تھائی ریسٹ ہاؤس کے سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک چھپر ہوٹل بنا ہوا تھا۔ جسے دسال گاؤں کے ایک بزرگ (شاید ان کا نام قادر تھا) چلاتے تھے۔ بابا جی نے جوانی پولیس میں نوکری کرتے گزاری تھی اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد گزر بسر کے لیے یہ ہوٹل بنایا ہوا تھا۔ ان کا ایک بیٹا دھمتوڑ سکول میں پڑھتا تھا، سکول سے واپسی پر وہ بھی دو تین گھنٹے ان کی مدد کرتا۔ جس روز شام تک ہوٹل میں دودھ ختم ہو جاتا تو بابا جی اپنے گاؤں چلے جاتے لیکن جب ایسا نا ہوپاتا تو رات چھپر میں ہی بسر کر لیتے۔ ایسی بے شمار راتوں میں اکثر میں اور دو تین احباب ان کے پاس بیٹھ جاتے اور دیر گئے تک ان سے پولیس لائف میں پیش آنے والے واقعات اور کیسز کے بارے میں قصے سنتے رہتے۔ بابا جی کا انداز بیان نہایت زبردست تھا اور ان کی محفل میں بیٹھنے کا ایک عجیب ہی لطف تھا۔
ایک موسم سرما کے دوران بابا جی جو ایک بار شام کو ہوٹل بند کر کے گئے تو دو تین دن ہوٹل نا کھلا۔ تیسرے چوتھے دن ان کا بیٹا سکول سے واپس آتے مل گیا تو پوچھا کہ کیا بنا ؟ کہنے لگا ابو کہیں بارش میں باہر نکلے تو پھسل گئے اور چوٹیں وغیرہ لگی ہیں۔ میں نے شام کو احباب سے مشورہ کیا اور چھٹی والے دن ان کی مزاج پرسی کے لیے دسال جانے کا فیصلہ کر لیا۔
اس وقت جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ ہم تین احباب جمعہ کی نماز کے بعد تھائی سے نیچے اترے اور ’دوڑاں‘ کراس کر کے ان کے گاؤں والے راستے کو ہو لیے۔ پہاڑی راستے پر ہم تینوں ایک دوسرے سے دو چارمیٹر کا فاصلہ رکھ کر چڑھائی کر رہے تھے، میں سب سے آگے تھا ۔ کوئی آدھے راستے میں پہنچا ہوں گا کہ کسی طرف سے ایک زنانہ آواز آئی۔ جس کا کوئی لفظ میرے پلے نہیں پڑا ۔ میں نے دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھا تو بڑی عمر کی ایک خاتون تھوڑا اوپر ایک ڈوگی میں کھڑی مجھے گھور رہی تھیں۔ میں نے کہا آپ مجھ سے کچھ کہہ رہی ہیں ؟ انھیں ناجانے کیا سمجھ آئی یا شاید پہلے سے ہی تیاری میں تھیں۔ با آواز بلند کچھ پکارنے لگیں یا شاید کسی کو بلانے لگی۔ کوئی ایک آدھ منٹ میں ہی پانچ چھ مختلف عمر کی عورتیں اس ڈوگی میں نمودار ہوئیں اور ہم تینوں کی طرف پتھر پھینکنے لگ گئیں۔ شاید کوئی ایک آدھ ہی ہمارے تک پہنچ پایا اور ہم فوراً پلٹ گئے کہ شاید انھیں ہمارا اس طرف آنا پسند نہیں آیا۔ تھوڑا نیچے آئے تو ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا اوپر چڑھتا مل گیا، جو ہمارا تھوڑا بہت شناسا تھا۔ اسے ساری بات بتائی اور کہا کہ ہم نے اوپر دسال جانا ہے اور راستہ بھی یہی ہے لیکن عورتیں ہمیں پتھر مار رہی ہیں۔ اس نے کہا آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو لیجاتا ہوں۔
بہرحال اس کے ساتھ دوبارہ اوپر چڑھنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے ہمیں ایک جگہ روکا اور اس خاتون سے جا کر کچھ دیر بات کی اور پھر ہمیں اشارہ کیا کہ آ جائیں۔ جب اس کے پاس پہنچے تو خاتون جا چکی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ۔۔۔تو کہنے لگا اس اماں کی پوتی اس ڈوگی میں گائے چراتی ہے اور دوڑ کے پرلی طرف سڑک کے پار سے دو تین لڑکے اسےشیشے کی چمک مارتے اور سیٹیاں بجاتے رہتے ہیں۔
آپ لوگ اوپر چڑھنا شروع ہوئے تو یہ سمجھی کہ شاید یہ وہی لڑکے ہیں۔ اب میں نے بتا دیا ہے تو شرمندہ سی ہو کر اپنے گھر چلی گئی ہیں۔ خیر وہ ہمیں راہ لگا کر اپنے راستے ہو لیا۔
البتہ واپسی پر اسی بوڑھی خاتون نے ہمیں کافی سارے دیسی انڈے دئیے اور معذرت بھی کی۔