ہمارے ڈرائیور امین کے جاننے والے تھے اس لیے ہم نے ان پر مکمل اعتبار کررکھا تھا۔تھل سے دو گھنٹے کے کمرتوڑ سفر کے بعد جوں ہی ہم ٹکئی کے نزدیک ہوئے نیچے ایک جگہ پرکافی گاڑیاں پارک ملیں۔میں حیران تھا کہ اس راستے پر جیپ کا سفر بھی تھکا دینے والا تھا لیکن اکثر سیاحوں نے اپنی گاڑیاں پہنچائی ہوئی تھی۔شاید رینٹ کی گاڑیاں ہوں یا ناسمجھی میں لے آئے ہوں ورنہ تو یہ گاڑی کے ساتھ ظلم ہی تھا۔
ہمیں بھی اسی جگہ پر، جس کا نام اب یاد نہیں،ڈرائیور نے اتار دیا اور بولے وہ سامنے پانچ دس منٹ کی چڑھائی پر ٹکئی ٹاپ ہے۔اس کا انداز ایسے تھا جیسے ہاتھ اگر اس طرف کرے گا تو ٹکئی ٹاپ کی چوٹی کو جا چھوئے گا۔ہم نے بھی رسمی کاروائی کے بعد اس کا شکریہ ادا کیا اور "چھتروں" میں ٹکئی کی طرف ہو لیے۔
جہاز بانڈہ تک کا ٹریک ہماری معلومات کے مطابق دو گھنٹے کا تھا ہم نے تین گھنٹے کا ذہن میں رکھ کر اپنے پہنچنے کا ٹائم سوچ رکھا تھا لیکن ہمیں کیا پتا تھا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ یہاں ہی ہو گیا۔
نیچے پارکنگ سے ٹکئی تک اچھی خاصی چڑھائی تھی جو ڈرائیور نے اپنے بیس منٹ بچانے کے لیے خوامخواہ ہمارے کھاتے میں ڈال دی تھی جس کا بعد میں ہم نے امین کو گلہ بھی دیا۔
یہاں لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر کسی کا جانا ہوا تو اس بات کا خیال رکھیں کہ اکثر ڈرائیورز سیاحوں کی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر نیچے ہی اتار دیتے ہیں جس کی وجہ سے تقریباً ایک گھنٹے کا ٹریک آپ کو اضافی کرنا پڑتا ہے۔اگر تو آپ اپنی مرضی سے یہ ٹریک کرنا چاہیں تو زبردست ہے لیکن اگر ٹکئی کے پیسے دے کر ایک گھنٹہ نیچے ہی اتار دیے جائیں تو دھوکا بنتا ہے۔
ٹکئی تک پہنچتے پہنچتے ہمارے جہاز بانڈہ کے جوش کو ٹھیک ٹھاک دھچکا پہنچ چکا تھا اور ڈرائیور کی غلط بیانی کا غصہ بھی لیکن ہمارے گروپ میں سے تین جوان ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھے اس لیے ہماری بیٹریاں بھی انہوں نے چارج رکھیں۔