کوچۂ آلکساں

سستی اور انسان کا دوستانہ کتنا پرانا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ بعض سست دانوں کے نزدیک یہ تب سے ہے جب سے انسان وجود میں آیا۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق تب سے ہے جب سے انسان نے کھچوا دریافت کیا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے سستی نہ ہوتی تھی۔ اور اگر ہوتی بھی تھی۔ تو اس کا نام کچھ اور تھا۔ تاہم کچھ قدیم کچھوؤں نے اس بات پر اپنے اعتراضات محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ اور بوجہ سستی ریکارڈ کروانے سے قاصر ہیں۔ قدیم زبانوں میں اس کیفیت کو پوستی کیفیت سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ جب کہ کچھ کہ ہاں آلکسی کا لفظ مستعمل ہے۔
جوں جوں انسان نے ترقی کی۔ اس نے آلکس کو بھی ترقی دی۔ آج کے مشینی دور میں سستی اوج کمال پر پہنچی نظر آتی ہے۔ زیادہ نہیں تو تھوڑا پیچھے جا کر دیکھیں۔ جب ٹی وی چینل بدلنے کو بھی لیور گھمانا پڑتا تھا۔ بہت سے لوگ محض اس لیے بھی ایک ہی چینل دیکھتے تھے کہ کون لیور گھمائے۔ لیکن اب وہی کام ایک تیز رفتار ریموٹ سے سست سے سست آدمی بھی سکون سے کر لیتا ہے۔ جوں جوں اس ضمن میں انسان نے ترقی کی ہے۔ سستی کے معیار بھی بلند ہوگئے ہیں۔ اوراب اس منزل پر پہنچنے کے لیے سخت گیان اور تپیسیا کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی سست نہیں کہلا سکتا۔ پرانے زمانے میں لوگ خود بتاتے تھے کہ ہم سست ہیں۔ گو کہ یہ دعویٰ کرنے والے تو آج بھی موجود ہیں۔ مگر فی زمانہ سست وہی ہے۔ جس کو اس کے گھر والے اور معاشرہ سست تسلیم کرلیں۔
یہ بات گو کہنے میں بہت آسان نظر آتی ہے کہ ہر آدمی اپنے گھر والوں سے سستی کی سند لے آئے۔ اور اپنے تئیں سست کہلائے۔ لیکن سست بھی بڑے استاد سست ہیں۔ ایک نظر میں بھانپ لیتے ہیں کہ واقعتاؐ سست ہے یا پھر سستی کا سوانگ بھر رکھا ہے۔

کوچۂ شاپراں کی شاندار کامیابی کے بعد آج "کوچۂ آلکساں" کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ اس تقریب کا آغاز محفل کے چند استاد آلکسیوں کے اقوال زریں سے ہوگا۔ تاکہ نوآموز سست ان کی روشنی میں اپنی سستی کو جانچ سکیں۔ اور دیکھیں کہ وہ اس وقت سستی کے کس درجے پر فائز ہیں۔



















اور کچھ احباب ایسے بھی ہیں۔ جنہوں نے زبان سے تو کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ لیکن ان کے تبصروں سے بات عیاں ہے۔ کہ وہ اس میدان میں استاد نہیں تو استاد سے کم بھی نہیں۔ پیش خدمت ہیں کچھ مراسلے جن سے سستی عیاں ہے۔













یہاں پر ہم چند سست تجزیہ نگاروں کو بھی بلائیں گے۔ جو سال دو سال بعد تجزیاتی رپورٹ دیا کریں گے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں اس سال کا ایوارڈ دس سال کے قلیل عرصہ کے بعد دے دیا جائے گا۔

نوٹ: دس سال کو صرف دس سال نہ سمجھا جائے۔ یہ مدت عوام کی سستی کے پیش نظر بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔

خاص نوٹ: ویسے تو صرف ان سست اساتذہ کے اقوال پیش کیے گئے ہیں۔ جن کا راقم کو یقین ہے کہ وہ اس قدر سست ہیں کہ برا منانے سے پہلے بھی سوچیں گے کہ کہیں یہ چست بنانے کا کوئی حیلہ تو نہیں۔ تاہم اگر کسی کو برا لگے۔ تو ضرور بتائے۔ میں وہ پیغام اس تحریر سے نکال دوں گا۔ :) :) :)
بِل گیٹس کی نظرمیں تو سُست بھی بڑا ہی کام کا بندہ ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
تھوڑا واضح کردیں
بھائی ہم بھی تو پاکستانی ہی ہیں
:)

بل گیٹز کا خیال ہے کہ کام چور لوگ کام سے جان چھڑانے کے لیے کام کو آٹومیٹ کر دیتے ہیں۔ یعنی نئی ایجاد کرتے ہیں۔

لیکن پاکستانی اپنا کام کروانے کے لیے کوئی اور بندہ تلاش کر لیتے ہیں۔ :)
 
سستی اور انسان کا دوستانہ کتنا پرانا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ بعض سست دانوں کے نزدیک یہ تب سے ہے جب سے انسان وجود میں آیا۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق تب سے ہے جب سے انسان نے کھچوا دریافت کیا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے سستی نہ ہوتی تھی۔ اور اگر ہوتی بھی تھی۔ تو اس کا نام کچھ اور تھا۔ تاہم کچھ قدیم کچھوؤں نے اس بات پر اپنے اعتراضات محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ اور بوجہ سستی ریکارڈ کروانے سے قاصر ہیں۔ قدیم زبانوں میں اس کیفیت کو پوستی کیفیت سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ جب کہ کچھ کہ ہاں آلکسی کا لفظ مستعمل ہے۔
جوں جوں انسان نے ترقی کی۔ اس نے آلکس کو بھی ترقی دی۔ آج کے مشینی دور میں سستی اوج کمال پر پہنچی نظر آتی ہے۔ زیادہ نہیں تو تھوڑا پیچھے جا کر دیکھیں۔ جب ٹی وی چینل بدلنے کو بھی لیور گھمانا پڑتا تھا۔ بہت سے لوگ محض اس لیے بھی ایک ہی چینل دیکھتے تھے کہ کون لیور گھمائے۔ لیکن اب وہی کام ایک تیز رفتار ریموٹ سے سست سے سست آدمی بھی سکون سے کر لیتا ہے۔ جوں جوں اس ضمن میں انسان نے ترقی کی ہے۔ سستی کے معیار بھی بلند ہوگئے ہیں۔ اوراب اس منزل پر پہنچنے کے لیے سخت گیان اور تپیسیا کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی سست نہیں کہلا سکتا۔ پرانے زمانے میں لوگ خود بتاتے تھے کہ ہم سست ہیں۔ گو کہ یہ دعویٰ کرنے والے تو آج بھی موجود ہیں۔ مگر فی زمانہ سست وہی ہے۔ جس کو اس کے گھر والے اور معاشرہ سست تسلیم کرلیں۔
یہ بات گو کہنے میں بہت آسان نظر آتی ہے کہ ہر آدمی اپنے گھر والوں سے سستی کی سند لے آئے۔ اور اپنے تئیں سست کہلائے۔ لیکن سست بھی بڑے استاد سست ہیں۔ ایک نظر میں بھانپ لیتے ہیں کہ واقعتاؐ سست ہے یا پھر سستی کا سوانگ بھر رکھا ہے۔

کوچۂ شاپراں کی شاندار کامیابی کے بعد آج "کوچۂ آلکساں" کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ اس تقریب کا آغاز محفل کے چند استاد آلکسیوں کے اقوال زریں سے ہوگا۔ تاکہ نوآموز سست ان کی روشنی میں اپنی سستی کو جانچ سکیں۔ اور دیکھیں کہ وہ اس وقت سستی کے کس درجے پر فائز ہیں۔



















اور کچھ احباب ایسے بھی ہیں۔ جنہوں نے زبان سے تو کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ لیکن ان کے تبصروں سے بات عیاں ہے۔ کہ وہ اس میدان میں استاد نہیں تو استاد سے کم بھی نہیں۔ پیش خدمت ہیں کچھ مراسلے جن سے سستی عیاں ہے۔













یہاں پر ہم چند سست تجزیہ نگاروں کو بھی بلائیں گے۔ جو سال دو سال بعد تجزیاتی رپورٹ دیا کریں گے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں اس سال کا ایوارڈ دس سال کے قلیل عرصہ کے بعد دے دیا جائے گا۔

نوٹ: دس سال کو صرف دس سال نہ سمجھا جائے۔ یہ مدت عوام کی سستی کے پیش نظر بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔

خاص نوٹ: ویسے تو صرف ان سست اساتذہ کے اقوال پیش کیے گئے ہیں۔ جن کا راقم کو یقین ہے کہ وہ اس قدر سست ہیں کہ برا منانے سے پہلے بھی سوچیں گے کہ کہیں یہ چست بنانے کا کوئی حیلہ تو نہیں۔ تاہم اگر کسی کو برا لگے۔ تو ضرور بتائے۔ میں وہ پیغام اس تحریر سے نکال دوں گا۔ :) :) :)
بوجہ سُستی کہ ہم نے بھی اِس لڑی میں مراسلہ کرہی دیا :)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بل گیٹز کا خیال ہے کہ کام چور لوگ کام سے جان چھڑانے کے لیے کام کو آٹومیٹ کر دیتے ہیں۔ یعنی نئی ایجاد کرتے ہیں۔

لیکن پاکستانی اپنا کام کروانے کے لیے کوئی اور بندہ تلاش کر لیتے ہیں۔ :)
لیکن تلاش کرنا تو ایکٹو ہونا ہی ہوتا ہے نا۔۔۔ آلکس تو نہ ہوا نا۔ :D
 

سیما علی

لائبریرین
اچھا ہوا کہ ملکہء جذبات بہار بیگم نہیں کہہ دیا۔ :)
بہت پہلے ہم شہیدِ ملت روڈ پر رہتے تھے اور اسکول میں تھے تو بہار بیگم ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں اُس زمانے میں ہم نے زیبا ، وحید مراد ،روزینہ، اور جناب محمد علی صاحب کو دیکھا تھا اُسی زمانے میں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت پہلے ہم شہیدِ ملت روڈ پر رہتے تھے اور اسکول میں تھے تو بہار بیگم ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں اُس زمانے میں ہم نے زیبا ، وحید مراد ،روزینہ، اور جناب محمد علی صاحب کو دیکھا تھا اُسی زمانے میں
جی انھی ملکہ بہار بیگم کی بات کی تھی اور قدیر بھائی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ملکہ کہلوانے پر خوش ہونا چاہئیے۔ہم تو ان جیسی ایکٹرس نہیں ہو سکتے نا۔
 
Top