میری ناقص معلومات کے مطابق ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ اسے دنیا میں بھیجا جائے اور اگر بھجوانا ہی مقصود ہے تو کم سے کم ہم سے رائے تو لی جائے کہ یہ فلاں شخص تمہارے باپ کی حیثیت سے ٹھیک رہے گا یہ فلاں عورت تمہاری ماں کی حیثیت سے ٹھیک رہے گئی یہ بہت نیک ہے خوبصورت ہے... معاذاللہ میں کوئی شکوہ نہیں کر رہی یہ تو ایک سوچ ہے اگر ہم سب کو اختیار دیا جاتا کہ تم کس کے گھر پیدا ہونا چاہتی ہو یاں چاہتے ہو تو جناب میرا نہیں خیال کہ کوئی غریب صاحبِ اولاد ہوتا لیکن غریب ہوتا ہی کون وہ تو پہلے ہی کسی بادشاہ کے یاں کسی امیر کے گھر پیدا ہو کے زندگی کے سکھ لے رہا ہوتا
یہ تو خداوند تعالٰی کا قائم کردہ نظام ہے اللہ کے ہر فیصلے میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتی..
پاک و ہند میں بچے کی پیدائش ہوئی تو باپ کو فکر لگ جاتی ہے کہ بچے کے کان میں اذان دینی ہے اگر تو باپ تھوڑی بہت دینی تعلیم رکھتا ہو گا تو خود سے کوشش کرتا ہے نہیں تو کسی مولانا بفضلِ اولانہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ بچے کو باور کرایا جائے کہ وہ مسلمان کے گھرانے میں پیدا ہوا ہے میرا نہیں خیال کہ اتنے چھوٹے بچے پر اذان کی آواز کا کوئی اثر ہوتا ہو گا اب تو بڑے لوگوں پر بھی اذان کا اثر ہوتا وہ تو بچہ ہے.
مجھے کو چھ سال ہوگئے ہیں خلیج میں سکونت اختیار کئے ہوئے جس بلڈنگ میں ہم رہتے ہیں ہمارے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں ایک مصری نزد خاتون ہیں لگ بگ میری ہی عمر کی تعلیم یافتہ ہے اور انگلش بھی کافی اچھی بول لیتی ہے وہ اکثر ہمارے گھر آجاتی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ مصر میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو کیا اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے تو اس بڑے عجیب سے انداز میں میری طرف دیکھا نہیں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اس نے مجھے بتایا کے نبی کریم ص کے زمانے میں یاں صحابہ کرام رضی اللہ کے زمانے میں کسی کے عمل سے یہ ثابت نہیں... واللہ اعلم
بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو فکر پڑ جاتی ہے کہ اب اس کو قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مدرسے میں یاں مسجد میں داخل کروا دیا جاتا ہے جہاں جلالی سے چہرے والے قاری صاحب ا ب سے ابتداء کرواتے ہیں مانو نرم لہجہ یاں شائستگی تو قریب سے بھی نہیں گزری بچہ جو سبق رات کو اچھے سے ماں سے یاد کر کے سویا تھا صبح قاری صاحب کا جلالی چہرہ دیکھ کر بھول جاتا ہے تھوڑے دن اور گزرے جب قاری صاحب کو احساس ہو گیا اب یہ بچہ پکا ہو گیا ہے اور ماں باپ کو بچہ کا قرآن پاک ختم کرونا ہے تو سزا دینے کا طریقے بھی بدل گے کبھی بچے کی انگلیوں کےدرمیان میں پنسلیں رکھ کر آگے سے انگلیوں کو دبانے اور کبھی بچے کو کرسیی کی شکل میں کھڑے رہنے کو کہنا آئے دن بچے کی کمر پر بید کی چھڑی کے نشانات اور کبھی پانی والے پائپ کے نشان بچے کی کمر نہ ہوئی قاری صاحب کی تجربہ گا ہو گئی دیکھیں نشان پڑتا ہے کے نہیں اللہ اللہ کرتا بچہ قرآن پاک ختم کر لیتا ہے تو کہیں جا کر بچے کو سکون ملتا ہے..
میرا بات کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ بچے کو دینی تعلیم سے آراستہ نہ کریں لیکن اتنا ضرور کہوں گئی خدارا آپ بچے کی نگرانی بھی کریں اب وہ دور نہیں ہے ہم پرانے تکیہ نویسی طریقہ کار سے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں آج کل تو موبائل آپس میں بھی قرآن پاک دستیاب ہیں ایک ایک آیت کو ترجمہ اور تجوید کے ساتھ جتنی مرتبہ مرضی سن سکتے ہیں...
اگر آپ کسی ایسی گلی میں رہائش پذیر ہیں جس میں الگ الگ مکتبہ فکر کی دو مسجدیں ہیں تو آپ پھر ایک کام کریں یاں تو وہ مکان بیچ کر بھاگ جائیں نہیں تو میرے جیسے پکے مسلمان بن جائیں جی جی پکے مسلمان جب ہفتے میں دوبار آپ کو وعظ سننے کو ملے وعظ کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں زیادہ تو آپ ہوگئے نا پکے مسلمان مجھ پر جمعرات کی رات اور سوموار کی رات بہت بھاری گزارتی تھی اگر کبھی سخت نید آ رہی ہوتی روئی کانوں میں ڈالنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک مسجد کے اسپیکر سے آواز آنا بند نہیں ہو جاتی اگر کوئی مہمان آ جائے خدانخواستہ انہی دنوں میں تو وہ بیچارہ بھی ساری رات جگراتے میں گزار دیتا ہے مجھے سب سے زیادہ مشکل امتحانات کے دنوں میں ہوتی تھی میں اپنا کپڑے وغیرہ اٹھا کر چاچا کے ہاں چلی جاتی تھی یقین مانیں آج بھی ان دنوں مکتبہ فکر کے علماء کرام کے اختلافات کے بارے میں سوچتی ہوں تو بہت چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں کوئی بولتا کہ بغیر ڈارھی کے نماز نہیں ہوتی دوسرا کہتا کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی خیر کس کی نماز قبول ہوتی ہے کس کی نہیں یہ تو اللہ کی ذات بہتر جانتا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کو غلط کہنے والے.
عدنان مجھے اکثر بتاتے ہیں کہ آج انھوں نے مغرب کی جماعت کی امامت کروئی آج ظہر کی نماز کی نماز کی امامت کروئی میں بہت حیران ہوئی کہ آپ کی تو ڈاڑھی بھی نہیں ہے تو آپ کیسے جماعت کروا سکتے ہیں آپ نے تو اکثر پینٹ شرٹ پہنی ہوتی ہے تب مجھے بتایا کے یہاں پاکستان والا حساب نہیں ہے میں نے فٹ سے پوچھا کیا یہاں پاکستان والا اسلام نہیں ہے تو مجھے کہتے ہیں ہاں یہاں پاکستان والا سلام نہیں ہے ہاں البتہ پاکستان میں یہاں والا اسلام ہے لیکن فرقہ واریت میں بٹا ہوا یہاں کوئی دیوبندی مسلک نہیں ہے کوئی بریلوی مسلک نہیں ہے کوئی اھلِحدیث مسلک نہیں ہے سب مسلمان ہیں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں چاہے کوئی بھی ہو کوئی آمین اونچی آواز میں کہتا ہے اور کوئی دیہمی آواز میں کوئی رفعدین کرتا ہے کوئی نہیں کرتا اس لیے یہاں سب مسلمان ہیں...
دور جدید کے مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ حکم لگانے میں دیر نہیں کرتے پہلے یہ کام علما سر انجام دیتے تھے اب ہر فرد میر و غالب ہے .....
جہاں تک معاملہ ہے نو مولود کے کان میں اذان دینے کا جی ہاں یہ فرائض یا اصول دین میں سے نہیں لیکن یہ دین میں ہے ہی نہیں یہ کہنا اعتدال سے ہٹنا ہے امور دینیہ میں کچھ فرائض ہیں کچھ کی حیثیت سنن کی پھر سنن میں بھی کچھ تاکیدی ہیں اور کچھ اختیاری .......
امام ابن قیم نے اپنی کتاب “تحفة المودود باحکام المولود” میں ، نومولود کے کان میں اذان دینے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أول ما يقرع سمع الإنسان كلماته المتضمنة لكبرياء الرب وعظمته والشهادة التي أول ما يدخل بها في الإسلام فكان ذلك كالتلقين له شعار الإسلام عند دخوله إلى الدنيا كما يلقن كلمة التوحيد عند خروجه منها
اردو ترجمہ (مولانا محمد ھود) :
سب سے پہلے ابن آدم کے کان میں وہ کلمات پہنچیں جن میں اللہ کی کبریائی اور عظمت ہو ، وہ شہادت جو انسان کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ گویا یہ اس کے لیے دنیا میں پہلا سانس لیتے وقت اسلام کی تلقین ہے جیسے آخری سانس کے وقت اسے کلمۂ توحید کی تلقین ہوتی ہے۔
حوالہ :
الباب الرابع : في استحباب التأذين في أذنه اليمنى والإقامة في أذنه اليسرى
تحفة المودود بأحكام المولود
ابن قيم الجوزية
اب یہاں ایک روحانی حکمت بھی جان لیجئے جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو یہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف چھلانگ ہے یعنی عالم ارواح سے عالم دنیا کی جانب ایک روحانی سفر وہ وعدہ کہ جو خالق حقیقی نے عالم ارواح میں ہم سے لیا تھا اس عظیم روحانی تغیر کی وجہ سے لاشعور کے خانوں سے محو ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے یہ اذان دراصل روحانی اعتبار سے ایک یاد دہانی ہے چونکہ بچے کی مادی عقل کے در ابھی وا نہیں ہوتے اسلیے اسکی روح اس نورانی پیغام کو با آسانی قبول کر لیتی ہے لیکن ایک پختہ کار شخص پر اس کا اثر اتنا نہیں ہوتا کہ اس کی روحانیت مادیت کے پردوں تلے کہیں پوشیدہ ہو چکی ہوتی ہے ..........