کیمیا اور کیمسٹری کے اشعار

La Alma

لائبریرین
کیمیاگری کی ایک آرزوئے لاحاصل کبھی ہم نے بھی کی تھی۔ اس غزل کے چند اشعار شاید موضوع سے مطابقت رکھتے ہوں۔

چلو ترکیبِ ہستی کو جدا تخلیق کرتے ہیں
انہی اجزا کو لے کر کچھ نیا تخلیق کرتے ہیں

کچھ ایسا ہو بھڑکتی آگ بھی گلزار ہو جائے
عناصر درد کے چن کر مزا تخلیق کرتے ہیں

سلگتی ہے یہ چشمِ نم مرے خوابوں کی حدّت سے
ہوئی تبخیر اشکوں کی, گھٹا تخلیق کرتے ہیں

مفر غم سے نہیں ممکن, ہے جب تک زندگی باقی
غمِ جاں سے نمٹنے کو قضا تخلیق کرتے ہیں

نری یہ خود پسندی ہے اگر حد سے نکل جائے
خودی کے دائروں میں ہی انا تخلیق کرتے ہیں

ہے راوی بھی, سند بھی ہے, بیاں پھر متن کیسے ہو
حدیثِ دل سنانے کو صدا تخلیق کرتے ہیں

نہ اب کے بعد ہم المٰی، صنم کوئی تراشیں گے
وہ کافر ہیں جو خود اپنا خدا تخلیق کرتے ہیں​
 

فہد اشرف

محفلین
محبت کا کیمکل کمپوزیشن

چمک تارے سے مانگی ، چاند سے داغ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلف برہم سے

تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفسہائے مسیح ابن مریم سے

ذرا سی پھر ربوبیت سے شان بے نیازی لی
ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر شبنم سے

پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے

اقبال
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یاد آیا کہ بانگ درا کی شعری لیبارٹری میں اقبال نے "محبت" نام کا مرکب ایجاد کر نے کا پریکٹکل معہ ترکیبوفارمولا بیان کیا ہے ، نظم کا نام بھی غالبا محبت ہی ہے۔ اس کے اجزا میں تارے کی چمک، بجلی کی تڑپ ،چاند کے داغ اور حور کی پاکیزگی کو چشمہ ء حیواں کی پانی میں گھولا اور اس کمپاؤنڈ نے عرش اعظم سے محبت کا نام پایا۔
یہ نظم یہاں بر محل ہو گی ۔ جس میں محبت جیسے نایاب مرکب کا مالیکیولر ویٹ بھی نکالا جاسکتا ہے۔
فی الحال چند مصرع پچیس تیس سال پہلے کے پڑھے ہوئے یاد آرہے ہیں ۔
چمک تارے سے پائی حور سے پاکیزگی مانگی
پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کی پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے۔
 

فہد اشرف

محفلین
یاد آیا کہ بانگ درا کی شعری لیبارٹری میں اقبال نے "محبت" نام کا مرکب ایجاد کر نے کا پریکٹکل معہ ترکیبوفارمولا بیان کیا ہے ، نظم کا نام بھی غالبا محبت ہی ہے۔ اس کے اجزا میں تارے کی چمک، بجلی کی تڑپ ،چاند کے داغ اور حور کی پاکیزگی کو چشمہ ء حیواں کی پانی میں گھولا اور اس کمپاؤنڈ نے عرش اعظم سے محبت کا نام پایا۔
یہ نظم یہاں بر محل ہو گی ۔ جس میں محبت جیسے نایاب مرکب کا مالیکیولر ویٹ بھی نکالا جاسکتا ہے۔
فی الحال چند مصرع پچیس تیس سال پہلے کے پڑھے ہوئے یاد آرہے ہیں ۔
چمک تارے سے پائی حور سے پاکیزگی مانگی
پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کی پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے۔
محبت کا کیمکل کمپوزیشن

چمک تارے سے مانگی ، چاند سے داغ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلف برہم سے

تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفسہائے مسیح ابن مریم سے

ذرا سی پھر ربوبیت سے شان بے نیازی لی
ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر شبنم سے

پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے

اقبال
:):)
 
Top