میں بہت پہلے سے اردو محفل پر ہوں پر اتنا ایکٹیو نہیں تھا کیونکہ یہاں پر اگر کوئی مراسلہ کرو تو جواب کبھی آتا تھا اور کبھی کبھی آتا ہی نہیں تھا لیکن جب سے گل بہن آئیں ہیں میں بھی اردو محفل پر ایکٹیو ہوگیا کیونکہ جب کوئی مراسلہ کرو تو فوراًگل بہن اُس مراسلے کا جواب دیتی تھی تو اِس وجہ سے پھر اردو محفل پر ایکٹیوٹی بھڑتی گئی۔کیا آپ یقین کریں گے کہ "اردو محفل" کی پہلی جھلک جب لیپ ٹاپ پر ظاہر ہوئی تو اس کے ساتھ ہی ہم رجسٹرڈ ہوئے بنا ایک پل سوچے۔۔ بنا ایک سے دوسرے زمرے میں گئے۔۔۔
اور وجہ "نامعلوم" ہر گز نہیں ہے۔ یقیناً اللہ پاک نے ہمیں اپنے لوگوں میں پہنچانا تھا سو پہنچا دیا۔
شاید وہ دن ہی معمول سے زیادہ نازک تھے ہمارے لئے۔۔۔ سو اردو محفل "مرہم" کی صورت مل گئی ہمیں۔
"دھماکےدار" معلوم نہیں کہ کس لحاظ سے کہہ رہے ہیں آپ کیونکہ نہ تو ہم "خودکش بم" کے ساتھ آئے تھے اور نہ دھماکے سے محفل کے کسی در و دیوار میں دراڑ آئی۔
ہاں ہمارے قہقہے چھت پھاڑنے والے ہوتے ہیں کبھی کبھی
اچھی بات کہ ہمارے آنے سے کسی کی ایکٹیویٹی تو بڑھی۔میں بہت پہلے سے اردو محفل پر ہوں پر اتنا ایکٹیو نہیں تھا کیونکہ یہاں پر اگر کوئی مراسلہ کرو تو جواب کبھی آتا تھا اور کبھی کبھی آتا ہی نہیں تھا لیکن جب سے گل بہن آئیں ہیں میں بھی اردو محفل پر ایکٹیو ہوگیا کیونکہ جب کوئی مراسلہ کرو تو فوراًگل بہن اُس مراسلے کا جواب دیتی تھی تو اِس وجہ سے پھر اردو محفل پر ایکٹیوٹی بھڑتی گئی۔
اس کا تفصیلی جواب پچھلے کسی مراسلہ میں دیا ہے۔مقیم ہونے سے کیا مطلب؟ ہمارا سال کا کچھ حصہ ادھر اور کچھ پاکستان گزرتا رہا ہے۔ لیکن فروری 2020 سے مسلسل پڑاؤ یہیں ہے اب،چند ایک سوال آپ کے نارویجن ہمسائے کی طرف سے:
سکینڈینیویا میں کتنا عرصہ سے مقیم ہیں؟ ناروے کتنی بار آنا جانا ہوا؟ کیا وہاں بھی آپ کے کوئی عزیز رشتہ دار ہیں یا سب ڈنمارک، سویڈن میں ہی رہتے ہیں؟
بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ کوئی لاکھ سمجھاتا رہے بتاتا رہے۔۔۔ اس بارے ایک لفظ دماغ میں نہیں بیٹھتا یا ہم بٹھانا نہیں چاہتے۔ بس ایک حد تک حالات سے آگاہی رہے۔ اس کے علاوہ نہیں۔ڈنمارک کی سیاست میں کس حد تک دلچسپی ہے؟
چند ایک موویز دیکھی ہیں بس۔ ٹی وی شوز خاص طور پر نہیں کبھی دیکھے۔سوائے کچھ کھانے وغیرہ کے یا انٹیک وغیرہ کی سیل کے۔ (اگر وہ ٹی وی شوز میں شمار ہوتے ہیں)کیا مقامی ٹی وی شوز اور فلم پسند ہیں؟
میں نے نیٹ فلکس پر ایک دو سکینڈے نیوئن ٹی وی شوز دیکھے۔ دلچسپ تھے۔
پاکستانی کھانا پکانا زیادہ پسند ہے۔ اس میں جو بھی قسم ہو۔ کچھ نہیں بھی آتے ہوں گے جو عام نہ پکتے ہوں گے گھر میں۔کس قسم کا کھانا پکانا زیادہ پسند ہے؟ نئی ریسپیز ٹرائی کرتی ہیں یا صرف پسندیدہ کھانے ہی پکاتی ہیں؟ پاکستانی کھانوں کے علاوہ اور کن علاقوں کے کھانے پکائے ہیں؟بیکنگ اور میٹھا بنانے کا بھی شوق ہے؟
آمین ثم آمینجب ہم دوسروں کے غم پڑھتے ہیں تو اپنے غم بھول جاتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ اور اہل و عیال کو صبر و استقامت عطا کرے۔ آمین
آہ!نہیں سینئیر ایکٹیوٹی سنٹر نہیں۔۔۔ 18 سے لے کر اوپر تک ہر عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ جو زیادہ تر اکیلے ہوتے ہیں اور کسی قسم کے کام میں یا صرف وقت گزارنے کی حد تک آتے ہیں۔
ایکٹیوٹیز مختلف قسم کی ہیں سٹچنگ، ہینڈ نٹنگ، مشین نٹنگ، بیڈ ورک، پیچ ورک، پینٹنگ، ٹیکسٹیل پینٹنگ، ککنگ۔ کمپیوٹر، میوزک، ڈانس ایکسر سائز اور decoupage وغیرہ ہیں۔
ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ 8 لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بندے کی نگرانی میں جس کا کام انھیں سکھانا ہوتا ہے یا اس سلسلہ میں مدد کرنی ہوتی ہے، اور یہی رول ہم سرانجام دیتے ہیں۔
ہفتے میں دو یا تین کلاسز ہوتی ہیں ہماری۔ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ زیادہ تر خواتین ہیں کیونکہ جو جینٹس ہیں وہ زیادہ تر کمپیوٹر اور گارڈننگ وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ہماری دلچسپی کیسے ہوئی۔۔۔ اس بارے تھوڑا بتاتے چلیں تو شاید آپ ہمارے اس جنون کو سمجھ جائیں۔
امی ابو کی وفات کے بعد ہمیں شدید ڈپریشن ہوا۔ ابو جان کی وفات پہلے ہوئی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت وہ پاکستان تھے کچھ زمین کے معاملات نمٹانے کے لئے جو دادا جان کی وفات کے بعد ان پر آ پڑے تھے۔ ہم نہیں جا پائے۔ یا شاید یہاں بھی "لاڈ پیار" ہی آڑے آیا کہ کیسے برداشت کرے گی گُل۔ اس سے پہلے دادا جان کی بھی ڈیتھ ہوئی، جس وقت شدید بیمار تھے تو پوچھا گیا ان سے کہ گُل کو بلا دیں۔۔۔ بنا ملے چلے گئے، اپنی طرف سے سب ہمارے لئے اچھا کر رہے تھے کہ ہمارے نازک دل پہ کوئی ٹیس نہ لگے، مگر ہر بار ایک کسک سی دل میں رہ جاتی، پھر یوں ہوا کہ ہم امی جان کے ساتھ پاکستان گئے تھے۔ امی جان کو ابھی رہنا تھا وہاں جبکہ ہمیں آنا تھا واپس۔ تو ہم نے کہا کہ چار ماہ بعد آ کر آپ کو واپس لے جائیں گے۔ بیمار تو تھیں نہیں امی جان۔ چاتھا مہینہ ختم ہونے کا آخری دن تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور کزن نے بتایا کہ تائی اماں نہیں رہیں۔
بھائیوں کو اور ہمیں جیسے جیسے فلائیٹ ملی، پہنچے ۔ وہ دن ہمارے "جھلے" اور "لاپرواہ" دکھنے کا آخری دن تھا۔ جس وقت جنازہ اٹھایا جانا تھا۔۔۔ تو سب سے بڑے بھائی ہمارے پاس کھڑے تھے، اور جیسے بالکل ٹوٹے ہوئے۔۔۔نجانے کیسا وقت اور کیسا احساس تھا کہ ہم نے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دیا اور کہا "امی جان کو جانے دیں ، ابو جی انتظار میں ہوں گے۔"
پھر تو رونا جیسے ہم نے اپنے اوپر حرام کر لیا کہ بھائی لوگ نہ پریشان ہوں ۔ جو لاڈ پیار ہم ان سے لیتے آئے تھے، وہ لوٹانے کا وقت آ گیا تھا۔ بہت حساس طبیعت پائی ہے ہم نے مگر جو بھی آنسو ہوتے آنکھوں سے نہ ٹپکنے دئیے۔۔۔ بس دل میں گرتے رہے۔اور ایک دن پیمانہ لبریز ہو گیا برداشت کا، چیخنا اور دیواروں سے سر ٹکرانا ۔ واپس آنے کے بعد ظاہر ہے کہ امی جان نظر نہ آتی تھیں۔ بند کمرہ ، پردے گرائے بس یونہی وقت گزرتا، ہسپتال ایڈمٹ کئی کئی ہفتے، اینٹی ڈیپریشن صحت بگاڑنے لگے۔ اس دوران جو سب سے برا تجربہ ہمیں ہوا وہ خود کو زمین اور آسمان کے بیچ معلق محسوس کرنا تھا۔ اس میں چار سے پانچ دن گزرجاتے اور ہمیں سمجھ نہ آتی تھی کہ ہم زمین پر ہیں یا زمین اور آسمان کے بیچ لٹکے ہوئے ہیں۔ اور پھر یہ کیفیت ختم ہو جاتی آہستہ آہستہ۔ خوفناک سی تھی ۔۔ جب بندہ خود کو کہیں موجود ہی نہ پا رہا ہو۔
ہسپتال میں ہی کئی مریض ایسے نظر آئے کہ اپنی بازوکی نسیں کاٹی ہوئی ہیں۔ زندگی سے مایوس لوگ۔ دردناک حالت میں دیکھے لوگ۔خود کو ایسی جگہ ہاسپٹل میں دیکھ کر سوچا کہ گُل کیوں ہے یہاں؟ اللہ پاک نے بہت کرم کیا اور ہمارے دل میں سورت رحمٰن معہ ترجمہ سننے کی خواہش ہوئی۔ اور ہم اس حقیقت کو پا گئے کہ "تو تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے" پھر ہر کام ہر بات میں بس یہی ورد جاری رکھا اور پر توجہ مرکوز رکھی۔ ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ واضح تبدیلی صحت میں ہوئی۔ اور ہم نے ایکٹیویٹی سینٹر میں جانا شروع کیا ۔ تا کہ دیکھ سکیں کیا کچھ ہے وہاں۔
شاید دو تین مہینے ہی گزرے، تب ہم نے پہلی بار پیچ ورک شروع کیا تھا۔ اور اندازہ ہوا تھا کہ ڈپریشن میں بہت مدد گار ہے۔ سوچوں کو ایک جگہ مرکوز کرنے میں بہت مدد دیتا ہے۔
ہمارے مشاغل تو آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں کسی نہ کسی لڑی میں۔ تو وہاں بھی یہ حال تھا۔ کہ سب کو دیکھنا ہوتا تھا ہم نے نیا کیا بنایا ہے۔ ہمیں اچھا محسوس ہونے لگا اور پھر وہاں جو ہماری ٹیچر تھی ، اس نے پوچھا کہ میری مدد گار بن سکتی ہو؟ ہم نے ہاں کر دی۔ دو مہینے اس کے ساتھ ہی کلاس لی۔ پھر ہمارا الگ گروپ بنا دیا گیا۔ گروپ میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ 25 سے لے کر 87 سال تک کی خواتین ہیں۔ کچھ تو معذور ہیں اور اپنی زندگی کے آخری دن یوں کسی طرف دھیان لگا کر گزار رہی ہیں۔ کچھ ویسے بیمار ہیں تو کبھی صرف دیکھنے کے لئے بیٹھی رہتی ہیں۔ دو کو کینسر ہے ۔۔ ایک کی تو ڈیتھ ہو گئی۔ جو تین چار گھنٹے ان کے ساتھ گزرتے ہیں، یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے سکیں۔ کسی کو اچھے سامع کی ضرورت ہوتی ہے، کسی کو ویسے کسی کی توجہ چاہئیے ہوتی ہے۔ بس اپنائیت دینا بہت حوصلے کا کام ہوتا ہے جب کہ انسان خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔ اسی دوران بھائی کی بھی وفات ہو گئی۔ اچانک ہی معلوم ہوا کہ انھیں کینسر ہے۔اٹلی میں تھے اس وقت جب معلوم ہوا مگر پھر بھابی کی خواہش پہ پاکستان چلے گئے اور تین ہفتوں میں وفات پا گئے۔ آخری دن انھیں ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ بس آج کا دن ہے جس سے بات کرنا چاہتے ہو کر لو۔ ہمیں کال کی انھوں نے۔ اور بہت حوصلے سے بات کرتے رہے خوش خوش۔ اور ہمیں تسلی دیتے رہے کہ میں علاج کروا رہا ہوں اور بالکل ٹھیک ہوں اب۔ ہم بھی یقین کر بیٹھے کہ اب اتنے اچھے سے بات کر رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہیں۔ چند گھنٹے ہی گزرے کہ وہ خبر آئی جس کا سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی بھی ان کا وہ خوشگوار سا لہجہ کانوں میں گونجتا ہے اور ہم یہی سوچتے ہیں کہ معلوم ہو جانے کے بعد اتنا مطمئن کیسے رہ سکتا ہے انسان۔ بہت زندہ دل تھے، ہر وقت ہمیں ستاتے رہنا۔ اور دوسرے بھائیوں سے ڈانٹ کھانا۔
بتانے کا مقصد یہ کہ جو ہم اپنوں کے لئے نہیں کر پائے ان کی خدمت کی صورت۔۔۔ تو اب ان خواتین کے لئے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں۔ اور سو فیصد اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے ہے ۔ رضاکارانہ طور پر ہے۔ اس کے بدلے ہمارا صلہ اللہ پاک کے پاس محفوظ ہو رہا ہے اور وہی ہمارا آخرت سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ باقی نماز روزہ تو فرضی عبادات ہیں وہ تو کرنی ہی کرنی ہیں حسبِ ہدایت۔ چند گھڑیوں کی خوشی دے کر اپنا دل بھی خوش ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک توفیق دئیے رکھے اور ہمت بھی۔۔۔ آمین۔
اس ایکٹیویٹی سینٹر میں کرسمس سےتین مہینے پہلے کچھ مختلف کرافٹس بنانا شروع کرتے ہیں۔ جو دسبر میں فروخت کئے جاتے ہیں اور وہ رقم انھی پر کسی پارٹی یا کسی اور تفریح پر استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دنیا بسی ہوئی ہے یہاں بھی۔۔۔ کئی بار جاؤ صبح تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک نہیں رہا۔۔۔ ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اپنا چلا گیا۔ بہت لگاؤ ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ بس اب زندگی کا یہی ایک مقصد ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک کی محبت اور ہر نعمت کو محسوس نہ کر پاتے تو شاید نیک راہ نہ پاتے جو فلاح کی طرف لے جانے کا سبب بنی۔
پاگل ہو جاتے ورنہ
تن من میرا پرزے پرزے جیویں درزی دیاں لیراں ھُو
ایناں لیراں دی یارو گل کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ھُو
اور اب محفل ہے ساتھ میں تو یہاں ہنس بول کر کافی انرجی مل جاتی ہے ۔
پہلے اتنی لمبی لڑی پڑھوں؟ابھی تک نور وجدان بہن نے مشکل والے سوالات نہیں پوچھے۔
آپ سوال داغیں، باقی کا دیکھا جائے گاپہلے اتنی لمبی لڑی پڑھوں؟
گل کے دھاگے اس لیے نہیں پڑھ سکتی کہ کافی لمبے ہوتے ہیں اور اک صفحہ پڑھ کے محفل بند ہو جاتی. اور کوئ دھاگہ چل نہیں رہا ہوتا تو میں اب کرتی ہوں سوال پہلا صفحہ پڑھ کے. باقی اللہ والا کوئ اگلے صفحات کا خلاصہ دے دے تو بڑی بات ہوگی
بے فکر رہیں۔ آپ والے سوالات کسی نے نہیں پوچھے ہوں گے۔پہلے اتنی لمبی لڑی پڑھوں؟
گل کے دھاگے اس لیے نہیں پڑھ سکتی کہ کافی لمبے ہوتے ہیں اور اک صفحہ پڑھ کے محفل بند ہو جاتی. اور کوئ دھاگہ چل نہیں رہا ہوتا تو میں اب کرتی ہوں سوال پہلا صفحہ پڑھ کے. باقی اللہ والا کوئ اگلے صفحات کا خلاصہ دے دے تو بڑی بات ہوگی
ہارن دے کر پاس کرے ورنہ برداشت کرے ۔۔۔۔۔۔۔ہم سادہ دل لوگ۔۔۔ سادہ دلی سے ہر بات کا جواب دئیے جاتے ہیں۔ جس کے بس میں ہو کیچ کرے جس کے بس میں نہ ہو۔۔۔ گزر جانے دے۔
یعنی کہ آپ نے ٹرکوں والی شاعری بھی پڑھ رکھی ہےہارن دے کر پاس کرے ورنہ برداشت کرے ۔۔۔۔۔۔۔
The most importantمستقبل کے کیا اردے ہیں ۔
سوزوکی تجھے قسم ہے ہمت نہ ہارنا جتنے بھی جمپ آئیں ہنس کر گذارنایعنی کہ آپ نے ٹرکوں والی شاعری بھی پڑھ رکھی ہے
اسکی گواہ ہماری سماعتیں ہیں ۔۔۔۔۔ورنہ تو ہم بھی ابھی کم سنی میں ہیں ماشااللہ