ہم تبصرہ ارسال نہیں کر سکتے!!

محمد وارث

لائبریرین
مذہب بدلنے سے اتنا اثر ضرور پڑتا ہے کہ مذہب بدل جاتا ہے۔ البتہ قوم بھی بدل جاتی ہے، اسکی سمجھ نہیں آئی۔
ہر مذہب اپنے آپ میں اپنے ماننے والوں کو ایک شناخت دے دیتا ہے جو باقی شناختوں سے الگ ہوتی ہے۔ اگر یہودیوں کے لیے باقی ساری دنیا Gentiles یعنی بے دین اور غیر یہودی اور غیر قوم وغیرہ وغیرہ ہیں تو مسلمانوں کے لیے باقی سارے غیر مسلم۔ یہ دو شناختیں یعنی اہل اور غیر فقط مذہب نے بنا دیں، اور دنیا کا ہر مذہب یہ تقسیم کرتا ہے، جو مذہب اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ یا تو خود ختم اور نیست و نابود ہو جاتا ہے جیسے "دینِ اکبری" یا پھر خود ایک علیحدہ شناخت بن جاتا ہے جیسے "سکھ"۔ امید کچھ بات واضح ہوئی ہوگی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر ایسا ہے تو پاکستان میں طلباء کی ایک تعداد ریاضی سے کبھی متعارف ہی نہیں ہوسکی۔ بیشتر لوگ حسابیات (Arithmetic ) کو ہی کل ریاضی سمجھتے ہیں۔
درست فرما رہے ہیں آپ لیکن کیا کیجیے کہ یہاں "نمبرز گیم" چلتی ہے۔ لیکن بنیاد بہرحال پختہ رکھی جاتی ہے جیسے کے آپ کی :)
 

arifkarim

معطل
آپ کے خیال میں "قوم" کیا چیز ہے؟ یا کن عناصر کا مجموعہ ہونی چاہیے ؟
قوم زبان، تہذیب، تمدن، روایات اور نسل میں قدرے یکسانیت سے بنتی ہے۔ جن قوموں میں یہ پانچوں چیزیں یکساں ہوں وہ مضبوط قومیں ہیں۔ جن میں ان میں سے ایک یا دو ہی یکساں ہوں وہ کافی کمزور قومیں ثابت ہوتی ہیں۔
 

عثمان

محفلین
جب مختلف مسلم اقوام امت کے سکوپ میں سے بعض کو نکال باہر کریں گی تو اسکی تعریف میں فرق تو آئے گا۔ کیونکہ اگر امہ تمام مومنین پر مشتمل ہے تو جو مسلم اقوام دیگر مسلم اقوام کو امہ کا حصہ نہیں مانتی وہ درحقیقت انکے مومن ہونے کا انکار کر رہی ہیں۔
"سکوپ میں سے باہر نکالنے" سے سکوپ میں تو فرق آسکتا ہے تعریف اورتصور میں فرق نہیں آتا۔
مثلا بیشتر پاکستانی مسلمان قادیانیوں کو امت سے باہر تصور کرتے ہیں لیکن امت کے تصور سے دستبردار نہیں ہوتے۔ اسی طرح مسلمان اپنی تاریخ میں بہت سے مسلمان طبقات کو دائرہ اسلام سے اندر باہر کرتے رہے ہیں لیکن اس سے ان کے ہاں امت کا تصور مٹ نہیں گیا۔
امت کا تصور برقرار رہا ہے ۔ آپ یہ بحث کر سکتے ہیں کہ آیا اس نے مسلمان اقوام کو دنیاوی ترقی میں کیا فائدہ دیا۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
ہر مذہب اپنے آپ میں اپنے ماننے والوں کو ایک شناخت دے دیتا ہے جو باقی شناختوں سے الگ ہوتی ہے۔ اگر یہودیوں کے لیے باقی ساری دنیا Gentiles یعنی بے دین اور غیر یہودی اور غیر قوم وغیرہ وغیرہ ہیں تو مسلمانوں کے لیے باقی سارے غیر مسلم۔ یہ دو شناختیں یعنی اہل اور غیر فقط مذہب نے بنا دیں، اور دنیا کا ہر مذہب یہ تقسیم کرتا ہے، جو مذہب اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ یا تو خود ختم اور نیست و نابود ہو جاتا ہے جیسے "دینِ اکبری" یا پھر خود ایک علیحدہ شناخت بن جاتا ہے جیسے "سکھ"۔ امید کچھ بات واضح ہوئی ہوگی۔
یہودیوں کا معاملہ کافی ٹیڑھا ہے۔ انکے نزدیک مذہبی شناخت سے زیادہ نسلی شناخت ہونا زیادہ ضروری ہے ۔ یعنی اصل یہودی وہی ہے جسکی ماں یہودی ہے۔ اب وہ یہودیت چھوڑ ملحد بھی ہو جائے، تب بھی وہ نسلاً یہودی ہی رہے گا۔ زمانہ قدیم سے یہودیوں کو جیوگرافائی اور نسلی بنیادوں پر شناخت کیا گیا ہے۔ گو کہ مذہبی پہلو بھی شامل حال رہتا ہے۔
مسلمان، مسیحی اور دیگر مذاہب یہودیوں کی کیٹیگری میں نہیں آتے کیونکہ انکے ہاں مذہب تبدیل کرنے والا کسی نئی قوم کا فرد نہیں بنتا بلکہ مذہبی کمیونٹی کا ممبر بنتا ہے۔ کل کلاں کو اگر وہ اپنا مذہب بدل بھی دے تب بھی قوم وہی رہے گی جو ہمیشہ سے تھی۔
 

عثمان

محفلین
قوم زبان، تہذیب، تمدن، روایات اور نسل میں قدرے یکسانیت سے بنتی ہے۔ جن قوموں میں یہ پانچوں چیزیں یکساں ہوں وہ مضبوط قومیں ہیں۔ جن میں ان میں سے ایک یا دو ہی یکساں ہوں وہ کافی کمزور قومیں ثابت ہوتی ہیں۔
یہ آپ کا فرض کیا گیا تصور ہے ورنہ اس کے رد میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
مثلا امریکہ میں نسلی اعتبار سے کئی اقوام بستی ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو امریکی قوم کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ امریکی قوم کے مظبوط ہونے پر پر کسی کو شبہ نہیں۔
یہاں کینیڈا میں نسل اور زبان کے اعتبار سے کئی طبقات بستے ہیں لیکن یہ سب اپنے آپ کو کنیڈئین سمجھتے ہیں۔اسے کبھی ایک کمزور قوم نہیں سمجھا گیا۔
یورپ میں کئی ایسے ممالک ہیں مثلا جرمنی اور آسٹریا جو زبان ، نسل اور تمدن کے اعتبار سے ایک سا ہونے کے باوجود بھی مختلف ممالک میں اپنے آپ کو مختلف اقوام تصور کرتے ہیں۔
جبکہ سوئزر لینڈ میں مختلف زبان اور نسل کے باجود وہ اپنے آپ کو ایک سوئس قوم تصور کرتے ہیں۔
مختلف عرب ممالک ، مشرق بعیدبلکہ خود سکینڈینیویا میں بھی آپ کو یہ مثالیں مل جائیں گی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یہودیوں کا معاملہ کافی ٹیڑھا ہے۔ انکے نزدیک مذہبی شناخت سے زیادہ نسلی شناخت ہونا زیادہ ضروری ہے ۔ یعنی اصل یہودی وہی ہے جسکی ماں یہودی ہے۔ اب وہ یہودیت چھوڑ ملحد بھی ہو جائے، تب بھی وہ نسلاً یہودی ہی رہے گا۔ زمانہ قدیم سے یہودیوں کو جیوگرافائی اور نسلی بنیادوں پر شناخت کیا گیا ہے۔ گو کہ مذہبی پہلو بھی شامل حال رہتا ہے۔
مسلمان، مسیحی اور دیگر مذاہب یہودیوں کی کیٹیگری میں نہیں آتے کیونکہ انکے ہاں مذہب تبدیل کرنے والا کسی نئی قوم کا فرد نہیں بنتا بلکہ مذہبی کمیونٹی کا ممبر بنتا ہے۔ کل کلاں کو اگر وہ اپنا مذہب بدل بھی دے تب بھی قوم وہی رہے گی جو ہمیشہ سے تھی۔
عارف صاحب آپ کے سامنے اپنے آپ کو اپنی بات آپ کو سمجھالینے کے قابل بنا لینا واقعی کارِ دگر ہے :)
 

arifkarim

معطل
یہ آپ کا فرض کیا گیا تصور ہے ورنہ اس کے رد میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
مثلا امریکہ میں نسلی اعتبار سے کئی اقوام بستی ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو امریکی قوم کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ امریکی قوم کے مظبوط ہونے پر پر کسی کو شبہ نہیں۔
یہاں کینیڈا میں نسل ، روایات اور حتی کے زبان کے اعتبار سے بھی کئی طبقات بستے ہیں لیکن یہ سب اپنے آپ کو کینیڈئین سمجھتے ہیں۔اسے کبھی ایک کمزور قوم نہیں سمجھا گیا۔
یورپ میں کئی ایسے ممالک ہیں مثلا جرمنی اور آسٹریا جو زبان ، نسل اور تمدن کے اعتبار سے ایک سا ہونے کے باوجود بھی مختلف ممالک میں اپنے آپ کو مختلف اقوام تصور کرتے ہیں۔
جبکہ سوئزر لینڈ میں مختلف زبان اور نسل کے باجود وہ اپنے آپ کو ایک سوئس قوم تصور کرتے ہیں۔
مختلف عرب ممالک ، مشرق بعیدبلکہ خود سکینڈینیویا میں آپ کے یہ مثالیں نظر آئیں گی۔
آپ شاید مضبوطی کو معاشیات اور سماجیات تک محدود کر کے دیکھ رہے ہیں۔ میں اوور آل قومی مضبوطی کی بات کر رہا ہوں۔ جیسا کہ جاپانیوں میں ان پانچوں اصطلاحات کی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ جسکی وجہ سے یہ قوم ہر قسم کے حالات میں متحد اور یکجا ہوتی ہے۔ قومی نظم و ضبط حد درجہ کا پایا جاتا ہے۔
اسکے برعکس امریکہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ نسلی فسادات، جرائم، سیاسی اور معاشی بھونچال کے وقت کیسے یہ قوم تتر بتر ہو جاتی ہے، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
 

عثمان

محفلین
آپ شاید مضبوطی کو معاشیات اور سماجیات تک محدود کر کے دیکھ رہے ہیں۔ میں اوور آل قومی مضبوطی کی بات کر رہا ہوں۔ جیسا کہ جاپانیوں میں ان پانچوں اصطلاحات کی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ جسکی وجہ سے یہ قوم ہر قسم کے حالات میں متحد اور یکجا ہوتی ہے۔ قومی نظم و ضبط حد درجہ کا پایا جاتا ہے۔
اسکے برعکس امریکہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ نسلی فسادات، جرائم، سیاسی اور معاشی بھونچال کے وقت کیسے یہ قوم تتر بتر ہو جاتی ہے، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ہر قوم اپنے ہاں نسلی فسادات، جرائم ، سیاسی اورمعاشی بھونچا ل سے گذرتی ہے۔اس کے باوجود امریکی سیاسی ، دفاعی ، معاشی اور سماجی ۔۔ہر لحاظ سے ایک طاقتور ترین قوم کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔
جاپانیوں کے مقابلے میں امریکی قوم کا جو "تتر بتر" آپ کو نظر آرہا ہے وہ جاپان کے مقابلے میں امریکہ سے آنے والی خبروں کی بہات ہے ۔ دنیا جاپان کے مقابلے میں امریکہ سے زیادہ باخبر رہتی ہے۔ اور یہ بھی اس قوم کا اثرورسوخ ہی ہے۔
جاپان امریکہ کے مقابلے میں ایک کافی homogeneous معاشرہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکیوں کا دنیا میں جاپانیوں کی نسبت کہیں زیادہ حاوی ہونا امریکی قوم کی مظبوطی اور کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 

arifkarim

معطل
عارف صاحب آپ کے سامنے اپنے آپ کو اپنی بات آپ کو سمجھالینے کے قابل بنا لینا واقعی کارِ دگر ہے :)
کوئی بات نہیں۔ میرا کچھ مہینوں تک اسرائیل جانے کا پروگرام بن رہا ہے۔ وہاں سے یہودی ہونے کے طرائق آپکو ارسال کر دوں گا۔
 
Top