عرفان سعید
محفلین
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
(غالب)
Evaporation
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
(غالب)
Evaporation
آخری تدوین:
شبنم تو کہہ رہی تھی اسے دور فنا ہوپرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
نگارش سال اول میں رہی تھیوہ کیمیا گر تو محوِ افشائے سرِ ترکیبِ روشنائی
یہ تجربہ گاہ تو سکھاتی نہیں نگارش سے آشنائی
ایف بی ہے یا واٹساپ ہے میدان عمل کامسلمان کے کردار کی کیمسٹری:
قہاری وغفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان!
سرجی کہیں فارمولے نا لکھنا شروع کردیجیے گا اب شاعری میں۔۔کیمسٹری لیب کا عشق
نہ کیمسٹری ہوتی، نہ میں اسٹوڈینٹ ہوتا
نہ یہ لیب ہوتی، نہ یہ ایکسڈینٹ ہوتا
ابھی Practical میں نظر آئی اک لڑکی
سندر تھی ناک اسکی Test Tube جیسی
باتوں میں اسکی Glucose کی مٹھاس تھی
سانسوں میں Ester کی خوشبو بھی ساتھ تھی
آنکھوں سے جھلکتا تھا کچھ اس طرح کا پیار
بن پئیے ہو جاتا تھا Alcohol کا خمار
Benzene سا ہوتا تھا اسکی Presence کا احساس
اندھیرے میں ہوتا تھا Radium کا احساس
نظریں ملیں reaction ہوا
کچھ اس طرح Love کا Production ہوا
لگنے لگے اس کے گھر کے چکر ایسے
Nucleus کے گرد Electron ہو جیسے
اس دن ہمارے Test کا Confirmation ہوا
جس دن اس کے ڈیڈی سے ہمارا Introduction ہوا
سن کر ہماری بات وہ ایسے اچھل پڑے
Ignesiun Tube میں جیسے Sodium بھڑک اٹھے
وہ بولے ہوش میں آؤ، پہچانو اپنی اوقات
Iron مل نہیں سکتا کبھی Gold کے ساتھ
یہ سن کر ٹوٹا ہمارا ارمانوں بھرا Beaker
اور ہم چپ رہے Benzaldehyde کا کڑوا گھونٹ پی کر
اب اسکی یادوں کے سوا ہمارا کام چلتا نہ تھا
اور لیب میں ہمارے دل کے سوا کچھ جلتا نہ تھا
زندگی ہو گئی Unsaturated Hydrocarbon کی طرح
اور ہم پھرتے ہیں آوارہ Hydrogen کی طرح
لنک
نزدیک سوزِ سینہ سے رکھ اپنے قلب کو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرم گداز ہو
(میر)
نزدیک سوز سینہ سے رکھ اپنے قلب کو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرم گداز ہو
میرؔ
اب ایسی شاعری پہ "لاحول ولا قوۃ" ہی پڑھنے کو دل کررہا۔۔ٹیسٹ ٹیوب
کاش میں تیری لیب میں اک ٹیسٹ ٹیوب ہوتا
تو پریکٹیکل سے کچھ پہلے، بڑے مان کے ساتھ
اپنے پھول سے نازک ہاتھوں سے پکڑتی مجھ کو
اور بے تابی سے ٹیچر کے لیب آنے سے پہلے
تو کسی سوچ میں ڈوبی دھیرے دھیرےدھلاتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کے لمس سے بہک سا جاتا
جب کبھی تجربے کے دوران مجھے دیکھا کرتی
تیری آنکھوں کی قندیلوں سے دہک سا جاتا
کام کی لگن میں جب تو ڈیسک پر چھوڑ جاتی
تو میرا سراپا، میری روح، میرا دل توڑ جاتی
تیرے انتظار میں دیر تک خود کلامی کرتا
تیری چاہت کے بازار میں اپنی نیلامی کرتا
کن انکھیوں سے تیرے لوٹنے کا اشارہ پاتا
تو ملکۂ حسن جیسی تیری چال کا نظارہ کرتا
کیمیکل کی تیزی و تندی میں بھی یہ اقرار رہتا
تیرے وجود کی خوشبو سے ہر دم سرشار رہتا
تیری اک جھلک کو، اک آہٹ کو بے قرار رہتا
کچھ نہیں تو بس اتنا تومیں تجھ سے منسوب ہوتا
کاش میں تیری لیب میں اک ٹیسٹ ٹیوب ہوتا
لنک
کس کا؟پوسٹ مارٹم
ٹیسٹ ٹیوب کا
ایک بار پڑھ لیں، مجھے ہی منہ چھپانا پڑے گا!اب ایسی شاعری پہ "لاحول ولا قوۃ" ہی پڑھنے کو دل کررہا۔۔
محمد وارث کس مرض کی دوا ہیں!مطلب خود ڈھونڈیں۔ شکریہ
مطلب سمجھ آتا ہے تو ریٹنگ دیتا ہوں۔مطلب خود ڈھونڈیں۔ شکریہ
سرجی دو لائنز پڑھ کر ہی میں نے " پڑھ" لیا تھا۔۔ایک بار پڑھ لیں، مجھے ہی منہ چھپانا پڑے گا!