محمد سعد
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
کافی عرصے سے کچھ لوگوں کا دعویٰ سنتا آ رہا ہوں کہ High Frequency Active Auroral Research Program، جسے مختصراً ہارپ (HAARP) کہا جاتا ہے، کو موسم میں اپنی مرضی کے تغیرات لانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ "استعمال کیا جا رہا ہے"۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب آنے کے بعد تو کئی اخبارات بھی اس ہجوم میں شامل ہو گئے ہیں اور باقاعدہ "سنسنی خیز رپورٹیں" شائع کر رہے ہیں کہ یہ سیلاب دراصل امریکہ کی کارستانی تھی۔ یہاں پر ہم تفصیل سے جائزہ لیں گے کہ یہ دعویٰ درست ہے یا غلط۔
معاملے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے زمین کے کرہء فضائی کے مطالعے کی ضرورت پڑے گی۔
یہاں پر میں مختصر مختصر بیان کر دیتا ہوں۔ مزید تفصیل جاننے کے لیے یہ مضامین پڑھ لیں:
http://www.srh.noaa.gov/jetstream/atmos/layers.htm
http://csep10.phys.utk.edu/astr161/lect/earth/atmosphere.html
http://www.vtaide.com/png/atmosphere.htm
http://en.wikipedia.org/wiki/Atmosphere_of_Earth
مضامین میں بعض اعداد و شمار میں معمولی سا فرق ہے۔ یہاں میں کوشش کروں گا کہ اوسط کے قریب ترین قدریں استعمال کروں۔
تصویر نمبر 1۔
تصویر نمبر 2۔
زمین کا موسم (بادل، طوفان، بارش وغیرہ) کرہء فضائی کی سب سے نچلی تہہ ٹروپوسفئیر (Troposphere) میں وقوع پذید ہوتا ہے جس کی سطح سمندر سے بلندی قطبین (poles) پر 7 کلومیٹر سے خطِ استوا (equator) پر 17 کلومیٹر تک ہے۔ ٹروپوسفئیر میں بلندی کے ساتھ ساتھ درجہء حرارت کم ہوتا جاتا ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ اوپر کی طرف ہوا کی کثافت کم ہوتی جاتی ہے چنانچہ حرارت بھی کم جذب ہوتی ہے۔
ٹروپوسفئیر کے بالکل اوپری حصے ٹروپوپاز (Tropopause) میں درجہء حرارت ایک کم ترین سطح پر مستحکم رہتا ہے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کچھ سائنس دان ٹروپوپاز کو ایک "سرد شکنجہ" (cold trap) بھی کہتے ہیں جس سے آبی بخارات اوپر نہیں جا سکتے کیونکہ اس کم درجہء حرارت پر پانی برف بن کر رک جاتا ہے (یا بہ الفاظ دیگر "جکڑا" جاتا ہے)۔
ٹروپوسفئیر کا درجہء حرارت یکساں نہ ہونے کی وجہ سے نیچے کی گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور اوپر سے سرد ہوا اس کی جگہ لینے کے لیے نیچے کی طرف جاتی ہے۔ جب یہ گرم ہوا ٹروپوپاز تک پہنچتی ہے تو اس سے اوپر جانا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اس سے اوپر سٹریٹوسفئیر کی ہوا زیادہ گرم اور زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔
ٹروپوپاز سے اوپر سٹریٹوسفئیر (Stratosphere) آتا ہے جو کہ سطح زمین سے 51 کلومیٹر کی بلندی تک پہنچتا ہے۔ اس کی ہوا بلندی کے ساتھ ساتھ زیادہ گرم ہوتی جاتی ہے۔ ایسا اس کے اوپری علاقے میں موجود اوزون میں بالائے بنفشی یا الٹراوائلٹ اشعاع کے انجذاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں کی ہوا میں حمل حرارت (convection) کی بدولت ہونے والی عمودی حرکت نہیں پائی جاتی۔ یہاں ہوا صرف افقی طور پر حرکت کرتی ہے اور بہت قیام پذیر (stable) ہوتی ہے۔
سٹریٹوسفئیر میں نیچے کی ہوا ٹھنڈی اور اوپر کی ہوا گرم ہونے کی وجہ سے ٹروپوسفئیر کی طرز پر ہوا کی عمودی حرکت عمل میں نہیں آتی کیونکہ پہلے سے ہی گرم ہوا اوپر اور ٹھنڈی ہوا نیچے ہے۔ چنانچہ ٹروپوپاز کا علاقہ زمین کے موسم کے لیے ایک سرحد کا کام کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بادلوں کا بننا، بارش، طوفان یا دیگر موسمیاتی تبدیلیاں ٹروپوسفئیر تک ہی محدود رہتی ہیں۔
سٹریٹوسفئیر اور سٹریٹوپاز (Stratopause) سے اوپر، سطح زمین سے 85 کلومیٹر کی بلندی تک میزوسفئیر (Mesosphere) ہے۔ یہاں پر درجہء حرارت بلندی کے ساتھ ساتھ گھٹتا ہے اور ہوا کی کثافت انتہائی کم ہے۔
میزوسفئیر سے اوپر تھرموسفئیر (Thermosphere) ہے جہاں درجہء حرارت بلندی کے ساتھ بڑھتا ہے اور تقریباً 2000 درجے سیلسیس (سینٹی گریڈ) تک پہنچ سکتا ہے۔ البتہ یہاں گیسوں کے سالمات (molecules) ایک دوسرے سے اتنی دور ہوتے ہیں کہ یہاں کی ہوا ہمیں سرد ہی محسوس ہوگی کیونکہ ہماری جلد سے ٹکرا پانے والے تھوڑے سے سالمات کوئی زیادہ توانائی فراہم نہیں کر پائیں گے۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن اسی تہہ میں 320 سے 380 کلومیٹر کی بلندی پر زمین کا چکر لگاتا ہے (جس سے یہاں ہوا کی انتہائی کم کثافت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ لگ بھگ خلا جیسی ہی ہے)۔ تھرموسفئیر کی بلند ترین حد ایگزوبیس (Exobase) کی بلندی شمسی سرگرمی (Solar activity) پر منحصر ہوتی ہے اور 350 اور 800 کلومیٹر کے درمیان بدلتی رہتی ہے۔
ایگزوبیس سے اوپر ایگزوسفئیر (Exosphere) ہے جو کہ زمین کے کرہء فضائی کی سب سے بیرونی تہہ ہے۔ یہاں ہوا کے ذرات اتنے دور دور ہوتے ہیں کہ وہ سینکڑوں کلومیٹر تک ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر دوڑے چلے جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں آئنوسفئیر (Ionosphere) کی طرف جو کہ ہماری آج کی گفتگو میں مرکزی کردار کا حامل ہے۔ یہ تھرموسفئیر کا حصہ ہے جس میں برقی چارج کے حامل ذرات اکثریت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ 85 کلومیٹر کی بلندی سے شروع ہو کر 500 کلومیٹر سے بھی زیادہ بلندی تک جاتا ہے اور یہاں ہوا کی کثافت انتہائی کم (لگ بھگ صفر) ہوتی ہے۔ یہاں پر سورج کی طرف سے آنے والی بلند توانائی والی ایکس ریز اور بالائے بنفشی اشعاع الیکٹرانوں کو ان کے سالمات سے باہر دھکیل دیتی ہیں۔ ہوا کی کثافت انتہائی کم ہونے کی وجہ سے آزاد الیکٹران، مثبت آئن (ion) کے ساتھ واپس جڑنے سے پہلے کافی دیر تک آزاد رہ سکتے ہیں جس کی وجہ سے باردار (چارج شدہ) ذرات اکثریت میں ہوتے ہیں۔ پلازما (مثبت آئنز اور آزاد الیکٹرانوں کا مجموعہ) کی حالت میں پائے جانے والے اس حصے کو آئنوسفئیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ پلازما میں مثبت بار والے آئنوں اور منفی بار والے آزاد الیکٹرانوں کے درمیان کشش کی قوت تو ہوتی ہے لیکن ان کی توانائی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ایک برقی طور پر معتدل سالمے میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
آئنوسفئیر میں پائے جانے والے انہی باردار (برقی چارج کے حامل) ذرات کی وجہ سے وہ ریڈیائی لہریں جو کہ ٹروپوسفئیر اور سٹریٹوسفئیر میں بغیر جذب ہوئے گزر جاتی ہیں، یہاں سے اتنی آسانی کے ساتھ نہیں گزر پاتیں۔ کچھ حصہ گزر کر خلا میں پہنچ پاتا ہے، کچھ جذب ہو جاتا ہے جبکہ کچھ منعکس ہو جاتا ہے۔
آئنوسفئیر کی ساخت شمسی سرگرمی سے متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا شمسی طوفانوں کے دوران آئنوسفئیر میں بڑے پیمانے پر فرق آنے کے باعث ریڈیائی رابطے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنے (ریڈیائی لہروں پر مبنی) مواصلاتی نظاموں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں آئنوسفئیر کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔ اور ہارپ میں اسی پر تحقیق جاری ہے۔
بلندی میں اضافے کے ساتھ کرہء فضائی کی کثافت میں آنے والی تبدیلیاں:
کرہء فضائی کی کمیت (mass) کا 50 فیصد حصہ 5.6 کلومیٹر کی بلندی سے نیچے ہوتا ہے۔
کرہ فضائی کی کمیت کا 90 فیصد حصہ 16 کلومیٹر سے کم بلندی پر پایا جاتا ہے۔ موازنے کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی 8848 میٹر یا 8.848 کلومیٹر بلند ہے اور تجارتی ائیرلائنز کے طیارے تقریباً دس کلومیٹر کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔
کمیت کے لحاظ سے کرہ فضائی کا 99.99997 فیصد حصہ 100 کلومیٹر سے کم بلندی پر ہوتا ہے۔
ان اعداد و شمار کی مدد سے آپ ٹروپوسفئیر سے اوپر ہوا کی انتہائی کم کثافت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اوپر اٹھائے گئے نکات سے ہمیں کچھ اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
1۔ زمین کا موسم (بادل، بارش، طوفان وغیرہ) ٹروپوسفئیر میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس سے اوپر کی ہوا کے ساتھ اس کا کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا کیونکہ ٹروپوسفئیر اور میزوسفئیر کے درمیان حمل حرارت (convection) کے ذریعے ہوا کی عمودی حرکت کا راستہ نہیں ہے۔ سٹریٹوسفئیر، جو کہ اس حد بندی کا سبب بنتا ہے، کی موٹائی 34 کلومیٹر یعنی ٹروپوسفئیر کی موٹائی سے کم از کم دو گنا ہے۔
2۔ ٹروپوسفئیر کی اوپری حد اور آئنوسفئیر کی نچلی حد کے درمیان کم از کم 68 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ جبکہ کرہ ہوائی کی کل کمیت کا 10 فیصد بھی یہاں نہیں پایا جاتا۔ یعنی ہوا کے ذرات ایک دوسرے سے کافی دور دور ہوتے ہیں۔
3۔ جس علاقے میں ہارپ ریڈیائی لہروں کے ذریعے ہلچل پیدا کر سکتا ہے، وہاں ہوا کی کثافت انتہائی کم، لگ بھگ صفر، ہوتی ہے۔ یعنی تقریباً خلا جیسا ماحول ہوتا ہے۔
4۔ آئنوسفئیر کے نیچے موجود ہوا کی کثافت بھی صفر کے کافی قریب ہوتی ہے۔
یعنی آئنوسفئیر میں ہونے والی کسی ہلچل کا کوئی خاطر خواہ اثر ٹروپوسفئیر تک پہنچنے کا امکان صفر رہ جاتا ہے۔
ان تمام نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہارپ کی تھوڑی سی طاقت کے موسم پر خطرناک اثرات پڑنے کا دعویٰ، مجھے تو بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسے کوئی کہے کہ برج خلیفہ (دبئی) کے گراؤنڈ فلور پر ایک عام گھریلو چولہا جلا کر اس کی چھت پر دیگ پکائی جا سکتی ہے۔
سمجھ نہیں آئی؟ آسان طریقے سے سمجھاتا ہوں۔
اگر ہارپ کی تھوڑی سی توانائی آئنوسفئیر میں داخل کرنے سے کسی علاقے کے موسم میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے تو پھر تو ارضی مقناطیسی طوفانوں (Geomagnetic storms) - یا آسان الفاظ میں شمسی طوفانوں - کے دوران ٹروپوسفئیر کے موسم میں بڑی ڈرامائی قسم تبدیلیاں آنی چاہئیں کیونکہ شمسی طوفان آئنوسفئیر میں ہارپ کی مجموعی صلاحیت سے بھی کم از کم ہزاروں گنا بڑی ہلچل پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ شمسی طوفان ٹروپوسفئیر کے موسم پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔
نیچے موجود تصویر سے آپ کو اندازہ لگانے میں مدد ملے گی۔
اس پیمانے کی تصویر میں ہارپ کا مجموعی حجم ایک پکسل جتنا بھی نہیں ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ شمسی طوفان کی توانائی اور ہارپ کی توانائی میں کتنا زیادہ فرق ہے۔
شمسی طوفان کتنے عام ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ایک دو ماہ spaceweather.com پر نظر رکھنا بھی مفید رہے گا۔
وکیپیڈیا پر شمسی طوفانوں اور ان کے اثرات کا کافی مفصل تعارف مل جائے گا۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Geomagnetic_storm
یہ تحریر بھی کافی عمدہ ہے۔
http://science.nasa.gov/science-news/science-at-nasa/2009/21jan_severespaceweather/
اگر چاہیں تو 1989 اور 1921 کے تاریخی شمسی طوفانوں کے متعلق بھی مطالعہ کر لیجیے گا۔
بہرحال، بات یہ ہو رہی تھی کہ اگر شمسی طوفانوں کے دوران آئنوسفئیر میں پیدا ہونے والی "کنگ سائز" ہلچل کا ٹروپوسفئیر پر کوئی قابلِ مشاہدہ اثر نہیں پڑتا، تو ہارپ کے 3.6 میگاواٹ سے پیدا ہونے والی خفیف سی ہلچل بھی ٹروپوسفئیر کے موسم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
اچھا جی یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن پھر پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب بھلا کیسے آیا؟
بزرگوں کو تو پاکستانیوں کے کمزور حافظے کی شکایت کرتے سنا تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ دو تین ماہ پہلے کی تاریخی گرمی بھی انہیں اتنی آسانی کے ساتھ بھول جائے گی۔
http://www.guardian.co.uk/world/2010/jun/01/pakistan-record-temperatures-heatwave
بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ جب گرمی بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو طوفان شوفان بھی آتے ہیں۔ پھر جب اس قدر شدید گرمی ہوگی، جس کا اثر ان شدید بارشوں کے بعد بھی ابھی تک نہیں ٹوٹا، تو پھر حد سے زیادہ بارشیں، طوفان اور سیلاب واقع ہونا کون سی ایسی مافوق الفطرت بات ہے؟
لہٰذا براہِ مہربانی ہر چیز کا الزام امریکہ پر تھوپنے کے بجائے اپنی حالت بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ اور تھوڑی تحقیق کی عادت ڈالیں۔ جب کوئی شخص کسی طرح کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر یقین کرنے سے پہلے تصدیق کر لیا کریں۔ اب کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کے سامنے ہارپ کے حوالے سے موسم پر کنٹرول کا یہ دعویٰ کیا گیا ہوگا اور انہوں نے اس سارے نظام کو سمجھنے کی کوشش کی ہوگی؟ یاد رکھیں کہ جھوٹ کو بلا تحقیق آگے بڑھانے والا اس جھوٹ کو پھیلانے کے جرم میں حصہ دار بن جاتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ اس افواہ کو پھیلانے والے اور اس پر یقین کرنے والے بے شمار لوگوں میں سے ایک بھی اس انداز میں سوچنے والا نہ تھا کہ "چلو، امریکہ نے تو ہتھیار بنا لیا۔ اب اس کا طریقہء کار سمجھ کر اس کا توڑ ڈھونڈیں۔"
رہ رہ کر مجھے "جاپانی دجال" کے عنوان کا یہ مضمون یاد آتا ہے۔
http://www.alqalamonline.com/rnold/rnold_249.htm
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی توانائیاں مفید کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور لغویات سے ہم سب کو بچائے۔ آمین۔
کافی عرصے سے کچھ لوگوں کا دعویٰ سنتا آ رہا ہوں کہ High Frequency Active Auroral Research Program، جسے مختصراً ہارپ (HAARP) کہا جاتا ہے، کو موسم میں اپنی مرضی کے تغیرات لانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ "استعمال کیا جا رہا ہے"۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب آنے کے بعد تو کئی اخبارات بھی اس ہجوم میں شامل ہو گئے ہیں اور باقاعدہ "سنسنی خیز رپورٹیں" شائع کر رہے ہیں کہ یہ سیلاب دراصل امریکہ کی کارستانی تھی۔ یہاں پر ہم تفصیل سے جائزہ لیں گے کہ یہ دعویٰ درست ہے یا غلط۔
معاملے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے زمین کے کرہء فضائی کے مطالعے کی ضرورت پڑے گی۔
یہاں پر میں مختصر مختصر بیان کر دیتا ہوں۔ مزید تفصیل جاننے کے لیے یہ مضامین پڑھ لیں:
http://www.srh.noaa.gov/jetstream/atmos/layers.htm
http://csep10.phys.utk.edu/astr161/lect/earth/atmosphere.html
http://www.vtaide.com/png/atmosphere.htm
http://en.wikipedia.org/wiki/Atmosphere_of_Earth
مضامین میں بعض اعداد و شمار میں معمولی سا فرق ہے۔ یہاں میں کوشش کروں گا کہ اوسط کے قریب ترین قدریں استعمال کروں۔
تصویر نمبر 1۔
تصویر نمبر 2۔
زمین کا موسم (بادل، طوفان، بارش وغیرہ) کرہء فضائی کی سب سے نچلی تہہ ٹروپوسفئیر (Troposphere) میں وقوع پذید ہوتا ہے جس کی سطح سمندر سے بلندی قطبین (poles) پر 7 کلومیٹر سے خطِ استوا (equator) پر 17 کلومیٹر تک ہے۔ ٹروپوسفئیر میں بلندی کے ساتھ ساتھ درجہء حرارت کم ہوتا جاتا ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ اوپر کی طرف ہوا کی کثافت کم ہوتی جاتی ہے چنانچہ حرارت بھی کم جذب ہوتی ہے۔
ٹروپوسفئیر کے بالکل اوپری حصے ٹروپوپاز (Tropopause) میں درجہء حرارت ایک کم ترین سطح پر مستحکم رہتا ہے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کچھ سائنس دان ٹروپوپاز کو ایک "سرد شکنجہ" (cold trap) بھی کہتے ہیں جس سے آبی بخارات اوپر نہیں جا سکتے کیونکہ اس کم درجہء حرارت پر پانی برف بن کر رک جاتا ہے (یا بہ الفاظ دیگر "جکڑا" جاتا ہے)۔
ٹروپوسفئیر کا درجہء حرارت یکساں نہ ہونے کی وجہ سے نیچے کی گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور اوپر سے سرد ہوا اس کی جگہ لینے کے لیے نیچے کی طرف جاتی ہے۔ جب یہ گرم ہوا ٹروپوپاز تک پہنچتی ہے تو اس سے اوپر جانا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اس سے اوپر سٹریٹوسفئیر کی ہوا زیادہ گرم اور زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔
ٹروپوپاز سے اوپر سٹریٹوسفئیر (Stratosphere) آتا ہے جو کہ سطح زمین سے 51 کلومیٹر کی بلندی تک پہنچتا ہے۔ اس کی ہوا بلندی کے ساتھ ساتھ زیادہ گرم ہوتی جاتی ہے۔ ایسا اس کے اوپری علاقے میں موجود اوزون میں بالائے بنفشی یا الٹراوائلٹ اشعاع کے انجذاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں کی ہوا میں حمل حرارت (convection) کی بدولت ہونے والی عمودی حرکت نہیں پائی جاتی۔ یہاں ہوا صرف افقی طور پر حرکت کرتی ہے اور بہت قیام پذیر (stable) ہوتی ہے۔
سٹریٹوسفئیر میں نیچے کی ہوا ٹھنڈی اور اوپر کی ہوا گرم ہونے کی وجہ سے ٹروپوسفئیر کی طرز پر ہوا کی عمودی حرکت عمل میں نہیں آتی کیونکہ پہلے سے ہی گرم ہوا اوپر اور ٹھنڈی ہوا نیچے ہے۔ چنانچہ ٹروپوپاز کا علاقہ زمین کے موسم کے لیے ایک سرحد کا کام کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بادلوں کا بننا، بارش، طوفان یا دیگر موسمیاتی تبدیلیاں ٹروپوسفئیر تک ہی محدود رہتی ہیں۔
سٹریٹوسفئیر اور سٹریٹوپاز (Stratopause) سے اوپر، سطح زمین سے 85 کلومیٹر کی بلندی تک میزوسفئیر (Mesosphere) ہے۔ یہاں پر درجہء حرارت بلندی کے ساتھ ساتھ گھٹتا ہے اور ہوا کی کثافت انتہائی کم ہے۔
میزوسفئیر سے اوپر تھرموسفئیر (Thermosphere) ہے جہاں درجہء حرارت بلندی کے ساتھ بڑھتا ہے اور تقریباً 2000 درجے سیلسیس (سینٹی گریڈ) تک پہنچ سکتا ہے۔ البتہ یہاں گیسوں کے سالمات (molecules) ایک دوسرے سے اتنی دور ہوتے ہیں کہ یہاں کی ہوا ہمیں سرد ہی محسوس ہوگی کیونکہ ہماری جلد سے ٹکرا پانے والے تھوڑے سے سالمات کوئی زیادہ توانائی فراہم نہیں کر پائیں گے۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن اسی تہہ میں 320 سے 380 کلومیٹر کی بلندی پر زمین کا چکر لگاتا ہے (جس سے یہاں ہوا کی انتہائی کم کثافت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ لگ بھگ خلا جیسی ہی ہے)۔ تھرموسفئیر کی بلند ترین حد ایگزوبیس (Exobase) کی بلندی شمسی سرگرمی (Solar activity) پر منحصر ہوتی ہے اور 350 اور 800 کلومیٹر کے درمیان بدلتی رہتی ہے۔
ایگزوبیس سے اوپر ایگزوسفئیر (Exosphere) ہے جو کہ زمین کے کرہء فضائی کی سب سے بیرونی تہہ ہے۔ یہاں ہوا کے ذرات اتنے دور دور ہوتے ہیں کہ وہ سینکڑوں کلومیٹر تک ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر دوڑے چلے جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں آئنوسفئیر (Ionosphere) کی طرف جو کہ ہماری آج کی گفتگو میں مرکزی کردار کا حامل ہے۔ یہ تھرموسفئیر کا حصہ ہے جس میں برقی چارج کے حامل ذرات اکثریت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ 85 کلومیٹر کی بلندی سے شروع ہو کر 500 کلومیٹر سے بھی زیادہ بلندی تک جاتا ہے اور یہاں ہوا کی کثافت انتہائی کم (لگ بھگ صفر) ہوتی ہے۔ یہاں پر سورج کی طرف سے آنے والی بلند توانائی والی ایکس ریز اور بالائے بنفشی اشعاع الیکٹرانوں کو ان کے سالمات سے باہر دھکیل دیتی ہیں۔ ہوا کی کثافت انتہائی کم ہونے کی وجہ سے آزاد الیکٹران، مثبت آئن (ion) کے ساتھ واپس جڑنے سے پہلے کافی دیر تک آزاد رہ سکتے ہیں جس کی وجہ سے باردار (چارج شدہ) ذرات اکثریت میں ہوتے ہیں۔ پلازما (مثبت آئنز اور آزاد الیکٹرانوں کا مجموعہ) کی حالت میں پائے جانے والے اس حصے کو آئنوسفئیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ پلازما میں مثبت بار والے آئنوں اور منفی بار والے آزاد الیکٹرانوں کے درمیان کشش کی قوت تو ہوتی ہے لیکن ان کی توانائی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ایک برقی طور پر معتدل سالمے میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
آئنوسفئیر میں پائے جانے والے انہی باردار (برقی چارج کے حامل) ذرات کی وجہ سے وہ ریڈیائی لہریں جو کہ ٹروپوسفئیر اور سٹریٹوسفئیر میں بغیر جذب ہوئے گزر جاتی ہیں، یہاں سے اتنی آسانی کے ساتھ نہیں گزر پاتیں۔ کچھ حصہ گزر کر خلا میں پہنچ پاتا ہے، کچھ جذب ہو جاتا ہے جبکہ کچھ منعکس ہو جاتا ہے۔
آئنوسفئیر کی ساخت شمسی سرگرمی سے متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا شمسی طوفانوں کے دوران آئنوسفئیر میں بڑے پیمانے پر فرق آنے کے باعث ریڈیائی رابطے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنے (ریڈیائی لہروں پر مبنی) مواصلاتی نظاموں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں آئنوسفئیر کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔ اور ہارپ میں اسی پر تحقیق جاری ہے۔
بلندی میں اضافے کے ساتھ کرہء فضائی کی کثافت میں آنے والی تبدیلیاں:
کرہء فضائی کی کمیت (mass) کا 50 فیصد حصہ 5.6 کلومیٹر کی بلندی سے نیچے ہوتا ہے۔
کرہ فضائی کی کمیت کا 90 فیصد حصہ 16 کلومیٹر سے کم بلندی پر پایا جاتا ہے۔ موازنے کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی 8848 میٹر یا 8.848 کلومیٹر بلند ہے اور تجارتی ائیرلائنز کے طیارے تقریباً دس کلومیٹر کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔
کمیت کے لحاظ سے کرہ فضائی کا 99.99997 فیصد حصہ 100 کلومیٹر سے کم بلندی پر ہوتا ہے۔
ان اعداد و شمار کی مدد سے آپ ٹروپوسفئیر سے اوپر ہوا کی انتہائی کم کثافت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اوپر اٹھائے گئے نکات سے ہمیں کچھ اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
1۔ زمین کا موسم (بادل، بارش، طوفان وغیرہ) ٹروپوسفئیر میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس سے اوپر کی ہوا کے ساتھ اس کا کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا کیونکہ ٹروپوسفئیر اور میزوسفئیر کے درمیان حمل حرارت (convection) کے ذریعے ہوا کی عمودی حرکت کا راستہ نہیں ہے۔ سٹریٹوسفئیر، جو کہ اس حد بندی کا سبب بنتا ہے، کی موٹائی 34 کلومیٹر یعنی ٹروپوسفئیر کی موٹائی سے کم از کم دو گنا ہے۔
2۔ ٹروپوسفئیر کی اوپری حد اور آئنوسفئیر کی نچلی حد کے درمیان کم از کم 68 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ جبکہ کرہ ہوائی کی کل کمیت کا 10 فیصد بھی یہاں نہیں پایا جاتا۔ یعنی ہوا کے ذرات ایک دوسرے سے کافی دور دور ہوتے ہیں۔
3۔ جس علاقے میں ہارپ ریڈیائی لہروں کے ذریعے ہلچل پیدا کر سکتا ہے، وہاں ہوا کی کثافت انتہائی کم، لگ بھگ صفر، ہوتی ہے۔ یعنی تقریباً خلا جیسا ماحول ہوتا ہے۔
4۔ آئنوسفئیر کے نیچے موجود ہوا کی کثافت بھی صفر کے کافی قریب ہوتی ہے۔
یعنی آئنوسفئیر میں ہونے والی کسی ہلچل کا کوئی خاطر خواہ اثر ٹروپوسفئیر تک پہنچنے کا امکان صفر رہ جاتا ہے۔
ان تمام نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہارپ کی تھوڑی سی طاقت کے موسم پر خطرناک اثرات پڑنے کا دعویٰ، مجھے تو بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسے کوئی کہے کہ برج خلیفہ (دبئی) کے گراؤنڈ فلور پر ایک عام گھریلو چولہا جلا کر اس کی چھت پر دیگ پکائی جا سکتی ہے۔
سمجھ نہیں آئی؟ آسان طریقے سے سمجھاتا ہوں۔
اگر ہارپ کی تھوڑی سی توانائی آئنوسفئیر میں داخل کرنے سے کسی علاقے کے موسم میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے تو پھر تو ارضی مقناطیسی طوفانوں (Geomagnetic storms) - یا آسان الفاظ میں شمسی طوفانوں - کے دوران ٹروپوسفئیر کے موسم میں بڑی ڈرامائی قسم تبدیلیاں آنی چاہئیں کیونکہ شمسی طوفان آئنوسفئیر میں ہارپ کی مجموعی صلاحیت سے بھی کم از کم ہزاروں گنا بڑی ہلچل پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ شمسی طوفان ٹروپوسفئیر کے موسم پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔
نیچے موجود تصویر سے آپ کو اندازہ لگانے میں مدد ملے گی۔
اس پیمانے کی تصویر میں ہارپ کا مجموعی حجم ایک پکسل جتنا بھی نہیں ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ شمسی طوفان کی توانائی اور ہارپ کی توانائی میں کتنا زیادہ فرق ہے۔
شمسی طوفان کتنے عام ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ایک دو ماہ spaceweather.com پر نظر رکھنا بھی مفید رہے گا۔
وکیپیڈیا پر شمسی طوفانوں اور ان کے اثرات کا کافی مفصل تعارف مل جائے گا۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Geomagnetic_storm
یہ تحریر بھی کافی عمدہ ہے۔
http://science.nasa.gov/science-news/science-at-nasa/2009/21jan_severespaceweather/
اگر چاہیں تو 1989 اور 1921 کے تاریخی شمسی طوفانوں کے متعلق بھی مطالعہ کر لیجیے گا۔
بہرحال، بات یہ ہو رہی تھی کہ اگر شمسی طوفانوں کے دوران آئنوسفئیر میں پیدا ہونے والی "کنگ سائز" ہلچل کا ٹروپوسفئیر پر کوئی قابلِ مشاہدہ اثر نہیں پڑتا، تو ہارپ کے 3.6 میگاواٹ سے پیدا ہونے والی خفیف سی ہلچل بھی ٹروپوسفئیر کے موسم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
اچھا جی یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن پھر پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب بھلا کیسے آیا؟
بزرگوں کو تو پاکستانیوں کے کمزور حافظے کی شکایت کرتے سنا تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ دو تین ماہ پہلے کی تاریخی گرمی بھی انہیں اتنی آسانی کے ساتھ بھول جائے گی۔
http://www.guardian.co.uk/world/2010/jun/01/pakistan-record-temperatures-heatwave
بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ جب گرمی بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو طوفان شوفان بھی آتے ہیں۔ پھر جب اس قدر شدید گرمی ہوگی، جس کا اثر ان شدید بارشوں کے بعد بھی ابھی تک نہیں ٹوٹا، تو پھر حد سے زیادہ بارشیں، طوفان اور سیلاب واقع ہونا کون سی ایسی مافوق الفطرت بات ہے؟
لہٰذا براہِ مہربانی ہر چیز کا الزام امریکہ پر تھوپنے کے بجائے اپنی حالت بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ اور تھوڑی تحقیق کی عادت ڈالیں۔ جب کوئی شخص کسی طرح کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر یقین کرنے سے پہلے تصدیق کر لیا کریں۔ اب کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کے سامنے ہارپ کے حوالے سے موسم پر کنٹرول کا یہ دعویٰ کیا گیا ہوگا اور انہوں نے اس سارے نظام کو سمجھنے کی کوشش کی ہوگی؟ یاد رکھیں کہ جھوٹ کو بلا تحقیق آگے بڑھانے والا اس جھوٹ کو پھیلانے کے جرم میں حصہ دار بن جاتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ اس افواہ کو پھیلانے والے اور اس پر یقین کرنے والے بے شمار لوگوں میں سے ایک بھی اس انداز میں سوچنے والا نہ تھا کہ "چلو، امریکہ نے تو ہتھیار بنا لیا۔ اب اس کا طریقہء کار سمجھ کر اس کا توڑ ڈھونڈیں۔"
رہ رہ کر مجھے "جاپانی دجال" کے عنوان کا یہ مضمون یاد آتا ہے۔
http://www.alqalamonline.com/rnold/rnold_249.htm
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی توانائیاں مفید کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور لغویات سے ہم سب کو بچائے۔ آمین۔