پہلی بات تو یہ کہ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ خود سے زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ نہ میں نے یہ کہا تھا کہ حکومت کے حوالے کی جائے۔ میرے کہنے کا مطلب تھا کہ انفرادی طور ادا کرنے سے بہتر ہے کہ اسلامی حکومت کے حوالے کی جائے ۔ اس کے کئی وجوہات ہیں جن کو آپ بھی سمجھتے ہونگے۔
مزید یہ کہ قران اس کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
1۔ والعاملین علیھا۔
2۔ خذ من اموالھم صدقۃ
3۔ الَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوْا الزّکَوٰةَ وَ اَمَرُوا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوَا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاَمُوْرِO۔
نمبر 1 پر پہلے بات ہوچکی ہے۔
نمبر 2۔ اس حکم کے اول مخاطب رسولؐ ہیں۔ جو اسلامی ریاست کے سربراہ ہیں۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے رسولؐ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان سے زکواۃ لیکر ان کے اموال کو پاک کردیں اور وہ لوگوں کو کھلی چھوٹ دیں کہ جہاں جی چاہے زکواۃ کو خرچ کرو، حکومت کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔
نمبر 3۔ اب سورہ حج کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیں۔
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہےo
متذکرہ آیہ کریمہ کی رو سے حکومتِ اسلامیہ کے قیام کے چار بنیادی مقاصد بالترتیب درج ذیل ہیں :
- اقامت الصّلوٰۃ
- ایتائے زکوٰۃ
- امر بالمعروف
- نہی عن المنکر۔
یہاں واضح طور زکاۃ کا نظام چلانے کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر ڈالی گئی ہے ۔
اب آئیے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جہاد منکرین زکواۃ کے خلاف والے مسئلہ کی طرف۔
ابو بکر صدیق کی خدمت میں مختلف قبیلوں سے کئی وفد محض اِس غرض سے حاضر ہوئے کہ زکوٰۃ معاف کر دی جائے۔ باقی ارکانِ اسلام بیشک ایسے ہی رہیں۔
صحابہ اور خود حضرت عمر ؓ کا یہ مشورہ تھا کہ
لوگوں سے نرمی کی جائے
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کی بات سُن کر فرمایا
عُمر! جاہلیت میں تو تم بڑے جابر تھے کیا اسلام میں آکر کمزور ہو گئے ہو؟ وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا۔ میری زندگی میں اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ خدا کی قسم! اگر زکوٰۃ میں کسی کے ذمے رسّی کا ایک ٹکڑا بھی نکلا اور اس نے دینے سے انکار کیا تو جہاد کا حکم دے دُوں گا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ :
اگر ان لوگوں کو خود سے زکواۃ ادا کرنی ہوتی تو ابو بکر یعنی حاکم وقت کے پاس کیوں آئے۔ لازماً ان کو پتا تھا کہ وہ اپنی زکواۃ حکومت کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کو وہاں آنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ تو ایسا ہوا کہ کوئی یہ اعلان کرتا پھرے کہ میں سچ نہیں بولوں گا۔ اگر کسی کو جھوٹ بولنا ہے تو خلیفہ کے دربار میں آکر اسکا اعلان کرنے کی ضرورت کیا تھی۔
2 باتیں میں پھر واضح کروں۔ ایک یہ کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ افضل یہی ہے کہ زکواۃ اسلامی حکومت کے حوالے کی جائے ۔ ( نہ کہ حکومت کے).
دوسری یہ کہ انفرادی طور سے(خود سے ) بھی زکواۃ ادا کی جاسکتی ہے۔۔۔
بہرحال ، جتنا میں اس مسئلے کو سمجھا ہوں اتنا لکھ دیا ہے۔ میں کوئی مفتی یا عالم تو ہوں نہیں کہ فتویٰ صادر کردوں ، بس اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب۔
اگر اس کے خلاف کوئی بہتر دلیل مجھے مل جائے تو میں اپنی رائے تبدیل کر سکتا ہوں ۔
اور یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ آپ میری رائے سے جزوی طور بھی اتفاق کریں ۔
اللہ ہمیں صحیح بات سمجھنے اور اسی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔