فرقان احمد
محفلین
میں ملاتا ہوں شعر و آتش کو
فن مجھے کیمیا کا آتا ہے ۔۔۔!
عبدالعزیز خالد
فن مجھے کیمیا کا آتا ہے ۔۔۔!
عبدالعزیز خالد
مزہ کیسا کسی کی شاعری لکھ لکھ کے مارن کایہاں بہت سے متعلقہ اشعار مل جائیں گے۔
نہ اب کے بعد ہم المٰی، صنم کوئی تراشیں گے
وہ کافر ہیں جو خود اپنا خدا تخلیق کرتے ہیں
گرد رہ حسین کے ایٹم کا پروٹونبہت ہیں پایہ گردِ رہِ حسین بلند
بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اس کو
فرما گئے ہیں میر جو بے شک ہے خوب ترنزدیک سوزِ سینہ سے رکھ اپنے قلب کو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرم گداز ہو
ہوا پانی کیا کرتے تو غالب چل بسے کب کےضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
غالب
Vaporisation
یاد آیا کہ بانگ درا کی شعری لیبارٹری میں اقبال نے "محبت" نام کا مرکب ایجاد کر نے کا پریکٹکل معہ ترکیبوفارمولا بیان کیا ہے ، نظم کا نام بھی غالبا محبت ہی ہے۔ اس کے اجزا میں تارے کی چمک، بجلی کی تڑپ ،چاند کے داغ اور حور کی پاکیزگی کو چشمہ ء حیواں کی پانی میں گھولا اور اس کمپاؤنڈ نے عرش اعظم سے محبت کا نام پایا۔
یہ نظم یہاں بر محل ہو گی ۔ جس میں محبت جیسے نایاب مرکب کا مالیکیولر ویٹ بھی نکالا جاسکتا ہے۔
فی الحال چند مصرع پچیس تیس سال پہلے کے پڑھے ہوئے یاد آرہے ہیں ۔
چمک تارے سے پائی حور سے پاکیزگی مانگی
پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کی پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے۔
محبت کا کیمکل کمپوزیشن
چمک تارے سے مانگی ، چاند سے داغ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلف برہم سے
تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفسہائے مسیح ابن مریم سے
ذرا سی پھر ربوبیت سے شان بے نیازی لی
ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر شبنم سے
پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے
اقبال
کیمسٹری جو نہ پڑھ سکا کبھی ڈھنگ سے میں کلاس میںمزہ کیسا کسی کی شاعری لکھ لکھ کے مارن کا
اپنا کہیں گے ہم بھی عناصر پہ سب کلام
تو نکال کر بڑوں کا سخن ، بنے منتظم بھی تو پاس میںکیمسٹری جو نہ پڑھ سکا کبھی ڈھنگ سے میں کلاس میں
کیمسٹری ہی نہ مل سکی، کسی سے کبھی ، رہے آس میں
بالکل یہی ۔
"پیسٹری" تو نہیں کہنا چاہ رہے؟منہ کی کیمسٹری چھین لی