کیا گورخور (ضب) حلال ہے؟

شمشاد

لائبریرین
آپ یہاں بھی گفتگو جاری رکھ سکتی ہیں، بعد میں اگر مناسب معلوم ہوا تو سارے مراسلے وہاں منتقل کر دیئے جائیں گے۔
 
ضب كھانا حرام ہے يا حلال اس فقہی مسئلے ميں دو طرح كى آراء ہيں :
1- حرام ہے۔
يہ قول فقہائے احناف كا ہے جب كہ محدثين ميں سے امام ثورى رح كا ہے۔ امام ابو حنيفہ رح سے ايك قول صرف كراہت كا بھی منقول ہے يعنى حرام نہيں مكروہ۔ حضرت علي رضى الله عنہ سے بھی ايك روايت يہی ہے۔
[ARABIC]وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: هُوَ حَرَامٌ. وَبِهَذَا قَالَ الثَّوْرِيُّ؛ لِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ نَهَى عَنْ أَكْلِ لَحْمِ الضَّبِّ. وَرُوِيَ نَحْوُهُ عَنْ عَلِيٍّ؛ وَلِأَنَّهُ يَنْهَشُ، فَأَشْبَهَ ابْنَ عِرْسٍ.[/ARABIC]
حوالہ: المغني : 9\422
2- حلال ہے۔
يہ قول جمہور يعنى ائمہ ثلاثہ رح اور محدثين رح کا ہے ۔ گويا مالكيہ ، شافعيہ ، حنابلہ اور محدثين ضب كو حلال سمجھتے ہيں۔ اصحاب رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں حضرات عمر بن الخطاب ، ابن عم رسول عبداللہ ابن عباس ، ابو سعيد الخدرى اور دوسرے رضوان الله عليهم بھی ضب کے حلال ہونے کے قائل ہيں ۔
حضرت ابوسعيد الخدري رضي الله عنه فرماتے ہيں: ہم صحابه رسول الله صلى الله عليه وسلم مرغ كے تحفے كى نسبت الضب كے تحفے كو زيادہ پسند كرتے تھے۔ حضرت عمر رضى الله عنه فرماتے ہيں اگر ہر ضب كے بدلے ايك موٹی تازى مرغى ہو تو بھی مجھے ضب سے زيادہ پسند نہيں۔ ميرا جى چاہتا ہے کہ ضب كے ہر بِل سے ايك كى بجائے دو دو ضب مليں !
[ARABIC]أَمَّا الضَّبُّ: فَإِنَّهُ مُبَاحٌ فِي قَوْلِ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُو سَعِيدٍ، وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَأَنْ يُهْدَى إلَى أَحَدِنَا ضَبٌّ أَحَبُّ إلَيْهِ مِنْ دَجَاجَةٍ. وَقَالَ عُمَرُ: مَا يَسُرُّنِي أَنَّ مَكَانَ كُلِّ ضَبٍّ دَجَاجَةٌ سَمِينَةٌ، وَلَوَدِدْت أَنَّ فِي كُلِّ جُحْرِ ضَبٍّ ضَبَّيْنِ. وَبِهَذَا قَالَ مَالِكٌ وَاللَّيْثُ وَالشَّافِعِيُّ وَابْنُ الْمُنْذِرِ.[/ARABIC]
حوالہ: المغني : 9\422
تصحیح کا بہت شکریہ ام نور العین بہن۔
امام ابو حنیفہ اور امام مالک اور امام ثوری کے نزدیک ضب حرام ہے۔ اور علی ابن ابی طالب سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔

ميں نہيں جانتى كہ آپ نے امام ابو حنيفہ کے ساتھ ائمہ ثلاثہ كا ذكر گول كيوں كر ديا ، اور حضرت علي رضى الله تعالى عنہ کے متعلق روايت كا ذكر كرتے وقت باقى اصحاب رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى رائے ذکر كيوں نہيں كى جب كہ ان ميں صرف حضرات عمر بن الخطاب اور ابو سعيد الخدرى رضى اللہ عنہم ہی نہيں بلكہ ابن عم رسول حضرت عبد اللہ ابن عباس رضى اللہ عنہما بھی شامل ہيں ؟ ؟ ؟ :)
امام ابوحنیفہ اور امام ثوری نے اس روایت سے ضب کو حرام قرار دیا ہے، جبکہ اہلحدیث حضرات کے نزدیک بخاری والی رویات زیادہ صحیح ہے اس لیے وہ ضب کھانے میں مضائکہ نہیں سمجھتے۔
مہ وش آپ كى اس معصوميت بلکہ علمى لطيفے پر كياكہیے ؟
اول تو ضب كو حلال صرف محدثين يا اہل الحديث نہيں سمجھتے ۔ بلكہ ائمہ ثلاثہ اور ان كے متبعين بھی حلال كہتے ہيں يعنى مالكيہ ، شافعيہ اور حنابلہ :) اب راتوں رات متبعين ائمہ ثلاثہ اہل الحديث ميں کیسے شامل ہو گئے؟ اوپر المغنى كا حوالہ ديا تھا ، يہ جامعہ ازھر كا فتوى ہے ۔ ديكھیے ائمہ ثلاثہ کی كيا رائے ذكر ہے؟ http://www.kl28.com/fat1r.php?search=3187

هذا هو مذهب الحنفية.

وأما الأئمة الثلاثة فقد ذهبوا إلى حل أكله مستدلين بأحاديث رويت عن

النبى صلى الله عليه وسلم كحديث ابن عمر رضى الله عنهما قال ( إن النبى

صلى الله عليه وسلم سئل عن الضب فقال لم يكن من طعام قومى فأجد

نفسى تعافه فلا أحلله ولا أحرمه ) وحديث ابن عباس رضى الله عنهما

قال أكل الضب على مائدة رسول الله صلى الله عليه وسلم وفى الآكلين أبو

بكر رضى الله عنه
كم از كم آراء ذکر کرتے وقت علمى امانت كو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔
دوم : ضب کے حلال ہونے پر دلالت كرنے والى احاديث صر ف صحيح بخاري ميں نہيں آئيں ۔ اگر آپ تغافل عارفانہ سے كام ليں تو الگ بات ہے ۔ بہرحال آپ کی يہ رائے empirically established نہيں ہے ہاں دل كے بہلانے كو مہ وش يہ خيال اچھا ہے !
اب ذرا حقيقت كى دنيا ميں نشريف لائيے : یہ صرف ايك حديث شريف 1-صحيح البخاري، 2-صحيح مسلم، 3-سنن ابي داود، 4-سنن النسائي ، 5-موطا مالك اور6- مسند احمد بن حنبل ميں کئی اسانيد سے مذكور ہے ۔اور راوى ہيں حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہ ۔ ترجمہ آپ خود فرما ليجیے ۔
[ARABIC] عن عبد الله بن عباس - رضي الله عنهما - «أن خالد بن الوليد -[الذي يقال له] : سَيْفُ الله - أخبره: أنه دخل مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم- على ميمونة - زوج النبي - صلى الله عليه وسلم-، وهي خالتُه وخالةُ ابن عباس - فوجد عندها ضَبَّاً مَحْنُوذاً، قَدِمَتْ به أُخْتُها حُفَيدَةُ بنت الحارث من نَجْد، فقدَّمت الضَّبَّ لرسول الله - صلى الله عليه وسلم- وكان قَلَّما يُقَدَّم بين يديه الطعام حتى يُحدَّث عنه ويُسمَّى له - فأهْوى رسول الله - صلى الله عليه وسلم- بيده إلى الضب، فقالت امرأة من النسوة الحُضُور: أخْبِرْن رسول الله - صلى الله عليه وسلم- بما قَدَّمْتُنَّ له، قُلْنَ: هو الضَّبُّ يا رسول الله، فرفع رسول الله - صلى الله عليه وسلم- يدَه، فقال خالد بن الوليد: أحَرَامٌ الضَّبُّ يا رسول الله؟ قال: لا، ولكنه لم يكن بأرض قومي، فأجدِني أعَافُه، قال خالد: فاجْتَرَرْتُه فأكلته، ورسول الله - صلى الله عليه وسلم- ينظر، فلم يَنْهني» . [/ARABIC]
خط کشیدہ سطور کا ترجمہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوہ کی طرف سے اپنا ہاتھ کھنچ لیا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ( یہ دیکھا تو ) پوچھا کہ " یا رسول اللہ ! کیا گوہ حرام ہے ؟ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " نہیں ر بلکہ یہ میری قوم کی زمین( یعنی حجاز ) میں نہیں پائی جاتی اس لئے میں اس سے اپنے اندر کراہت ( یعنی طبعی کراہت ) محسوس کرتا ہوں ۔ " حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا با ن ہے کہ (یہ سن کر ) من نے اس گوہ کو اپنی طرف کھنچ) لیا اور کھانے لگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ رہے تھے آپ نے مجھے منع نہیں کیا۔ "

اب صحيح بخارى و صحيح مسلم كى يہ حديث مبارك ديکھیے:
[ARABIC]عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الضب لست آكله ولا أحرمه . [/ARABIC]
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " گوہ کو نہ میں کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ " (بخاری ومسلم )

يہ بھی صرف صحيح بخارى كى نہيں بلكہ متفق عليہ حديث ہے۔

مزيد ايسى كئى احاديث مباركہ ہيں۔ فى الحال ميں انہی پر اكتفا كروں گی ۔

جبکہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ضب کھانا حرام نہیں اگرچہ کہ اس میں گندگی ضرور ہے۔
وقال عمر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم { لم يحرم الضب ، ولكنه قذره }
:) اس كا ترجمہ ہے: اور عمر نے کہا : " اللہ کے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے ضب كو حرام نہيں کیا ليكن اس كا کھانا برا جانا ۔
 
ابن ماجہ 240
حدثنا ابو بکر بن ابی شیبہ ثنا یحیی ابن واضح عن ابی اسحق عن عبدالکریم بن ابی المخارق عن حبان بن جز ط عن خزیمہ بن جزء قال قلت یارسول اللہ ما تقول فی الضبع قال ومن یاکل الضت ہ
حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم گوہ کے متعلق جناب کا کیا خیال ہے فرمایا گوہ کو کون کھاتا ہے۔

لا حول ولا قوة الا باللہ ۔ جوش استدلال ميں آپ بھول گئیں کہ بات الضب كى ہو رہی ہے نہ كہ الضبع كى ! :rolleyes:
اس كى سند ملاحظہ فرمائيں
اب ترجمہ كرنے والوں نے جہالت يا تعصب كا ثبوت ديا ہے تو كاپی پيسٹ كرنے والے ہی دیکھ ليا كريں ۔ مہ وش ! الضب اور الضبع ميں زمين آسمان كا فرق ہے۔ الضب سبزى خور ہے اور الضبع درنده ہے يعنى beast!
ذرا الضبع كو ديکھیے http://ar.wikipedia.org/wiki/ضبع
250px-HyenaTanzania.JPG


اور الضب كو ديكھیے :
250px-Dornschwanz1.jpg

http://ar.wikipedia.org/wiki/ضب

ناطقہ سر بگريباں ہے اسے كيا كہیے :confused:
 

شاکرالقادری

لائبریرین
طالوت کے گور خور کو کھانے سے اگر متلی ہوتی ہے، ، ، تو اس گورخر کے بارے میں کیا خیال ہے
اور کوئی بتائے تو اس کا گوشت کیسا ہوگا۔ نمکین یا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟

گورخر



گورخرها در حال نوشیدن آب از برکه
 

شاکرالقادری

لائبریرین
گوشت سوسمار که از گونه‌ای سوسمار[۱] بومی با نام علمی Uromastyx که در خاورمیانه و آفریقای شمالی زندگی می‌کند به دست می‌آید.
این گوشت در دستور آشپزی برخی کشورهای خلیج فارس مانند عربستان سعودی[۲] مصرف می‌شود.

مفہوم یہ ہے کہ ۔۔۔۔ سوسمار کی ایک قسم ایسی ہے جس کا گوشت خلیج فارس اور عربستان کے علاقوں میں پکایا اور کھایا جاتا ہے

سوسمار کی یہ قسم ۔۔۔ایشیا، شمالی افریقہ عربستان، ترکی، ایران افغان نستان، پاکستان، ہند وغیرہ میں پائی جاتی ہے
مزید معلومات
http://en.wikipedia.org/wiki/Uromastyx
 

مہوش علی

لائبریرین
ام نور العین بہن، ایک بات پھر تصحیح کا شکریہ۔

ميں نہيں جانتى كہ آپ نے امام ابو حنيفہ کے ساتھ ائمہ ثلاثہ كا ذكر گول كيوں كر ديا ، اور حضرت علي رضى الله تعالى عنہ کے متعلق روايت كا ذكر كرتے وقت باقى اصحاب رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى رائے ذکر كيوں نہيں كى جب كہ ان ميں صرف حضرات عمر بن الخطاب اور ابو سعيد الخدرى رضى اللہ عنہم ہی نہيں بلكہ ابن عم رسول حضرت عبد اللہ ابن عباس رضى اللہ عنہما بھی شامل ہيں ؟ ؟ ؟ :)
مہ وش آپ كى اس معصوميت بلکہ علمى لطيفے پر كياكہیے ؟
كم از كم آراء ذکر کرتے وقت علمى امانت كو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔

آپ سے درخواست ہے کہ اس چیز کو اتنا سیریس نہ لیجئے۔ یہ کوئی تفصیلی تحقیقی مقالہ نہیں تھا بلکہ ہلکی پھلکی پوسٹ تھی جس میں تفصیلات اور جزئیات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ بلکہ نمازِ فجر کے بعد غنودگی کے عالم میں طالوت صاحب کی درخواست پر جلدی جلدی میں لکھی گئی ایک پوسٹ تھی۔

اور جہاں تک امام ابو حنیفہ کے علاوہ دیگر ائمہ ثلاثہ کی بات ہے تو عدم ذکر عدم وجود کی دلیل نہیں ہوتا۔ عدم ذکر بالکل الگ چیز ہے۔

بلکہ بہن، اس سے قبل میں امام شافعی کا ذکر کر چکی تھی کہ انکے نزدیک ضب حلال ہے۔

امام ابو حنیفہ اور اہل تشیع کے نزدیک ضب کا کھانا حرام ہے۔
امام شافعی اور اہل حدیث حضرات کے نزدیک ضب کا کھانا حلال ہے۔

ضب کے متعلق احادیث کے متعلق آپ نے لکھا ہے
از ام نور العین:
دوم : ضب کے حلال ہونے پر دلالت كرنے والى احاديث صر ف صحيح بخاري ميں نہيں آئيں ۔ اگر آپ تغافل عارفانہ سے كام ليں تو الگ بات ہے ۔ بہرحال آپ کی يہ رائے empirically established نہيں ہے ہاں دل كے بہلانے كو مہ وش يہ خيال اچھا ہے !

ام نور العین بہن،
یقین جانیے میری تجاہل عارفانہ والی کوئی نیت نہیں تھی۔ تجاہل عارفانہ کہتے ہیں کہ جانتے بوجھتے کسی چیز کا انکار کیا جائے۔ مگر یہاں زیادہ سے زیادہ عدم ذکر ہے، انکار نہیں ہے۔
بلکہ ان میں سے کچھ کا ذکر تو پہلے ہی اس تھریڈ میں ہو چکا ہے۔
نیز، میں نے کتاب "المغنی" کا جو لنک پیش کیا تھا، اس میں تفصیل سے یہ تمام کی تمام روایات موجود ہیں جو کہ آپ نے پیش کی ہیں۔
نیز امام بخاری کی پیش کردہ روایت کے بعد اس روایت کے مزید حوالے دیگر کتب سے دینے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ سب کو پتا ہوتا ہے کہ یہ روایت صحیح کے درجے میں ہے۔ اس لیے اختصار کے پیش نظر بقیہ حوالوں کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ اصل مقصد روایت کی صحت بیان کرنا ہوتا ہے جو کہ صحیح بخاری کے حوالے کے بعد پورا ہو چکا ہوتا ہے۔

////////////////////////

نیز مجھے اس بات میں دلچسپی ہے کہ احناف کے دیگر دلائل کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟ درخواست ہے کہ میری کوتاہیوں اور سستی کاہلی کو نظر انداز فرمائیے اور بنیادی ایشو پر گفتگو کو آگے بڑھائیے۔

احناف کے نزدیک جب رسول اللہ (ص) کے دستر خوان پر ضب کھائی گئی، اس وقت تک وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ مگر بعد میں ضب مکمل طور پر حرام ہو گئی۔

(1) ابو داؤد 2، 176 مشکوٰۃ شریف 361
حدثنا محمد بن عوف الطائی ان الحکم بن نافع حدثھم قال نا ابن عیاش عن ضمضم بن زرعۃ عن شیخ بن عبید بن ابی ارشد الجرانی عن عبدالرحمٰن بن شبد ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نی عن اکد لحم الضت۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ضب کھانے سے منع فرمایا۔
امام ابوحنیفہ اور امام ثوری نے اس روایت سے ضب کو حرام قرار دیا ہے، جبکہ ائمہ ثلاثہ اور اہلحدیث حضرات کے نزدیک بخاری والی رویات زیادہ صحیح ہے اس لیے وہ ضب کھانے میں مضائکہ نہیں سمجھتے۔

احناف حضرت عائشہ سے یہ روایت بھی پیش کرتے ہیں:

ابن عساکر 5، 115
رواہ ابن عدی و اخرج عن عائشۃ انھا قالت نھی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عن اکل الضت۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے گوہ کھانے سے فرمایا۔

کچھ مزید روایات جو احناف پیش کرتے ہیں:

مسند الدارمی 257 نسائی شریف 2، 198
اخبرنا سھل بن حماد ثنا شعبۃ ثنا الحکم قال سمعت زید بن وھب یحدث عن البراء بن عازب عن ثابت بن ودیعۃ قال اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بضب فقال امۃ مسخت واللہ اعلم۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے گوہ کھانے کیلئے پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہلی امتوں سے ایک مسخ شدہ امت ہے۔

مسند امام احمد بن حنبل 2، 105
حدثنا عبداللہ حدثنی ابی ثنا ابو سعید قال ثنا حماد بن مسلمۃ عن حماد عن ابراھیم عن الاسود عن عائشۃ قال اتی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بضب فلم یاکلہ ولم ینہ عنہ قلت یارسول اللہ افلا نطعمہ المساکین قال لا تطعموھم مما لا تاکلون ہ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے گوہ پیش کی گئی تو آپ نے اس کو کھایا نہیں اور نہ ہی منع فرمایا میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کیا ہم یہ گوہ مساکین کو نہ کھلا دیں آپ نے فرمایا ان کو بھی نہ کھلاؤ جو تم نہیں کھاتے۔
 
میرے خیال میں ، میں نے گور خور ہی پڑھا تھا ۔ کوشش کرتا ہوں کہ کتاب کا حوالہ مل سکے ۔
وسلام
ايك ترجمے ميں گورپھوڑ دیکھا ہے
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 48
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " گوہ کو نہ میں کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح
گوہ کو گور پھوڑ بھی کہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کی عمر سات سو سال تک کی ہوتی ہے ، اس کی بڑی عجیب خصوصیات بیان کی جاتی ہیں مثلا یہ پانی نہیں پیتی بلکہ ہوا کے سہارے زندہ رہتی ہے ۔۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
لا حول ولا قوة الا باللہ ۔ جوش استدلال ميں آپ بھول گئیں کہ بات الضب كى ہو رہی ہے نہ كہ الضبع كى ! :rolleyes:
اس كى سند ملاحظہ فرمائيں
:confused:
بہن، آپ کو سند کے حوالے سے کیا اعتراض ہے؟

شیخ بن باز نے اپنے ویب سائیٹ پر الضبع کے متعلق یہ فتوی دیا ہے۔
[ARABIC]
حكم أكل الضبع
السؤال :
بعض الإخوة يحللون أكل الضبع، ويقولون: إن سماحتكم قد أجاز أكلها، فنرجو إفادتنا في ذلك، جزاكم الله خيراً.[1]
الجواب :
النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((إنها صيد))[2]، فالضبع صيدٌ بنص الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ولله فيها حكم، فالذين يعرفون لحمها وجربوه، يقولون فيه فوائد كثيرة لأمراض كثيرة، والمقصود أنها حِلّ، وإذا ذبحها ونظفها، وألقى ما في بطنها وطبخها، فإنها حل كسائر أنواع الصيد.
[1] من أسئلة حج عام 1407ه۔.
[2] أخرجه الترمذي برقم: 1713 (كتاب الأطعمة)، باب (ما جاء في أكل الضبع)، وأبو داود برقم: 1860 (كتاب المناسك)، باب (ما جاء في جزاء الضبع)، والنسائي برقم: 4249 (كتاب الصيد والذبائح)، باب (الضبع).

[/ARABIC]
الضبع کی مختلف اقسام یہ ہیں۔

66926alsh3er.jpg


الضبع المخطط
66927alsh3er.jpg

الضبع المرقط
66928alsh3er.jpg

الضبع الاسمر
66929alsh3er.jpg
 
ام نور العین بہن،
یقین جانیے میری تجاہل عارفانہ والی کوئی نیت نہیں تھی۔ تجاہل عارفانہ کہتے ہیں کہ جانتے بوجھتے کسی چیز کا انکار کیا جائے۔ مگر یہاں زیادہ سے زیادہ عدم ذکر ہے، انکار نہیں ہے۔
مہ وش يہ قاعدہ درست ہے ليكن يہاں اس كا استعمال غلط ہے :)
آپ سے درخواست ہے کہ اس چیز کو اتنا سیریس نہ لیجئے۔ یہ کوئی تفصیلی تحقیقی مقالہ نہیں تھا بلکہ ہلکی پھلکی پوسٹ تھی جس میں تفصیلات اور جزئیات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ بلکہ نمازِ فجر کے بعد غنودگی کے عالم میں طالوت صاحب کی درخواست پر جلدی جلدی میں لکھی گئی ایک پوسٹ تھی۔
آپ كى غنودگی كافى ہوشمندانہ ہے :) ویسے آپ نے "الضبع "كا ترجمہ "گوہ " کہیں سے ليا تھا يا خود كيا تھا ؟ ميرى درخواست ہے ريفرينس ذكر كر ديا كريں۔
نیز مجھے اس بات میں دلچسپی ہے کہ احناف کے دیگر دلائل کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟ درخواست ہے کہ میری کوتاہیوں اور سستی کاہلی کو نظر انداز فرمائیے اور بنیادی ایشو پر گفتگو کو آگے بڑھائیے۔
ميرى كيا رائے ہے ؟ ميں جمہور ( = مالكيہ + شافعيہ + حنابلہ + محدثين ) كے ساتھ ہوں کہ يہ حرام نہيں ، حلال ہے ۔ عربى ميں بہت كافى مواد موجود ہے اس پر۔ اردو ميں آنکھيں پھوڑنا كافى مشكل كام ہے۔ ان شاء اللہ فرصت ملے تو لكھوں گی۔ آپ جانتى ہيں سال بھر سے موضوع چل رہا ہے۔
ويسے آپ اگر ذکر کر ديں کہ احناف كے دلائل كس مصدر سے نقل كيے ہيں تو اچھا ہے ۔ خود احناف بھی حيران ہوں گے كيونكہ ان كى كلاسيكل بكس بھی يہ سب رويات ذكر كرنے کے بجائے عقلى دلائل ذكر كرتى ہيں ٹیکنيكلى سپیکنگ اہل الرائے نصوص كو اتنى اہميت نہيں ديتے : )
اس سارے معاملے ميں آپ نے اہل تشيع كے دلائل ان كا نام ليے بغير ذكر كيے ہيں ... ضب اپنے بنى جنس كو كھا جاتا ہے يہ انہی كى غير سائنسى دليلوں ميں سے ايك ہے ۔ بے چارى سبزى خور ضب مسلكى چكر ميں آ كر بہت پٹی ۔ كافروں كا وكىپيڈیا نہ ہوتا تو اس كى بريت مشكل تھی۔
 
بہن، آپ کو سند کے حوالے سے کیا اعتراض ہے؟
الضبع کی مختلف اقسام یہ ہیں۔
مہ وش ، اعتراض سند پر نہيں الضبع كے متعلق حديث كا ترجمہ گوہ كر كے اسے ضب كے حكم كے ساتھ ملانے پر ہے !
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: مہوش علی پیغام دیکھیے

ابن ماجہ 240
حدثنا ابو بکر بن ابی شیبہ ثنا یحیی ابن واضح عن ابی اسحق عن عبدالکریم بن ابی المخارق عن حبان بن جز ط عن خزیمہ بن جزء قال قلت یارسول اللہ ما تقول فی الضبع قال ومن یاکل الضت ہ
حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم گوہ کے متعلق جناب کا کیا خیال ہے فرمایا گوہ کو کون کھاتا ہے۔

لا حول ولا قوة الا باللہ ۔ جوش استدلال ميں آپ بھول گئیں کہ بات الضب كى ہو رہی ہے نہ كہ الضبع كى ! :rolleyes:
اس كى سند ملاحظہ فرمائيں
اب ترجمہ كرنے والوں نے جہالت يا تعصب كا ثبوت ديا ہے تو كاپی پيسٹ كرنے والے ہی دیکھ ليا كريں ۔ مہ وش ! الضب اور الضبع ميں زمين آسمان كا فرق ہے۔ الضب سبزى خور ہے اور الضبع درنده ہے يعنى beast!
ذرا الضبع كو ديکھیے http://ar.wikipedia.org/wiki/ضبع
250px-HyenaTanzania.JPG


اور الضب كو ديكھیے :
250px-Dornschwanz1.jpg

http://ar.wikipedia.org/wiki/ضب

ناطقہ سر بگريباں ہے اسے كيا كہیے :confused:
 
میرے خیال میں، آب و ہوا اور دستیاب وسائل کا مختلف قوموں کی کھانے پینے کی عادتوں پر بہت حد تک اثر ہوتا ہے، عرب کے ریگستانوں میں، اب میدانی و پہاڑی علاقوں جیسے بکرے دنبے اور پرندے ہونے سے تو رہے سو وہ اونٹ اور اسی قسم کی چیزیں جو صحرا میں دستیاب ہیں کھائیں گے، اور بنگالی اور دیگر ساحلی آبادیوں کے لوگ مچھلی اور دیگر دستیاب سمندری چیزیں، اسی طرح چین یا دیگر مشرقِ بعید کے ممالک جہاں یا تو آبادی بہت زیادہ ہے یا خوراک پیدا کرنے کے وسائل بہت کم ہیں سو وہ جو چیز ملے کھا جاتے ہیں۔

يہ بات سو فى صد درست ہے۔ ضب كے متعلق كہا جاتا ہے کہ اسے كسان كھاتے ہيں۔جيسے زرعى علاقوں کے لوگ ساگ پات کھانا برا نہيں سمجھتے۔
بھارت كے ايك علاقے كے متعلق پڑھا تھا کہ وہاں غريب لوگ چوہے کھانے پر مجبور ہيں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہ وش يہ قاعدہ درست ہے ليكن يہاں اس كا استعمال غلط ہے :)
آپ كى غنودگی كافى ہوشمندانہ ہے :) ویسے آپ نے "الضبع "كا ترجمہ "گوہ " کہیں سے ليا تھا يا خود كيا تھا ؟ ميرى درخواست ہے ريفرينس ذكر كر ديا كريں۔
ميرى كيا رائے ہے ؟ ميں جمہور ( = مالكيہ + شافعيہ + حنابلہ + محدثين ) كے ساتھ ہوں کہ يہ حرام نہيں ، حلال ہے ۔ عربى ميں بہت كافى مواد موجود ہے اس پر۔ اردو ميں آنکھيں پھوڑنا كافى مشكل كام ہے۔ ان شاء اللہ فرصت ملے تو لكھوں گی۔ آپ جانتى ہيں سال بھر سے موضوع چل رہا ہے۔
ويسے آپ اگر ذکر کر ديں کہ احناف كے دلائل كس مصدر سے نقل كيے ہيں تو اچھا ہے ۔ خود احناف بھی حيران ہوں گے كيونكہ ان كى كلاسيكل بكس بھی يہ سب رويات ذكر كرنے کے بجائے عقلى دلائل ذكر كرتى ہيں ٹیکنيكلى سپیکنگ اہل الرائے نصوص كو اتنى اہميت نہيں ديتے : )
اس سارے معاملے ميں آپ نے اہل تشيع كے دلائل ان كا نام ليے بغير ذكر كيے ہيں ... ضب اپنے بنى جنس كو كھا جاتا ہے يہ انہی كى غير سائنسى دليلوں ميں سے ايك ہے ۔ بے چارى سبزى خور ضب مسلكى چكر ميں آ كر بہت پٹی ۔ كافروں كا وكىپيڈیا نہ ہوتا تو اس كى بريت مشكل تھی۔

بہن، کیا آپ مجھ پر کسی وجہ سے غصہ ہیں؟

میں نے المغنی کے صفحے کا جو لنک پیش کیا تھا، اس میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جنکا آپ ذکر کر رہی ہیں۔ مگر اسکے باوجود آپ مجھ سے بھیڑ کے بچے اور بھیڑیے والی کہانی کا سلوک کر رہی ہیں (کسی نہ کسی بہانے مجھ پر الزام برقرار رکھنا چاہتی ہیں)

اچھا آپ سے سوال ہے کہ تین صفحہ تک ضب کے قصیدے پڑھے جانے کے باوجود آپ نے یہ کیوں نہیں بتلایا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ضب حرام ہے؟ کیا اب اسکو بھی تجاہل عارفانہ کہا جائے؟

نوٹ: میں یہ سوال واپس لے رہی ہوں کیونکہ میرا مقصود اس سوال سے آپ پر اعتراض کرنا نہیں بلکہ صرف آپ کو دکھانا ہے کہ انسان چھوٹی چھوٹی باتوں کو پکڑ کر بات کا بتنگڑ بنا سکتا ہے۔ مگر یہ ہلکی پھلکی گفتگو ہے جسے ہمیں لائٹ انداز میں لینا چاہیے۔

احناف کے دلائل یہاں پر موجود ہیں۔ چونکہ انہوں نے سخت زبان استعمال کی تھی، اس لیے میں نے لنک دینا مناسب نہیں سمجھا تھا اور صرف انکے دلائل نقل کر دیے تھے۔

مجھے اس دعوے سے فی الحال بحث نہیں ہے کہ احناف اہل رائے ہیں اور نصوص کو اہمیت نہیں دیتے (احناف اس معاملے میں آپ سے یقینا متفق نہیں)
اہم بات یہ ہے کہ نصوص موجود ہیں۔ احناف کی بحث شروع کرنے سے یہ نصوص غائب نہیں ہو جائیں گے۔ اس لیے ان نصوص کو بھی سامنے رکھنا اور ان پر غور و فکر کرنا اچھا ہے۔

از ام نور العین:
اس سارے معاملے ميں آپ نے اہل تشيع كے دلائل ان كا نام ليے بغير ذكر كيے ہيں
دلائل کے ضمن میں جو روایات پیش ہوئی ہیں، وہ سب کی سب احناف ویب سائیٹ کی ہیں اور میں نے انہیں جوں کا توں پیسٹ کر دیا ہے۔

مہ وش ، اعتراض سند پر نہيں الضبع كے متعلق حديث كا ترجمہ گوہ كر كے اسے ضب كے حكم كے ساتھ ملانے پر ہے !
احناف ویب سائیٹ پر اسکا غلط ترجمہ موجود تھا جو کہ میں نے بغیر چیک کیے جوں کا توں پیش کر دیا۔
بے شک یہ غلطی ہے اور اسکی تصحیح پر میں آپکا شکریہ ادا کر چکی ہوں۔ مگر یہ بتلائیے کہ کیا آپ عام روز مرہ کی زندگی میں کبھی ایسی چھوٹی موٹی غلطیاں نہیں کرتیں؟

الضبع کے متعلق:
ایک سادہ سوال ہے۔ کیا آپ اس جانور کو کھانا حلال سمجھتی ہیں؟
66926alsh3er.jpg
 

شاکرالقادری

لائبریرین
شکریہ ۔ تو آپ کے خیال میں کیا "گور خور" اس کا درست نام ہے ؟ یا وہ کچھ اور شئے ہے ۔
میرے خیال میں اس کا نام گور خور نہیں ہے بلکہ سوسمار ہے ۔ ۔ ۔ ۔ گورخور سے ملتا جلتا ایک نام ۔ ۔ ۔ گور خر ہے اس جانور کی تصاویر میں نے اوپر کسی مراسلہ میں فراہم کر دی تھیں
حکیم عمر خیام کی ایک رباعی ملاحظہ ہو اس میں اسی گورخر کا ذکر ہے

این قصر کہ بہرام درو جام گرفت
روبہ بچہ کرد و شیر آرام گرفت
بہرام کہ گور می گرفتی دائم
امروز نگر کہ گور بہرام گرفت
ترجمانی:
(اے دیدہ عبرت) ذرا دیکھ یہ وہی قصر ہے جس میں کبھی بہرام داد عیش میں مصروف رہا کرتا تھا اور جام و مینا کا دور چلا کرتا تھا
آج اسی عالیشان محل میں لومڑی نے بچے دیے ہوئے ہیں اور اس کے کسی گوشے میں شیر آرام کر رہا ہے یعنی یہ عظم قصر درندوں کا مسکن بن چکا ہے
اور اے تکبر کرنے والے انسان ذرا غور کر! بہرام جو کہ ہمیشہ "گور" (گور خر) کا شکار کیا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ آج دیکھو! "گور" (قبر) نے بہرام کو کس طرح شکار کر لیا ہے
 
Top