سبحان اللہ۔۔۔ ذرا اپنی ذات سے محبت ملاحظہ کیجیے۔۔۔ کہ مرنا بھی ہے تو گڑ کھا کر۔۔۔ بھئی۔۔۔ گڑ صرف بازاری کھا کر مرا جا سکتا ہے۔۔۔ ۔ گھر کا گڑ کھا کر کوئی نہیں مرتا۔۔۔ ۔
ویسے گڑ سے یاد آیا۔۔۔ کہ کبھی بیلنے پر جا کر گڑ کھایا کرتے تھے۔۔۔ وہاں بیٹھا آدمی (اللہ جنت نصیب کرے) کہا کرتا تھا۔۔۔ ۔ "اوئے نین۔۔۔ ہٹ جا بالکے۔۔۔ اے بڑا گرم ہوندا اے۔۔۔ نہ نیڑے لگ۔۔۔ ۔میں تینوں اوتھے ہی دے دیاں گا۔۔۔ " ہائے اوئے۔۔۔ پستہ بادام ڈال کر گھر کے گڑ بن کر آیا کرتا تھا۔۔۔ ۔ بیچ میں اور بھی میوہ جات ہوتے تھے۔۔۔ کیسے کیسے موسم خیال ہوئے جاتے ہیں۔۔۔ ان خیالوں کی پرچھائیاں بھی دھندلائی جاتی ہیں۔۔۔
محمداحمد بھائی کا ایک شعر ہے
زندگی کے کئی حسیں پہلو
نذرِ ذہنِ جدید ہو گئے ہیں