فاتح
لائبریرین
کل منعقد ہونےو الے ایک طرحی فی البدیہہ مشاعرے میں کہی گئی خاکسار کی غزل۔۔۔ آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:
ہے مشغلہ جسے مرا کردار دیکھنا
وہ شخص بھی کہاں کا ہے اوتار، دیکھنا
اٹھّے گا حشر، شام کا بازار دیکھنا
گرتی ہے کس کے ہاتھ سے تلوار، دیکھنا
دیکھے تھے خواب راحتِ وصلت قرار کے
لازم ہوا ہے ہم کو بھی آزار دیکھنا
خوش ہو نہ جان کر ہمیں غرقاب، موجِ دہر!
ابھریں گے سطحِ آب سے اک بار، دیکھنا
ہونے دو بے لباس انھیں رختِ خواب پر
گُل پیرہن ہیں کتنے یہاں خار، دیکھنا
جب بھی ترے خدا کو لہو کی ہو احتیاج
ہم کافروں کو بر سرِ پیکار دیکھنا
وہ شخص بھی کہاں کا ہے اوتار، دیکھنا
اٹھّے گا حشر، شام کا بازار دیکھنا
گرتی ہے کس کے ہاتھ سے تلوار، دیکھنا
دیکھے تھے خواب راحتِ وصلت قرار کے
لازم ہوا ہے ہم کو بھی آزار دیکھنا
خوش ہو نہ جان کر ہمیں غرقاب، موجِ دہر!
ابھریں گے سطحِ آب سے اک بار، دیکھنا
ہونے دو بے لباس انھیں رختِ خواب پر
گُل پیرہن ہیں کتنے یہاں خار، دیکھنا
جب بھی ترے خدا کو لہو کی ہو احتیاج
ہم کافروں کو بر سرِ پیکار دیکھنا
فاتح الدین بشیرؔ