نیرنگ خیال
لائبریرین
مزیانہ۔۔۔جیلیسانہ
مزیانہ۔۔۔جیلیسانہ
لوجی ۔۔۔ نواب صاحب نے اپنے ملازم کو کہا۔۔۔ جا بئی۔۔۔ ذرا پان لگوا لا۔۔۔ ۔
اور اس کے کمرے سے نکلتے ہی کمنٹری شروع کر دی۔۔۔
اب یہ جوتے پہن رہا ہے
لو جی گھر سے نکل گیا
گلی کی نکڑ پر پہنچ گیا
۔۔۔
۔۔۔
یہ پان کی دکان پر پہنچا
پان لگوا رہا ہے
لو جی واپسی کا سفر شروع
اب گلی کی نکڑ پر۔
گھر میں داخل ہوگیا ہے
۔۔۔
لو جی جوتے اتار رہا ہے۔۔۔
اور ملازم کو آواز دے کر۔۔۔ ہاں بھی دینا۔۔۔ پان گھن آیا ایں۔۔۔ (پان لے آؤ ہو)
دینا: کتھاں سئیں۔۔۔ اجن تے جوتی پاندا کھڑا۔۔۔ ۔ (کدھرنواب صاحب! ابھی تو جوتا پہن رہا ہوں)
ویسے تو یہ لطیفہ سرائیکی میں ہے۔ لیکن فی الحال میں اس کا بیڑہ غرق اردو میں کر رہا ہوں۔۔۔ ۔۔
ریاست کی پٹی اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے مشہور ہے۔۔۔ اور اس میں بہت زیادہ صداقت بھی ہے۔۔۔ یعنی باتیں ہی نہیں بنی ہوئیں۔۔۔
ایک نواب صاحب کسی لکھنوی نواب کی دعوت پر لکھنو جا پہنچے۔ کھانے پینے کے تکلفات کے بعد نواب صاحب نے مہمان نواب سے پوچھا۔ کہ پان سے شوق فرماویں گے۔ حضرت نے سر ہلا دیا۔ اب نواب صاحب نے اپنے ملازم کوکہا جاؤ پان لے آؤ۔۔۔
اور اس کے نکلتے ہیں کمنٹری شروع کر دی۔۔۔ ۔
اب یہ جوتے پہن رہا ہے
لو جی گھر سے نکل گیا
گلی کی نکڑ پر پہنچ گیا
۔۔۔
۔۔۔
یہ پان کی دکان پر پہنچا
پان لگوا رہا ہے
لو جی واپسی کا سفر شروع
اب گلی کی نکڑ پر۔
گھر میں داخل ہوگیا ہے
۔۔۔
لو جی جوتے اتار رہا ہے۔۔۔
اور ملازم کو آواز دے کر۔۔۔ ہاں بھئی واپسی ہوگئی تمہاری
ملازم کمرے میں داخل ہو کر پان پیش کرتے ہوئے بولا۔ ۔۔۔ ۔ جی حضور۔۔۔ ۔
ہمارے نواب صاحب بڑے متاثر ہوئے۔۔۔
واپس آکر اس نواب کو بھی دعوت دی۔۔۔ اور سوچا کہ ایسا ہی میں کروں گا۔ اور اس کو متاثر کروں گا۔۔۔ ۔
اس نواب کی آمد کے بعد یونہی پرتکلف کھانوں کا دور چلا۔۔۔ ۔ اور اس کے بعد پھر لکھنوی نواب سے پوچھا۔۔۔ کہ حضرت پان سے شوق فرمائیں گے۔۔۔
انہوں نے فورا جواب دیا۔۔۔ کیوں نہیں حضور۔۔۔ ۔
لوجی ۔۔۔ نواب صاحب نے اپنے ملازم کو کہا۔۔۔ جا بئی۔۔۔ ذرا پان لگوا لا۔۔۔ ۔
اور اس کے کمرے سے نکلتے ہی کمنٹری شروع کر دی۔۔۔
اب یہ جوتے پہن رہا ہے
لو جی گھر سے نکل گیا
گلی کی نکڑ پر پہنچ گیا
۔۔۔
۔۔۔
یہ پان کی دکان پر پہنچا
پان لگوا رہا ہے
لو جی واپسی کا سفر شروع
اب گلی کی نکڑ پر۔
گھر میں داخل ہوگیا ہے
۔۔۔
لو جی جوتے اتار رہا ہے۔۔۔
اور ملازم کو آواز دے کر۔۔۔ ہاں بھی دینا۔۔۔ پان گھن آیا ایں۔۔۔ (پان لے آؤ ہو)
دینا: کتھاں سئیں۔۔۔ اجن تے جوتی پاندا کھڑا۔۔۔ ۔ (کدھرنواب صاحب! ابھی تو جوتا پہن رہا ہوں)
وویسے تو یہ لطیفہ سرائیکی میں ہے۔ لیکن فی الحال میں اس کا بیڑہ غرق اردو میں کر رہا ہوں۔۔۔ ۔۔
ریاست کی پٹی اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے مشہور ہے۔۔۔ اور اس میں بہت زیادہ صداقت بھی ہے۔۔۔ یعنی باتیں ہی نہیں بنی ہوئیں۔۔۔
ایک نواب صاحب کسی لکھنوی نواب کی دعوت پر لکھنو جا پہنچے۔ کھانے پینے کے تکلفات کے بعد نواب صاحب نے مہمان نواب سے پوچھا۔ کہ پان سے شوق فرماویں گے۔ حضرت نے سر ہلا دیا۔ اب نواب صاحب نے اپنے ملازم کوکہا جاؤ پان لے آؤ۔۔۔
اور اس کے نکلتے ہیں کمنٹری شروع کر دی۔۔۔ ۔
اب یہ جوتے پہن رہا ہے
لو جی گھر سے نکل گیا
گلی کی نکڑ پر پہنچ گیا
۔۔۔
۔۔۔
یہ پان کی دکان پر پہنچا
پان لگوا رہا ہے
لو جی واپسی کا سفر شروع
اب گلی کی نکڑ پر۔
گھر میں داخل ہوگیا ہے
۔۔۔
لو جی جوتے اتار رہا ہے۔۔۔
اور ملازم کو آواز دے کر۔۔۔ ہاں بھئی واپسی ہوگئی تمہاری
ملازم کمرے میں داخل ہو کر پان پیش کرتے ہوئے بولا۔ ۔۔۔ ۔ جی حضور۔۔۔ ۔
ہمارے نواب صاحب بڑے متاثر ہوئے۔۔۔
واپس آکر اس نواب کو بھی دعوت دی۔۔۔ اور سوچا کہ ایسا ہی میں کروں گا۔ اور اس کو متاثر کروں گا۔۔۔ ۔
اس نواب کی آمد کے بعد یونہی پرتکلف کھانوں کا دور چلا۔۔۔ ۔ اور اس کے بعد پھر لکھنوی نواب سے پوچھا۔۔۔ کہ حضرت پان سے شوق فرمائیں گے۔۔۔
انہوں نے فورا جواب دیا۔۔۔ کیوں نہیں حضور۔۔۔ ۔
لوجی ۔۔۔ نواب صاحب نے اپنے ملازم کو کہا۔۔۔ جا بئی۔۔۔ ذرا پان لگوا لا۔۔۔ ۔
اور اس کے کمرے سے نکلتے ہی کمنٹری شروع کر دی۔۔۔
اب یہ جوتے پہن رہا ہے
لو جی گھر سے نکل گیا
گلی کی نکڑ پر پہنچ گیا
۔۔۔
۔۔۔
یہ پان کی دکان پر پہنچا
پان لگوا رہا ہے
لو جی واپسی کا سفر شروع
اب گلی کی نکڑ پر۔
گھر میں داخل ہوگیا ہے
۔۔۔
لو جی جوتے اتار رہا ہے۔۔۔
اور ملازم کو آواز دے کر۔۔۔ ہاں بھی دینا۔۔۔ پان گھن آیا ایں۔۔۔ (پان لے آؤ ہو)
دینا: کتھاں سئیں۔۔۔ اجن تے جوتی پاندا کھڑا۔۔۔ ۔ (کدھرنواب صاحب! ابھی تو جوتا پہن رہا ہوں)
بھرم بازی بھی کوئی چیز ہے۔۔۔ویسے ان نوابوں کے ہاں اپنے پاندان نہیں ہوا کرتے تھے؟۔۔ کافی غریب قسم کے نواب تھے دونوں۔۔۔
اب یہ دھاگہ پھر آباد ہو گیا ہے تو یہ بھی دیکھ لیجے۔
ویسے تو یہ لطیفہ سرائیکی میں ہے۔ لیکن فی الحال میں اس کا بیڑہ غرق اردو میں کر رہا ہوں۔۔۔ ۔۔
ریاست کی پٹی اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے مشہور ہے۔۔۔ اور اس میں بہت زیادہ صداقت بھی ہے۔۔۔ یعنی باتیں ہی نہیں بنی ہوئیں۔۔۔
ایک نواب صاحب کسی لکھنوی نواب کی دعوت پر لکھنو جا پہنچے۔ کھانے پینے کے تکلفات کے بعد نواب صاحب نے مہمان نواب سے پوچھا۔ کہ پان سے شوق فرماویں گے۔ حضرت نے سر ہلا دیا۔ اب نواب صاحب نے اپنے ملازم کوکہا جاؤ پان لے آؤ۔۔۔
اور اس کے نکلتے ہیں کمنٹری شروع کر دی۔۔۔ ۔
اب یہ جوتے پہن رہا ہے
لو جی گھر سے نکل گیا
گلی کی نکڑ پر پہنچ گیا
۔۔۔
۔۔۔
یہ پان کی دکان پر پہنچا
پان لگوا رہا ہے
لو جی واپسی کا سفر شروع
اب گلی کی نکڑ پر۔
گھر میں داخل ہوگیا ہے
۔۔۔
لو جی جوتے اتار رہا ہے۔۔۔
اور ملازم کو آواز دے کر۔۔۔ ہاں بھئی واپسی ہوگئی تمہاری
ملازم کمرے میں داخل ہو کر پان پیش کرتے ہوئے بولا۔ ۔۔۔ ۔ جی حضور۔۔۔ ۔
ہمارے نواب صاحب بڑے متاثر ہوئے۔۔۔
واپس آکر اس نواب کو بھی دعوت دی۔۔۔ اور سوچا کہ ایسا ہی میں کروں گا۔ اور اس کو متاثر کروں گا۔۔۔ ۔
اس نواب کی آمد کے بعد یونہی پرتکلف کھانوں کا دور چلا۔۔۔ ۔ اور اس کے بعد پھر لکھنوی نواب سے پوچھا۔۔۔ کہ حضرت پان سے شوق فرمائیں گے۔۔۔
انہوں نے فورا جواب دیا۔۔۔ کیوں نہیں حضور۔۔۔ ۔
لوجی ۔۔۔ نواب صاحب نے اپنے ملازم کو کہا۔۔۔ جا بئی۔۔۔ ذرا پان لگوا لا۔۔۔ ۔
اور اس کے کمرے سے نکلتے ہی کمنٹری شروع کر دی۔۔۔
اب یہ جوتے پہن رہا ہے
لو جی گھر سے نکل گیا
گلی کی نکڑ پر پہنچ گیا
۔۔۔
۔۔۔
یہ پان کی دکان پر پہنچا
پان لگوا رہا ہے
لو جی واپسی کا سفر شروع
اب گلی کی نکڑ پر۔
گھر میں داخل ہوگیا ہے
۔۔۔
لو جی جوتے اتار رہا ہے۔۔۔
اور ملازم کو آواز دے کر۔۔۔ ہاں بھی دینا۔۔۔ پان گھن آیا ایں۔۔۔ (پان لے آؤ ہو)
دینا: کتھاں سئیں۔۔۔ اجن تے جوتی پاندا کھڑا۔۔۔ ۔ (کدھرنواب صاحب! ابھی تو جوتا پہن رہا ہوں)
وعلیکم السلام ۔۔ الحمداللہ خیریت سے ۔۔ آپ کیسی ہیں ؟
آج کل پاکستان میں ہوں۔ آن لائن کم کم آنا ہوتا ہے ۔۔
خوب ۔۔۔ ۔!
یعنی پاکستان میں رہ کر پاکستانیوں سے کون بات کرے۔