کیا گورخور (ضب) حلال ہے؟


میں نے المغنی کے صفحے کا جو لنک پیش کیا تھا، اس میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جنکا آپ ذکر کر رہی ہیں۔ مگر اسکے باوجود آپ مجھ سے بھیڑ کے بچے اور بھیڑیے والی کہانی کا سلوک کر رہی ہیں (کسی نہ کسی بہانے مجھ پر الزام برقرار رکھنا چاہتی ہیں)
جى بلاشك آپ نے اس كے عربى صفحے كا ربط ديا ليكن ترجمے يا خلاصے يیں تمام ائمہ كرام كى آرا ذكر نہیں كیں ، اس وجہ سے محفل كا صرف اردو سمجھنے والا قارى ان معلومات سے مفيد نہیں ہو سكتا تھا۔میں نے بہر حال حلت و حرمت كے بارے ميں فريقين كى آرا ذكر كر دى ہیں ۔
باقى سب آپ كا تاثر ہے۔ ميں آپ سے ناراض نہيں ہوں۔
اچھا آپ سے سوال ہے کہ تین صفحہ تک ضب کے قصیدے پڑھے جانے کے باوجود آپ نے یہ کیوں نہیں بتلایا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ضب حرام ہے؟ کیا اب اسکو بھی تجاہل عارفانہ کہا جائے؟
ضب كے قصيدے :eek:میں نے اس كو كب بيوٹی كوئن قرار ديا ، كوئى ايك جملہ نقل فرما ديں ميرا ، اب تك اس كے اردو نام اور الضب كے تعين پر بات ہو رہی تھی ، آپ نے حلت و حرمت كا موضوع شروع كيا اس سے پہلے ميرا ايك بھی مراسلہ اس كى حلت يا حرمت کے متعلق نہيں ، اس كے گوشت اور ذائقے پر حضرات خوب تبصرے فرما رہے تھے۔ مجھے وہابى ہونے کے باوجود اب تك اس سے ملاقات كا شرف حاصل نہيں ، البتہ علوم اسلاميہ خاص طور پر علم حديث شريف كى طالبہ ہونے کے ناطے اس كے اردو ترجمے سے دل چسپی ہے ۔ كيا جرم ہے؟ :rolleyes:
احناف کے دلائل یہاں پر موجود ہیں۔ چونکہ انہوں نے سخت زبان استعمال کی تھی، اس لیے میں نے لنک دینا مناسب نہیں سمجھا تھا اور صرف انکے دلائل نقل کر دیے تھے۔
كيا آپ سنجیدہ ہيں؟:eek: فقہ حنفى كا مستند مصدر يہ فورم ہے يا اس كى كتابيں : النكت ، الھداية اور اس كى متعدد شروح ، الاختيار ، الدر المختار اور حاشيہ ابن عابدين ؟ كس دنيا كى بات كر رہی ہيں ؟ اس فورم كے ركن نے تو آبات اور احاديث تك درست نہیں لكھيں ۔ ان كے نزديك غيرمقلدين ضب كو حلال سمجھتے ہيں تو حضرات عمر بن الخطاب ، ابو سعيد الخدرى ، ابن عمر رسول حضرت عبد الله ابن عباس رضي الله عنهم اجمعين اور مالكيه ، شافعيه اور حنابله بھی غير مقلد وہابى ہوئے؟ :
غیر مقلدین وہابیوں کے نزدیک گوہ حلال پاک ہے
وہابی نجاست 8،
غیر مقلدین وہابیوں کے نزدیک گوہ حلال پاک ہے
تفسیر ستاری ضمیمہ (5) 426 ضب یعنی گوہ حلال ہے۔
وہابی گوہ کا فیصلہ حدیث مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے گوہ کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ،
(1) ابو داؤد 2، 176 مشکوٰۃ شریف 361
حدثنا محمد بن عوف الطائی ان الحکم بن نافع حدثھم قال نا ابن عیاش عن ضمضم بن زرعۃ عن شیخ بن عبید بن ابی ارشد الجرانی عن عبدالرحمٰن بن شبد ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نی عن اکد لحم الضت۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے گوہ کھانے سے منع فرمایا۔
(2) ابن عساکر 5، 115
رواہ ابن عدی و اخرج عن عائشۃ انھا قالت نھی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عن اکل الضت۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے گوہ کھانے سے فرمایا۔
بولو وہابیو !! آمنا
کہ یااللہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے گوہ کھانے سے منع فرما دیا ہے اب ہم گوہ نہیں کھائیں گے۔ فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفو۔
(3) مسند الدارمی 257 نسائی شریف 2، 198
اخبرنا سھل بن حماد ثنا شعبۃ ثنا الحکم قال سمعت زید بن وھب یحدث عن البراء بن عازب عن ثابت بن ودیعۃ قال اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بضب فقال امۃ مسخت واللہ اعلم۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے گوہ کھانے کیلئے پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہلی امتوں سے ایک مسخ شدہ امت ہے۔
(4) ابن ماجہ 240
حدثنا ابو بکر بن ابی شیبہ ثنا یحیی ابن واضح عن ابی اسحق عن عبدالکریم بن ابی المخارق عن حبان بن جز ط عن خزیمہ بن جزء قال قلت یارسول اللہ ما تقول فی الضبع قال ومن یاکل الضت ہ
حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم گوہ کے متعلق جناب کا کیا خیال ہے فرمایا گوہ کو کون کھاتا ہے۔
“وہابی“ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے گوہ کو کھایا نہیں اور منع بھی نہیں فرمایا۔
“محمد عمر“ بئی تم پوری حدیث مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کیوں نہیں پڑھتے آئیے فقیر تمہیں پوری حدیث سناتا ہے۔
(5) مسند امام احمد بن حنبل 2، 105
حدثنا عبداللہ حدثنی ابی ثنا ابو سعید قال ثنا حماد بن مسلمۃ عن حماد عن ابراھیم عن الاسود عن عائشۃ قال اتی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بضب فلم یاکلہ ولم ینہ عنہ قلت یارسول اللہ افلا نطعمہ المساکین قال لا تطعموھم مما لا تاکلون ہ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے گوہ پیش کی گئی تو آپ نے اس کو کھایا نہیں اور نہ ہی منع فرمایا میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کیا ہم یہ گوہ مساکین کو نہ کھلا دیں آپ نے فرمایا ان کو بھی نہ کھلاؤ جو تم نہیں کھاتے۔
(6) کنزالعمال 4۔ 21
کان یکدہ ان یاکل الضب (خط عن عائشۃ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم گوہ کے کھانے کو ہمیشہ بُرا سمجھتے رہے۔ فقیر نے یہ چند حدیثیں گوہ کی حرمت کے متعلق پیش کیں اب اگر تمہارا مذہب واقعی اہلحدیث ہے تو حدیث مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر اعتماد کرکے گوہ کھانا حرام سمجھو اور گوہ کھانا ترک کردو اور اگر فرقہ بندی مقصود ہے تو بیشک لاالہ الااللہ مولوی رسول پڑھتے رہو۔ اور گوہ کھالو اور کھاتے رہو۔

اب اس پوسٹ كو آپ فقه حنفى كا مستند مصدر authoritative reference سمجھ كر كوٹ كر رہی ہيں؟ انا للہ وانا اليہ راجعون !
 
دلائل کے ضمن میں جو روایات پیش ہوئی ہیں، وہ سب کی سب احناف ویب سائیٹ کی ہیں اور میں نے انہیں جوں کا توں پیسٹ کر دیا ہے۔
احناف ویب سائیٹ پر اسکا غلط ترجمہ موجود تھا جو کہ میں نے بغیر چیک کیے جوں کا توں پیش کر دیا۔
بے شک یہ غلطی ہے اور اسکی تصحیح پر میں آپکا شکریہ ادا کر چکی ہوں۔ مگر یہ بتلائیے کہ کیا آپ عام روز مرہ کی زندگی میں کبھی ایسی چھوٹی موٹی غلطیاں نہیں کرتیں؟

سسٹر خدا لگتی کہیے كوئى كتے اور خرگوش كے متعلق حكم كا ترجمہ ہرن سے كر دے يہ معمولى غلطى ہے؟ بلا تحقيق بات اور وہ بھی حلال و حرام كے احكامات كے متعلق ؟ بہرحال ميں نے صرف آپ سے درخواست كى تھی کہ ريفرينس فراہم كر ديجیے ۔ وہ آپ نے كر ديا ہے جس كے ليے مشكور ہوں۔
 
الضبع کے متعلق:
ایک سادہ سوال ہے۔ کیا آپ اس جانور کو کھانا حلال سمجھتی ہیں؟
66926alsh3er.jpg

ساده سا جواب يہ ہے کہ يہاں بات الضب كى ہو رہی ہے نہ كہ الضبع كى ، آپ الضبع كے حكم كے متعلق ايك دھاگہ کھول ليجيے تا كہ اس پر بات ہو۔ وہ تو ايك تحريفى ترجمے نے الضبع كو شامل بحث كر ديا ۔
حلال وحرام كا تعلق شريعت سے ہے ، بحيثيت مسلمان ميرے ليے يہ سوال ہی غلط ہے کہ ميرى سمجھ كيا كہتی ہے ۔ درست سوال يہ ہے كہ شريعت میں اس كا كيا حكم ہے؟ اگر حكم اختلافى ہے تو ديكھا جائے کہ كس فريق كے دلائل قوى ہيں۔ والله اعلم ۔
 
کیا گھوڑا حلال ہے؟

ہماری معلومات کی حد تک زندہ اور مردہ گھوڑے حلال نہیں ہیں، ہاں ذبح کیئے ہوئے گھوڑے کی بابت ہم زیادہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ دریائی گھوڑے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ویسے آپ اس موضوع میں غیر متعلقہ پیغامات ارسال کرنے سے پرہیز کریں تو عنایت ہوگی۔ آپ کے لئے نئے دھاگے شروع کرنے کی فی الحال کوئی قید نہیں ہے۔ :)
 
کیا گھوڑا حلال ہے؟

ہماری معلومات کی حد تک زندہ اور مردہ گھوڑے حلال نہیں ہیں، ہاں ذبح کیئے ہوئے گھوڑے کی بابت ہم زیادہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ دریائی گھوڑے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ویسے آپ اس موضوع میں غیر متعلقہ پیغامات ارسال کرنے سے پرہیز کریں تو عنایت ہوگی۔ آپ کے لئے نئے دھاگے شروع کرنے کی فی الحال کوئی قید نہیں ہے۔ :)
 
یہ تصاویر کا زمرہ ہے، جو کہ ایسی بحثوں کا متحمل نہیں ہے۔ شمشاد بھائی سے درخواست ہے کہ تصاویر سے متعلقہ پیغامات کو چھوڑ کر باقی کی گفتگو کسی متعلقہ زمرے میں نیا دھاگہ بنا کر وہاں منتقل کر دیں۔ :)
 
مختلف علاقوں سے ، ليكن مسلمان ۔ چائنا ، انڈو نيشيا ، ملائيشيا ، نائيجيريا ، تيونس ، الجزائر وغيرہ ۔ ميں حلال غذاؤں كو كيڑے مكوڑے نہيں كہہ سكتى ۔ اللہ تعالى نے حلال انہی چيزوں كو كيا ہے جو قرآن مجيد كى زبان ميں طيبات يعنى پاكيزہ ہيں۔
 
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّ‌مُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّ۔هُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿المائدة: ٨٧﴾[/ARABIC]
ے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزه چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بےشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا
[ARABIC]الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّ‌سُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُ‌هُم بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَ‌هُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُ‌وهُ وَنَصَرُ‌وهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ‌ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿الأعراف: ١٥٧﴾[/ARABIC]
جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وه لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وه ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزه چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان ﻻتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
تصاویر والے زمرے میں گورخور کی بریانی کی تصاویر پر بحث خاصی بڑھ گئی تو سعود بھائی کے مشورے کے مطابق یہی مناسب سمجھا گیا کہ یہ بحث اس دھاگے سے الگ کر دی جائے۔
 

پپو

محفلین
حدیث نمبر : 888
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ نے ایک گورخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیتاً دیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا مقام دوران میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا پھر جب ان کے چہرے پر رنج کا اثر دیکھا تو فرمایا: “ ہم نے صرف اسی وجہ سے واپس کیا کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔”
 

پپو

محفلین
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن أبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله عن نافع، مولى أبي قتادة عن أبي قتادة، أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان ببعض طريق مكة تخلف مع أصحاب له محرمين، وهو غير محرم، فرأى حمارا وحشيا، فاستوى على فرسه، ثم سأل أصحابه أن يناولوه سوطا، فأبوا فسألهم رمحه فأبوا فأخذه ثم شد على الحمار، فقتله فأكل منه بعض أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبى بعضهم، فلما أدركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم سألوه عن ذلك فقال ‏"‏ إنما هي طعمة أطعمكموها الله ‏"‏‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابو النضر نے ، ان سے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام نافع نے اور ان سے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ مکہ کے راستہ میں ایک جگہ پر اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے پیچھے رہ گئے خود ابو قتادہ رضی اللہ عنہ احرام سے نہیں تھے اسی عرصہ میں انہوں نے ایک گور خر دیکھا اور ( اسے شکار کرنے کے ارادہ سے ) اپنے گھوڑے پر بیٹھ گئے ۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے ( جو محرم تھے ) کوڑا مانگا لیکن انہوں نے دینے سے انکار کیا پھر اپنا نیزہ مانگا لیکن اسے بھی اٹھانے کے لیے وہ تیار نہیں ہوئے تو انہوں نے وہ خود اٹھایا اور گورخر پر حملہ کیا اور اسے شکار کر لیا پھر بعض نے اس کا گوشت کھایا اور بعض نے کھانے سے انکار کیا ۔ اس کے بعد جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کا حکم پوچھا آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہارے لیے مہیا کیا تھا ۔
 
يہ احاديث حمار وحشى كےبارے ميں ہيں يہاں الضب كى بات ہو رہی ہے !
حدیث نمبر : 888
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ نے ایک گورخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیتاً دیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا مقام دوران میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا پھر جب ان کے چہرے پر رنج کا اثر دیکھا تو فرمایا: “ ہم نے صرف اسی وجہ سے واپس کیا کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔”

حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن أبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله عن نافع، مولى أبي قتادة عن أبي قتادة، أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان ببعض طريق مكة تخلف مع أصحاب له محرمين، وهو غير محرم، فرأى حمارا وحشيا، فاستوى على فرسه، ثم سأل أصحابه أن يناولوه سوطا، فأبوا فسألهم رمحه فأبوا فأخذه ثم شد على الحمار، فقتله فأكل منه بعض أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبى بعضهم، فلما أدركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم سألوه عن ذلك فقال ‏"‏ إنما هي طعمة أطعمكموها الله ‏"‏‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابو النضر نے ، ان سے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام نافع نے اور ان سے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ مکہ کے راستہ میں ایک جگہ پر اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے پیچھے رہ گئے خود ابو قتادہ رضی اللہ عنہ احرام سے نہیں تھے اسی عرصہ میں انہوں نے ایک گور خر دیکھا اور ( اسے شکار کرنے کے ارادہ سے ) اپنے گھوڑے پر بیٹھ گئے ۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے ( جو محرم تھے ) کوڑا مانگا لیکن انہوں نے دینے سے انکار کیا پھر اپنا نیزہ مانگا لیکن اسے بھی اٹھانے کے لیے وہ تیار نہیں ہوئے تو انہوں نے وہ خود اٹھایا اور گورخر پر حملہ کیا اور اسے شکار کر لیا پھر بعض نے اس کا گوشت کھایا اور بعض نے کھانے سے انکار کیا ۔ اس کے بعد جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کا حکم پوچھا آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہارے لیے مہیا کیا تھا ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بعض چیزیں حلال ہو کر بھی ناپسندیدہ قرار پاتی ہیں ضب کے بارے میں واضح طور پر دو طبقات ہیں ایک اسے حلال جانتا ہے اور دوسرا حرام ۔ ۔ ۔ جو اسے حلال جانتے ہیں ہیں وہ بھیاس سے کراہت محسوس کرتے ہیں جیسا کہ بہن ام نورالعین نے کچھ احادیث کو نقل کیا ہے جن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کراہت کا اظہار فرمایا یہ الگ بات کہ کھانے والوں نے نبی کریم کی طبعی کراہت کا احساس تک نہ کیا اور ان کے سامنے ہی اسے اپنی جانب کھینچا اور اس پر ہاتھ صاف کر لیا ۔۔ ۔ ۔ نبی کریم نے منع تو نہ فرمایا کیوں کہ حلت و حرمت کا معاملہ تھا۔ ۔ ۔ لیکن اپنی کراہت کا اظہار تو فرما دیا دیا تھا ۔ ۔ممکن ہے کہ کوئی اور ہوتا تو وہ نبی اکرم کراہت کا احترام کرتا اور کم از کم ان کے سامنے اسے نہ کھاتا کیونکہ فطری سی بات ہے اگر کوئی شخص اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے کسی چیز کو نہ کھاتا ہو تو ۔ ۔ اگر اس کے سامنے بھی ایسی کسی چیز کو کھایا جائے تو اسے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن سبحان اللہ۔۔ ۔ ۔ نبی کائنات کا اسوہ حسنہ کہ آپ نے کھانے والے کی اس حرکت پر خاموشی اختیار کی۔ ۔ ۔ ورنہ آپ کہہ سکتے تھے کہ کہیں اور لے جاکر کھا لو ۔ ۔ کاش ہم بھی اس کراہت کو محسوس کریں لیکن ہم اس وقت تک یہ کراہت طبعی محسوس نہیں کر سکتے جب تک ہمارے اندر جمالیاتی احساسات موجود نہ ہوں
 

شاکرالقادری

لائبریرین
شکر ہے کہ ابھی کھانا نہیں کھایا ہوا تھا ورنہ یہ تصاویر دیکھ کر سب کھانا باہر آ جاتا ۔
سیدہ صاحبہ! آپ سیدہ ہیں ناں۔ ۔ ۔ ۔ یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون کی تاثیر ہے کہ آپ نے اس سے طبعی کراہت محسوس کی
 

شاکرالقادری

لائبریرین
حضرت عبد الله ابن عباس رضى الله كا خون كس سے تھا ؟
زبان و بیان کے اعتبار سے " خون کی تاثیر " یا "فلاں فلاں کا خون ہے" سے ہمیشہ "اولاد ہونا۔ اور اولاد کو کچھ عادات و خصال کا اپنے جد اعلی کی جانب سے ورثہ میں ملنا" ہی سمجھا جاتا ہے۔ ۔ ۔ اور پھر یہ ضروری نہیں کہ ہر اولاد کو اپنے باپ دادا کے تمام خصائل ورثہ میں مل جائیں۔۔ کسی کو کم کسی کو زیادہ ۔ ۔ ۔ ۔بہرحال خون کی تاثیر کسی نہ کسی حد تک ضرور موجود ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ میں نے سیدہ شگفتہ صاحبہ سے جو کچھ کہا ہے میری اس بات کو محض میرے وجدان اور ذوق کی ترجمانی سمجھا جائے ۔۔ ۔ ۔ میں یہاں کسی قسم کی بحث یا مناظرہ کے لیے نہیں آیا کہ ایک نئی بحث میں الجھوں۔ ۔ ۔ میں نے اپنے وجدان اور ذوق کی نمائندگی کی ہے ۔ ۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ خوب جانتی ہیں کہ ان کی رگوں میں رسول خدا کا خون نہیں دوڑ رہا تھا یعنی وہ رسول خدا کی اولاد میں سے نہ تھے ۔ ۔ رہا ضب کا معاملہ تو ہر ایک شخص قبول و اختیار کے لیے آزاد ہے
کوئی چاہے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کراہت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس سے کراہت محسوس کرے
اور کوئی چاہے تو خالد بن ولیدؓ کی طرح اسے کھاتا پھرے۔ ۔ ۔ کون منع کرے گا اسے
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں تو اس کریہہ المنظر جانور کو کھانا پسند نہیں کرونگا
اور کوئی مجھے یہ کھانے پر مجبور نہیں کر سکتا:grin:
 
حلت و حرمت كا معيار جمالياتى احساسات نہيں شرعى نصوص ہوتى ہي ، اللہ اور اس كے رسول صلى الله عليه وسلم كا حكم !
ميرا قرآن كريم پر ايمان كہتا ہے كوئى چيز گندی ہوتى تو ضرور حرام كر دى جاتى ، جو چيز حلال ہے وہ پاكيزہ ہے چاہے ميرى عقل مانے نہ مانے۔ نبي صلى الله عليه وسلم كى طبعى كراہت كى حكمت يہ ہے کہ بحيثيت مسلمان مجھ پر ہر حلال چيز كو كھانا فرض نہيں كيا گيا ليكن اس كو گندا كہنے كا مجھے كوئى حق نہيں۔ ميرے نبي صلى الله عليه وسلم لہسن كو ناپسند كرتے تھے ليكن لہسن حلال ہے ۔ ميں لہسن استعمال كر سكتى ہوں ۔ وہ گندا ہوتا تو حرام ہوتا ۔


[ARABIC]ابن أبي أوفى رضي الله عنهما قال غزونا مع النبي صلى الله عليه وسلم سبع غزوات أو ستا كنا نأكل معه الجراد [/ARABIC]​
( صحيح بخاري) http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=10039&idto=10040&bk_no=52&ID=3079
سيدنا ابن ابى اوفىٰ رضى اللہ كہتے ہيں كہ ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہمراہ سات يا چھ (راوى كا شك) لڑائيوں ميں شريك ہوئے اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ٹڈياں كھاتے تھے۔
[ARABIC]أحلت لنا ميتتان ودمان : السمك والجراد والكبد والطحال ( مسند أحمد ، الدارقطني ، البيهقي ) [/ARABIC]
ہمارے ليے دو مردہ اور دو خون حلال ہين: مچھلى اور ٹڈی اور تلى ۔
الجراد = ٹڈی
images
http://ar.wikipedia.org/wiki/جرادة_(حشرة)

[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّ‌مُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّ۔هُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿المائدة: ٨٧﴾[/ARABIC]
ے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزه چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بےشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا
[ARABIC]الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّ‌سُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُ‌هُم بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَ‌هُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُ‌وهُ وَنَصَرُ‌وهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ‌ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿الأعراف: ١٥٧﴾[/ARABIC]
جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وه لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وه ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزه چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان ﻻتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں


حلت و حرمت كا معيار جمالياتى احساسات نہيں شرعى نصوص ہوتى ہي ، اللہ اور اس كے رسول صلى الله عليه وسلم كا حكم !
كيا كہتى ہے جمالياتى حس ؟؟؟؟

بعض چیزیں حلال ہو کر بھی ناپسندیدہ قرار پاتی ہیں ضب کے بارے میں واضح طور پر دو طبقات ہیں ایک اسے حلال جانتا ہے اور دوسرا حرام ۔ ۔ ۔ جو اسے حلال جانتے ہیں ہیں وہ بھیاس سے کراہت محسوس کرتے ہیں جیسا کہ بہن ام نورالعین نے کچھ احادیث کو نقل کیا ہے جن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کراہت کا اظہار فرمایا یہ الگ بات کہ کھانے والوں نے نبی کریم کی طبعی کراہت کا احساس تک نہ کیا اور ان کے سامنے ہی اسے اپنی جانب کھینچا اور اس پر ہاتھ صاف کر لیا ۔۔ ۔ ۔ نبی کریم نے منع تو نہ فرمایا کیوں کہ حلت و حرمت کا معاملہ تھا۔ ۔ ۔ لیکن اپنی کراہت کا اظہار تو فرما دیا دیا تھا ۔ ۔ممکن ہے کہ کوئی اور ہوتا تو وہ نبی اکرم کراہت کا احترام کرتا اور کم از کم ان کے سامنے اسے نہ کھاتا کیونکہ فطری سی بات ہے اگر کوئی شخص اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے کسی چیز کو نہ کھاتا ہو تو ۔ ۔ اگر اس کے سامنے بھی ایسی کسی چیز کو کھایا جائے تو اسے کراہت محسوس ہوتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن سبحان اللہ۔۔ ۔ ۔ نبی کائنات کا اسوہ حسنہ کہ آپ نے کھانے والے کی اس حرکت پر خاموشی اختیار کی۔ ۔ ۔ ورنہ آپ کہہ سکتے تھے کہ کہیں اور لے جاکر کھا لو ۔ ۔ کاش ہم بھی اس کراہت کو محسوس کریں لیکن ہم اس وقت تک یہ کراہت طبعی محسوس نہیں کر سکتے جب تک ہمارے اندر جمالیاتی احساسات موجود نہ ہوں

يہ آپ حضرت خالد بن وليد رضي اللہ عنہ کے بارے ميں کہہ رہے ہين جو صحابي رسول صلى الله عليه وسلم ہين جنہين زبان اطہر سے " سيف الله المسلول " كا لقب عطا ہوا تھا ؟ ذرا ملاحظہ كيجيے :

یہ صرف ايك حديث شريف 1-صحيح البخاري، 2-صحيح مسلم، 3-سنن ابي داود، 4-سنن النسائي ، 5-موطا مالك اور6- مسند احمد بن حنبل ميں کئی اسانيد سے مذكور ہے ۔اور راوى ہيں حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہ ۔ ترجمہ آپ خود فرما ليجیے ۔
عن عبد الله بن عباس - رضي الله عنهما - «أن خالد بن الوليد -[الذي يقال له] : سَيْفُ الله - أخبره: أنه دخل مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم- على ميمونة - زوج النبي - صلى الله عليه وسلم-، وهي خالتُه وخالةُ ابن عباس - فوجد عندها ضَبَّاً مَحْنُوذاً، قَدِمَتْ به أُخْتُها حُفَيدَةُ بنت الحارث من نَجْد، فقدَّمت الضَّبَّ لرسول الله - صلى الله عليه وسلم- وكان قَلَّما يُقَدَّم بين يديه الطعام حتى يُحدَّث عنه ويُسمَّى له - فأهْوى رسول الله - صلى الله عليه وسلم- بيده إلى الضب، فقالت امرأة من النسوة الحُضُور: أخْبِرْن رسول الله - صلى الله عليه وسلم- بما قَدَّمْتُنَّ له، قُلْنَ: هو الضَّبُّ يا رسول الله، فرفع رسول الله - صلى الله عليه وسلم- يدَه، فقال خالد بن الوليد: أحَرَامٌ الضَّبُّ يا رسول الله؟ قال: لا، ولكنه لم يكن بأرض قومي، فأجدِني أعَافُه، قال خالد: فاجْتَرَرْتُه فأكلته، ورسول الله - صلى الله عليه وسلم- ينظر، فلم يَنْهني» .
خط کشیدہ سطور کا ترجمہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوہ کی طرف سے اپنا ہاتھ کھنچ لیا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ( یہ دیکھا تو ) پوچھا کہ " یا رسول اللہ ! کیا گوہ حرام ہے ؟ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " نہیں ر بلکہ یہ میری قوم کی زمین( یعنی حجاز ) میں نہیں پائی جاتی اس لئے میں اس سے اپنے اندر کراہت ( یعنی طبعی کراہت ) محسوس کرتا ہوں ۔ " حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا با ن ہے کہ (یہ سن کر ) من نے اس گوہ کو اپنی طرف کھنچ) لیا اور کھانے لگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ رہے تھے آپ نے مجھے منع نہیں کیا۔ "

محترم شاكر القادرى ، نبي كريم صلى الله عليه وسلم جس بات سے منع نہ فرمائين وه سنت تقريرى ہوتى ہے ! :) كيا امتى كى جمالياتى حس بڑی دليل ہے يا نبي رحمت صلى الله عليه وسلم كى سنت تقريرى ؟؟؟
ضب كو كھانے والے صحابه كرام حضرات خالد بن وليد ، حضرت عمر ابن الخطاب ، حضرت ابو سعيد ، حضرت عبد الله ابن عباس رضوان الله عليهم سب كى جمالياتى حس كو كيا كہا جائے گا ؟

بعض چیزیں حلال ہو کر بھی ناپسندیدہ قرار پاتی ہیں ضب کے بارے میں واضح طور پر دو طبقات ہیں ایک اسے حلال جانتا ہے اور دوسرا حرام ۔ ۔ ۔ جو اسے حلال جانتے ہیں ہیں وہ بھیاس سے کراہت محسوس کرتے ہیں جیسا کہ بہن ام نورالعین نے کچھ احادیث کو نقل کیا ہے جن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کراہت کا اظہار فرمایا

نبي صلى الله عليه وسلم كى "كراہت " .... كراہت ..... كو "حرمت" بنا دينے والون سے درخواست ہے قرآن مجيد كى پكار سن ليجيے:

[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّ‌مُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّ۔هُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿المائدة: ٨٧﴾[/ARABIC]
ے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزه چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بےشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا !
اب صحيح بخارى و صحيح مسلم كى يہ حديث مبارك ديکھیے:
عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الضب لست آكله ولا أحرمه .
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " گوہ کو نہ میں کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ " (بخاری ومسلم )

جناب حرمت نہين صرف كراہت صرف كراہت ! بالكل ويسى كراہت جيسى لہسن اور پياز سے تھی حرمت نہيں كراہت !

[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّ۔هِ وَرَ‌سُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ ۚ إِنَّ اللَّ۔هَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْ‌فَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُ‌وا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ‌ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُ‌ونَ ﴿٢﴾ الحجرات [/ARABIC]
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے (1) اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو (2)
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّ‌مُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّ۔هُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿المائدة: ٨٧﴾[/ARABIC]
ے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزه چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بےشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بہن! اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ ۔ ۔ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ میں یہاں کوئی بحث کرنے نہیں آیا۔۔۔آپ نے نقل فرمایا ہے:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوہ کی طرف سے اپنا ہاتھ کھنچ لیا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ( یہ دیکھا تو ) پوچھا کہ " یا رسول اللہ ! کیا گوہ حرام ہے ؟ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " نہیں ر بلکہ یہ میری قوم کی زمین( یعنی حجاز ) میں نہیں پائی جاتی اس لئے میں اس سے اپنے اندر کراہت ( یعنی طبعی کراہت ) محسوس کرتا ہوں ۔ " حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا با ن ہے کہ (یہ سن کر ) من نے اس گوہ کو اپنی طرف کھنچ) لیا اور کھانے لگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ رہے تھے آپ نے مجھے منع نہیں کیا۔ "
اس میں دو افعال ہیں:

  1. ضب کا نہ کھانا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فعل رسول اللہ کا ہے
  2. ضب کو اپنی طرف کھنچنا اور کھالینا۔ ۔ ۔ یہ فعل خالد بن ولید کا ہے
اب آپ کی مرضی ۔ ۔ ۔
آپ خالد کے فعل کو رسول اللہ کے فعل پر ترجیح دے کر (انکی آواز کو رسول کی آواز سے اونچا کریں)
یا
رسول اللہ کی کراہت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی سنت فعلی پر عمل کریں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّ۔هِ وَرَ‌سُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ ۚ إِنَّ اللَّ۔هَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْ‌فَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُ‌وا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ‌ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُ‌ونَ ﴿٢﴾ الحجرات
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے (1) اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو (2)
مجھے اور کچھ نہیں کہنا
والسلام
 
Top