شمشاد
لائبریرین
ایک شاعر ڈاکو بن گیا اور ایک دن وہ بینک میں ڈاکا ڈالنے گیا اور بولا۔
عرض کیا ہے :
تقدیر میں جو ہے، وہ ملے گا
hands up کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا
اپنے سب خواب میری آنکھوں میں ڈال دو
جو کچھ بھی ہے جلدی سے اس بیگ میں ڈال دو۔
بہت کوشش کرتا ہوں تیری یاد کو بھلانے کی
خبردار کوئی ہوشیاری نہ کرے پولیس کو بلانے کی
دل کا آنگن تیرے بن ویران پڑا ہے
جلدی کرو، باہر میرا ساتھی پریشان کھڑا ہے
عرض کیا ہے :
تقدیر میں جو ہے، وہ ملے گا
hands up کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا
اپنے سب خواب میری آنکھوں میں ڈال دو
جو کچھ بھی ہے جلدی سے اس بیگ میں ڈال دو۔
بہت کوشش کرتا ہوں تیری یاد کو بھلانے کی
خبردار کوئی ہوشیاری نہ کرے پولیس کو بلانے کی
دل کا آنگن تیرے بن ویران پڑا ہے
جلدی کرو، باہر میرا ساتھی پریشان کھڑا ہے