کیا ہارپ (haarp) واقعی موسم کو بدل سکتا ہے؟

محمد سعد

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

کافی عرصے سے کچھ لوگوں کا دعویٰ سنتا آ رہا ہوں کہ High Frequency Active Auroral Research Program، جسے مختصراً ہارپ (HAARP) کہا جاتا ہے، کو موسم میں اپنی مرضی کے تغیرات لانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ "استعمال کیا جا رہا ہے"۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب آنے کے بعد تو کئی اخبارات بھی اس ہجوم میں شامل ہو گئے ہیں اور باقاعدہ "سنسنی خیز رپورٹیں" شائع کر رہے ہیں کہ یہ سیلاب دراصل امریکہ کی کارستانی تھی۔ یہاں پر ہم تفصیل سے جائزہ لیں گے کہ یہ دعویٰ درست ہے یا غلط۔

معاملے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے زمین کے کرہء فضائی کے مطالعے کی ضرورت پڑے گی۔
یہاں پر میں مختصر مختصر بیان کر دیتا ہوں۔ مزید تفصیل جاننے کے لیے یہ مضامین پڑھ لیں:

http://www.srh.noaa.gov/jetstream/atmos/layers.htm

http://csep10.phys.utk.edu/astr161/lect/earth/atmosphere.html

http://www.vtaide.com/png/atmosphere.htm

http://en.wikipedia.org/wiki/Atmosphere_of_Earth

مضامین میں بعض اعداد و شمار میں معمولی سا فرق ہے۔ یہاں میں کوشش کروں گا کہ اوسط کے قریب ترین قدریں استعمال کروں۔

تصویر نمبر 1۔
layersofatmosphere.gif


تصویر نمبر 2۔
atmospherelayers170px.png


زمین کا موسم (بادل، طوفان، بارش وغیرہ) کرہء فضائی کی سب سے نچلی تہہ ٹروپوسفئیر (Troposphere) میں وقوع پذید ہوتا ہے جس کی سطح سمندر سے بلندی قطبین (poles) پر 7 کلومیٹر سے خطِ استوا (equator) پر 17 کلومیٹر تک ہے۔ ٹروپوسفئیر میں بلندی کے ساتھ ساتھ درجہء حرارت کم ہوتا جاتا ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ اوپر کی طرف ہوا کی کثافت کم ہوتی جاتی ہے چنانچہ حرارت بھی کم جذب ہوتی ہے۔
ٹروپوسفئیر کے بالکل اوپری حصے ٹروپوپاز (Tropopause) میں درجہء حرارت ایک کم ترین سطح پر مستحکم رہتا ہے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کچھ سائنس دان ٹروپوپاز کو ایک "سرد شکنجہ" (cold trap) بھی کہتے ہیں جس سے آبی بخارات اوپر نہیں جا سکتے کیونکہ اس کم درجہء حرارت پر پانی برف بن کر رک جاتا ہے (یا بہ الفاظ دیگر "جکڑا" جاتا ہے)۔
ٹروپوسفئیر کا درجہء حرارت یکساں نہ ہونے کی وجہ سے نیچے کی گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور اوپر سے سرد ہوا اس کی جگہ لینے کے لیے نیچے کی طرف جاتی ہے۔ جب یہ گرم ہوا ٹروپوپاز تک پہنچتی ہے تو اس سے اوپر جانا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اس سے اوپر سٹریٹوسفئیر کی ہوا زیادہ گرم اور زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔
ٹروپوپاز سے اوپر سٹریٹوسفئیر (Stratosphere) آتا ہے جو کہ سطح زمین سے 51 کلومیٹر کی بلندی تک پہنچتا ہے۔ اس کی ہوا بلندی کے ساتھ ساتھ زیادہ گرم ہوتی جاتی ہے۔ ایسا اس کے اوپری علاقے میں موجود اوزون میں بالائے بنفشی یا الٹراوائلٹ اشعاع کے انجذاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں کی ہوا میں حمل حرارت (convection) کی بدولت ہونے والی عمودی حرکت نہیں پائی جاتی۔ یہاں ہوا صرف افقی طور پر حرکت کرتی ہے اور بہت قیام پذیر (stable) ہوتی ہے۔
سٹریٹوسفئیر میں نیچے کی ہوا ٹھنڈی اور اوپر کی ہوا گرم ہونے کی وجہ سے ٹروپوسفئیر کی طرز پر ہوا کی عمودی حرکت عمل میں نہیں آتی کیونکہ پہلے سے ہی گرم ہوا اوپر اور ٹھنڈی ہوا نیچے ہے۔ چنانچہ ٹروپوپاز کا علاقہ زمین کے موسم کے لیے ایک سرحد کا کام کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بادلوں کا بننا، بارش، طوفان یا دیگر موسمیاتی تبدیلیاں ٹروپوسفئیر تک ہی محدود رہتی ہیں۔
سٹریٹوسفئیر اور سٹریٹوپاز (Stratopause) سے اوپر، سطح زمین سے 85 کلومیٹر کی بلندی تک میزوسفئیر (Mesosphere) ہے۔ یہاں پر درجہء حرارت بلندی کے ساتھ ساتھ گھٹتا ہے اور ہوا کی کثافت انتہائی کم ہے۔
میزوسفئیر سے اوپر تھرموسفئیر (Thermosphere) ہے جہاں درجہء حرارت بلندی کے ساتھ بڑھتا ہے اور تقریباً 2000 درجے سیلسیس (سینٹی گریڈ) تک پہنچ سکتا ہے۔ البتہ یہاں گیسوں کے سالمات (molecules) ایک دوسرے سے اتنی دور ہوتے ہیں کہ یہاں کی ہوا ہمیں سرد ہی محسوس ہوگی کیونکہ ہماری جلد سے ٹکرا پانے والے تھوڑے سے سالمات کوئی زیادہ توانائی فراہم نہیں کر پائیں گے۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن اسی تہہ میں 320 سے 380 کلومیٹر کی بلندی پر زمین کا چکر لگاتا ہے (جس سے یہاں ہوا کی انتہائی کم کثافت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ لگ بھگ خلا جیسی ہی ہے)۔ تھرموسفئیر کی بلند ترین حد ایگزوبیس (Exobase) کی بلندی شمسی سرگرمی (Solar activity) پر منحصر ہوتی ہے اور 350 اور 800 کلومیٹر کے درمیان بدلتی رہتی ہے۔
ایگزوبیس سے اوپر ایگزوسفئیر (Exosphere) ہے جو کہ زمین کے کرہء فضائی کی سب سے بیرونی تہہ ہے۔ یہاں ہوا کے ذرات اتنے دور دور ہوتے ہیں کہ وہ سینکڑوں کلومیٹر تک ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر دوڑے چلے جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں آئنوسفئیر (Ionosphere) کی طرف جو کہ ہماری آج کی گفتگو میں مرکزی کردار کا حامل ہے۔ یہ تھرموسفئیر کا حصہ ہے جس میں برقی چارج کے حامل ذرات اکثریت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ 85 کلومیٹر کی بلندی سے شروع ہو کر 500 کلومیٹر سے بھی زیادہ بلندی تک جاتا ہے اور یہاں ہوا کی کثافت انتہائی کم (لگ بھگ صفر) ہوتی ہے۔ یہاں پر سورج کی طرف سے آنے والی بلند توانائی والی ایکس ریز اور بالائے بنفشی اشعاع الیکٹرانوں کو ان کے سالمات سے باہر دھکیل دیتی ہیں۔ ہوا کی کثافت انتہائی کم ہونے کی وجہ سے آزاد الیکٹران، مثبت آئن (ion) کے ساتھ واپس جڑنے سے پہلے کافی دیر تک آزاد رہ سکتے ہیں جس کی وجہ سے باردار (چارج شدہ) ذرات اکثریت میں ہوتے ہیں۔ پلازما (مثبت آئنز اور آزاد الیکٹرانوں کا مجموعہ) کی حالت میں پائے جانے والے اس حصے کو آئنوسفئیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ پلازما میں مثبت بار والے آئنوں اور منفی بار والے آزاد الیکٹرانوں کے درمیان کشش کی قوت تو ہوتی ہے لیکن ان کی توانائی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ایک برقی طور پر معتدل سالمے میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
آئنوسفئیر میں پائے جانے والے انہی باردار (برقی چارج کے حامل) ذرات کی وجہ سے وہ ریڈیائی لہریں جو کہ ٹروپوسفئیر اور سٹریٹوسفئیر میں بغیر جذب ہوئے گزر جاتی ہیں، یہاں سے اتنی آسانی کے ساتھ نہیں گزر پاتیں۔ کچھ حصہ گزر کر خلا میں پہنچ پاتا ہے، کچھ جذب ہو جاتا ہے جبکہ کچھ منعکس ہو جاتا ہے۔
ionospherecommunication.jpg

آئنوسفئیر کی ساخت شمسی سرگرمی سے متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا شمسی طوفانوں کے دوران آئنوسفئیر میں بڑے پیمانے پر فرق آنے کے باعث ریڈیائی رابطے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنے (ریڈیائی لہروں پر مبنی) مواصلاتی نظاموں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں آئنوسفئیر کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔ اور ہارپ میں اسی پر تحقیق جاری ہے۔


بلندی میں اضافے کے ساتھ کرہء فضائی کی کثافت میں آنے والی تبدیلیاں:
کرہء فضائی کی کمیت (mass) کا 50 فیصد حصہ 5.6 کلومیٹر کی بلندی سے نیچے ہوتا ہے۔
کرہ فضائی کی کمیت کا 90 فیصد حصہ 16 کلومیٹر سے کم بلندی پر پایا جاتا ہے۔ موازنے کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی 8848 میٹر یا 8.848 کلومیٹر بلند ہے اور تجارتی ائیرلائنز کے طیارے تقریباً دس کلومیٹر کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔
کمیت کے لحاظ سے کرہ فضائی کا 99.99997 فیصد حصہ 100 کلومیٹر سے کم بلندی پر ہوتا ہے۔
ان اعداد و شمار کی مدد سے آپ ٹروپوسفئیر سے اوپر ہوا کی انتہائی کم کثافت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔


اوپر اٹھائے گئے نکات سے ہمیں کچھ اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
1۔ زمین کا موسم (بادل، بارش، طوفان وغیرہ) ٹروپوسفئیر میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس سے اوپر کی ہوا کے ساتھ اس کا کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا کیونکہ ٹروپوسفئیر اور میزوسفئیر کے درمیان حمل حرارت (convection) کے ذریعے ہوا کی عمودی حرکت کا راستہ نہیں ہے۔ سٹریٹوسفئیر، جو کہ اس حد بندی کا سبب بنتا ہے، کی موٹائی 34 کلومیٹر یعنی ٹروپوسفئیر کی موٹائی سے کم از کم دو گنا ہے۔
2۔ ٹروپوسفئیر کی اوپری حد اور آئنوسفئیر کی نچلی حد کے درمیان کم از کم 68 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ جبکہ کرہ ہوائی کی کل کمیت کا 10 فیصد بھی یہاں نہیں پایا جاتا۔ یعنی ہوا کے ذرات ایک دوسرے سے کافی دور دور ہوتے ہیں۔
3۔ جس علاقے میں ہارپ ریڈیائی لہروں کے ذریعے ہلچل پیدا کر سکتا ہے، وہاں ہوا کی کثافت انتہائی کم، لگ بھگ صفر، ہوتی ہے۔ یعنی تقریباً خلا جیسا ماحول ہوتا ہے۔
4۔ آئنوسفئیر کے نیچے موجود ہوا کی کثافت بھی صفر کے کافی قریب ہوتی ہے۔
یعنی آئنوسفئیر میں ہونے والی کسی ہلچل کا کوئی خاطر خواہ اثر ٹروپوسفئیر تک پہنچنے کا امکان صفر رہ جاتا ہے۔

ان تمام نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہارپ کی تھوڑی سی طاقت کے موسم پر خطرناک اثرات پڑنے کا دعویٰ، مجھے تو بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسے کوئی کہے کہ برج خلیفہ (دبئی) کے گراؤنڈ فلور پر ایک عام گھریلو چولہا جلا کر اس کی چھت پر دیگ پکائی جا سکتی ہے۔


سمجھ نہیں آئی؟ آسان طریقے سے سمجھاتا ہوں۔

اگر ہارپ کی تھوڑی سی توانائی آئنوسفئیر میں داخل کرنے سے کسی علاقے کے موسم میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے تو پھر تو ارضی مقناطیسی طوفانوں (Geomagnetic storms) - یا آسان الفاظ میں شمسی طوفانوں - کے دوران ٹروپوسفئیر کے موسم میں بڑی ڈرامائی قسم تبدیلیاں آنی چاہئیں کیونکہ شمسی طوفان آئنوسفئیر میں ہارپ کی مجموعی صلاحیت سے بھی کم از کم ہزاروں گنا بڑی ہلچل پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ شمسی طوفان ٹروپوسفئیر کے موسم پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔
نیچے موجود تصویر سے آپ کو اندازہ لگانے میں مدد ملے گی۔
magnetosphererendition.jpg

اس پیمانے کی تصویر میں ہارپ کا مجموعی حجم ایک پکسل جتنا بھی نہیں ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ شمسی طوفان کی توانائی اور ہارپ کی توانائی میں کتنا زیادہ فرق ہے۔
شمسی طوفان کتنے عام ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ایک دو ماہ spaceweather.com پر نظر رکھنا بھی مفید رہے گا۔
وکیپیڈیا پر شمسی طوفانوں اور ان کے اثرات کا کافی مفصل تعارف مل جائے گا۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Geomagnetic_storm
یہ تحریر بھی کافی عمدہ ہے۔
http://science.nasa.gov/science-news/science-at-nasa/2009/21jan_severespaceweather/
اگر چاہیں تو 1989 اور 1921 کے تاریخی شمسی طوفانوں کے متعلق بھی مطالعہ کر لیجیے گا۔

بہرحال، بات یہ ہو رہی تھی کہ اگر شمسی طوفانوں کے دوران آئنوسفئیر میں پیدا ہونے والی "کنگ سائز" ہلچل کا ٹروپوسفئیر پر کوئی قابلِ مشاہدہ اثر نہیں پڑتا، تو ہارپ کے 3.6 میگاواٹ سے پیدا ہونے والی خفیف سی ہلچل بھی ٹروپوسفئیر کے موسم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔


اچھا جی یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن پھر پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب بھلا کیسے آیا؟
بزرگوں کو تو پاکستانیوں کے کمزور حافظے کی شکایت کرتے سنا تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ دو تین ماہ پہلے کی تاریخی گرمی بھی انہیں اتنی آسانی کے ساتھ بھول جائے گی۔
http://www.guardian.co.uk/world/2010/jun/01/pakistan-record-temperatures-heatwave
بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ جب گرمی بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو طوفان شوفان بھی آتے ہیں۔ پھر جب اس قدر شدید گرمی ہوگی، جس کا اثر ان شدید بارشوں کے بعد بھی ابھی تک نہیں ٹوٹا، تو پھر حد سے زیادہ بارشیں، طوفان اور سیلاب واقع ہونا کون سی ایسی مافوق الفطرت بات ہے؟

لہٰذا براہِ مہربانی ہر چیز کا الزام امریکہ پر تھوپنے کے بجائے اپنی حالت بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ اور تھوڑی تحقیق کی عادت ڈالیں۔ جب کوئی شخص کسی طرح کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر یقین کرنے سے پہلے تصدیق کر لیا کریں۔ اب کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کے سامنے ہارپ کے حوالے سے موسم پر کنٹرول کا یہ دعویٰ کیا گیا ہوگا اور انہوں نے اس سارے نظام کو سمجھنے کی کوشش کی ہوگی؟ یاد رکھیں کہ جھوٹ کو بلا تحقیق آگے بڑھانے والا اس جھوٹ کو پھیلانے کے جرم میں حصہ دار بن جاتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ اس افواہ کو پھیلانے والے اور اس پر یقین کرنے والے بے شمار لوگوں میں سے ایک بھی اس انداز میں سوچنے والا نہ تھا کہ "چلو، امریکہ نے تو ہتھیار بنا لیا۔ اب اس کا طریقہء کار سمجھ کر اس کا توڑ ڈھونڈیں۔"
رہ رہ کر مجھے "جاپانی دجال" کے عنوان کا یہ مضمون یاد آتا ہے۔
http://www.alqalamonline.com/rnold/rnold_249.htm
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی توانائیاں مفید کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور لغویات سے ہم سب کو بچائے۔ آمین۔
 

محمد سعد

محفلین
یہ سب ٹھیک ہے لیکن براہ کرم یہ بتائیے کہ پھر ہارپ پروگرام کا مقصد اور غرض و غایت کیا ہے؟

مختصر ذکر تو مضمون میں ہی آ چکا ہے:
ionosphere.jpg

آئنوسفئیر کی ساخت شمسی سرگرمی سے متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا شمسی طوفانوں کے دوران آئنوسفئیر میں بڑے پیمانے پر فرق آنے کے باعث ریڈیائی رابطے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنے (ریڈیائی لہروں پر مبنی) مواصلاتی نظاموں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں آئنوسفئیر کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔ اور ہارپ میں اسی پر تحقیق جاری ہے۔

آسان الفاظ میں ہارپ کا مقصد آئنوسفئیر کا تفصیلی مطالعہ ہے۔ اس مطالعے سے حاصل ہونے والی معلومات کو پھر ریڈیائی لہروں پر مبنی مواصلاتی نظاموں کی کارکردگی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ اور کیا پتہ اس تحقیق کے نتیجے میں حریف کے مواصلاتی نظام کو ناکام کرنے کی کوئی نئی تکنیکیں بھی دریافت کر لی جائیں۔۔۔ :thinking:
 

عثمان

محفلین
محمد سعد۔۔
سب سے پہلے تو یہ مضمون لکھنے کا بہت شکریہ۔ :)
لیکن جن اذہان کو قائل کرنے کی آپ سعی کررہے ہیں وہ "میں نہ مانوں" اذہان ہیں۔ سائنسی اور عقلی استدلال سے انھیں قائل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ صرف اور صرف کسی ماورائے عقل "الہام" ، "کشف" اور "روحانیت" کے داعی ہیں۔ آپ ایک بات ثابت کرکے فارغ ہوئے ہیں۔ وہ کوئی نیا دھاگہ شروع کرکے اپنی کوئی "روحانی" تھیوری تراش لیں گے۔
اگر آپ انہیں سائنسی تھیوری سمجھائیں گے تو یہ اسے جھٹلاتے ہوئے اپنے خود ساختہ مذہبی و روحانی تصورات بیچ میں لے آئیں گے۔
البتہ اگر پاکستان میں ایک پتہ بھی گرے کا تو وہ اس کا تعلق بھی کفار کی کسی سازش سے جوڑیں گے چاہے انہیں اسی سائنس کی طرف ہی کیوں نہ جانا پڑے جس سے انھیں چڑ ہے۔
اس قسم کے ناپختہ ذہن کو عرف عام کانسپیریسی تھیورسٹ یا سازشی ذہن کہا جاتا ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
بہت شکریہ اتنی تحقیق کا، مگر ہارپ کی پیٹنٹ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں موسم کو کنٹرول کرنا شامل ہے۔ میرے سامنے وہ شیٹ ہے نہیں دوبارہ پڑھتا ہوں
 

محمد سعد

محفلین
بہت شکریہ اتنی تحقیق کا، مگر ہارپ کی پیٹنٹ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں موسم کو کنٹرول کرنا شامل ہے۔ میرے سامنے وہ شیٹ ہے نہیں دوبارہ پڑھتا ہوں
پیٹنٹ میں آئنوسفئیر میں باردار ذرات کی تعداد معمولی سی بڑھا کر محدود پیمانے کی تبدیلی پیدا کرنے کا ہی ذکر ہے۔ جب تک آپ کرہء فضائی کی ترکیب کو نہیں سمجھتے، آپ کے لیے اسے پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں۔ اسی لیے مجھے تین دن لگا کر پورے کرہء فضائی پر تفصیلی مضمون لکھنا پڑا۔
 

محمد سعد

محفلین
محمد سعد۔۔
سب سے پہلے تو یہ مضمون لکھنے کا بہت شکریہ۔ :)
لیکن جن اذہان کو قائل کرنے کی آپ سعی کررہے ہیں وہ "میں نہ مانوں" اذہان ہیں۔ سائنسی اور عقلی استدلال سے انھیں قائل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ صرف اور صرف کسی ماورائے عقل "الہام" ، "کشف" اور "روحانیت" کے داعی ہیں۔ آپ ایک بات ثابت کرکے فارغ ہوئے ہیں۔ وہ کوئی نیا دھاگہ شروع کرکے اپنی کوئی "روحانی" تھیوری تراش لیں گے۔
اگر آپ انہیں سائنسی تھیوری سمجھائیں گے تو یہ اسے جھٹلاتے ہوئے اپنے خود ساختہ مذہبی و روحانی تصورات بیچ میں لے آئیں گے۔
البتہ اگر پاکستان میں ایک پتہ بھی گرے کا تو وہ اس کا تعلق بھی کفار کی کسی سازش سے جوڑیں گے چاہے انہیں اسی سائنس کی طرف ہی کیوں نہ جانا پڑے جس سے انھیں چڑ ہے۔
اس قسم کے ناپختہ ذہن کو عرف عام کانسپیریسی تھیورسٹ یا سازشی ذہن کہا جاتا ہے۔

یہ مضمون ان لوگوں کے لیے لکھا ہی نہیں گیا جو اپنے سازشی مفروضات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں اور اس پر تھوڑی دیر کے لیے بھی نظرِ ثانی کرنے کو تیار نہیں۔ یہ تو ان عام لوگوں کے لیے ہے جن کو ہر طرف یہی شور سننے کو ملتا ہے کہ "امریکہ پاکستان میں سیلاب کا ذمہ دار ہے" یہاں تک کہ وہ اس پر یقین کرنے لگ جاتے ہیں۔
 

mfdarvesh

محفلین
پیٹنٹ میں آئنوسفئیر میں باردار ذرات کی تعداد معمولی سی بڑھا کر محدود پیمانے کی تبدیلی پیدا کرنے کا ہی ذکر ہے۔ جب تک آپ کرہء فضائی کی ترکیب کو نہیں سمجھتے، آپ کے لیے اسے پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں۔ اسی لیے مجھے تین دن لگا کر پورے کرہء فضائی پر تفصیلی مضمون لکھنا پڑا۔

درست ہے۔ اگر معمولی تبدیلی کا بھی ذکر ہے تو یہ یقینا کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی شروع میں سول مقاصد کے لیے ہوتی ہے، فوجی استعمال تو بعد میں ہوتاہے۔ ایٹم کے استعمال میں بھی یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے
 

dxbgraphics

محفلین
محمد سعد۔۔
سب سے پہلے تو یہ مضمون لکھنے کا بہت شکریہ۔ :)
لیکن جن اذہان کو قائل کرنے کی آپ سعی کررہے ہیں وہ "میں نہ مانوں" اذہان ہیں۔ سائنسی اور عقلی استدلال سے انھیں قائل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ صرف اور صرف کسی ماورائے عقل "الہام" ، "کشف" اور "روحانیت" کے داعی ہیں۔ آپ ایک بات ثابت کرکے فارغ ہوئے ہیں۔ وہ کوئی نیا دھاگہ شروع کرکے اپنی کوئی "روحانی" تھیوری تراش لیں گے۔
اگر آپ انہیں سائنسی تھیوری سمجھائیں گے تو یہ اسے جھٹلاتے ہوئے اپنے خود ساختہ مذہبی و روحانی تصورات بیچ میں لے آئیں گے۔
البتہ اگر پاکستان میں ایک پتہ بھی گرے کا تو وہ اس کا تعلق بھی کفار کی کسی سازش سے جوڑیں گے چاہے انہیں اسی سائنس کی طرف ہی کیوں نہ جانا پڑے جس سے انھیں چڑ ہے۔
اس قسم کے ناپختہ ذہن کو عرف عام کانسپیریسی تھیورسٹ یا سازشی ذہن کہا جاتا ہے۔

ابتدا آپ کی جانب سے ہوتی ہے الزام تراشی اور دل کی بھڑاس نکالنے کی اور پیغام جواب دینے والے کے حذف کر دیئے جاتے ہیں ناظمین کی طرف سے ;)
نیز مزید کسی کے کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہی جب قرآن نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ اور دوست تو سازش کر ہی نہیں کر سکتا دشمن ہی کرتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
ابتدا آپ کی جانب سے ہوتی ہے الزام تراشی اور دل کی بھڑاس نکالنے کی اور پیغام جواب دینے والے کے حذف کر دیئے جاتے ہیں ناظمین کی طرف سے ;)
نیز مزید کسی کے کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہی جب قرآن نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ اور دوست تو سازش کر ہی نہیں کر سکتا دشمن ہی کرتا ہے۔

ناظمین بھی شائد میرے ساتھ آپ کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔ ;)
آپ کے فہم پر سوائے مسکرانے کے میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
درست ہے۔ اگر معمولی تبدیلی کا بھی ذکر ہے تو یہ یقینا کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی شروع میں سول مقاصد کے لیے ہوتی ہے، فوجی استعمال تو بعد میں ہوتاہے۔ ایٹم کے استعمال میں بھی یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے

آپ کی بات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو شمسی طوفان والی تصویر نظر نہیں آ رہی۔ ورنہ آپ "قابو سے باہر" ہونے کی بات ہی نہ کرتے۔ اگر تصویر لوڈ ہو رہی ہے تو براہِ مہربانی اسے غور سے دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ صرف ایک شمسی طوفان کے دوران آئنوسفئیر میں کس پیمانے کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ پھر ہارپ کی محض 3.6 میگاواٹ طاقت کا اس کے ساتھ موازنہ کریں (اگر واٹ شاٹ کی سمجھ نہیں آتی تو اس نکتے سے مدد لیں کہ تصویر میں ہارپ کا مجموعی حجم ایک پکسل بھی نہیں ہے جبکہ شمسی طوفان کا اثر تصویر کے ایک بڑے حصے پر پھیلا ہوا نظر آتا ہے)۔ صاف نظر آتا ہے کہ شمسی طوفان کے مقابلے میں ہارپ کی آئنوسفئیر کو متاثر کرنے کی صلاحیت کچھ بھی نہیں۔ اور شمسی سرگرمی کے ساتھ ساتھ زمین کے موسم پر نظر رکھنے والے تمام دوست جانتے ہوں گے کہ شمسی طوفان ٹروپوسفئیر کے موسم پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ تو جب شمسی طوفان کی بے تہاشا توانائی سے موسم کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر ہارپ کس کھیت کی مولی ہے؟

ہارپ میں ہونے والی تحقیق کا فوجی استعمال جس حد تک ممکن ہے، اس کا میں نے پہلے ہی ذکر کر دیا ہے کہ یہ فوج کے مواصلاتی نظام کو بہتر بنانے یا حریف کے مواصلاتی نظام کو ناکام بنانے تک ہی ہوگا۔
 

محمد سعد

محفلین
نیز مزید کسی کے کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہی جب قرآن نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ اور دوست تو سازش کر ہی نہیں کر سکتا دشمن ہی کرتا ہے۔

یہود و نصاریٰ کی مسلمان دشمنی میں واقعی کوئی شک نہیں لیکن ان کی دشمنی اس بات کا ثبوت کیسے بن گئی کہ ہارپ موسم کو قابو کر سکتا ہے؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Does_not_compute
 

عثمان

محفلین

اس طرح کے مختصر فقرے آپ گفتگو میں پھینک کر اپنے آپ کو خوش کرتے ہیں۔ کہ شائد اگلا فرد زچ ہوجائے گا۔ آپ کی غلط فہمی ہے جناب۔ میں بتا چکا ہوں کہ میں غصہ ان کا کرتا ہوں جنہیں میں سنجیدہ لیتا ہوں۔ ;)
ذرا غور کیجئے۔ آپ اور آپ کے ہم خیالیے ہارپ اور دوسری سازشی نظریات کا بڑے شدومد سے پرچار کرتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ اس دھاگے پر اس تفصیلی سائنسی مضمون پڑھنے کے بعد آپ اور دوسروں کے پاس جواب کوئی نہیں۔ :grin:
 

arifkarim

معطل
درست ہے۔ اگر معمولی تبدیلی کا بھی ذکر ہے تو یہ یقینا کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی شروع میں سول مقاصد کے لیے ہوتی ہے، فوجی استعمال تو بعد میں ہوتاہے۔ ایٹم کے استعمال میں بھی یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے
ہیں؟ کیا انٹرنیٹ، کمپیوٹر، جوہری توانائی اور موبائیل کمیونیکیشن “سول“ مقاصد کو دیکھتے ہوئے شروع ہوئے تھے؟
اس طرح کے مختصر فقرے آپ گفتگو میں پھینک کر اپنے آپ کو خوش کرتے ہیں۔ کہ شائد اگلا فرد زچ ہوجائے گا۔ آپ کی غلط فہمی ہے جناب۔ میں بتا چکا ہوں کہ میں غصہ ان کا کرتا ہوں جنہیں میں سنجیدہ لیتا ہوں۔ ;)
ذرا غور کیجئے۔ آپ اور آپ کے ہم خیالیے ہارپ اور دوسری سازشی نظریات کا بڑے شدومد سے پرچار کرتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ اس دھاگے پر اس تفصیلی سائنسی مضمون پڑھنے کے بعد آپ اور دوسروں کے پاس جواب کوئی نہیں۔ :grin:
جواب تو بالکل ہے۔ آپکا کیا خیال ہے کہ سعد بھائی کی “تحقیق“ پتھر کی لکیر ہے؟
اول تو ہارپ 3،6 میگاواٹ سے کہیں زیادہ توانائی خارج کر سکتا ہے۔
دوم اس توانائی کو Ionosphereکے ذریعہ کسی خاص مقام پر مرکوز کیا جا سکتا ہے جو کہ شمسی توانائی کے اخراج کے برعکس ہے۔
ان تمام دلائل کا تفصیلی جواب Dr. Nick Begich نے اپنی کتاب Angels Don't Play HAARPمیں دیا ہے۔ اسکا ایک تذکرہ اس انٹریو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے:
http://video.google.com/videoplay?docid=-8066925138937638623#
سعد بھائی کی ’’تحقیق‘‘ کیساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ محض آفیشل سورسز تک محدود رہتی ہے۔ جبکہ اکا دکا غیر جانبدارانہ تحقیق بیشک کسی ڈاکٹریٹ والے نے ہی کی ہو، اسپر نظر تک نہیں پڑتی۔ باقی جیسا کہ ہر جگہ جمہوریت کا قانون نافذ ہے۔ یوں ’’اکثریت‘‘ والے سائنسدانوں کی رائے ہی کو اعلیٰ رتبہ دیا جاتا ہے۔ بے شک وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔
باقی کیا ہارپ موسم میں تبدیلیوں کا ذمہ دار ہے یا نہیں، اسکی حقیقت کو جان لینے سے ہم عام لوگوں کو کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ جن کا کام ایکشن لینا ہے، وہ تو خود بکے ہوئے ہیں:
Black budget
"The CIA has the unique legal ability among all US government departments and agencies to generate funds through appropriations of other federal government agencies and other sources 'without regard to any provisions of law' and without regard to the intent behind Congressional appropriations. Every year, billions of dollars of Congressional appropriations are diverted from their Congressionally sanctioned purposes to the CIA and DoD based intelligence agencies without knowledge of the public and with the collusion of Congressional leaders. The covert world of ‘black programs’ acts with virtual impunity, overseen and regulated by itself, funding itself through secret slush funds, and is free of the limitations that come from Congressional oversight, proper auditing procedures and public scrutiny." The CIA black budget is annually in the vicinity of 1.1 trillion dollars – a truly staggering figure when one considers that the DoD budget for 2004 will be approximately 380 billion dollars.[12]

http://www.sourcewatch.org/index.php?title=Central_Intelligence_Agency
یوں اگر سائنسی تحقیق کو محض آفیشل آرکاوئیز کی تحقیق کہہ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ سائنس کی دنیا میں ہونے والی تمام تر ریسرچ کبھی بھی منظر عام پر نہیں آتیں۔
 

عثمان

محفلین
:pagal:
یار عارف کریم۔۔۔
آپ کے، ایک حضرت روح کے اور ایک دو اور اصحاب کے تبصروں اور شخصیت کو اب میں نے سنجیدہ لینا چھوڑ دیا ہے۔ :rollingonthefloor:
پوری دنیا کے مستند سائنسدان اور اہل علم کوئی بات ثابت کررہے ہوں گے تو آپ لوگ اس کا انکار کر کے کہو گے کہ نہیں۔۔۔ یہ سب غلط اور ایک سازش ہے۔ حقیقت وہ ہے جو دو غیر معروف سائنسدان کونے میں کھڑے خیال آرائی اور کھسر پھسر کررہے ہیں۔ :boxing:
سائنس اور سائنسی تحقیق کیا ہے یہ شائد ابھی آپ کو چھو کر بھی نہیں گذری۔ کہ اسے سمجھنے کے لئے حقیقت حال میں رہنا لازمی ہے اور آپ ٹھہرے خوابوں کے مسافر۔
اس کانسپیریسی تھیورسٹ ذہن کا علاج دنیا کے بڑے سے بڑے نفسیاتی ہسپتال میں بھی نہیں ہے۔ ان اذہان کی صحت کے لئے خدا کے حضور صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ :praying:
خیر آپ ان باتوں کو چھوڑو!
گوگل پر جاؤ۔۔
اور زمین کے گول نہ ہونے کے لنک تلاش کرو۔ تھوڑی مزید کوشش کرو تو اغوا کار خلائی مخلوق کےمتعلق بھی بہت سی معلومات مل جائیں گی۔
اور پھر اردو محفل میں آؤ۔۔۔اور وہ لنک یہاں پوسٹ کرکے اپنی تھیوری ثابت کرو۔ :chatterbox:
واللہ عید پر آپ مجھے اسے بہتر تحفہ نہیں دے سکتے۔ مایوس نہ کرنا پیارے! :shameonyou:
 

arifkarim

معطل
پوری دنیا کے مستند سائنسدان اور اہل علم کوئی بات ثابت کررہے ہوں گے
یہ چارٹر آف ڈیموکراسی آپ اپنے گردو نواح ہی میں رکھئے۔ 2008 میں آنے والے معاشی بھونچا ل سے قبل دنیا بھر کے معروف و مشہور اکانمسٹ اس بات پر ڈٹے رہے کہ ہماری معیشت کو کوئی لگام نہیں ہے۔ سوائے چند ایک کہ جیسے پیٹر شف اور جیرلڈ سیلنٹے جنہوں نے کئی ہا سال قبل ہی اپنا تمسخر اڑنے کے باوجود آنے والے کرائسز سے متعلق پیشگوئی کر دی تھی۔ اور اس پر ڈٹے رہے یہاں تک کے بھونچال آگیا :)
 

محمد سعد

محفلین
آپکا کیا خیال ہے کہ سعد بھائی کی “تحقیق“ پتھر کی لکیر ہے؟
نہیں یار! میں نے تو اپنا مضمون اچھے بھلے کمپیوٹر پر لکھا تھا۔ میں کوئی پتھروں کے دور میں تھوڑا ہی رہتا ہوں؟

اول تو ہارپ 3،6 میگاواٹ سے کہیں زیادہ توانائی خارج کر سکتا ہے۔

واقعی! ہارپ کی مشینری کو چلانے میں استعمال ہونے والی کل طاقت کوئی 10 میگاواٹ ہوتی ہے جس میں سے کچھ حصہ حرارت وغیرہ کی صورت میں ضائع ہو جاتا ہے، کچھ انٹینا ایرے کو چھوڑ کر دیگر مشینوں کو چلانے میں اور یوں ریڈیائی لہروں کے لیے 3.6 میگاواٹ ہی بچتے ہیں۔
کیا بات ہے! آپ بھی سرکاری اعداد و شمار پر یقین کرتے ہیں۔ :-P

دوم اس توانائی کو Ionosphereکے ذریعہ کسی خاص مقام پر مرکوز کیا جا سکتا ہے جو کہ شمسی توانائی کے اخراج کے برعکس ہے۔

لگتا ہے آپ نے کرہء فضائی کی ترکیب والا حصہ سرے سے پڑھا ہی نہیں ہے۔ بھئی آخر کیسے پڑھتے؟ اتنا بور مواد بھی کوئی پڑھتا ہے بھلا؟ نہ کسی سازش کا ذکر، نہ کوئی کانا دجال۔۔۔
چلیں آپ کی سہولت کے لیے مزید آسان طریقے سے سمجھاتا ہوں۔

پہلے تو موازنے کے لیے بتاتا چلوں کہ صرف ایک عام پر سکون دن میں کرہء فضائی کی بالائی سطح پر سورج 1366 واٹ فی مربع میٹر کے حساب سے، صرف اشعاع کی صورت میں طاقت پھینکتا ہے۔ اس میں شمسی طوفانوں والی بے پناہ توانائی شامل نہیں ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ایسے میں دس میگاواٹ کتنی رقبے پر پڑتے ہوں گے۔
10000000/1366
=7320.644216691 مربع میٹر
=0.007320644 مربع کلومیٹر
تو جناب، ایک "خاموش اور پرسکون" دن کے دوران سورج کی طرف سے کرہء فضائی کی بالائی سطح کے صرف 0.007320644 مربع کلومیٹر پر ہی 10 میگاواٹ پڑ جاتے ہیں۔

اب 3.6 میگاواٹ کے لیے اندازہ لگاتے ہیں۔
3600000/1366
=2635.431918009 مربع میٹر
=0.00263543192 مربع کلومیٹر
یعنی ایک خاموش اور پرسکون دن کے دوران کرہء فضائی کے بالائی علاقے میں 3.6 میگاواٹ تو صرف 0.00263543192 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پڑتے ہیں۔

اب خود اندازہ لگائیے گا کہ جب "خاموش اور پرسکون" دن کا یہ عالم ہے تو شمسی طوفان کی طاقت کتنی ہوتی ہوگی۔۔۔
اگر ہارپ کی (عام انسان کے لیے بہت زیادہ لیکن شمسی طوفان کے مقابلے میں) تھوڑی سی طاقت سے موسم میں تغیرات آ سکتے ہیں تو پھر اس سے لاکھوں گنا بڑے شمسی طوفانوں کا کوئی اثر و رسوخ کیوں نہیں چلتا؟ شمسی طوفان ہے کوئی اختر طوفان تو نہیں۔ شمسی طوفان کے دوران تو بڑے بڑے ٹرانسفارمر جل جاتے ہیں۔ ہارپ تو اس کے اثر کا ایک فیصد بھی نہیں پیدا کر سکتا۔
اگر آپ کے خیال میں یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جس جگہ توانائی مرکوز ہوتی ہے، وہ آس پاس کے علاقے سے زیادہ گرم/متحرک/سرگرم ہو جاتا ہے وغیرہ، تو پھر سورج کے بالکل سامنے بھی تو زمین کا ایک ہی رخ ہوتا ہے۔ شمسی طوفان کے دوران سورج سے جو باردار ذرات پر مشتمل "آندھیاں" آتی ہیں (Coronal Mass Ejection)، جو آئنوسفئیر کی ساخت کو بڑی شدت کے ساتھ متاثر کرتی ہیں، وہ بھی ایک محدود علاقے پر ہی ٹکراتی ہیں۔
ایسے میں تو اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر شمسی طوفانوں کے دوران ہارپ سے ہزاروں گنا بڑے سیلاب طوفان وغیرہ آنے چاہئیں۔
 

محمد سعد

محفلین
مجھے اس بات سے سخت چڑ ہے کہ اچھی بھلی کسی سائنسی موضوع پر گفتگو ہو رہی ہو اور لوگ سیاہ ست دانوں کے بیانات اور معاشیات دانوں کے قصے چھاپنا شروع کر دیں۔ سورج اور زمین کا نظام کیسے کام کرتا ہے، اس کو کسی سیاست دان کے بیان یا کسی معاشیات دان کے قصے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اور جناب عارف کریم صاحب، سائنس میں اکثریت یا اقلیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا نہ ہی یہاں شخصیت پرستی چلتی ہے کہ "فلاں سائنس دان نے جو بھی کہہ دیا وہ درست ہوگا"۔ یہاں پر فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ آپ اپنی بات کو تجربے سے، یا کم از کم صدیوں سے آزمودہ اصولوں کی روشنی میں، ثابت کر سکتے ہیں یا نہیں۔ جس دن آپ نے اپنی بات بھرپور طریقے سے ثابت کر دی، وہ سب کو ماننی پڑے گی۔
اور سب سے آخر میں ایک بار پھر کہوں گا کہ اگر ہارپ کی غیر معمولی طاقتوں پر اتنا ہی یقین ہے تو براہِ مہربانی اس کے نظام، اور اس سے متعلق ہر چیز، کا مطالعہ کر کے اس کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کی صلاحیتیں کسی مثبت سرگرمی میں خرچ ہوں۔ جیسا کہ مضمون "جاپانی دجال" کے مصنف نے کہا کہ دجال کا مقابلہ جہاد سے ہوگا نہ کہ محض اس کا تعارف پیش کرنے سے۔ تو تعارف پیش کرنے کے بجائے جہاد کا نظام تیار کریں۔ ورنہ آپ کی چھترول کرنے کے لیے کسی کو مافوق الفطرت "ہارپیانہ" طاقتوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
 
Top