زیک
مسافر
ہاہاہاہاہااوپر کچھ پوسٹس سے اگر یہ تاثر گیا ہے کہ میں لبرل نظریات کے خلاف ہوں تو یہ درست نہیں ہے۔
اتنا عرصہ لبرل کو گالی کے طور پر استعمال کرنے کے بعد!
ہاہاہاہاہااوپر کچھ پوسٹس سے اگر یہ تاثر گیا ہے کہ میں لبرل نظریات کے خلاف ہوں تو یہ درست نہیں ہے۔
اپوزیشن، لبرل، لفافے کوئی گالی نہیں۔ ان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف اتحاد کا نام ہے۔اتنا عرصہ لبرل کو گالی کے طور پر استعمال کرنے کے بعد!
ریما عمر نے مٹھائی کھا لی ہے۔ آپ بھی اب کھا کر منہ میٹھا کر لیںاصل بات یہ ہے جو کہ ریما عمر نے کی ہے:
ساری محنت دوسروں سے کروانے کی بجائے یہ والا دھاگہ خود ہی پڑھ لیں بالکل شروع سے۔اس دفعہ ایک چور اچکا عدالت میں چور ثابت ہوا کہ نہیں؟
کیا فائدہ۔۔۔ساری محنت دوسروں سے کروانے کی بجائے یہ والا دھاگہ خود ہی پڑھ لیں بالکل شروع سے۔
بھائی اس ملک میں فیصلے آئین، قانون، انصاف کے تحت نہیں بلکہ لوگوں کی خواہشات اور منشا کے مطابق کئے جاتے ہیں۔کیا فائدہ۔۔۔
مجھے یقین ہے کہ یہ آدمی باعزت بری ہوگا۔ آپ سے بس تصدیق کررہا ہوں۔۔۔
متفق۔!بھائی اس ملک میں فیصلے آئین، قانون، انصاف کے تحت نہیں بلکہ لوگوں کی خواہشات اور منشا کے مطابق کئے جاتے ہیں۔
جیسا کہ آپ نے اوپر دیکھا کہ لبرل جمہوریت پسندوں کی شدید خواہش تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ پر دائر کردہ ریفرنس ختم کر دیا جائے۔ سو عدالت نے اسے ختم کر دیا۔
مگر پھر ساتھ ہی فوجی دستوں کی شدید منشا تھی کہ ان کا احتساب کیا جائے۔ سو وہ معاملہ عدالت نے ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا ہے۔
لو ہو گیا "انصاف" کیونکہ اب دونوں پارٹیاں خوش ہیں۔
اوپر کچھ پوسٹس سے اگر یہ تاثر گیا ہے کہ میں لبرل نظریات کے خلاف ہوں تو یہ درست نہیں ہے۔ جمہوریت پسند لبرلز نظریاتی طور پر بالکل صحیح کہتے ہیں کہ ملک کے ہر محکمہ اور ادارہ کو اپنی آئینی حد میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ اور جو کوئی بھی اس سے تجاوز کرے اسے عبرتناک سزا ملنی چاہئے۔یہ چاہتے ہیں کہ ملک کو فوج کے تسلط سے آزادی ملے ۔ یہاں صحیح معنوں میں جمہوری اقدار نافذ ہوں۔ ٹھیک ہے اس میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ سب حاصل کرنے کیلئے وہ خود کر کیا رہے ہیں؟
نواز شریف کو عدالت عظمیٰ کے پانچ ججز ایک کیس میں نااہل کرتے ہیں تو یہ لبرلز ان ججوں کو بوٹ پالشی، بغض سے بھرے ہوئے، قوم کی امنگوں کے خلاف فیصلہ دینے والے ٹاؤٹ اور پتا نہیں کن کن القابات سے نواز دیتے ہیں۔ ساتھ ہی نواز شریف کی شروع کردہ کیوں نکالا سیاسی مہم میں اسے بھرپور نظریاتی سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ کہ شاید اس طرح سیاسی دباؤ کے ذریعہ عدلیہ اور فوج ڈر جائے گی اور یہ تمام فیصلے کالعدم قرار دے دئے جائیں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جمہوری انقلابی نواز شریف ایک سال جیل میں سزا کاٹ کر اپنی بیماری کا بہانہ بنا کر فوج سے ڈیل کرملک سے رفو چکر ہو گئے۔
ان انتہائی مایوس کن حالات میں جمہوریت پسند لبرلز نے مولانا فضل الرحمان جیسے اینٹی لبرل کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر بنا کر اس کے دھرنے کی حمایت شروع کر دی۔ اس وقت وہ روزانہ اس سویلین فوجی حکومت کو گھر بھیج کر سویا کرتے تھے۔ مگر پھر کیا نتیجہ بر آمد ہوا؟ چند ہی ہفتوں بعد مولانا صاحب اپنی جلسی اٹھا کر گھر لوٹ گئے اور لبرلز ان کا منہ تکتے رہ گئے۔
پھر آرمی چیف کی ایکسٹینشن معطل کا معاملہ آیا تو وہاں ان لبرلز نے سپریم کورٹ کے ججز کی بھرپور حمایت کی بس اب انقلاب آنے کو۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ دو تین دن ججز نے حکومت کی کلاس لی اور آرمی چیف کو واپس عہدہ پر بحال کر دیا۔ اس کے بعد عدالتی فیصلہ کے مطابق ملک کی تمام بڑی جمہوری اور فوج مخالف سیاسی جماعتوں نے اچھے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر ایوان اور ایوان بالا میں جاکر دو تہائی اکثریت کے ساتھ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اور یوں اس غیر قانونی اقدام کو قانونی بنا دیا۔ اس وقت یہ جمہوریت پسند لبرلز اور انقلابی کہاں بھاگ گئے تھے؟
یہ معاملہ ختم ہوا تو جسٹس فائز عیسی کا معاملہ سامنے آگیا۔ وہاں پھر وہی لبرل تاریخ دہرائی گئی۔ سب نے بڑھ چڑھ کر فائز عیسی کے حق میں قصیدہ گوئی شروع کر دی۔ سوشل میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر پر بھرپور تحریک چلائی۔ وکلا تنظیموں کو ساتھ ملا لیا۔ مگر پھر ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ عدالت عظمیٰ نے حکومتی ریفرنس معطل کرکے ان کا کیس ایف بی آر کو بھیج دیا۔ جہاں سے اب یہ یقینی طور پر کچھ ماہ بعد واپس سپریم جوڈیشل کونسل میں پہنچ جائے گا۔
الغرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر جمہوریت پسند لبرلز کا مقصد نیک ہے۔ لیکن ان کا طرز عمل اس کے منافی ہے۔ وہ اپنی خود کی پارٹی بنا کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے کبھی پی پی پی تو کبھی پی ٹی ایم تو کبھی ن لیگ کی آغوش میں جا کر چھپ جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب موجودہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران ملک سے مفرور تھے۔ اور عمران خان اکیلئے ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف جہاد کیا کرتے تھے۔ اس وقت تمام لبرلز کی ان کو حمایت حاصل کی۔ جبکہ آج وہ فوج کے ساتھ ایک پیج والی حکومت میں ہیں تو ان سے وہی عمران خان برداشت نہیں ہو رہے۔
ایسا کب تک چلے گا؟ جمہوریت پسند لبرلز کب بڑے ہوں گے اور تاریخ سے سبق سیکھیں گے؟ کیا مشرقی پاکستان کو فوجی تسلط سے رہائی اسی طرح اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر نظریاتی جہاد کرنے سے حاصل ہو گئی تھی؟ یا وہاں ایک جمہوری لیڈر شیخ مجیب کی قیادت میں بنگالیوں نے فوج کے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اور اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر اپنے وطن کو فوج کے تسلط سے آزاد کروایا تھا؟
جب تک یہ لبرلز اپنے مقصد میں اخلاص کا مظاہرہ نہیں کریں گے ان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکتی۔ دوسری جماعتوں کے لیڈروں میں پناہ ڈھونڈنے کی بجائے اپنی الگ سے سیاسی جماعت بنائیں جس کا ایک نکاتی ہو کہ ہم فوج کے تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس جماعت کے لیڈران بنگالی قوم کی طرح پاکستانی قوم کو ٹینکوں کے آگے لیٹنے اور اپنے سینوں پر گولیاں کھانے کیلئے تیار کریں۔ تب ہی کوئی بہتری کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر جو حالات ہیں یہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی رہیں گے۔ جتنا مرضی میڈیا پر نظریاتی جہاد کر لیں۔ اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
اس کی وجہ اوپر بیان کر چکا ہوں۔ اختلاف لبرلز کے طرز عمل سے ہے ان کے نظریات سے نہیں۔ویسے آپس کی بات ہے آپ شاید لبرل بھی ہوں لیکن آپ کے تبصروں سے جمہوریت مخالف ہی نظر آتے ہیں۔ شاید یہ ہماری نظروں کا قصور ہو؟
بالکل ٹھیک۔ حکومت نے ایف بی آر سے انکوائری کروائے بغیر ریفرنس بنا دیا تھا۔ اب پہلے تحقیقات ہوں گی اور اگر کچھ غیر قانونی ملا تو اس بنیاد پر ریفرنس دائر ہوگا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ اب وہ یقینی بنائیں گے کہ ایف بی آر والے تعاون کریں اور کیونکہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بار کے دنوں سے جانتے ہیں تو انہیں معلوم ہے کہ وہ کتنے صاف شفاف کردار کے مالک ہیں اور امید ہے اس امتحان سے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔