محمد سعد
محفلین
بھائی کہاں غائب ہو جاتی ہیں ویڈیوز؟ میں تو جب بھی ہارپ کے متعلق کچھ ڈھونڈتا ہوں تو سنجیدہ سائنس دانوں کے مضامین سے زیادہ یہی سازشی کہانیاں اور سیاسی بیانات ملتے ہیں۔ صحیح سائنسی گفتگو دیکھنے کے لیے گوگل سکالر سرچ پر جانا پڑتا ہے۔ آپ لوگوں کا سب سے زیادہ زور اسی پر ہوتا ہے کہ فلاں ویڈیو کو غائب کر دیا گیا، فلاں شخص کو غائب کر دیا گیا۔ لیکن جب بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرو تو سب جھوٹ نکلتا ہے۔ کسی کا چینل کاپی رائٹ وائلیشن کی وجہ سے بند ہو جائے، وہ بھی یہی کہتا نظر آتا ہے کہ میرے خلاف کارروائی صرف ہارپ کو بچانے کے لیے کی گئی۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ جو گوگل ویب سرچ پر ان سازشی کہانیوں کا راج ہے، اس کی وضاحت کیسے کریں گے آپ؟سعد بھائی،میرا آپ سے مطالبہ کرنے کی ایک وجہ ہے، اگر آپ غور کریں، تو انٹرنٹ پر جتنی بھی ایسی ریسرچ یا ویڈیوز ہیں، جن سے یہ ثابت ہو، کہ ہارپ ایک موسمی ہتھیار ہے، اور امریکہ اسکوفوجی یا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے، تو وہ ویڈیوز اور اسطرح کے تمام مواد کوختم کردیا جاتا ہے، اسکا پتہ بھی نہیں چلتا، کہ وہ کہاں ختم ہو گیا ہے، اور اسکے علاوہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں، اگر آپ پرنٹ میڈیا کی طرف آئیں، تو یہ جتنے بھی اچھے اخبار ہیں، انگلش اور اُردو اُن میں اسطرح کے مواد کے بارے میں جو ریسرچ ہو، اسکو شائع کرنا بھی ایک عذاب سے کم نہیں،
جناب فوج کا اس سے کام کیوں نہیں ہے۔ آپ کسی فوجی سے بات کر کے دیکھیں۔ وہ آپ کو اچھی طرح سمجھا دے گا کہ کسی جنگ کے دوران مواصلات کے ذرائع کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ اپنے مواصلاتی نظام کو بہتر بنانا اور دشمن کے نظام کو توڑنا کس طرح آپ کا پلڑا بھاری کر سکتا ہے۔خاص بات، اس پروجیکٹ پر تمام پیسہ فوج کا خرچ ہوا ہے، اوریہ خالص ایک فوجی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والا پروجیکٹ ہے، تو کیا یہ لوگ پاگل ہیں، جو اس پروجیکٹ کو فوج کے پاس رہنے دیا ہے، میرے خیال سے موسموں کے لئے انکا ایک علیحدہ ادارہ کام کررہا ہے، تو کیوں وہ لوگ اس پروجیکٹ کو موسموں کی جانچ پڑتال والے ادارے کو نہیں سونپ دیتے، جب اسکا مقصد ہی کوئی ایسا کوئی خاص نہیں، جب اس پر ایک تھیوری پیش کی جاتی ہے، کہ موسم میں حسبِ منشاہ تبدیلی ممکن ہے، تو پھر میرے خیال میں یہ بات 1940 میں کی گئی تھی، اور اب 2012 ہے، میرے خیال میں تو یہ لوگ اس تھیوری کو کہیں سے کہیں لے گئے ہونگے،
موسم میں کچھ حد تک تبدیلی بھی ممکن ہے۔ کیوں ممکن نہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں پاکستان میں کہیں مصنوعی بارش کے تجربے کے متعلق پی ٹی وی پر کسی سائنس دان (یا شاید انجنئیر) کو بات کرتے دیکھا تھا۔ لیکن اس کا طریقۂ کار یہ نہیں ہوتا کہ ادھر آپ نے اپنے مقام کے اوپر ساڑھے تین میگاواٹ چھوڑے اور ادھر ہزاروں میل دور سیلاب آ گیا۔ اس کی تفصیل میرے مضمون اور اس دھاگے میں دو چار مزید مقامات پر آ چکی ہے چنانچہ دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
کمال کی بات یہ ہے کہ انہی لوگوں کو، جو ساڑھے تین میگاواٹ سے سیلابوں کی بات کرتے ہیں، اگر میں یہ کہوں کہ انسانوں کی مجموعی سرگرمیوں اور ان سے پھیلنے والی آلودگیوں کی وجہ سے زمین کی آب و ہوا کا توازن بگڑ رہا ہے، تو یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں گے کہ "صرف چھے ارب انسانوں کی سرگرمی سے زمین کی آب و ہوا میں بگاڑ کیسے آ سکتا ہے؟"۔۔۔ ہے نا کمال کی بات؟
جی بالکل۔ حق فرمایا۔ جدید ٹیکنالوجی کے متعلق جاننے کے لیے مجھے واقعی ایسے لوگوں کی کتابیں پڑھنی چاہئیں جنہیں خود جدید ٹیکنالوجی سے اور ان کے پس پشت کارفرما اصولوں سے کوئی خاص واقفیت نہیں ہے۔ایک درخواست، برائے مہربائی اس کتاب کو ٹائم نکال کے پڑھیں، خاص طور پر جہاں پر نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کی گئی ہے،
اب آپ کے چھاپے ہوئے مضامین کو باری باری دیکھیں گے جو دس پندرہ فیصد سچ اور باقی سب جھوٹ پر مشتمل ہیں۔
شروع میں نیکولا ٹیسلا کی کچھ باتوں کا ذکر ہے۔ میں نیکولا ٹیسلا کا بہت بڑا پنکھا ہوں لیکن جب کوئی اس کا نام استعمال کر کے اپنی بونگیاں مارے گا تو اس کو صرف ٹیسلا کے نام کی وجہ سے نہیں بخشوں گا۔ جیسے موسم میں تبدیلی لانے والی بات جو کہ غالباً ان صاحب کی اپنی بونگی ہے۔ کیونکہ کسی معتبر حوالے سے مجھے یہ نہیں ملا کہ ٹیسلا نے موسم میں تبدیلیاں لانے کے کسی پراجیکٹ کی بات کہی ہو۔22 ستمبر 1940ء میں امریکی سائنسدان نیکولاٹیسلا نے نیویارک ٹایمز میں ایک تھیوری پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ موسم میں ایسے تغیرات لا ئے جا سکتے ہیں جو بارش برسا سکتے ہیں اور زلزلہ لاسکتے ہیں یا کسی جہاز کے انجن کو کسی خاص جگہ سے 250 کلومیٹر پہلے ہی ایک چھوٹی سی شعاع سے پگھلا یا جاسکتاہے، کسی خاص ملک خطہ یا علاقے کے گرد شعاعوں کا دیوار چین جیسا حصار قائم کیا جاسکتا ہے مگر معروف امریکی سائنسدانوں نے اس نظریہ کو یہ کہہ کر مشہور نہیں ہونے دیا کہ اُن کے نظریہ کو قبول کرلیا جائے تو کرئہ ارض کو توڑ دے گامگر امریکی حکومت نے اُن کے نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پینٹاگون کو ذمہ داری سونپی۔
پینٹاگون نے HAARP) High Frequency Active Auroral Research Program) پر کام شروع کیا اورا لاسکا سے 200 میل دور ایک انتہائی طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کیا۔ 23 ایکڑ پلاٹ پر 180 ٹاورز پر 72میٹر لمبے انٹینا لگایے کئے جسکے ذریعہ تین بلین واٹ کی طاقت کی Electromagnetic wave) 2.5-10) میگا ہرٹز کی فریکوئنسی سے چھوڑی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکن اسٹار وارز، میزائل ڈیفنس اسکیم اور موسم میں اصلاح اور انسان کے ذہن کو قابو کرنے کے پروگراموں پر عملدرآمد کررہی ہے موسمی تغیرات پیدا کرنے کے لئے ایک کم مگر طے شدہ کرئہ ارض کے فضائی تہوں میں کہیں بھی جہاں موسمی تغیر لانا ہو سے وہ الاسکا کے اس اسٹیشن سے ڈالی جاسکتی ہے جو کئی سو میلوں کی قطر میں موسمی اصلاح کرسکتی ہے۔ HAARP کا Patentیعنی کاپی رایٹ نمبر 4,686,605 ہے، ساینسدان اس کوجلتی ہوئی شعاعی بندوق کہتے ہیں۔
اِس Patent کے مطابق یہ ایسا طریقہ اور Instrument ہے جو کرئہ ارض کے کسی Zone میں Weather Alternation پید اکردے اور ایسے جدید میزائل اور جہازوں کو روک دے یا اُن کا راستہ بدل دے، کسی ملک کے Satellite System میں مداخلت کرے یاریڈار سسٹم کو جام کردے یا اپنا نظام مسلط کردے۔ دوسروں کے انٹیلی جنس سگنل کو قابو میں کرے اور میزائل یا ایئر کرافٹ کو تباہ کردے۔ راستہ موڑ دے یا اس کو غیر موثر کردے یا کسی جہاز کو اونچائی پر لے جائے یا نیچے لے آئے۔ اس کا طریقہ پنٹنٹ(دنیا میں جو ایجادات ہوتی ہیں اس کو اپنے نام رجسٹرڈ کرنا ضروری ہوتا ہے جب یہ رجسٹرڈ ہوجاتا ہے تو پھر اس رجسٹر میں اس کی پوری تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے) میں یہ لکھا ہے کہ ایک یا زیادہ ذرات کا مرغولہ بنا کر بالائی کرہ ارض کے قرینہ یا سانچے (Pattern) میں ڈال دے تو اس میں موسم میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کو موسمی اصلاح کا نام دیا گیا۔ پنٹنٹ کے مطابق موسم میں شدت لانا یا تیزی یا گھٹنا، مصنوعی حدت پیدا کرنا، اس طرح بالائی کرئہ ارض میں تبدیلی لا کر طوفانی سانچہ یا سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ زمین کے کسی خطہ پر سورج کی انتہایی روشنی، حدت کو ڈالا جاسکتا ہے۔ اس نظام پر ایک کتاب Angles Don't play this Haarp" " جو دو سائنسدانوں JEANE MANNING اور Dr. NICK BEGICHنے لکھی ہے ،
اس کے مطابق کرئہ ارض کا اوپری قدرتی نظام جو سورج کی روشنی کی شعاؤں کے ضرر رساں اثرات کو جذب/چھان لیتا ہے ، مگر ہارپ کا مقصد Ionosphere کواپنی مرض کے مطابق چلانا ہے، اس کو Ionospheric Heater کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اسکے ذریعہ مصنوئی حدت یا اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ ہارپ کے بارے میں پہلی اطلاع 1958ء میں وہائٹ ہاؤس کے موسم کی اصلاح کے چیف ایڈوائزر Captain Howard نےیہ کہہ کر دی کہ امریکہ کرئہ ارض کے موسم کو ہیرپھیر کے ذریعہ متاثر کرنے پر تجربات کررہا ہے۔ اسی طرح 1986ء پروفیسر گورڈن جے ایف میکڈونلڈ نے ایک مقالہ لکھا کہ امریکہ ماحولیات کنٹرول ٹیکنالوجی کو ملٹری مقاصد کے حصول کے لئے تجربات کررہا ہے۔ یہ جغرافیائی جنگوں میں کام آئے گی اور قلیل مقدار کی انرجی سے ماحول کو غیر مستحکم کردے گا۔ اسی طرح 1997میں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن نے بھی اس پروگرام کو متنازعہ قرار دیا تھا۔
یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ نیکولا ٹیسلا کو اپنی آخری عمر میں بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جیسا کہ آپ کئی لوگوں کے ساتھ ہوتا دیکھ چکے ہوں گے کہ ان کو آخری عمر میں وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ ایسے میں اس کو اگر کچھ بڑے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اپنی تحقیق میں تعاون کے لیے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے، تو میں اس کی ضرورت سمجھ سکتا ہوں۔ جیسے اس کا یہ کہنا کہ چند دھماکوں کے ذریعے وہ زمین کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔
شعاع کی جو بات ہے تو وہ واقعی ایک سنجیدہ پراجیکٹ تھا اس کا۔ لیکن آج کل میں ذراتی بیم کے بجائے لیزر کو زیادہ ترجیح ملتی دیکھ رہا ہوں، غالباً توانائی کی بچت کی وجہ سے۔ ہاں اس بیم کا اصول آئن پروپلشن میں استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے خلائی جہازوں کو کم ایندھن میں زیادہ دور تک جانے کے قابل بنانے کے لیے۔
ٹیسلا کے "زلزلہ لانے والے آلے" کو متھ بسٹرز (Myth Busters) نے ایک پل پر آزمایا تھا لیکن اس قسم کے کوئی نتائج حاصل نہیں ہوئے جیسا ٹیسلا نے دعویٰ کیا تھا۔
آگے یہ کہا جاتا ہے کہ ہارپ 2.5 سے 10 میگاہرٹز کی فریکوینسی استعمال کرتا ہے۔ ان اعداد پر مجھے اعتراض نہیں۔ توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ انہی فریکوینسیز کو پیچھے یہی "روحانی بابا" صاحب ای ایل ایف یعنی ایکسٹریم لو فریکوینسی کے نام سے پکارتے ہیں۔ (اگر یہ اقتباس ان کی پوسٹ کا نہیں ہے تو معذرت کیونکہ ان دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ایک دوسرے کا چربہ پھر بھی میں نہیں کہوں گا کہ شاید آپ کو برا لگے۔)۔۔ اگر آپ برقی مقناطیسی سپیکٹرم سے کچھ حد تک واقف ہیں تو اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان مضامین میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے متعلق سیکھنے کے کتنے "اعلیٰ" مواقع میسر ہیں۔
آگے فرمایا جاتا ہے کہ "ہارپ کے پیٹنٹ کے مطابق" یہ موسم میں تغیر لا سکتا ہے۔ میرے خیال میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ یہاں کلک کر کے اس پیٹنٹ کو بذات خود دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ۔ ہاں اگر آپ کو اس میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کے معانی ہی نہ آتے ہوں تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی کہ آپ "سائنسی دلائل" کے نام پر ان فراڈیوں کے جھانسے میں آ گئے۔
میزائلوں کو روکنا اور جہازوں کے راستے بدلنا، ان کا تعلق مواصلاتی نظاموں میں گڑبڑ کرنے سے ہے۔ اور شکر ہے کہ کچھ سچ بھی شامل کر دیا ان صاحب نے۔ میرے خیال میں ان مثالوں سے آپ کو سمجھ آ گئی ہوگی کہ مواصلاتی نظاموں کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور آئنوسفئیر پر تحقیق فوج کے لیے کتنی اہم ہے۔ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ یہ جو راستہ موڑنے اور اونچائی بدلنے کی بات کی ہے انہوں نے، یہ براہ راست نہیں ہوگا بلکہ پہلے اس کے پوزیشننگ سسٹم کو کنفیوز کیا جائے گا جس سے وہ خود ہی غلط فیصلے کرنے لگ جائے گا۔
الیکٹران سائیکلوٹران ریزننس (Electron Cyclotron Resonance) کو یہ صاحب "ذرات کا مرغولہ بنا کے بالائی کرۂ ارض کے قرینے یا سانچے میں ڈھالنا" کہہ رہے ہیں۔ اس پر میں کیا تبصرہ کروں۔ آپ خود ہی اس اصطلاح کی تفصیل دیکھ کر فیصلہ کر لیں کہ ان صاحب کو موضوع سے کتنی "علمی" قسم کی واقفیت ہے۔
آخر میں ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آئنوسفئیر میں ہلکی سی ہلچل سے ٹروپوسفئیر کا موسم بدلا جا سکتا ہے۔ اس کا پوسٹ مارٹم قبل از مرگ میرے مضمون میں آ چکا ہے۔
فی الحال میرے خیال میں اتنا بہت ہے۔ پھر ملتے ہیں، بریک کے بعد!