محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
یعنی "ہمیں غم ملا ہمیشہدوسرے یہ کوئی نیا نہیں پرانا ٹرول معلوم ہوتا ہے
آخری تدوین:
یعنی "ہمیں غم ملا ہمیشہدوسرے یہ کوئی نیا نہیں پرانا ٹرول معلوم ہوتا ہے
یہ راز ہے راز ہی رہنے دیںمیں نے وہ نام نہیں پڑھے، تدوین سے قبل کچھ لوگوں نے پڑھے ہونگے، تدوین کے بعد اب کوئی بھی ان کو نہیں دیکھ سکتا، سو یہاں کے "مہا کسوٹیوں" کو بلائیے اور کسوٹی کھیلیے کہ وسیم صاحب نے کس کس"ہستی" کا ذکر شریف کیا تھا۔
ان دنوں انٹرنیٹ پر یونیکوڈ نیا نیا تھا۔ Internationalization اور localization کوئی آسان کام نہ تھا کہ سافٹویر میں اس سب کی سپورٹ کم کم ہی تھی اور جو تھی وہ بھی جگاڑ سٹائل۔
ان مسائل سے نمٹتے ہوئے کچھ اردو بلاگرز میں بات چیت شروع ہوئی اور اپنی مدد آپ کے تحت کچھ ریسورسز اردو کے لئے بنانے کا سوچا گیا۔ ایک وکی جس پر تکنیکی معلومات اکٹھی ہوں۔ ایک بلاگ جس پر اردو کمپیوٹنگ وغیرہ سے متعلق پوسٹس ہوں۔ اور پھر اردو سیارہ جو اردو بلاگز کا aggregator تھا اور اردو بلاگرز کو اکٹھا کرنے اور انہیں بڑی audience دینے میں مددگار ہو سکتا تھا۔
جب یہ سب ہوا تو سوچا کہ اسے ایک ڈومین پر اکٹھا کر دیا جائے۔ یوں اردوویب کا آغاز ہوا۔
میری ذاتی رائے میں اردو محفل کا وژن وہی رہنا چاہئے جو روزِ اول تھا اور اردو ویب کی تخلیق کا باعث بنا اور جس کا پس منظر آپ نے اپنے مراسلہ میں مختصراً بیان کیا ۔ یعنی ان تمام تکنیکی معلومات اور وسائل کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا کہ جو ڈیجیٹل عہد میں اردو کی ترقی اور ترویج میں مدد گار بن سکیں ۔ بیشک اردو ویب نے اس سلسلے میں ایک تاریخی اور معرکۃ الآرا کردار ادا کیا ہے ۔ اگرچہ انٹرنیٹ پر اردو لکھنے اور شائع کرنے کے بنیادی مسائل حل ہوچکے ہیں ، بہت سارے تکنیکی وسائل ایجاد کیے جاچکے ہیں لیکن مشن ابھی مکمل نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مقام پرٹھہر جانے یا آہستہ ہوجانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیئے۔ تکنیکی ترقی کو اس منزل تک لے جانے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ جہاں اس وقت انگریزی زبان کھڑی ہے ۔ کم از کم ترقی کا خواب یہی ہونا چاہیئے کہ ہر وہ کام جو انگریزی زبان میں ممکن ہے اردو میں بھی کیا جاسکے۔ چند ٹولز جو بطور مثال اس وقت ذہن میں آرہے ہیں وہ یہ ہیں:بات یہ نہیں کہ ماضی حال سے بہتر تھا۔ ماضی کے اور مسائل تھے اور ان چیلنجز کو لے کر ہم نے اردوویب کو کھڑا کیا تھا۔ اب ہم اس دور سے نکل چکے ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اتنے سالوں میں بہت بدل گیا ہے۔ اب ہمیں یعنی تمام محفلین کو سوچنا ہے کہ اردو محفل کا وژن کیا ہے۔ ہم محفل سے کیا چاہتے ہیں؟ اس کا فوکس کن چیزوں پر ہونا چاہیئے؟
یہ بات واقعی نئے آنے والوں کو تو کیا پرانے لوگوں کو بھی سنجیدہ مضامین پڑھنے کے لیے مشکل کا سبب بنتی ہے، منتظمین نے بھی یقیناً ان باتوں پر ضرور سوچا ہو گا ایک میری حقیر سی رائے ہے اگر اس طرح ہو جائے تو میرا خیال ہے کہ کچھ حد تک مسائل ضرور حل ہو سکتے ہیں وہ یہ کہ زمروں کی درجہ بندی کر کے دو کالمز میں تقسیم کر دیا جائے سنجیدہ موضوعات ایک کالم میں ہر وقت سر ورق موجود رہیں گے اور دوسرے کالم میں کھیل کود اور سیاست وغیرہ کے زمرے بھیاس کے علاوہ ایسا کوئی نظام بھی وضع کرنا چاہیئے کہ کھیل کود ، سیاست اور گپ شپ کے دھاگے خود بخود نیچے چلے جائیں اور مفید و کارآمد دھاگے اوپر رہیں
میں ان تمام باتوں سے متفق ہوںمیری ذاتی رائے میں اردو محفل کا وژن وہی رہنا چاہئے جو روزِ اول تھا اور اردو ویب کی تخلیق کا باعث بنا اور جس کا پس منظر آپ نے اپنے مراسلہ میں مختصراً بیان کیا ۔ یعنی ان تمام تکنیکی معلومات اور وسائل کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا کہ جو ڈیجیٹل عہد میں اردو کی ترقی اور ترویج میں مدد گار بن سکیں ۔ بیشک اردو ویب نے اس سلسلے میں ایک تاریخی اور معرکۃ الآرا کردار ادا کیا ہے ۔ اگرچہ انٹرنیٹ پر اردو لکھنے اور شائع کرنے کے بنیادی مسائل حل ہوچکے ہیں ، بہت سارے تکنیکی وسائل ایجاد کیے جاچکے ہیں لیکن مشن ابھی مکمل نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مقام پرٹھہر جانے یا آہستہ ہوجانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیئے۔ تکنیکی ترقی کو اس منزل تک لے جانے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ جہاں اس وقت انگریزی زبان کھڑی ہے ۔ کم از کم ترقی کا خواب یہی ہونا چاہیئے کہ ہر وہ کام جو انگریزی زبان میں ممکن ہے اردو میں بھی کیا جاسکے۔ چند ٹولز جو بطور مثال اس وقت ذہن میں آرہے ہیں وہ یہ ہیں:
- قابلِ اعتماد اردو او سی آر سافٹ ویئر ( تاکہ نادر و نایاب کتب کو زندہ کیا جاسکے ۔ اردو زبان کی ترقی کے لئے ان کتب کی عام دستیابی بہت اہم ہے) ۔
- اسپیچ ٹو ٹیکسٹ سافٹ ویئر۔ یہ پروگرام دفتروں ، ہسپتالوں اور کاروباری اداروں وغیرہ میں اردو کی ترویج میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
- اردو کی تصویری لغت ( تاکہ برصغیر کا معدوم ہوتا ہوا تہذیبی ورثہ آئندہ نسلوں کے لئےمحفوظ کیا جاسکے)۔
- انٹرنیٹ پر اردو عام ہونے کی وجہ سے املا اور گرامر کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ اردو کے مستقبل کے لئے خوش آئند نہیں ہیں ۔ نئی نسل ان اغلاط سے بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ چنانچہ اردو اسپیل چیکر اور گرامر چیکر پروگراموں کی تیاری اور ان کو ویبگاہ پر فعال بنانے کے طریقۂ کار پر کام کرنا بھی ضروری ہے ۔
ان تکنیکی وسائل کے علاوہ اردو کی لسانی ترقی اور تہذیب پر توجہ دینا بھی بہت ضروری ہے تاکہ اردو میں انگریزی کے روز افزوں دخل کی روک تھام کی جاسکے ۔ میرا یہ مراسلہ اس کی ایک زندہ مثال ہے کہ اس میں کوئی بھی جملہ انگریزی لفظ کے کے بغیر مکمل نہیں ۔ یہ کام اردو دانوں اور لسانیات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کا ہے ۔ویسے تو یہ کام جامعات یاحکومتی اداروں کا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس طرف توجہ کم ہے ۔ مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ اس طرح کے کام کچھ محبانِ اردو تعلیمی اداروں اور سرکاری دفتروں کی مدد کے بغیر ہی انجام دیتے آئے ہیں ۔ اس کام کے لئے ضروری ہے کہ اردو محفل کے عمومی ماحول کو ان سنجیدہ کاموں کے لئے سازگار بنایا جائے تاکہ اہلِ علم اس طرف کا رخ کریں اور اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں ۔ یہ ازحد ضروری ہے کہ اردو محفل کا عمومی ماحول فیس بک اور دیگر سماجی پلیٹ فارمز سے الگ رکھا جائے ہے ۔ بے کار سیاسی لڑیوں اور بے مقصد دھاگوں کی بھرمار سے اراکین متنفر ہوجاتے ہیں اور آنا بند کردیتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی سنجیدہ پراجیکٹ کس طرح جاری رکھا جاسکتا ہے ۔ پچھلے ایک دو سالوں سے ٹرولنگ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ اس کی روک تھام ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں میری چند تجاویز یہ ہیں ۔ اراکین کے نام صرف اردو میں ہونے چاہئیں ۔ رکنیت اختیار کرنے والے پر لازم ہو کہ سب سے پہلے وہ تعارف کا دھاگا شروع کرے اور اس میں وہ اپنا اصل نام ضرور بتائے ۔ تعارف کے دھاگے میں انتظامیہ ایک مختصر سوالنامہ بصورت چیک باکس شامل کرسکتی ہے جس میں رکن اپنی دلچسپیوں کے زمرے چیک مارک کرے ۔ یہ پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے کہ سال چھ مہینے میں کم ازکم کم ایک مراسلہ کرنا ضروری ہے ورنہ رکنیت غیر فعال ہوجائے گی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ ایسا کوئی نظام بھی وضع کرنا چاہیئے کہ کھیل کود ، سیاست اور گپ شپ کے دھاگے خود بخود نیچے چلے جائیں اور مفید و کارآمد دھاگے اوپر رہیں ۔ یقین جانیے میں نے اپنے کئی دوستوں کو رکنیت اختیار کرنے کے لئے کہا لیکن وہ شروع کے دو صفحات کے عنوانات دیکھ کر ہی بھاگ گئے اور کہنے لگے کہ اگر یہاں بھی یہی کچھ ہے تو پھر فیس بک میں کیا برائی ہے ۔ نجانے اور کتنے لوگ اسی طرح دیکھ کر بھاگ جاتے ہوں گے ۔
اور بھی بہت سی باتیں ذہن میں آرہی ہیں لیکن اس وقت بہت رات ہوگئی ہے یہاں ۔ ہوسکتا ہے کہ مندرجہ بالا نکات پر گفتگو آگے بڑھے اور مزید کچھ لکھنا کا موقع ملے۔
ورڈ میں اردو سمیت لگ بھگ تمام بڑی زبانیں لکھنے کی سہولت تو موجود ہے۔ اگر اس سے بہتر ٹائپ سیٹنگ کی ضرورت ہو تو XeTeX استعمال کیا جا سکتا ہے۔ایسے اردو سوفٹویر کی ضرورت ہے جس میں وہ تمام کام ہوسکیں جو ورڈ میں ہوتے ہیں.
درخواست : جو بھی اردو محفل کی پالیسی یا پرائیویسی میں تبدیلی کی جائے ایک پرائیویسی پالیسی کے صفحہ پر لکھ دیا جائےمیری ذاتی رائے میں اردو محفل کا وژن وہی رہنا چاہئے جو روزِ اول تھا اور اردو ویب کی تخلیق کا باعث بنا اور جس کا پس منظر آپ نے اپنے مراسلہ میں مختصراً بیان کیا ۔ یعنی ان تمام تکنیکی معلومات اور وسائل کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا کہ جو ڈیجیٹل عہد میں اردو کی ترقی اور ترویج میں مدد گار بن سکیں ۔ بیشک اردو ویب نے اس سلسلے میں ایک تاریخی اور معرکۃ الآرا کردار ادا کیا ہے ۔ اگرچہ انٹرنیٹ پر اردو لکھنے اور شائع کرنے کے بنیادی مسائل حل ہوچکے ہیں ، بہت سارے تکنیکی وسائل ایجاد کیے جاچکے ہیں لیکن مشن ابھی مکمل نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مقام پرٹھہر جانے یا آہستہ ہوجانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیئے۔ تکنیکی ترقی کو اس منزل تک لے جانے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ جہاں اس وقت انگریزی زبان کھڑی ہے ۔ کم از کم ترقی کا خواب یہی ہونا چاہیئے کہ ہر وہ کام جو انگریزی زبان میں ممکن ہے اردو میں بھی کیا جاسکے۔ چند ٹولز جو بطور مثال اس وقت ذہن میں آرہے ہیں وہ یہ ہیں:
- قابلِ اعتماد اردو او سی آر سافٹ ویئر ( تاکہ نادر و نایاب کتب کو زندہ کیا جاسکے ۔ اردو زبان کی ترقی کے لئے ان کتب کی عام دستیابی بہت اہم ہے) ۔
- اسپیچ ٹو ٹیکسٹ سافٹ ویئر۔ یہ پروگرام دفتروں ، ہسپتالوں اور کاروباری اداروں وغیرہ میں اردو کی ترویج میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
- اردو کی تصویری لغت ( تاکہ برصغیر کا معدوم ہوتا ہوا تہذیبی ورثہ آئندہ نسلوں کے لئےمحفوظ کیا جاسکے)۔
- انٹرنیٹ پر اردو عام ہونے کی وجہ سے املا اور گرامر کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ اردو کے مستقبل کے لئے خوش آئند نہیں ہیں ۔ نئی نسل ان اغلاط سے بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ چنانچہ اردو اسپیل چیکر اور گرامر چیکر پروگراموں کی تیاری اور ان کو ویبگاہ پر فعال بنانے کے طریقۂ کار پر کام کرنا بھی ضروری ہے ۔
ان تکنیکی وسائل کے علاوہ اردو کی لسانی ترقی اور تہذیب پر توجہ دینا بھی بہت ضروری ہے تاکہ اردو میں انگریزی کے روز افزوں دخل کی روک تھام کی جاسکے ۔ میرا یہ مراسلہ اس کی ایک زندہ مثال ہے کہ اس میں کوئی بھی جملہ انگریزی لفظ کے کے بغیر مکمل نہیں ۔ یہ کام اردو دانوں اور لسانیات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کا ہے ۔ویسے تو یہ کام جامعات یاحکومتی اداروں کا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس طرف توجہ کم ہے ۔ مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ اس طرح کے کام کچھ محبانِ اردو تعلیمی اداروں اور سرکاری دفتروں کی مدد کے بغیر ہی انجام دیتے آئے ہیں ۔ اس کام کے لئے ضروری ہے کہ اردو محفل کے عمومی ماحول کو ان سنجیدہ کاموں کے لئے سازگار بنایا جائے تاکہ اہلِ علم اس طرف کا رخ کریں اور اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں ۔ یہ ازحد ضروری ہے کہ اردو محفل کا عمومی ماحول فیس بک اور دیگر سماجی پلیٹ فارمز سے الگ رکھا جائے ہے ۔ بے کار سیاسی لڑیوں اور بے مقصد دھاگوں کی بھرمار سے اراکین متنفر ہوجاتے ہیں اور آنا بند کردیتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی سنجیدہ پراجیکٹ کس طرح جاری رکھا جاسکتا ہے ۔ پچھلے ایک دو سالوں سے ٹرولنگ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ اس کی روک تھام ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں میری چند تجاویز یہ ہیں ۔ اراکین کے نام صرف اردو میں ہونے چاہئیں ۔ رکنیت اختیار کرنے والے پر لازم ہو کہ سب سے پہلے وہ تعارف کا دھاگا شروع کرے اور اس میں وہ اپنا اصل نام ضرور بتائے ۔ تعارف کے دھاگے میں انتظامیہ ایک مختصر سوالنامہ بصورت چیک باکس شامل کرسکتی ہے جس میں رکن اپنی دلچسپیوں کے زمرے چیک مارک کرے ۔ یہ پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے کہ سال چھ مہینے میں کم ازکم کم ایک مراسلہ کرنا ضروری ہے ورنہ رکنیت غیر فعال ہوجائے گی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ ایسا کوئی نظام بھی وضع کرنا چاہیئے کہ کھیل کود ، سیاست اور گپ شپ کے دھاگے خود بخود نیچے چلے جائیں اور مفید و کارآمد دھاگے اوپر رہیں ۔ یقین جانیے میں نے اپنے کئی دوستوں کو رکنیت اختیار کرنے کے لئے کہا لیکن وہ شروع کے دو صفحات کے عنوانات دیکھ کر ہی بھاگ گئے اور کہنے لگے کہ اگر یہاں بھی یہی کچھ ہے تو پھر فیس بک میں کیا برائی ہے ۔ نجانے اور کتنے لوگ اسی طرح دیکھ کر بھاگ جاتے ہوں گے ۔
اور بھی بہت سی باتیں ذہن میں آرہی ہیں لیکن اس وقت بہت رات ہوگئی ہے یہاں ۔ ہوسکتا ہے کہ مندرجہ بالا نکات پر گفتگو آگے بڑھے اور مزید کچھ لکھنا کا موقع ملے۔
یقین جانیے میں نے اپنے کئی دوستوں کو رکنیت اختیار کرنے کے لئے کہا لیکن وہ شروع کے دو صفحات کے عنوانات دیکھ کر ہی بھاگ گئے اور کہنے لگے کہ اگر یہاں بھی یہی کچھ ہے تو پھر فیس بک میں کیا برائی ہے ۔
مکھی مارنا بھی اک "فن " ہےتجاویز سے کیا ہونا ہے۔ پرانے زمانے میں پنڈ میں چوپال ہوتی تھی کوئی بھی جا کر بیٹھ جاتا تھا اور شامل گفتگو ہو جاتا تھا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے، اپنی بیٹھک میں چند لوگ بلا کر چوپال سجا لیتے ہیں۔ نئے آنے والے پنڈ میں درخت کے نیچے بیٹھ کر مکھیاں مارتے رہتے ہیں( اور سمجھتے ہیں ہم بھی ہیں پانچ سواروں میں)
اگر کوئی لب کشائی کرنے کی جسارت کرے تو اسے پنڈ کا ماحول خراب کرنے کے جرم میں کھڈے لائین لگا دیتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کو کہتے پھرتے ہیں
ہن او گلاں نئی ریاں
متفق۔میری (غیر مقبول) رائے یہ ہے کہ اردو کی لسانی ترویج میں حائل ایک بڑی رکاوٹ اہل اردو کا تکنیکی اصطلاحات اور جدید ایجادات کے ناموں کے اردو ترجمے پر اصرار ہے ۔۔۔ جو کبھی کبھار تو مضحکہ خیز حد تک عجیب ہوتا ہے ۔۔۔ آئے دن فیس بک ’’محبانِ اردو‘‘ کی جانب سے چھوڑے گئے اس قسم کے شگوفے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔۔۔ کل ہی کوئی صاحب اصرار فرما رہے تھے کہ سڑکوں پر لگی کیٹ آئیز کو راہ افشاں کہنا چاہیے اور اسٹریٹ لائٹس کو قندیلِ راہ! ۔۔۔ شکر ہے کہ کیٹ آئیز کو عیونِ گربہ کہنے کو نہیں کہا!
پیٹرول پمپ کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ اس کو ایندھن فروش کہنا چاہیے! جیسے کہ پیٹرول پمپس دلی کا دکن میں ایجاد ہوئے تھے!
میرے خیال میں اردو میں سائنسی اور تکنیکی کام تب تک مشکلات کا شکار رہے گا جب تک ہم تکنیکی اصطلاحات کے مضحکہ خیز ترجموں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔ یہاں اس قسم کے معاملات میں ترجمے کے بجائے ’’ٹرانسلٹریشن‘‘ کی روش اپنائی جائے تو اردو میں تحقیق کام کرنا زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔
نبیل بھائی !محفل فورم کو ری بوٹ کرنا ضروری ہے۔ اس کا منصوبہ تو ہم عرصہ دراز سے بنا رہے ہیں، لیکن اس پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آ رہی۔
اگر آپ حیدرآبادی ہوتے تو آپ کا مصرع بگڑنے سے بچ جاتا -یعنی "ہمیں غم ملا ہمیشہصورتنام بدل بدل کے"
نبیل بھائی !
ریبوٹ کی سرگرمی کی ونڈو کا متوقع ڈاؤن ٹائم کتنا ہو گا اور یہ اتنا دشوار کیوں ہے ۔کیا اس کے لیے منصوبہ بندی اتنی دشوار ہے یا کسی اور خطرے کا امکان ہے ؟ اب تک کا حالیہ اپٹائم کتنا ہے ؟کیا یہ دشواری کچھ نئے فیچرز کو اینیبل کرنے کی وجہ سے ہے ؟
لاطینی سے عربی رسم الخط میں ٹرینزلٹریشن کا معیار قائم کرنا خاصا مشکل ہے۔ اس سے بہترشاید یہ ہو کہ انگریزی الفاظ کو latin script میں ہی لکھا جائے ۔میری (غیر مقبول) رائے یہ ہے کہ اردو کی لسانی ترویج میں حائل ایک بڑی رکاوٹ اہل اردو کا تکنیکی اصطلاحات اور جدید ایجادات کے ناموں کے اردو ترجمے پر اصرار ہے ۔۔۔ جو کبھی کبھار تو مضحکہ خیز حد تک عجیب ہوتا ہے ۔۔۔ آئے دن فیس بک ’’محبانِ اردو‘‘ کی جانب سے چھوڑے گئے اس قسم کے شگوفے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔۔۔ کل ہی کوئی صاحب اصرار فرما رہے تھے کہ سڑکوں پر لگی کیٹ آئیز کو راہ افشاں کہنا چاہیے اور اسٹریٹ لائٹس کو قندیلِ راہ! ۔۔۔ شکر ہے کہ کیٹ آئیز کو عیونِ گربہ کہنے کو نہیں کہا!
پیٹرول پمپ کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ اس کو ایندھن فروش کہنا چاہیے! جیسے کہ پیٹرول پمپس دلی یا دکن میں ایجاد ہوئے تھے!
میرے خیال میں اردو میں سائنسی اور تکنیکی کام تب تک مشکلات کا شکار رہے گا جب تک ہم تکنیکی اصطلاحات کے مضحکہ خیز ترجموں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔ یہاں اس قسم کے معاملات میں ترجمے کے بجائے ’’ٹرانسلٹریشن‘‘ کی روش اپنائی جائے تو اردو میں تحقیق کام کرنا زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔
میں تو خوش فہمی میں تھا کہ شاید میں بھی ان چار خوش نصیبوں میں ہوں گا، یعنی مجھ پر بھی شک ہوا ہوگا
آپ نے اس لڑی میں....... کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے کیونکہ آپ کو پتہ تھا کہ اس لڑی میں لوگ آئیں گے. ویسے آپ مجھے آئندہ اپنی شروع کردہ لڑیوں میں ٹیگ کیجیے گا
کوئی خالی جگہ بھر دے
لاطینی سے عربی رسم الخط میں ٹرینزلٹریشن کا معیار قائم کرنا خاصا مشکل ہے۔ اس سے بہترشاید یہ ہو کہ انگریزی الفاظ کو latin script میں ہی لکھا جائے ۔