معلومات بھلا کیوں نہ ہوتیں ۔ ہم اپنے کالج سے زیادہ تو صنفِ نازک کے کالج کا ہی اکثر دیدار کرتے تھے ۔ اور وجہ یہ تھی کہ ہمیں اس تحقیق کی جستجو تھی کہ خواتین کے کالج میں پڑھائی کا معیار کیسا چل رہا ہے ۔یہاں تو بہت کچھ قابل غور ہے
کراچی میں بہت سے گرلز کالج کے یونیفارم بہت یکساں ہیں اس کو کہتے ہیں معلوماتِ عامہ
ہم پیٹتے پیٹتے ان کے پہلو سے جا لگے تھے یہ بھی وسیے ایک کمال ہے کہ پہلو ڈھونڈا بھی تو کس کا؟؟ اس کا کیوں نہیں جس کے کان کھینچ کھینچ کر اس کو چپیٹ رسید کیئے جا رہے تھے۔
لیکن بھلا مار پیٹ اور دھکم پیل میں کہاں کسی چیز کا ہوش رہتا ہے
پہلو میں اسی لیئے جا لگے تھے کہ وہاں لڑکوں کی رسائی کم ہورہی تھی ۔ مگر وہاں تو لڑکیاں بھی شروع ہوگئیں ۔ انہوں نے اپنے نازک نازک ہاتھوں سے ہماری جو خوب خاطر مدارات کی ۔ اس کا مزا آج تک یاد ہے ۔ حالانکہ ہم نے بڑی رونی صورت بنا کر کہا بھی تھا کہ ، باجی ۔۔۔ میں تو داخلے کی فیس جمع کروانے آیا تھا ۔ مگر ایک حسینہ نے ہمیں پہچان لیا تھا اور کہا کہ ارے یہ تو وہی ہے جو میرے بھائی کے کان پکڑ پکڑ مروڑ رہا تھا ۔ بس پھر کیا تھا ، ہم تھے اور سارا زمانہ ہمارے ساتھ تھا ۔
( ویسے آپس کی بات ہے ۔ مار میں بالکل اس شعر جیسا لطف تھا جس کا آخری مصرعہ کچھ یوں ہے کہ " گالیاں کھا کر بھی بے مزا نہ ہوا ۔ " ۔ )