"کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون"

جاسمن

لائبریرین
جاسمن بہنا۔۔۔۔آپ کا کردار بحثیت استاد مثالی نظر آرہا ہے ۔کبھی آپ کی رہنمائی کی کسی طالب علم کو ضرورت پڑی اور کس معاملے اور اگر پڑی تو آپ نے کیسے رہنمائی کی۔
نُور! میں نے ایک مشورہ سنٹر بنایا تھا۔کوئی بھی طالبہ کسی بھی طرح کے مسلۂ کے لئے میرے پاس آ سکتی ہے۔
مجھے یاد ہے میری ایک طالبہ کو طلاق ہوئی تو وہ روتی ہوئی سب سے پہلے میرے پاس آئی۔ اللہ کا شکر ہے اب اپنے گھر میں خوش باش ہے۔ اللہ اُسے خوش رکھے۔
مجھے اپنی ایک شاگردہ یاد آ رہی ہے جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی۔ کمرۂ جماعت میں ،میں اُس کی پیار بھری نظروں کو خود پہ مرکوز پاتی تھی۔ اور میں اِس محبت کو اُس کی فلاح کے لئے بہت اچھے سے کام میں لا رہی تھی کہ یکایک۔۔۔۔۔اُس کی نظروں میں میرے لئے وہ بات نہ رہی۔ میں اُسے دیکھتی اور تھوڑا سا چونکتی۔۔۔زیادہ توجہ اِس لئے نہ دے پائی کہ بہت مصروفیت تھی۔
ایک دن میں نے اُسے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ ایک گراؤنڈ میں لے گئی۔ "کون ہے وہ؟"
آخر کچھ محنت کے بعد پتہ چلا کہ اُس کے بھائی کو ٹیوشن پڑھانے گھر آنے والا ٹیوٹر ہے۔ ایک بار امی کو بلایا۔ ایک بار ابو کو بلایا۔ مسلۂ حل کرنے کی کوشش کی۔
بہر حال۔۔۔ایسی ڈھیروں مثالیں ہیں۔
اللہ کا شکر ہے۔ اللہ کا بہت شکر ہے۔
 
فائدے کی تفریق ؟ یعنی دنیا میں تضاد ہی اصل حسن ہے جب جسمانی لحاظ سے اتنی ساختیاتی تبدیلیاں ہیں تو حقوق اسی کے لحاظ سے ہونے چاہیے ۔۔۔


حق تلفیاں اگر ذکر کردیں تو آپ کا اصل موقف وجوہات کے ساتھ جانتے کچھ اخذ بھی کرسکیں


بہت اچھی شراکت کی ۔۔۔ماشاء اللہ ! آپ کی سوچ کافی حد تک مطمئن ہے جب کہ شروع میں آتے ہوئے مجھے لگا آپ جستجو لیے ہوئے ہو ۔۔۔۔۔ انسان ہوتا ہی جستجو اور تکمیل کے ساتھ ہے اور ترقی بھی یونہی کرتا ہے


جانبدارنہ کو اپنے مطابق مولڈ کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرد ہو یا عورت دنوں مین دو ہارمونز کا اخراج اس مین مرادنہ یا عورت کے خواص پیدا کرتا ہے ۔۔ان کے نام testosterone اور
، oestrogen and progesterone ہیں ۔۔۔ کچھ مردوں میں ایسٹروجن زیادہ پیدا ہوجاتے اور ان کے خواص عورتوں سے ملتے جلتے بن جاتے ہیں اور کچھ خواتین میں ٹیسٹو ۔۔۔۔ یوں کوئی بھی مکمل مرادنگی لیے پیدا نہیں ہوتا کیونکہ قدرت نے ایسے ہارمونز دونوں میں پیدا کرنے کا نظام رکھا ہے ۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں وہ نسبتا مرد ہے یا نسبتا عورت ہے ۔ اس نسبت کی ایک حد ہمارے لیے مرد اور عورت کا معیار بناتی ہے ۔۔۔ اس لیے مغرب نے سب تضاد اس تحقیق سے ختم کردیے کہ عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے درحقیقت یہ شخصیت کو تباہ کر رہی ہے مگر ہمیں کسی بھی قیمت پر اس تفریق کا ایک معیار مقرر کرنا ہے تاکہ ہمارے اقدار ملبے تلے دونوں صورتوں میں مل نہ جائیں


مغرب نصیحت کرتا نہیں ہمیں تحقیق دیتا ہے ہم مانیں یا نہ مانیں مگر جانتے کہ ایک حقیقت ہے ۔۔۔۔



انسان کا غیر جانبدرا ہونا اس کو دار کی طرف کیسے لے جاتا ہے آج کے دور میں ؟
"ساری امید ترک کر دو اے اندر داخل ہونے والے!"
میں نے دیکھے یہ الفاظ افسردہ رنگ میں لکھے
جہنم کے دروازے کی چوٹی پہ۔۔۔
پوچھا"ان کا مطلب کٹھن ہے مرے لئے اے استاد"
اور کسی تجربہ کار کی طرح ورجل بولا
"یہاں تمام شک ترک کر دینا چاہئیے
یہاں ساری بزدلی مٹا دینی چاہئے
ہم اس جگہ آ چکے ہیں
کیا تھا جسکا ذکر میں نے تم سے
تم دیکھو گے یہاں دردناک لوگوں کو
جو حکمتِ خیر سے محروم ہو چکے ہیں۔"
یہ کہہ کر تھاما اس نے میرا ہاتھ محفوظ انداز میں،
اور جب مجھے کشھ اطمینان ہوا تو وہ
لے گیا مجھے پر اسرار جگہ کے اندر
وہاں آہ و بکا، شکایات،بین
گونجتے تھے بنا ستارے کی ہوا میں
ان کو سُن کر اسی جگہ
میں بہت رویا!
مختلف زبانیں، بولیاں خوفناک۔۔
غصے کے تلفظ، درد کی باتیں
اونچی کرکش آوازیں،ساتھ ہاتھوں کی دھمک
کسی گولے کی طرح اس سیاہ
دائمی دائرے میں گھوم رہی تھی
اور میں،جسکا سر خوف سے بندھا تھا،بولا
اے استاد! یہ کیا سُنتا ہوں میں؟
کون ہیں یہ درد سے مغلوب لوگ؟
وہ کہنے لگا مجھ سے
اس بدبخت طریقے سے رکھی گئی ہیں
ان لوگوں کی اُداس رُوحیں جو
رہتے تھے بدنامی یا نیک نامی کے بغیر
نہ یہ باغی تھے خدا سے
نہ ہی وفادار تھے اس کے
بلکہ جیتے تھے صرف اپنی ذات کے لئے
جنتوں نے ان کو نکال دیا
کہ انصاف کم نہ ہو جائے
اور جہنم کے نچلے گڑھے ان کو لینے پر راضی نہیں

کہ جہنمیوں کو ان سے کوئی شان نہیں مل سکتی۔۔۔۔
دنیا ان کو اب کوئی شہرت نہیں دے گی
راحت اور انصاف دونوں ان کو حقیر سمجھتے ہیں
سو ان سے مخاطب نہ ہو
بس دیکھو، اور گزر جاؤ


(ڈینٹے علیغیری ، لی ڈیوائن کومیڈیا)
 
اقبال نے بھی ڈینٹے کی طرح ایک استاد کے ساتھ آسمانوں کی سیر کی تھی جس کا ذکر جاوید نامہ میں ہے۔ اقبال نے رومی کے ساتھ اور ڈانٹے نے شاید کسی یونانی شاعر کے ساتھ۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
میں یہاں چوہدری خالد سیف اللہ صاحب کا ایک آرٹیکل کاپی کر رہی ہوں جو میں نے بہت پہلے پڑھا تھا کافی تلاش کرنے کے بعد مجھے ملا
ماہرین حیاتیات بڑے خوش ہیں کہ انہوں نے قدرت کا یہ عظیم راز معلوم کر لیاہے کہ مردوں اور عورتوں کے طرز عمل (Behaviour) صلاحیتوں اور دلچسپیوں میں جو فرق ہوتا ہے اس کی وجہ ان کے دماغ کی بناوٹ کا اختلاف ہے۔ مائیکل جوزف اپنی کتاب Brain Sex میں (جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے) لکھتے ہیں کہ مردوں عورتوں دونوں میں کچھ خوبیاں ہیں اور کچھ خامیاں ہیں۔ بعض معاملات میں مرد عورتوں سے آگے نکلے ہوئے ہیں اور بعض میں عورتیں مردوں سے آگے ہیں ۔ اسی طرح بعض باتوں میں مرد عورتوں سے کمزور ہیں اور بعض میں عورتیں ۔ مردوں کے دماغ میں جگہ (Space) زیادہ کھلی ہوتی ہے اور کچھ مردانہ سیکس ہارمون(Testosterone)کے اثرات ہیں جو اس اختلاف کا باعث بنے ہیں۔

مرد جسمانی مشقت کے لئے زیادہ موزوں ہیں ۔ ان کا میدان کھیت اور کارخانے ہیں۔ وہ بہترین مکینک ، ماہر حساب دان ، میوزک کمپوزر اور شطرنج کے کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں ۔مردوں کے دماغ کی کھلی جگہ ا ن کو کھلے ماحول میں کام کرنے پر ابھارتی ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ادھر ادھرکھلا دوڑا پھرے۔ اگر مرد کے ہاتھ میں ٹیلی ویژن کا ریموٹ ہوگا تو وہ اسے گھماتا پھرے گا جبکہ عورت اپنا پسندیدہ پروگرام آرام سے دیکھے گی اور ادھر اُدھر نظریں نہیں گھمائے گی۔ مرد گاڑی چلاتے ہوئے باربار لین تبدیل کر ے گا جبکہ عورت کی خواہش ہوگی کہ ایک ہی لین میں چلتی چلی جائے۔ مردوں کی نگاہ مجمل ہوتی ہے اورعورت کی مفصل ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ توجہ دے گی ۔ عورتیں جذباتی ہوتی ہیں اورا ن میں خوبصورتی کو محسوس کرنے کاملکہ زیادہ ہوتا ہے۔

پھر وہ لکھتے ہیں کہ عورتوں کے دماغ کی ساخت ایسی ہے کہ مردوں کے مقابلہ میں ان کے سونگھنے ، چکھنے، سننے اور بولنے کی طاقتیں زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہیں اسی لئے وہ مردوں کی نظروں کو فوراً پہچا ن لیتی ہیں ۔زبانیں سیکھنے کے لئے عورتیں زیادہ موزوں ہیں ۔چونکہ قدرت نے عورتوں کو بات کرنے کا زیادہ ملکہ عطا کیا ہے اس لئے وہ بولنے چالنے میں زیادہ لطف محسوس کرتی ہیں۔

سائنس دانوں کی تحقیق سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے کام کرنے کے دائرے مختلف ہیں اور وہ مختلف کاموں کے لئے زیادہ موزوں ہیں سوائے استثنائی حالات کے جیسے ذاتی مجبوری یا قومی ضرورت ۔ ورنہ بالعموم یہی بات درست ہے کہ ایک کو دوسرے کے دائرہ میں گھسیڑنا ایسے ہی ہے جیسے لوہار سنار کے اوزاروں سے اور سنار لوہار کے ہتھیاروں سے کام کرنا شروع کر دے۔جب عورت اور مرد کی مساوات قدرت ہی نے قائم نہیں کی اورایک کو دوسرے پر بعض امور میں فضیلت دے دی ہے تو اس کے خلاف کام کرنا ایک غیر طبعی بات ہے۔

اللہ نے ہر مخلوق کو اس کے کاموں کی مناسبت سے قویٰ عطا کئے ہیں جیسے فرمایا (وَخَلَقَ کُلّ شَیئٍ فَقَدَّّرَہٗ تَقْدِیرَاً)(الفرقان 25:3)۔ یعنی اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اس کے لئے ایک خاص اندازہ (قویٰ اور بناوٹ وغیرہ کا) مقرر کر دیا ہے۔ آج کے بہت سے سماجی ، معاشی ، اخلاقی اور اقتصادی مسائل مردوں اور عورتوں کے ایک دوسرے کے دائرہ میں گھسنے سے پیدا ہوئے ہیں۔اگر مغربی ممالک کی عورتیں آج اپنے گھروں کو سنبھال لیں تو بے کاری بھی ختم ہوجائے ۔ بچوں کی تربیت بھی بہتر انداز میں ہونے لگے اور بے شمار اجڑے گھروں کا سکون بھی پھر لوٹ آئے۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۹؍اپریل ۱۹۹۸ء)
سائنسی ریسرچ کو مذہب کی تعلیمات کی خاطر توڑنے مروڑنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔
 

باباجی

محفلین
آپ بے حس نہیں لگتے ۔۔۔پانی اور پیار والی بات اگر کھل کے کہ پائیں تو مجھے بھی جاننے کا موقع ملے گا ۔۔۔۔۔۔
بے حس میں واقعی بہت زیادہ ہوں ۔۔
لیکن میں بے حس تھا نہیں
رہی بات پیار اور پانی والی تو صاف بات کہوں گا کہ گھر سے باہر پیار کو پانے کے لیئے نکلنے والے یا نکلنے والی کو "پیار" کے نام "پیار" ملا کیا ؟؟؟
فی زمانہ دیکھا جائے تو ایسا ہونا ایک معجزہ ہی لگتا ہے کہ گھر میں نظر انداز کیئے جانے والی لڑکی کو باہر کوئی "سچا" پیار دینے والا اسے عزت دینے والا کوئی مرد مل جائے
کیا مرد حضرات کو بھی سچا پیار مل جاتا ہے باہر جنہیں گھر والے نظر انداز کردیتے ہیں ؟؟ دیکھیں ماں باپ کو نہیں معاشرہ اور تربیت کو قصوروار ٹھہرانا چاہیئے کہ کیوں اتنا
خود غرض ہوگیا ہے معاشرہ کہ تربیت میں اور توجہ میں امتیاز برتا جارہا ہے ۔
رہی پانی پینے والی بات تو پانی آپ راہ چلتے کسی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر بھی پی سکتے ہیں لیکن کیا کسی کو دروازہ کھٹکھٹا کر آپ پیار یا عزت دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں ؟؟
میرا اپنا یہ ذاتی خیال ہے کہ عورت محفوظ صرف اور صرف اپنے گھر کی چار دیواری میں ہوتی ہے ۔۔ اکیلی عورت یا لڑکی کو دیکھ وہ کتے بھی رال ٹپکانے لگتے ہیں جس دانت تک ٹوٹ چکے ہوتےہیں ۔۔ باقی بحث آپ جتنی مرضی لمبی کرلیجیئے اس کا اختتام نہیں ہوسکتا ۔۔
اور میں بحث سے بہت کتراتا ہوں ۔۔ اسلیئے میں نے اپنا جواب واپس لیا تھا
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت رواں اور متاثر کن تحریر کے لیے پہلے تو خراجَ تحسین۔

اس تحریر کی بابت میرا مشاہدہ یہ ہے کہ شاہدہ کو شروع سے ہی احساسِ محرومی کا شکار بنا دیا گیا جس کا احساس آگے زندگی کے سبھی مراحل میں اسے شدت سے ہوتا رہا۔ والدین کو چاہیے کہ پیار کو بچوں میں تقسیم کرنے کی بجائے ضرب دیں اور اپنے بچوں کی پرورش اور محبت میں برتی گئی لاشعوری اور غیر ارادی لاپرواہی کو بھی لگام دیں جس سے ایک اور شاہدہ اس اذیت سے دوچار نہ ہو۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نُور! میں نے ایک مشورہ سنٹر بنایا تھا۔کوئی بھی طالبہ کسی بھی طرح کے مسلۂ کے لئے میرے پاس آ سکتی ہے۔
مجھے یاد ہے میری ایک طالبہ کو طلاق ہوئی تو وہ روتی ہوئی سب سے پہلے میرے پاس آئی۔ اللہ کا شکر ہے اب اپنے گھر میں خوش باش ہے۔ اللہ اُسے خوش رکھے۔
مجھے اپنی ایک شاگردہ یاد آ رہی ہے جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی۔ کمرۂ جماعت میں ،میں اُس کی پیار بھری نظروں کو خود پہ مرکوز پاتی تھی۔ اور میں اِس محبت کو اُس کی فلاح کے لئے بہت اچھے سے کام میں لا رہی تھی کہ یکایک۔۔۔۔۔اُس کی نظروں میں میرے لئے وہ بات نہ رہی۔ میں اُسے دیکھتی اور تھوڑا سا چونکتی۔۔۔زیادہ توجہ اِس لئے نہ دے پائی کہ بہت مصروفیت تھی۔
ایک دن میں نے اُسے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ ایک گراؤنڈ میں لے گئی۔ "کون ہے وہ؟"
آخر کچھ محنت کے بعد پتہ چلا کہ اُس کے بھائی کو ٹیوشن پڑھانے گھر آنے والا ٹیوٹر ہے۔ ایک بار امی کو بلایا۔ ایک بار ابو کو بلایا۔ مسلۂ حل کرنے کی کوشش کی۔
بہر حال۔۔۔ایسی ڈھیروں مثالیں ہیں۔
اللہ کا شکر ہے۔ اللہ کا بہت شکر ہے۔

میں جب آپ کے بارے میں سوچتی ہوں مجھے لگتا ہے آپ کے چہرے پر بہت نور ہوگا اور اب اس کا راز مل گیا ہے کہ جو دوسروں کی مشکلیں آسان کرتے ہیں ان کے دل سکون دینے والی راحت سے بھر دیے جاتے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
"ساری امید ترک کر دو اے اندر داخل ہونے والے!"
میں نے دیکھے یہ الفاظ افسردہ رنگ میں لکھے
جہنم کے دروازے کی چوٹی پہ۔۔۔
پوچھا"ان کا مطلب کٹھن ہے مرے لئے اے استاد"
اور کسی تجربہ کار کی طرح ورجل بولا
"یہاں تمام شک ترک کر دینا چاہئیے
یہاں ساری بزدلی مٹا دینی چاہئے
ہم اس جگہ آ چکے ہیں
کیا تھا جسکا ذکر میں نے تم سے
تم دیکھو گے یہاں دردناک لوگوں کو
جو حکمتِ خیر سے محروم ہو چکے ہیں۔"
یہ کہہ کر تھاما اس نے میرا ہاتھ محفوظ انداز میں،
اور جب مجھے کشھ اطمینان ہوا تو وہ
لے گیا مجھے پر اسرار جگہ کے اندر
وہاں آہ و بکا، شکایات،بین
گونجتے تھے بنا ستارے کی ہوا میں
ان کو سُن کر اسی جگہ
میں بہت رویا!
مختلف زبانیں، بولیاں خوفناک۔۔
غصے کے تلفظ، درد کی باتیں
اونچی کرکش آوازیں،ساتھ ہاتھوں کی دھمک
کسی گولے کی طرح اس سیاہ
دائمی دائرے میں گھوم رہی تھی
اور میں،جسکا سر خوف سے بندھا تھا،بولا
اے استاد! یہ کیا سُنتا ہوں میں؟
کون ہیں یہ درد سے مغلوب لوگ؟
وہ کہنے لگا مجھ سے
اس بدبخت طریقے سے رکھی گئی ہیں
ان لوگوں کی اُداس رُوحیں جو
رہتے تھے بدنامی یا نیک نامی کے بغیر
نہ یہ باغی تھے خدا سے
نہ ہی وفادار تھے اس کے
بلکہ جیتے تھے صرف اپنی ذات کے لئے
جنتوں نے ان کو نکال دیا
کہ انصاف کم نہ ہو جائے
اور جہنم کے نچلے گڑھے ان کو لینے پر راضی نہیں

کہ جہنمیوں کو ان سے کوئی شان نہیں مل سکتی۔۔۔۔
دنیا ان کو اب کوئی شہرت نہیں دے گی
راحت اور انصاف دونوں ان کو حقیر سمجھتے ہیں
سو ان سے مخاطب نہ ہو
بس دیکھو، اور گزر جاؤ


(ڈینٹے علیغیری ، لی ڈیوائن کومیڈیا)

یہ پرگیشن کا نظریہ ۔۔۔۔۔ ٹیرھی لکیر کی طرح جو یہ ثابت کرتا ہے تم جتنے گناہ کرلو اس کو جہنم کی مصیبتیں سہ لینے کے بعد اپنے نفس کو پرگیشن کے بعد جنت میں لے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی سائنس نہیں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2-2 =0 یا 2+2=4 ہوگا جبکہ 2+2=7 بھی ہوسکتا ہے اور 2+2=1 بھی ہوسکتا ہے ۔ چلیں اس حوالے سے اسلام کی آیت کوٹ کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔

اسلام کہتا ہے دین میں میانہ روی اختیار کرو۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسات کہتی ہے کہ انسان وہی کامیاب ہیں جو ایکسٹرو ورٹ اور انٹروورٹ ہوں ۔۔۔۔۔۔ انٹرورٹ : باطنی اور ایکسٹرورٹ " میل جول رکھنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کا باطن تنہائی مانگتا ہے اس کو دیں مگر اتنی ہی محفل بھی دیں ۔ یہ میانہ روی ہوجائے گی ۔ اس نظریے کے تحت جو ڈینٹے میں دیا گیا انتہا دکھائی گئی جو رہبانیت کیا ۔۔پہلے فرعون بننے کو کہتی ہے پھر راہب بننے کو۔۔۔۔۔۔۔ڈینٹے نے اپنی زندگی کے مشاہدے یا تجربات لکھے ہوں ہمارے لیے ضروری نہیں ان کی پیروی کریں ماسوا اس کے علم لے لیں۔۔۔۔

سکولز میں اب مار ۔کا تصور ختم ہوگیا ہے اس لیے کہ یہ نفیسات خراب کرتا ہے جب اسلام کو سزا اور جزا کے تصور سے اپنا لیا جائے تو ہم اس کی تعلیمات کی روح کو سمجھتے اچھے عامل ہوجاتے ہیں ۔۔یہ محبت و عشق ہے ۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ڈانٹے نے بھی اقبال کی طرح ایک استاد کے ساتھ آسمانوں کی سیر کی تھی جس کا ذکر جاوید نامہ میں ہے۔ اقبال نے رومی کے ساتھ اور ڈانٹے نے شاید کسی یونانی شاعر کے ساتھ۔
اس شاعر کا ذکر اسی نظم میں ہے۔ورجل ۔۔ اقبال نے رومی کے ساتھ۔۔کچھ شراکت کیجئے اس بارے میں
 
یہ پرگیشن کا نظریہ ۔۔۔۔۔ ٹیرھی لکیر کی طرح جو یہ ثابت کرتا ہے تم جتنے گناہ کرلو اس کو جہنم کی مصیبتیں سہ لینے کے بعد اپنے نفس کو پرگیشن کے بعد جنت میں لے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی سائنس نہیں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2-2 =0 یا 2+2=4 ہوگا جبکہ 2+2=7 بھی ہوسکتا ہے اور 2+2=1 بھی ہوسکتا ہے ۔ چلیں اس حوالے سے اسلام کی آیت کوٹ کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔

اسلام کہتا ہے دین میں میانہ روی اختیار کرو۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسات کہتی ہے کہ انسان وہی کامیاب ہیں جو ایکسٹرو ورٹ اور انٹروورٹ ہوں ۔۔۔۔۔۔ انٹرورٹ : باطنی اور ایکسٹرورٹ " میل جول رکھنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کا باطن تنہائی مانگتا ہے اس کو دیں مگر اتنی ہی محفل بھی دیں ۔ یہ میانہ روی ہوجائے گی ۔ اس نظریے کے تحت جو ڈینٹے میں دیا گیا انتہا دکھائی گئی جو رہبانیت کیا ۔۔پہلے فرعون بننے کو کہتی ہے پھر راہب بننے کو۔۔۔۔۔۔۔ڈینٹے نے اپنی زندگی کے مشاہدے یا تجربات لکھے ہوں ہمارے لیے ضروری نہیں ان کی پیروی کریں ماسوا اس کے علم لے لیں۔۔۔۔

سکولز میں اب مار ۔کا تصور ختم ہوگیا ہے اس لیے کہ یہ نفیسات خراب کرتا ہے جب اسلام کو سزا اور جزا کے تصور سے اپنا لیا جائے تو ہم اس کی تعلیمات کی روح کو سمجھتے اچھے عامل ہوجاتے ہیں ۔۔یہ محبت و عشق ہے ۔۔
یہ پرگیشن کا نظریہ ۔۔۔۔۔ ٹیرھی لکیر کی طرح جو یہ ثابت کرتا ہے تم جتنے گناہ کرلو اس کو جہنم کی مصیبتیں سہ لینے کے بعد اپنے نفس کو پرگیشن کے بعد جنت میں لے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی سائنس نہیں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2-2 =0 یا 2+2=4 ہوگا جبکہ 2+2=7 بھی ہوسکتا ہے اور 2+2=1 بھی ہوسکتا ہے ۔ چلیں اس حوالے سے اسلام کی آیت کوٹ کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔

اسلام کہتا ہے دین میں میانہ روی اختیار کرو۔۔۔۔۔۔۔۔

نفیسات کہتی ہے کہ انسان وہی کامیاب ہیں جو ایکسٹرو ورٹ اور انٹروورٹ ہوں ۔۔۔۔۔۔ انٹرورٹ : باطنی اور ایکسٹرورٹ " میل جول رکھنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کا باطن تنہائی مانگتا ہے اس کو دیں مگر اتنی ہی محفل بھی دیں ۔ یہ میانہ روی ہوجائے گی ۔ اس نظریے کے تحت جو ڈینٹے میں دیا گیا انتہا دکھائی گئی جو رہبانیت کیا ۔۔پہلے فرعون بننے کو کہتی ہے پھر راہب بننے کو۔۔۔۔۔۔۔ڈینٹے نے اپنی زندگی کے مشاہدے یا تجربات لکھے ہوں ہمارے لیے ضروری نہیں ان کی پیروی کریں ماسوا اس کے علم لے لیں۔۔۔۔

سکولز میں اب مار ۔کا تصور ختم ہوگیا ہے اس لیے کہ یہ نفیسات خراب کرتا ہے جب اسلام کو سزا اور جزا کے تصور سے اپنا لیا جائے تو ہم اس کی تعلیمات کی روح کو سمجھتے اچھے عامل ہوجاتے ہیں ۔۔یہ محبت و عشق ہے ۔۔
آپ نے مجھ سے غیر جانبدار رہنے کے متعلق سوال کیا تھا۔۔۔۔۔میرا ذاتی مشاہدہ نہیں ہے اس حوالے سے۔۔۔۔منصور والے واقعے اور قرآن کی آیت کا پہلے ذکر کر چکی تھی اس حوالے سے۔۔۔۔اور تیسرا حوالہ یہ نظم تھی جو مری نظر سے گزری تھی اس حوالے سے۔۔۔اور میرا مقصد سیکھنا ہے ۔۔۔اور دیکھنا ہے سب کا نظریہ۔۔۔۔اسلئے پوسٹ کی۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم پرگیشن کیا ہے؟ براہِ کرم روشنی ڈالئیے۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بے حس میں واقعی بہت زیادہ ہوں ۔۔
لیکن میں بے حس تھا نہیں
رہی بات پیار اور پانی والی تو صاف بات کہوں گا کہ گھر سے باہر پیار کو پانے کے لیئے نکلنے والے یا نکلنے والی کو "پیار" کے نام "پیار" ملا کیا ؟؟؟
فی زمانہ دیکھا جائے تو ایسا ہونا ایک معجزہ ہی لگتا ہے کہ گھر میں نظر انداز کیئے جانے والی لڑکی کو باہر کوئی "سچا" پیار دینے والا اسے عزت دینے والا کوئی مرد مل جائے
کیا مرد حضرات کو بھی سچا پیار مل جاتا ہے باہر جنہیں گھر والے نظر انداز کردیتے ہیں ؟؟ دیکھیں ماں باپ کو نہیں معاشرہ اور تربیت کو قصوروار ٹھہرانا چاہیئے کہ کیوں اتنا
خود غرض ہوگیا ہے معاشرہ کہ تربیت میں اور توجہ میں امتیاز برتا جارہا ہے ۔
رہی پانی پینے والی بات تو پانی آپ راہ چلتے کسی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر بھی پی سکتے ہیں لیکن کیا کسی کو دروازہ کھٹکھٹا کر آپ پیار یا عزت دینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں ؟؟
میرا اپنا یہ ذاتی خیال ہے کہ عورت محفوظ صرف اور صرف اپنے گھر کی چار دیواری میں ہوتی ہے ۔۔ اکیلی عورت یا لڑکی کو دیکھ وہ کتے بھی رال ٹپکانے لگتے ہیں جس دانت تک ٹوٹ چکے ہوتےہیں ۔۔ باقی بحث آپ جتنی مرضی لمبی کرلیجیئے اس کا اختتام نہیں ہوسکتا ۔۔
اور میں بحث سے بہت کتراتا ہوں ۔۔ اسلیئے میں نے اپنا جواب واپس لیا تھا

جس بحث میں اپنی بات منوانے کے بجائے تبادلہ خیال ہو وہاں آپ کو رائے دینی چاہیے اور آپ کو لگے کسی کا مشاہدہ غلط سمت بتارہا ہے تو آپ کو تب بھی رائے ضرور دینی چاہیے۔۔۔

جہاں تک گھر کا دروزہ کھٹکھٹانے کی بات ہے یہ اس پر منحصر اندر کے باسی کیسے ہیں اور ہماری نیت کیا ہے ۔۔۔۔۔ اکیلی عورت کا یقین مردوں پر بھاری ہوتا ہے ، آپ خلاف ہیں کہ آپ اچھے کفیل ہوسکتے ہیں اور اس صورت میں ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے جو گھر سے باہر قدم رکھنے پر مجبور ہوتی ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت رواں اور متاثر کن تحریر کے لیے پہلے تو خراجَ تحسین۔

اس تحریر کی بابت میرا مشاہدہ یہ ہے کہ شاہدہ کو شروع سے ہی احساسِ محرومی کا شکار بنا دیا گیا جس کا احساس آگے زندگی کے سبھی مراحل میں اسے شدت سے ہوتا رہا۔ والدین کو چاہیے کہ پیار کو بچوں میں تقسیم کرنے کی بجائے ضرب دیں اور اپنے بچوں کی پرورش اور محبت میں برتی گئی لاشعوری اور غیر ارادی لاپرواہی کو بھی لگام دیں جس سے ایک اور شاہدہ اس اذیت سے دوچار نہ ہو۔

رضا بھائی ۔۔آپ کے اس تبصرے پر شکر گزار ہوں ۔ احساس محرومی اور احساس برتری ۔۔یہی پیچیدگیاں معاشرے میں تخریب کو جنم دیتی ہیں ۔ بہت اچھا تبصرہ اور مشورہ ہے ۔ سلامت رہیں

یہ پرگیشن کا نظریہ ۔۔۔۔۔ ٹیرھی لکیر کی طرح جو یہ ثابت کرتا ہے تم جتنے گناہ کرلو اس کو جہنم کی مصیبتیں سہ لینے کے بعد اپنے نفس کو پرگیشن کے بعد جنت میں لے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی سائنس نہیں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2-2 =0 یا 2+2=4 ہوگا جبکہ 2+2=7 بھی ہوسکتا ہے اور 2+2=1 بھی ہوسکتا ہے ۔ چلیں اس حوالے سے اسلام کی آیت کوٹ کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔

آپ نے مجھ سے غیر جانبدار رہنے کے متعلق سوال کیا تھا۔۔۔۔۔میرا ذاتی مشاہدہ نہیں ہے اس حوالے سے۔۔۔۔منصور والے واقعے اور قرآن کی آیت کا پہلے ذکر کر چکی تھی اس حوالے سے۔۔۔۔اور تیسرا حوالہ یہ نظم تھی جو مری نظر سے گزری تھی اس حوالے سے۔۔۔اور میرا مقصد سیکھنا ہے ۔۔۔اور دیکھنا ہے سب کا نظریہ۔۔۔۔اسلئے پوسٹ کی۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم پرگیشن کیا ہے؟ براہِ کرم روشنی ڈالئیے۔۔۔۔۔۔

اس کو اوپر کوٹ کرتے بتاتا گیا۔۔ویسے عیسائیت کا تصور ہے مگر اس کا لفظی مطلب نفس کی اصلاح ہے یا صفائی قلب ہے ۔ کسی بھی فرد واحد کو اپنے لیے حوالہ مت لیں ۔قران پاک سے روشنی لیں اور افراد کو چھوڑ دیں ان کی زندگیوں سے بس سیکھیں یا عبرت لیں
 
شاید کائنات کی نا تمامی کا گلہ ہے۔
کائنات نا تمام نہیں ہے۔ کائنات کو تخلیق کرنے والا کوئی انسان نہیں خالقِ مکان و لامکاں ہے۔ اس نے جو کچھ جتنا بھی بنایا اپنی قدرت اور حکمت کے مطابق مکمل بنایا۔ انسانی عقل اسے سمجھنے سے قاصر ہے
 

باباجی

محفلین
کائنات نا تمام نہیں ہے۔ کائنات کو تخلیق کرنے والا کوئی انسان نہیں خالقِ مکان و لامکاں ہے۔ اس نے جو کچھ جتنا بھی بنایا اپنی قدرت اور حکمت کے مطابق مکمل بنایا۔ انسانی عقل اسے سمجھنے سے قاصر ہے
سمجھنے سے قاصر نہیں... سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتے...
 
کائنات نا تمام نہیں ہے۔ کائنات کو تخلیق کرنے والا کوئی انسان نہیں خالقِ مکان و لامکاں ہے۔ اس نے جو کچھ جتنا بھی بنایا اپنی قدرت اور حکمت کے مطابق مکمل بنایا۔ انسانی عقل اسے سمجھنے سے قاصر ہے
پھر صدائے کُن فیکون کیوں آ رہی ہے؟
 
Top