عائشہ عزیز
لائبریرین
زیک بھائی ۔۔۔ویلکم بیک
نبیل بھائی جن کی اصل شکل کسی کو بھی یاد نہیں۔۔۔ اور ایک بے چہرہ آدمی ہی شناخت ٹھہرا ہے۔۔۔ گزشتہ دنوں اتفاق سے شیش محل کی طرف جا نکلے۔ اب جابجا آئینے دیکھ کر پہلے پہل تو کوئی انجان آدمی سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ مگر جدھر یہ جاتے پیچھے پیچھے کیا ہر طرف وہی آدمی ساتھ ساتھ۔۔۔۔طبیعت بڑی بدمزا ہوئی۔۔۔ ایک دو بار سمجھایا۔۔ مگر جناب وہ عکس بھی اب کہاں پلٹے۔۔ دھمکی بھی دی معطلی کی۔۔۔ مگر وائے قسمت کہ ہنوز ڈھٹائی سے ساتھ چپکا ہوا۔۔۔۔۔ آخر ایسے میں صدا دل سے نکلی۔۔۔ اور رب کی یاد آگئی۔۔۔ یااللہ!!! یہ کون ہے۔۔۔ کیسا آدمی ہے۔۔۔ اب یہ دو چار کی خوب رہی۔۔۔ ادیب آدمی کو اب محاورے تو جابجا استعمال کے لیے یاد ہی رہتے ہیں۔۔۔ سو چپکا ڈالا۔۔۔۔نبیل بھائی اور کفیت نامہ
چلیں پھر بناء تبصرے کے کیسے جانے دیں یہ سنہرا موقع
نبیلحیران آئینہ وار ہیں ہم ۔۔ یا رب کس سے دوچار ہیں ہم
اس طرحمیں بھی نبیل بھائی کا کیفیت نامہ دیکھ کےحیران ہوئی تھی
دونوں طرحاس طرح
یا پھر اس طرح
سب دوست انگشت بدنداں نہیں۔۔۔ کچھ انگشت اشارت میں مصروف ہیں۔۔۔۔آپ دوست بلاوجہ انگشت بدندان ہو رہے ہیں۔
شاید آپ نے نوٹ کیا ہو کہ فورم میں ایک نظام شامل کیا گیا ہے جس کی بدولت فورم پر آپ کی سٹیٹس اپڈیٹ اب آپ کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی نشر ہو جائے گی۔ اسی کو ٹیسٹ کر رہا تھا۔ آپ بھی اسے آزما کر دیکھیں کہ درست کام کر رہا ہے یا نہیں؟
کون کر رہا ہے؟مشکل گفتگو
ہم نے ایسا کیا لکھ دیا۔۔۔۔۔ بس کچھ سنی سنائی لکھی ہے۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔!
نین بھائی! صبح صبح فلک شیر بھائی کی کیفیت بھانپ لی آپ نے اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کیفیت بھانپنے کے بعد منہ سے بھانپ تک نہ نکالتے۔ لیکن آپ نے تو سب کے سامنے آکر پوری کہانی ببانگ دہل روایت کر دی۔
اب خیر نہیں ہے آپ کی۔
ہم نے ایسا کیا لکھ دیا۔۔۔۔۔ بس کچھ سنی سنائی لکھی ہے۔۔۔
یعنی ابھی کچھ پہلو تشنہ رہ گئے ہیں۔۔۔۔
زبردست نینفلک شیر "اور چارہ بھی تو نہ تھا میرے چارہ گر!!!"
شانِ نزول اس کیفیت نامہ کی یہ ہے کہ چیمہ صاحب جو بڑے عرصے سے کسی کے ساتھ خراب ہونے کے چکر میں تھے۔۔۔ اور رسم و راہ کے لیے حیلے بہانے ڈھونڈ رہے تھے۔ انہیں بکرے کی صورت قدرت نے خود بخود ایک بہانہ فراہم کر دیا۔ اور جب اس حسن آرا نے چیمہ صاحب سے اپنے بکرے کے لیے چارہ لانے کی فرمائش کی تو چیمہ صاحب کی جمالیاتی حس بری طرح متاثر ہوئی۔ پہلے تو سوچا کہ بھاڑ میں جائے یہ رسم و راہ "غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی"۔ پھر خیال آیا کہ "محبتوں میں ہوس کے اسیر ہم بھی نہیں" والا مصرعہ آج ہی تو سچ ثابت کرنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن اس ذہنی جنگ میں وقت کافی ضائع ہو چکا تھا۔ سو جب چارا لینے پہنچے تو وہاں پر صرف لوسن ہی باقی رہ گیا تھا۔ اور جنتر جیسے چارے سب بک چکے تھے۔ ٹال والے نے بتایا جٹ صاب آج کل تو اکثر دوپہر میں ہی نکل جاتے ہیں۔ یہ تو آپ کی قسمت کا لوسن باقی تھا۔ طبیعت بڑی مکدر ہوئی۔ لوسن اٹھائے جب واپس پہنچے تو بکرے اور بکرے کی مالک دونوں برس پڑے۔ دل میں رانجھے کو بھینسیں چرانے پر خوب داد و تحسین سے نوازتے ہوئے چیمہ صاحب نے اپنی دم توڑتے عشق کو دلاسا دینے کی آخری ادبی کوشش کرتے ہوئے رونی صورت بنا کر اس سراپا ناز و انداز سے کہا۔۔۔
اور چارہ بھی تو نہ تھا میرے چارہ گر۔۔۔۔۔
کسی مرزا سے سنا ہے کہ واپسی پر چیمہ صاحب بڑبڑاتے پائے گئے ہیں کہ
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
دامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر
آپ کا اشارہ محمداحمد بھائی کی طرف ہے۔نین اقرباءپروری کا تقاضا ہے کہ ہم فلک شیر پر کسے جملوں پرکان لپیٹ لیں سو وہی کررہے ہیں-
نیا بکرا میرا مطلب ہے کیفیت نامہ دیکھیں آپ