جی بالکل سرعام ہی
تاکہ نیک نامی کا بھرم سرعام کھل جائے۔
شمشاد بھائی آپ خود تو ابھی تک پس پشت رہنے والے خفیہ ہاتھ کا کردار ادا کر رہے ہیں آپ بھی تو کچھ کہیں نا آخر۔
جی بالکل سرعام ہی
تاکہ نیک نامی کا بھرم سرعام کھل جائے۔
فیصل بھائی شعر شاعری کے زمرے الگ سے ہیں۔
کب ہونگے یہ ایوارڈ اور بھی کچھ ٹائیٹل سوچے ہین مین نے
آپ نے کیا انہیں شعر کے طور پر دیکھا ہے ۔۔۔۔؟
جناب یہ کونسی سلطنت ہے کہ جہاں ہم کو " کوئن " بنایا جا رہا ہے ۔میرا تو خیال ہے ظفری queen ہی مناسب لگے گا۔
یہ 80 کے دہائی کی ، آخر کی بات ہے ۔ میڑک کا زمانہ تھا ۔ اور سردی بہت سخت پڑ رہی تھی ۔ محلے میں چوریاں اپنی عروج پر تھیں ۔ روزآنہ کہیں نہ کہیں چوری ہوجاتی ۔ بلکہ بعض اوقات تو ڈیکیتی بھی ہورہی تھیں ، یعنی اسلحہ کے زور پر مال لوٹا جارہا تھا ۔ عموماً یہ وارداتیں رات کو ہی انجام پا تیں ۔ اس خطرناک صورتحال کے پیشِ نظر محلے کے تمام نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہم جاگ کر محلے میں پہرہ دیں گے ۔ اور اس کے لیئے جو بھی ضروری اقدامات درکار ہوں، وہ کریں گے ۔ کچھ کے پاس اسلحہ تھا ، اور کچھ ڈنڈوں اور دیگر لوازمات سے لیس تھے ۔ صورتحال جیسی بھی تھی مگر ہم سب کو ایک شغل ہاتھ آگیا تھا ۔ ہم نے محلے کے ایک معزز آدمی کے گھر کے ایک ایسے کمرے پر قبضہ کرلیا ۔ جس کی کھڑکیوں سے پورے محلے پر نظر جاتی تھی ۔ ہم نے اسے " ہیڈ کوارٹر " کا نام دیا ۔ چونکہ 12 سے 15 لڑکوں کا گروپ تھا ۔ اس لیئے باقاعدہ ڈیوٹیاں لگتیں تھیں کہ کس گروپ کو اب پہرے پر نکلنا ہے ۔ اور باقی لڑکے اسی کمرے میں خوب تان کر سوتے ۔ ایک رات کے پہرے کے بعد احساس ہوا کہ رات چائے ، کھانا پینا اور کچھ گرم ٹوپیوں کی بھی ضرورت ہے ۔ جس کے بغیر یہ پہرہ داری بیکار ہے ۔ اور اس کے لیئے سرمایہ درکار تھا ۔ جو وہ ہم کنگلوں کے پاس نہیں تھا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ خیال مجھے ہی آیا تھا کہ محلے والوں سے اس " خدمت " کے عوض کچھ مال بٹورا جائے ۔
سو دوسرے دن ہم سب نے گھر گھر جا کر چندے بٹورنا شروع کردیئے ۔ لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس کارِ خیر میں حصہ لیا ۔ کیونکہ ایک رات سکون سے گذر چکی تھی ۔ لہذا محلے والوں نے شکر کیا کہ وہ اب سکون سے سو سکیں گے ۔ لہذا انہیں چندہ دینے میںکوئی تامل نہیں ہوا ۔ مسئلہ وہاں کھڑا ہوا ۔ جب محلے کے سب سے آخری گھر میں رہنے والے انکل شبیر نے چندہ دینے سے انکار کیا ۔ اور ہمیں پیسہ بٹورنے اور ان پیسوں سے موج مستیاں اڑانے کا طعنہ دیا ۔ ( انکل شبیر ، محلے کے ایک بہت ہی تیز طرار ، جھگڑالو اور ایک بڑے کاروباری آدمی تھے ۔ اور ستم تو یہ تھا کہ ان کی پوری پانچ صاحبزادیاں تھیں ۔ جن میں سے ایک صاحبزادی ہماری ٹیم کے ایک اسلحہ بردار کی " منظورِ نظر " تھیں ۔ ) ۔ وہ موصوف اس بےرخی پر تلملا اٹھا ۔ مگر ہم سب اسے بہلا پھسلا کر وہاں سے لے آئے ۔ رات آئی تو " مالِ غنیمت " سے ایک بھرپور محفل کا اہتمام ہوا ۔ چائے ، بسکٹ ، ریسٹورینٹ کے مزے مزے کے کھانے، اور نئے نئے لحافوں کی گرمی نے وہ مزا دیا کہ سوچا یہ چوریاں ختم ہی نہ ہوں ۔ اور یہ من و سلویٰ اسی طرح چلتا رہے ۔
رات کو جب میں اپنے ساتھیوں کیساتھ پہرہ دیتا ہوا شبیر انکل کے گھر کے سامنے سے گذرا تو میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا ۔ میں نے شبیر انکل کے گھر کے آگے پیچھے ہوکر کچھ جائزہ لینے کی کوشش کی ۔ جس کو میرے ساتھیوں نے تعجب کی نگاہ دیکھا ۔ میں نے انہیں انگلی کے اشارے سے کچھ کہنے سے منع کیا اور پھر ہم اپنا پہرہ ختم کرکے واپس " ہیڈ کواٹر " آگئے ۔ صبح ہونے سے پہلے میں نے سب کو جمع کیا اور اپنے منصوبے کے بارے میں بتایا تو سب کو بہت خوشی ہوئی اور سب سے زیادہ خوشی اس اسلحہ بردار کو ہوئی ۔ جس کی "منظورِ نظر " اس گھر میں تھی ۔ اور خوشی میں اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا بلکہ لٹکا رہ گیا ۔ جسے دو دوستوں نے بڑی مشکل سے بند کیا ۔
پلان یہ تھا کہ رات 3 بجے کے قریب ، دو لڑکے شبیر انکل کی چھت پر ، دو ان کے گھر کے پیچھے والی گلی Alley میں ، جبکہ اعجاز ( اسلحہ بردار ) اور میں ان کے گھر کے دروازے پر دستک دیں گے ۔ اور اس کے بعد کمانڈو ایکشن شروع ہوجائیگا ۔ پلان کے مطابق ہم نے شبیر انکل کے گھر پر دھاوا بول دیا ۔ میں اور اعجاز نے شبیر انکل کا دروازہ بری طرح کھٹکھٹا ڈالا ، چھت پر سے لڑکوں کی آواز آئی ۔۔۔ پکڑو ۔۔۔۔ وہ شبیر انکل کے صحن میں کود گیا ہے ۔ " وسلوں ( سیٹی ) اور دھما چوکڑیوں سے جو طوفان اٹھا اس سے سارا محلہ بیدار ہوگیا ۔ اور سونے پہ سہاگہ اعجاز نے اپنی زنگ آلود بندوق سے 2 ، 3 فائر بھی داغ ڈالے ۔جس سے ماحول اور بھی " رومانی " ہوگیا ۔ شبیر انکل نے کپکپاتے ہوئے اس بات کی تسلی کے بعد کہ دروازے پر ہم کھڑے ہیں تو دروازہ کھول دیا اور ہم دونوں دندناتے ہوئے ان کے گھر میں داخل ہوگئے ۔ اندر شور برپا تھا ۔ شبیر انکل کے پانچوں لڑکیاں اپنی اماں کیساتھ کورس میں چلا چلا کر رو رہیں تھیں ۔ چھت سے لڑکوں نے آواز لگائی " وہ یہاں صحن میں کودا ہے ۔" یہ سنتے کیساتھ ہی اعجاز نے ایک اور فائر داغ دیا ۔ ( اب یہ نہیں پتا کہ وہ فائر اس نے منصوبے کے مطابق داغا تھا یا پھر اپنی " منظورِ نظر " کو دیکھ کر اس کے ہاتھ سے بندوق کی لبلبی دب گئی تھی ) ۔ چونکہ صحن میں تھوڑا اندھیرا تھا۔ میں نے اس سے فائدہ اٹھا کر پچھلی گلی میں کھلنے والا دروازہ کھول دیا ۔ جہاں سے اور بھی لڑکے اندر آگئے ۔ اور پھر ہم سب نے پچھلی گلی کی طرف یہ کہتے ہوئے دوڑ لگا دی پکڑو ۔ جانے نہ دینا ۔ پھر منصوبے کے مطابق یہاں بھی اعجاز کو ایک فائر داغنا تھا مگر وہ اپنی " منظورِ نظر " کے تصور اس طرح کھویا ہوا تھا کہ مخالف سمت بھاگتے ہوئے بھی اس کا چہرہ شبیر انکل کے گھر کی طرف تھا ۔ لہذا وہاں فائر نہیں ہوسکا ۔
بہرحال منصوبہ میری توقع سے زیادہ کامیاب ہوا تھا اور اس کا نتیجہ بھی جلد ہی سامنے آگیا ۔ جب شام کو شبیر انکل " ہیڈ کواٹر " آئے اور میرے ہاتھ میں ایک لفافہ دیا اور بڑی معصوم صورت بنا کر کل رات کے واقعے کا تقریباً جھک کر شکریہ ادا کیا ۔ اور جاتے جاتے بڑی رونی صورت میں درخواست بھی کی کہ " کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا ۔۔ بس میرے گھر کی طرف چکر لگاتے رہنا ۔ " ۔ ۔
جی ہاں کجیئے ۔ آپ کو اجازت ہے ۔السلام علیکم
پروفسیر ظفری ، اس پوسٹ کو پڑھ کر سوال ہیں ذہن میں ۔ کیا میں سوال کر لوں ؟
جناب یہ کونسی سلطنت ہے کہ جہاں ہم کو " کوئن " بنایا جا رہا ہے ۔
شکریہ ۔۔۔ یونس بھائی ۔اپکی پوسٹ کافی اچھی ہے ظفری ۔۔۔ کس کا ریفرنس سیدہ شگفتہ نے دیا ہے