میں تم دونوں کو آج سرکس لیے جاؤں گا۔ اس دن اباجان بیوپار پر نہں گے۔
ہم سب لوگ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ یہ جان کرکہ ٹیلیفون پر اباجان کا منشی ہے میرا اور یاسمین کا منہ لٹک گیے۔ ہم کو پتہ تھا کہ جب اباجان گھرپر ہوتے ہیں تو منشی ان کو صرف اس وقت ٹیلیفون کرسکتا ہے جب کے کام اباجان کی موجودگی کے بغیرنہیں کیا جاسکتا۔ ماں نے اباجان کو کہتے ہوے سننا نہیں میں آج نہیں آؤں گا اس کام کو میرا کل تک انتظار کر نا ہو گا۔
اباجان جب واپس آے توماں نے کہا تم جانتے ہو کہ سرکس ہمیشہ آتا ہے اور آتا رے گا اباجان نے کہا ہاں میں جانتا ہوں، مگر بچپن تو کبھی بھی نہیں لوٹ کر آتا۔ اور ہم سب سرکس گے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مجھے یہ خیال آیا تومیرا دل ، اس دن کی خوشیوں سے بھر گیا ۔ مہربانی کبھی ضایئع نہیںہوتی اور نہ ہی ہمیشہ کہ لیے کھوجاتی ہے۔
جب یاسمین ١٠ سال کی تھی ایک دن میں اور وہ ایک ٹیلے پر بیٹھے لہروں کو دیکھ رہے تھے۔ سورج کے غروب ہونے کا وقت تھا۔ یہ ایک خاموش اور دودھیا ، قزح رنگی شام تھی۔ لہریں سنہرے رنگ کی پتلی چادر ساحل پہ بھیج رہی تھیں ۔ نزدیک اور نزدیک ۔ آخرکار پانی نے ٹیلے کو ہر طرف سے ایسے گیھرا جیسے ماں اپنے لاڈلے کو گلے سے لگاتی ہے۔ یاسمین نے سوچ میں ڈھوبی آواز سے کہا ۔ بھائ جان آپ دیکھیں نا، زمین سمندر کی آنکھوںکا تارہ ہے۔ وہ اس سے کتنا پیار کرتاہے!
وہ ایک معصوم کی طرح صحیح کہا یہ ایک قسم کا لاڈ ہے۔ زمین سُست ہے اور وہ انتظار کرتی ہے مگر سمندر کو لگاؤ ہے تو وہ آتا ہے۔ تم اس میں عشق کا سبق پڑھ سکھتے ہو۔ خیال ، نزدیک آنے کی آ مادگی اورپھر جذب ہونا اور جذب ہونے میں وصال کاپانا۔
تین بجے تک سمندرکا پانی واپس لوٹ چکاتھا اور لہروں کی آواز ایک سُہانی سرگوشی کی طرح من بھری اور سُست سی تھی۔ جیسے کوئ دیو نیند میں سانس لے رہا ہو۔ اباجان کی نصحیتوں پر عمل کرنا تو آسان لگ رہاتھا۔
میں تیسرے پرچے کے لیے بلکل تیار نہ تھا۔ اس دفعہ یہ الفاظ ایک دھمیی گزارش نہیں تھے ۔ یہ الفاظ ایک حکم تھے۔
تمہارے مقاصد کو دوباہ سے جانچو۔
میرا پہلا بچاؤ اپنا دفاع کرنا تھا۔ میرے مقاصد میں کویئ خرابی نہیں ہے۔ میں نے خود سے کہا۔ میں کامیابی چاہتا ہوں، کون نہیں؟ میں کچھ قدر شناسی چاہتا ہوں ،کون نہیں؟ ابھی میرے پاس جو تحفظ ہے مجھے کچھ اور اُس سے زیادہ چاہیے۔ اور کیوں نہیں؟
ذہین میں ایک سرگوشی ہوئ، شاید میرے مقاصد صحیح نہیں ہیں اور شاید اسی وجہ سے میری گاڑی کا پہیا چلنے سے روک گیا ہے۔میں نے مٹھی بھر ریت اُٹھایئ اور اُس کو اُنگلیوں کے درمیان سے گزرنے دیا۔ جب بھی میرے کام میں خود روی، کوئ بندیش یا ٹالم ٹول نہ تھی، ہرکام وقت پر، فایدے کے ساتھ، صحیح ہوا۔ اور میں خوش تھا۔
اب میں ہر کام میں حساب کتاب، فایدہ نقصان اور یکسانیت کا خیال کرتا ہوں۔ اسلیے کہ میرا رجہان اب کام کی طرف نہیں ہے بلکہ اس کے صلہ کیطرف ہے۔ کام ایک وجہ نہیں رہا ہے۔ یہ ایک مال بنانے کا وصلہ اور اخراجات ادا کرنے کا ذریع ہے۔ لوگوں کی مدد کرنا اور اچھای میں حصہ لینا، تحفظ کے غضب ناک شکنجہ میں پھنس چکا ہے۔
میں نے اس لمحہ میںسچائ کو ایک بجلی کی کوند کی طرح دیکھا۔
اگر میرے مقاصد غلط ہیں توکچھ بھی صحیح نہیں۔ اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کےآپ ڈاکیا ہیں یا وزیر داخلہ، گھریلی خاتون ہیں یا کسی قسم کے ہنرمند انسان جب تک آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں آپ کو اطمینان اور خوشی نصیب ہوتی ہے لیکن جب آپ صرف اپنی مدد کریں اور دوسروں کی نہیں تب آپ کو ذہنی کوفت ہوتی ہے اور خوشی کے بجے ناخوشی ملتی ہے۔ یہ اصول ایک ایسی حقیقت ہے جیسے کششِِِ مرکز ہے۔
میں بہت دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔ میں نے دور باڑ پر مدوجزر کے تبدیلی کی سرسراہٹ سننی۔ میری نصحیتوں کا وقت اختیام پر پہنچ چکا تھا اور اباجان کی عقلمندی پر مجھے حسد اور حیرت تھی کہ انہوں نے کتنی نا دیدہ و دانستگی سے میرے لیے دوا بنائ ۔
غور اور چوکسی سے سنو: اپنے ذہین کو خاموش کرنے کے لیے اپنی توجہ کو اندرونی پریشانیوں کے بجاے بیرونی حالات کی طرف مایئل کرو۔
ماضی میں جاؤ : کیوں کہ انسان کا دماغ صرف ایک وقت میں ایک ہی خیال کو سوچ سکتا ہے اس لیے اگر تم ماضی کے خوشگوار لمحہ کو واپس لاؤ تو موجودہ پریشانیوں کو مٹاسکتے ہو۔
اپنے مقاصد کو دوبارہ سے جانچو: اباجان کی نصیحت کی بنیاد اپنے مقاصد کی دوبارہ سے جانچ کرنے پراور اپنے مقاصد ، ایمان، بھلایئ اور اپنی صلاحیت کے درمیان موافقت پیدا کرنے پر ہے۔اِن مقاصد کو جانچنے کے لیے بیدار اور روشن ذہین کی ضرورت ہے اس لیے ابا جان نے پہلی اور دوسری نصیحت کے درمیان چھ گھنٹوں کا وقفہ رکھاہے۔
مشرق میں آسمان قرمزی ہوچکا تھا۔
چھ بجے اور میں نے آخری پرچہ کھولا اس دفعہ سات الفاظ تھے۔ میں نے اُن کو پڑھا اور دھیرے دھیرے سمندر کی طرف چلا ۔ جب میں گیلی ریت پر پہنچا تو میں نے روک کر اس آخری نصیحت کو پھر سے پڑھا۔
اپنی پریشانیوں کو ریت پر لکھ دو۔
میں نے پرچہ کو ہوا میں اڑنے کی لیے چھوڑ دیا ۔ نیچے جھک کر ایک سیپ کا ٹکڑا اُٹھایا اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر ریت پر لکھنا شروع کیا۔ میں لکھتا گیا۔ آنکھوں سے میرے آنسوؤں کی ایک دھار بن گئ۔
جب لکھنے کو کچھ نہ رہا میں نے کھڑے ہوکر اپنا منہ گاڑی کی طرف کیا اور چلنے لگا۔ دل نے کہا موڑ کر مت دیکھو، لہریں واپس آہی ہیں۔ سمندر تمہارا دوست ہے اور وہ تمہاری پریشانیوںکو خود میں سما لے گا۔
میں نے اپنے بچپن کے گھر کی طرف دیکھا۔ گھر شبِ برات کی طرح روشن تھا ۔ ا چانک سارے روشنیو ں کے بلب بجھ گے پھر جب بلب جلے تو ا ور ایسا لگا جسے کوئ پیام لکھ رہا ہو۔ میں نے جلدی جلدی قدم بڑھاے۔ یہاں تک کے میں اُن کی طرف دوڑنے لگا۔ میری سانس پوھل گئ ۔
مجھے روشنی کے نیچے، گیلری میں تین سایہ کھڑے نظر آے۔ اب میں اتنا قریب تھا کہ پڑھ سکوں۔
تیری خوشی کیلے میں اپنی ساری خوشیاں نثار کرتی ہوں، بیٹا۔ ماں نے لکھا تھا۔
میں آپکی خوشی کیلے اپنی جان دے دوں گی نا۔ دوسری سطر پر یاسمین نے لکھا تھا ۔
میرے آنسو خوشی سے بہنے لگے ۔میں نے جلدی جلدی قدم گاڑی کی طرف بڑھاے تاکہ میں میری خوشیوں میں میل جاؤں۔
گاڑی کے پاس ایک دوسری گاڑی کھڑی تھی اور کوئ میری طرف پیٹھ کیے پیغام کو پڑھ رھا تھا۔ میں جب اُس سایے کے قریب پہنچا تو سایے نے مڑکر اپنے لمبے بازو میری گردن میں ڈال دیے۔ اور دھیرے سے کہا ۔
تم الّو ہو ۔ تم گدھے اور اب میں یہ جانتی ہوں کے تم بے وقوف بھی ہو۔ اور سُہانہ کے آنسو بہنے لگے۔ میں نے اِن آنسوں کو خوشی سے پی لیا۔
دورکہیں ایک نخمہ بج رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جدا ہوں گے ہم سبھی خوشی سبھی غم ۔
بوچھی نے کہا:اشک پلکوں پہ یوں رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو ۔ ۔ ۔ آنکھوں سے نکلتے کیوں ہیں
اشک پلکوں سے ،
گر تیری راہ الگ ہے ، تیری منزل ہے جدا
پھر تیرے خواب ۔ ۔ میرے خوابوں سے ملتے کیوں ہیں ،
لوگ اندر ہی سمیٹے ہوئے اپنی دنیا ۔ ۔ کوچہِ عشق میں چپ چاپ یوں جلتے کیوں ہیں ،
اشک پلکوں پہ یوں رک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں ،
میں تو پتھر کی طرح تھا ۔ ۔ ۔مگر یہ کون آیا ، ۔ ۔
میرے اندر دروِدیوار پھیگھلتے کیوں ہیں
اشک پلکوں پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو ۔ ۔آنکھوں سے نکلتے کیوں ہیں ،
ماوراء نے کہا:~~
اداسی بھی عدم احساس ِ غم کی ایک دولت ہے
بسا اوقات ویرانے حسیں معلوم ہو تے ہیں
~~