جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی تاریخ کی صحیح طرف تھے۔ جن کے دیے گئے متنازعہ فیصلے قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
استعفی بنتا ہے پر کوئی دے گا نہیں۔ یوٹرن مل جائے گا۔تحریک انصاف کے بانی رہنما اور فارن فنڈنگ کیس کی پیروی کرنے والے
نکے دے ابا کو اصل خوف فیض آباد والے فیصلہ کا نہیں بلکہ اس بات کا ہے کہ جو جج ابھی سے اتنا دلیر ہے۔ وہ چیف جسٹس پاکستان بننے کے بعد تو ان کو پوری طرح سے ننگا کرکے واپس بیرکوں میں بھیج دے گا۔
باقی انصافی حکومت اس معاملہ میں فوج کے ساتھ اس لئے کھڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان کے حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس میں جسٹس فائز عیسی نے ان کو کلین چٹ دے کر کیس بند کر دیا تھا۔ اس لئے وہ آگے چل کر بھی شریف خاندان کو اسی طرح عدالتی ریلیف فراہم کریں گے۔ جو ان کے سیاسی مستقبل کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔
یہ فیس سیونگ عدالت نے خود حکومت کو دی ہے۔ دوران ٹرائل تو ججز کی طرف سے بڑے بڑے بیان آ رہے تھے کہ اگر بدنیتی ثابت ہو گئی تو ہم حکومت کے خلاف یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ اور آج جب فیصلہ آیا تو حکومتی کنڈکٹ سے متعلق ایک لفظ نہیں لکھا۔ بلکہ چپ کرکے سارا کیس ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالہ کر دیا۔اصل بات یہ ہے جو کہ ریما عمر نے کی ہے:
باقی ایف بی آر کو بیچ میں لا کر حکومت فیس سیونگ کر رہی ہے۔
آبپارہ میں چیخیں صاف سنائی دے رہی ہیں
یہ فروغ نسیم کا فیک اکاؤنٹ ہے
بالکل ٹھیک ہے۔ احترام ان ججوں کا ہونا چاہیے جو فوج کے نمائندے کا موقف سنے بغیر اس کے خلاف فیصلے لکھ دیتے ہیں اور ۵۰ روپے کے اسٹامپ پیپر پر قومی چور مجرم نواز شریف کو ملک سے فرار کروا دیتے ہیں