کٹورہ جھیل اور وادی کمراٹ

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہمارے گروپ نے ڈی ایس ایل آر وغیرہ الماریوں میں سجانے کےلیے رکھے ہوئے ہیں اس لیے یہ سفرنامہ بھی موبائل کے لو کوالٹی کیمروں سے پیش کررہا ہوں۔امید ہے درگزر فرمائیں گے۔
پہلے تو سوچ رکھا تھا کہ درگزر فرمایا جائے لیکن ایسے مناظر دیکھ کر ہم نے درگزر فرمانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے :)
 

ابن توقیر

محفلین
ہمارے ڈرائیور امین کے جاننے والے تھے اس لیے ہم نے ان پر مکمل اعتبار کررکھا تھا۔تھل سے دو گھنٹے کے کمرتوڑ سفر کے بعد جوں ہی ہم ٹکئی کے نزدیک ہوئے نیچے ایک جگہ پرکافی گاڑیاں پارک ملیں۔میں حیران تھا کہ اس راستے پر جیپ کا سفر بھی تھکا دینے والا تھا لیکن اکثر سیاحوں نے اپنی گاڑیاں پہنچائی ہوئی تھی۔شاید رینٹ کی گاڑیاں ہوں یا ناسمجھی میں لے آئے ہوں ورنہ تو یہ گاڑی کے ساتھ ظلم ہی تھا۔
ہمیں بھی اسی جگہ پر، جس کا نام اب یاد نہیں،ڈرائیور نے اتار دیا اور بولے وہ سامنے پانچ دس منٹ کی چڑھائی پر ٹکئی ٹاپ ہے۔اس کا انداز ایسے تھا جیسے ہاتھ اگر اس طرف کرے گا تو ٹکئی ٹاپ کی چوٹی کو جا چھوئے گا۔ہم نے بھی رسمی کاروائی کے بعد اس کا شکریہ ادا کیا اور "چھتروں" میں ٹکئی کی طرف ہو لیے۔
جہاز بانڈہ تک کا ٹریک ہماری معلومات کے مطابق دو گھنٹے کا تھا ہم نے تین گھنٹے کا ذہن میں رکھ کر اپنے پہنچنے کا ٹائم سوچ رکھا تھا لیکن ہمیں کیا پتا تھا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ یہاں ہی ہو گیا۔
نیچے پارکنگ سے ٹکئی تک اچھی خاصی چڑھائی تھی جو ڈرائیور نے اپنے بیس منٹ بچانے کے لیے خوامخواہ ہمارے کھاتے میں ڈال دی تھی جس کا بعد میں ہم نے امین کو گلہ بھی دیا۔
یہاں لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر کسی کا جانا ہوا تو اس بات کا خیال رکھیں کہ اکثر ڈرائیورز سیاحوں کی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر نیچے ہی اتار دیتے ہیں جس کی وجہ سے تقریباً ایک گھنٹے کا ٹریک آپ کو اضافی کرنا پڑتا ہے۔اگر تو آپ اپنی مرضی سے یہ ٹریک کرنا چاہیں تو زبردست ہے لیکن اگر ٹکئی کے پیسے دے کر ایک گھنٹہ نیچے ہی اتار دیے جائیں تو دھوکا بنتا ہے۔
ٹکئی تک پہنچتے پہنچتے ہمارے جہاز بانڈہ کے جوش کو ٹھیک ٹھاک دھچکا پہنچ چکا تھا اور ڈرائیور کی غلط بیانی کا غصہ بھی لیکن ہمارے گروپ میں سے تین جوان ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھے اس لیے ہماری بیٹریاں بھی انہوں نے چارج رکھیں۔

51355497357_0cc5c7a6cb_o.jpg
 

ابن توقیر

محفلین
پانچ بجے نکلے تھے تو ٹکئی تک پہنچتے پہنچتے چھ ہوگئے۔ٹکئی میں رہائش کا کوئی انتظام نہیں تھا ورنہ شاید ہم رات یہیں رک جاتے۔آپشن تو کوئی نہیں تھا لیکن پھر بھی مقامی لوگوں سے راستے کی معلومات لیں رات کی تاریکی میں سفر کا پوچھا اور آگے کو چل دیے۔

ٹکئی تک پہنچتے پہنچتے تصویر بنوانے کی ہمت تو رہی نہیں تھی لیکن پھر بھی چہرے پر بے بسی لیے جہاز بانڈہ نکلنے سے قبل یہ تصویر محفوظ کرلی۔

51359385400_fef5f51487_o.jpg
 

ابن توقیر

محفلین
جہاز بانڈہ کا ٹریک ایک دم چڑھائی سے شروع ہوتا ہے۔شروع کی چڑھائی مشکل لگتی ہے اور اس کے بعد اترائی آجاتی ہے جو واپسی میں تھکا دینے والی چڑھائی ثابت ہوتی ہے۔آدھے ٹریک کے بعد پھر ہلکی ہلکی چڑھائی اور پتھروں سے گزرتا راستہ ہے۔
راستے میں پانی کے چشمے اور ٹک شاپس کافی ہیں اس لیے اگر اپنے پاس کچھ نہ بھی ہو تو مناسب قیمت میں چیزیں مل جاتی ہیں۔جہاز بانڈہ میں آپ کے پاس کیمروں کی اضافی چارج بیٹریز اورموبائل چارجنگ کے لیے پاور بینک ضرور ہونا چاہیے۔رات کو تھوڑی دیر کے لیے جنریٹر چلتےہیں لیکن رہائشی ہوٹل گزارے لائق ہونے کی وجہ سے چارجنگ میں تکلیف ہوسکتی ہے۔
اس سفر میں ہم نے جو چیز زیادہ محسوس کی وہ لوگوں کی اکثریت کا غلط راہ لگانا تھا۔چار الگ الگ ڈرائیورز کے ساتھ جیپوں میں سفر کرنے کا موقع ملا لیکن چار میں سے ایک ہی بہتر انسان ملا۔جہاز بانڈہ پہنچے تو رات کے تقریباً نو بج رہے تھے۔شروع میں ہی ہم ہوٹلوں کے ایجنٹس مل گئے جن کی بدتمیزیوں اور غلط راہ لگانے کی وجہ سے ہم نے ایک غلط ہوٹل اور کمرہ چن لیا۔
ایک ہوٹل والے نے تو ہمیں سیاح بن کر شروع میں گھیرنے کی کوشش کی۔اس نے ہمیں ایک خیمہ بک کرکے دینا چاہا جو اس کے بقول باقی ہوٹلوں کی نسبت پانچ گنا سستا تھا خیر اس سے جان بچا کر آگے نکلے تو ایک ہوٹل والے نے ہمیں وائی فائی،چارجنگ اور واش روم کی سہولت کا جھانسا دے کر پھانس لیا۔ہم پہلے ہی تھکے ہوئے تھے اوپر سے رات کے وقت کچھ سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی اس لیے اپنی طرف سے سیانا بنتے ہوئے ہم نے اس کمرے میں رہائش کو کارنامہ سمجھا لیکن صبح اٹھے اور باقی ہوٹلوں کی سہولیات اور کرایوں کو دیکھ کر سمجھ آئی کہ ہمارے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہوچکا تھا۔
کشمیر،ناران کاغان،کالام یا گلگت کے سفر میں اس طرح کا تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا لیکن کمراٹ کے سفر میں ہمیں تجربہ ہوا کہ یہاں ہر کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا۔یہاں مقامی لوگوں میں مہمان نوازی کی نسبت بدتمیزی کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملا۔
 

ابن توقیر

محفلین
ہمارا رہائشی پاک پنجاب ہوٹل جہاں نہ وائی فائی تھا نہ بجلی کا انتظام۔گرم چھوڑیں ٹھنڈا پانی بھی باہر سے لانا پڑتا تھا اور واش روم کی تو بات ہی نہ کریں۔
خیر یہ ہماری غلطی تھی جو ہم نے جلدبازی میں اس ہوٹل کا انتخاب کیا وگرنہ اس کے نزدیک ہی ایک ہوٹل صبح ہم نے دیکھا جہاں اٹیچ باتھ اور رات میں بجلی کی سہولت جنریٹر سے دی جارہی تھی۔
اس ہوٹل کی تصویروں میں صفائی کے معیار کو دیکھ کر پوری وادی کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔اگر ہم سیاح جہاں رہائش رکھے ہوئے ہیں وہاں کچڑا نہیں ٹھکانے لگا سکتے تو آگے ہم نے کیا سنبھالنا تھا۔
وہی بات کہ "کچڑے کے ڈبوں کے علاوہ ہر جگہ آپ کو کچڑا ملے گا۔"

51355495222_46585953d6_o.jpg


51356970809_16fd01ba49_o.jpg
 

ابن توقیر

محفلین
پھر تو اتنے گند پر حیرت ہوئی
بالکل۔
جہاز بانڈہ تک اور پھر کٹورہ کے آدھے تک خچر یا گھوڑے جارہے تھے لیکن کٹورہ جھیل کے آدھے ٹریک کے بعد تو گھوڑوں کی طرف سے بھی جواب تھا۔
مین حیران تھا کہ چھ گھنٹے کا مشکل اور پتھریلا ٹریک کرنے والے کیسے فطرت سے دشمنی کرسکتے ہیں۔
 

ابن توقیر

محفلین
ابن توقیر بہترین تصاویر۔ جہاز بانڈہ کے پاس ہی کنڈ بانڈہ ہے۔ اسے دیکھنے کا موقع ملا؟
1.jpg
نہیں۔
جہاز بانڈہ پہنچیں تو مقامی لوگ کٹورہ جھیل کے علاوہ کنڈ بانڈہ اور وہاں کی آبشار کا ہی مشورہ دیتے ہیں۔ہمارا فوکس جھیل تھی اور اس کے بعد کمراٹ پہنچنا تھا اس لیے کنڈ بانڈہ نہیں جاسکے۔وہاں دس پندرہ منٹ کی ٹریکنگ بتا رہے تھے لیکن ہماری لیے یقیناً گھنٹہ سوا ہوتا جس کی ہمت نہیں رہی تھی۔
کچھ ایسی "ان ایکسپلور" وادیاں بھی تھیں جن کے لیے زیادہ وقت درکار تھا اس لیے ہم نے مستقبل کے لیے چھوڑ دیں۔
 

ابن توقیر

محفلین
ناشتے کے بعد ہم کٹورہ جھیل کے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ٹکئی سے جہازبانڈہ تک کے ٹریک کو مقامی لوگ کٹورہ جھیل سے مشکل قرار دے رہے تھے لیکن ہم نے اس کے الٹ پایا۔لوگوں کے مطابق جہاز بانڈہ تک کا ٹریک دو گھنٹوں کا جب کہ آگے جھیل تک کا ٹریک ایک گھنٹے کا تھا لیکن ہم نے دونوں ٹریک برابر وقت میں یعنی تین تین گھنٹوں میں مکمل کیے۔جہاز بانڈہ تک کا ٹریک اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کٹورہ جھیل کا ٹریک آدھے سفر کے بعد اپنا رنگ دکھا رہا تھا۔ٹریک بڑے بڑے اور کوئی جگہوں پر نوکیلے پتھروں سے بھرا ہوا تھا۔

51373270668_e4d8de648a_o.jpg
 
Top