گدھا
گدھا بڑا مشہور جانور ہے۔ گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں،چار پاؤں والے اور دو پاؤں والے۔ سینگ ان میں کسی کے سر پر نہیں ہوتے۔ آج کل چار پاؤں والے گدھوں کی نسل گھٹ رہی ہے دو پاؤں والوں کی بڑھ رہی ہے۔
گھوڑے کی شکل ایک حد تک گدھے سے ملتی ہے، بعض لوگ گدھے گھوڑے کو برابر سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ دونوں کہ ایک تھان پر باندھتے ہیں، یا ایک لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر گدھا اس پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں، سنو ذرا اس گدھے کی باتیں۔ سوچنے کی بات ہے اگر گھوڑا کسی لائق ہوتا تو حضرت عیسی اس پر سواری نہ کرتے، گدھے کو کیوں پسند کرتے؟ شاعروں نے بھی گدھے کی ایک خوبی کی تعریف کی ہے۔ خرِ عیسٰی ہو یا کوئی اور گدھا اگر وہ مکہ بھی ہو آئے تو گدھا ہی رہتا ہے۔ دوسرے جانور بشمول آدمی تو اپنی اصل بھول جاتے ہیں، واپس آکر القاب کے دُم چھلے لگاتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے ایک زمانے میں گدھوں کی مشابہت گھوڑوں کی بجائے آدمیوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ غالب اپنے محبوب کے دروازے پر کسی کام سے گئے اُس کا پاسبان یعنی دربان ان کو حضرت عیسی کی سواری کا جانور سمجھ کر بوجہ احترام چُپ رہا، لیکن جب اُنھوں نے کنوتیاں جھاڑ کر اس کے قدم لینے کی کوشش کی تو سمجھ گیا کہ یہ تو نجم الدولہ دبیرالُملک مرزا اسد اللہ خاں بہادر ہیں۔ چناچہ کماحقہ بد سلوکی کی۔
(اقتباس از بیان پالتو جانوروں کا تحریر انشاء)