محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
عجیب۔۔۔!میرا نام تجویز کرنے والی ہستی میری دادی اور مزے کی بات یہ کہ وہ بھی شاعرہ
عجیب۔۔۔!میرا نام تجویز کرنے والی ہستی میری دادی اور مزے کی بات یہ کہ وہ بھی شاعرہ
شکر کریں کہ "شاعر " ہی کہلاتے ہیںمگر یہ بھی تو قربِ قیامت کی نشانی ہے کہ میں اور اسامہ سرسری بھی اس زمانے میں شاعر کہلاتے ہیں!!! سو کہا تو اب کچھ بھی جا سکتا ہے!
اسمیں عجیب کیا؟؟؟؟عجیب۔۔۔ !
جبھی آپ کے نام کے دونوں جز بکثرت اشعار میں پائے جاتے ہیں۔
عجیب۔۔۔ !
اسمیں عجیب کیا؟؟؟؟
واہ واہ! بہت خوب بہنا۔ بہت خوب۔ اسی دن کا انتظار تھا! عینی شاہ کے بعد، آخر میں نے آپ کو بھی شاعری پر لگا ہی دیا!!سرسری ذکر کو سرسری طور پر ہم نے جانے دیااور گم کردیا ،ڈبہ بند کردیا ، ٹھیک کاشف بھیا؟؟؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کہانی میں کہانی کار نے نصیبن بُوا کو مخاطب کیا ہے یا چندن بُوا کو؟؟؟؟کہانی کار نے بات پھر وہیں سے شروع کی جہاں دم لینے کو رکا تھا۔
’’۔۔۔ اے لو! دیکھا آپ نے بوا؟ آج کل کے لمڈے بڑے بڑوں کے کان کاٹتے ہیں! کیا ہمارا زمانہ ہوتا تھا، ائے ہئے! ایک سے ایک آگے ہے آج کل۔ اے، یہ کل کی لڑکیاں بات کرتی ہیں تو دیدے بھی پھاڑ کے کرتی ہیں منہ پھٹ کہیں کی۔ اور بوا! ہمیں تو یہ کہتے بھی لاج آتی ہے کہ یہ لمڈے! توبہ توبہ توبہ، دیدے پھٹے رکھتے ہیں ہر وقت۔ اب ہمارا منہ اور مت کھلوائیے۔‘‘ نصیبن بوا کی بات شیطان کی آنت کو بھی مات دے گئی۔ چندن بوا نے کتنی جمائیاں لی اور جان بوجھ کے منہ سے لمبی سی ’’آ ا ا ا‘‘ بھی نکالی، اپنے ناخونوں سے بھی کھیل کے دکھایا پر منہ سے کچھ نہ کہا، کہ ’بوا ہمارے دماغ کی دہی تو بن چکی، اب کیا لسی بنائیے گا؟‘۔ چندن بوا کی یہی خاموشی اُن کا قصور ٹھہری۔ بڑی بوا نے جو یہ جانا کہ ’واں ایک خامشی ہے ۔۔۔ ‘ تو بہت جزبز ہوئیں۔ ’’آپ‘‘ سے ایک دم ’’تو‘‘ پی اتر آئیں: ’’اے سنتی نہیں کیا؟ ہم تجھ سے بات کر رہے ہیں، دیواروں سے نہیں۔ پر تُو بھی تو دیوار ہے سدا کی۔ اے لو، کوئی آج کی بات تھوڑی ہے۔ اے ہے، لڑکی! کچھ منہ سے تو پھوٹ! کیا اپنے ہی ناخونوں کا خون کئے دے رہی ہے ۔۔۔ ‘‘
کہانی کار نے سر اٹھا کے دیکھا تو وہاں تھا ہی کوئی نہیں۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔ فی البدیہہ
۔۔
اس "بے تکی تک بندی " کو شاعری کہہ کر شاعری کی توہین تو نہ کریں کاشف بھائیواہ واہ! بہت خوب بہنا۔ بہت خوب۔ اسی دن کا انتظار تھا! عینی شاہ کے بعد، آخر میں نے آپ کو بھی شاعری پر لگا ہی دیا!!
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کہانی میں کہانی کار نے نصیبن بُوا کو مخاطب کیا ہے یا چندن بُوا کو؟؟؟؟
کاشف بھائی آج سے آپ کو نام ”شاعرہ ساز“ ہے۔واہ واہ! بہت خوب بہنا۔ بہت خوب۔ اسی دن کا انتظار تھا! عینی شاہ کے بعد، آخر میں نے آپ کو بھی شاعری پر لگا ہی دیا!!
یہ تو ہم نے بھی نہیں پوچھا، بوا! پر، ایک بات تو ہے، چلو کہنے کی حد تک ہی سہی کہ مخاطب کسی کو بھی کیا ہو، نصیبن بوا ہوں کہ چندن بوا، کہیں گی یہی کہ:
’’اے لو! بوا، سنا تم نے؟ نگوڑا کیا کہہ گیا تمہیں!؟‘‘
ایسی شاگردہء رشیدہ تو استاد جی کا نام روشن تو کیا کریں گی ، لٹیا ہی ڈبو دیں گیکاشف بھائی آج سے آپ کو نام ”شاعرہ ساز“ ہے۔
اس "بے تکی تک بندی " کو شاعری کہہ کر شاعری کی توہین تو نہ کریں کاشف بھائی
بجا ارشاد فرمایا ، اب میں آرام سے انتہائی بے تکی تک بندی کرتے ہوئے نہیں ڈروں گیہاہاہا۔ تک بندی دیکھنی ہے، تو یہاں دیکھیں۔ اس کے بعد آپ کو کبھی کسی بات میں شاعری کی توہین نظر نہیں آئے گی!!
ڈرنے والوں سے ہم نہیں! آپ کیا سمجھیں، صرف نام کے "استاد" ہیں؟؟ایسی شاگردہء رشیدہ تو استاد جی کا نام روشن تو کیا کریں گی ، لٹیا ہی ڈبو دیں گی
سوچ لیں اور توبہ کرلیں فوراً استادی سے کاشف عمران
یہ ہوئی نہ بات!بجا ارشاد فرمایا ، اب میں آرام سے انتہائی بے تکی تک بندی کرتے ہوئے نہیں ڈروں گی
او ہو۔۔۔۔ بہنا کو اچھے نہیں لگے؟ سن کر دل خفا ہوا آپ کے لئے آج ایک غزل پوسٹ کروں گا، ہو سکتا ہے آپ کو اچھی لگ ہی جائے۔نہیں یہ اچھے نہیں لگے
بیگم کو سنائی تھی، بس اتنا جواب ملا کہ کیا کروں دودھ والا آج کل دودھ ہی اچھا نہیں لا رہا، چائے کا رنگ کیا خاک نکھرے گا؟بیگم کوجوسب کچھ بتا دو تو مزہ آ جائے
پھر سر پر چمٹے کے جلترنگ کا مزہ آ جائے
شکر ہے کوئی تو سمجھا معرفت کی بات کو
پہلا شعر مردوں کا پسندیدہ
دوسرا خواتین کا پسندیدہ
امجد علی راجا نے دونوں کو ایک ساتھ خوش کرنے کی کوشش کی ہے