عبدالقدیر 786
محفلین
کیا گھر والی کو اپنے کاروبار یا کام کے بارے میں بتانا چاھئیے اُس سے مشورے لینے چاھئیں یا اُن کو یہ سب بتانا صرف اُن کی ٹینشن میں اضافہ کرنا ہے آپ کی کیا رائے ہے اِس بارے میں چلیں ایک کہانی شئیر کرتا چلوں آپ کے ساتھ
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شخص نے ایک بلند عمارت کی پانچویں منزل سے چھلانگ لگادی اس اقدام خودکشی کی وجہ کیا تھی ؟ صرف یہ کہ وہ زندگی سے بیزار ہوگیا تھا ۔
مگر اس کے زندگی سے بیزار ہوجانے کی وجہ بڑی عجیب تھی ۔ خوف اور تشویش کی وجہ دنیا اسکی آنکھوں میں اندھیر ہوگئی تھی ۔
اس کی تفصیل بیان طلب ہے اس لیے آپ تھوڑے صبر سے ذیل کی سطور بڑے غور سے پڑھنی پڑیں گی۔
وہ ایک بہت بڑا تاجر تھا۔ اس کا کاروبار بہت وسیع تھا۔ اِس کی آمدنی وافر تھی۔ وہ سچ مچ روپے میں کھیلا کرتا تھا ۔ لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے ۔ مگر اچانک اس کا یہ ترقی یافتہ کاروبار بیٹھ گیا ۔ اسے نفع کی بجائے نقصان ہونے لگا۔ دیکھتے دیکھتے اس کی مالی حالت بگڑ گئی۔
کاروبار میں واجبات ہی نہیں قرضے بھی ہوتے ہیں ۔وہ لوگ جن کی رقمیں اس کے ذمے نکلتی تھیں شکاری کتوں کی طرح اس کے پیچھے لگ گئے مگرجیسا کے دنیا کا دستور ہے وہ لوگ جو اس کے مقروض تھے غائب ہوگئے ۔
اسے تمام مصیبتوں میں جو مصیبت سب زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوئی وہ بینکوں سے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی تھی۔ کیوں کہ انھیں ادا کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آرہی تھی لیکن اس سے بھی دلدوز تکلیف ایک اور تھی ۔ وہ اس آفت کی چوٹ اپنی شریکِ زندگی کے دل پر نہ لگانی چاہتا تھا جو اس کے لیے دنیا کی محبوب ترین ہستی تھی ۔ لیکن یہ چوٹ لگ کر رہنی تھی کیوں کہ اسے جلد یا بدیر اپنے شوہر کے حالات کا پتہ چل جانا تھا ۔
اس اندیشے اور تشویش نے اُس کا ذہنی توازن درہم برہم کردیا اور وہ اپنی ہی دکان کی عمارت کی پانچویں منزل سے نیچے کُود پڑا تاکہ اس طرح جان دے کر اپنا خاتمہ کرلے ۔ مگر ایک عجیب اتفاق سے پھر بھی زندہ رہا۔
اس وقت جب اس نے پانچویں منزل سے چھلانگ لگائی عمارت کی پہلی منزل میں ایک شامیانہ نصب تھا ۔ وہ اس شامیانے پر گِرا۔ شامیانہ پھٹ تو گیا مگر اس شخص کو زمین پر گرنے سے روک لیا۔ وہ نیچے کی طرف جانے کے بجائے۔
(جاری ہے)
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شخص نے ایک بلند عمارت کی پانچویں منزل سے چھلانگ لگادی اس اقدام خودکشی کی وجہ کیا تھی ؟ صرف یہ کہ وہ زندگی سے بیزار ہوگیا تھا ۔
مگر اس کے زندگی سے بیزار ہوجانے کی وجہ بڑی عجیب تھی ۔ خوف اور تشویش کی وجہ دنیا اسکی آنکھوں میں اندھیر ہوگئی تھی ۔
اس کی تفصیل بیان طلب ہے اس لیے آپ تھوڑے صبر سے ذیل کی سطور بڑے غور سے پڑھنی پڑیں گی۔
وہ ایک بہت بڑا تاجر تھا۔ اس کا کاروبار بہت وسیع تھا۔ اِس کی آمدنی وافر تھی۔ وہ سچ مچ روپے میں کھیلا کرتا تھا ۔ لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے ۔ مگر اچانک اس کا یہ ترقی یافتہ کاروبار بیٹھ گیا ۔ اسے نفع کی بجائے نقصان ہونے لگا۔ دیکھتے دیکھتے اس کی مالی حالت بگڑ گئی۔
کاروبار میں واجبات ہی نہیں قرضے بھی ہوتے ہیں ۔وہ لوگ جن کی رقمیں اس کے ذمے نکلتی تھیں شکاری کتوں کی طرح اس کے پیچھے لگ گئے مگرجیسا کے دنیا کا دستور ہے وہ لوگ جو اس کے مقروض تھے غائب ہوگئے ۔
اسے تمام مصیبتوں میں جو مصیبت سب زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوئی وہ بینکوں سے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی تھی۔ کیوں کہ انھیں ادا کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آرہی تھی لیکن اس سے بھی دلدوز تکلیف ایک اور تھی ۔ وہ اس آفت کی چوٹ اپنی شریکِ زندگی کے دل پر نہ لگانی چاہتا تھا جو اس کے لیے دنیا کی محبوب ترین ہستی تھی ۔ لیکن یہ چوٹ لگ کر رہنی تھی کیوں کہ اسے جلد یا بدیر اپنے شوہر کے حالات کا پتہ چل جانا تھا ۔
اس اندیشے اور تشویش نے اُس کا ذہنی توازن درہم برہم کردیا اور وہ اپنی ہی دکان کی عمارت کی پانچویں منزل سے نیچے کُود پڑا تاکہ اس طرح جان دے کر اپنا خاتمہ کرلے ۔ مگر ایک عجیب اتفاق سے پھر بھی زندہ رہا۔
اس وقت جب اس نے پانچویں منزل سے چھلانگ لگائی عمارت کی پہلی منزل میں ایک شامیانہ نصب تھا ۔ وہ اس شامیانے پر گِرا۔ شامیانہ پھٹ تو گیا مگر اس شخص کو زمین پر گرنے سے روک لیا۔ وہ نیچے کی طرف جانے کے بجائے۔
(جاری ہے)
آخری تدوین: