فائدے کی تفریق ؟ یعنی دنیا میں تضاد ہی اصل حسن ہے جب جسمانی لحاظ سے اتنی ساختیاتی تبدیلیاں ہیں تو حقوق اسی کے لحاظ سے ہونے چاہیے ۔۔۔
حق تلفیاں اگر ذکر کردیں تو آپ کا اصل موقف وجوہات کے ساتھ جانتے کچھ اخذ بھی کرسکیں
بہت اچھی شراکت کی ۔۔۔ماشاء اللہ ! آپ کی سوچ کافی حد تک مطمئن ہے جب کہ شروع میں آتے ہوئے مجھے لگا آپ جستجو لیے ہوئے ہو ۔۔۔۔۔ انسان ہوتا ہی جستجو اور تکمیل کے ساتھ ہے اور ترقی بھی یونہی کرتا ہے
جانبدارنہ کو اپنے مطابق مولڈ کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرد ہو یا عورت دنوں مین دو ہارمونز کا اخراج اس مین مرادنہ یا عورت کے خواص پیدا کرتا ہے ۔۔ان کے نام testosterone اور
، oestrogen and progesterone ہیں ۔۔۔ کچھ مردوں میں ایسٹروجن زیادہ پیدا ہوجاتے اور ان کے خواص عورتوں سے ملتے جلتے بن جاتے ہیں اور کچھ خواتین میں ٹیسٹو ۔۔۔۔ یوں کوئی بھی مکمل مرادنگی لیے پیدا نہیں ہوتا کیونکہ قدرت نے ایسے ہارمونز دونوں میں پیدا کرنے کا نظام رکھا ہے ۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں وہ نسبتا مرد ہے یا نسبتا عورت ہے ۔ اس نسبت کی ایک حد ہمارے لیے مرد اور عورت کا معیار بناتی ہے ۔۔۔ اس لیے مغرب نے سب تضاد اس تحقیق سے ختم کردیے کہ عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے درحقیقت یہ شخصیت کو تباہ کر رہی ہے مگر ہمیں کسی بھی قیمت پر اس تفریق کا ایک معیار مقرر کرنا ہے تاکہ ہمارے اقدار ملبے تلے دونوں صورتوں میں مل نہ جائیں
مغرب نصیحت کرتا نہیں ہمیں تحقیق دیتا ہے ہم مانیں یا نہ مانیں مگر جانتے کہ ایک حقیقت ہے ۔۔۔۔
انسان کا غیر جانبدرا ہونا اس کو دار کی طرف کیسے لے جاتا ہے آج کے دور میں ؟
"ساری امید ترک کر دو اے اندر داخل ہونے والے!"
میں نے دیکھے یہ الفاظ افسردہ رنگ میں لکھے
جہنم کے دروازے کی چوٹی پہ۔۔۔
پوچھا"ان کا مطلب کٹھن ہے مرے لئے اے استاد"
اور کسی تجربہ کار کی طرح ورجل بولا
"یہاں تمام شک ترک کر دینا چاہئیے
یہاں ساری بزدلی مٹا دینی چاہئے
ہم اس جگہ آ چکے ہیں
کیا تھا جسکا ذکر میں نے تم سے
تم دیکھو گے یہاں دردناک لوگوں کو
جو حکمتِ خیر سے محروم ہو چکے ہیں۔"
یہ کہہ کر تھاما اس نے میرا ہاتھ محفوظ انداز میں،
اور جب مجھے کشھ اطمینان ہوا تو وہ
لے گیا مجھے پر اسرار جگہ کے اندر
وہاں آہ و بکا، شکایات،بین
گونجتے تھے بنا ستارے کی ہوا میں
ان کو سُن کر اسی جگہ
میں بہت رویا!
مختلف زبانیں، بولیاں خوفناک۔۔
غصے کے تلفظ، درد کی باتیں
اونچی کرکش آوازیں،ساتھ ہاتھوں کی دھمک
کسی گولے کی طرح اس سیاہ
دائمی دائرے میں گھوم رہی تھی
اور میں،جسکا سر خوف سے بندھا تھا،بولا
اے استاد! یہ کیا سُنتا ہوں میں؟
کون ہیں یہ درد سے مغلوب لوگ؟
وہ کہنے لگا مجھ سے
اس بدبخت طریقے سے رکھی گئی ہیں
ان لوگوں کی اُداس رُوحیں جو
رہتے تھے بدنامی یا نیک نامی کے بغیر
نہ یہ باغی تھے خدا سے
نہ ہی وفادار تھے اس کے
بلکہ جیتے تھے صرف اپنی ذات کے لئے
جنتوں نے ان کو نکال دیا
کہ انصاف کم نہ ہو جائے
اور جہنم کے نچلے گڑھے ان کو لینے پر راضی نہیں
کہ جہنمیوں کو ان سے کوئی شان نہیں مل سکتی۔۔۔۔
دنیا ان کو اب کوئی شہرت نہیں دے گی
راحت اور انصاف دونوں ان کو حقیر سمجھتے ہیں
سو ان سے مخاطب نہ ہو
بس دیکھو، اور گزر جاؤ
(ڈینٹے علیغیری ، لی ڈیوائن کومیڈیا)