یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب میں میڑک میں تھا اور کرکٹ بہت ہی شوق سے کھیلتا تھا۔ اُس وقت جمعہ کی عام چھٹی ہوا کرتی تھی اور میرے ابو میرے جمعہ کی کرکٹ سے سخت چڑتے تھے کہ یہ کرکٹ کھیلنے والے جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتے۔ ستم یہ ہوا کہ اُن دنوں کراچی میں نائٹ میچیز کی وبا پُھوٹ پڑی اور یہ نائٹ میچیز ہوتے بھی جمعرات کی رات کو تھے کہ صبح چھٹی ہوتی تھی ۔ پھر کیا تھا کہ رات بھی نائٹ ٹورنامنٹز کھیلنا اور پھر دن میں 10 بجے پھر کرکٹ کھیلنے نکل جانا ۔
کئی جمعرات تو خیریت سےگذر گئیں کہ ابو کو پتا نہیں چلا کہ یہ رات کو بھی کرکٹ کھیلنا جاتا ہے ۔ ہوتا یہ تھا کہ ابو 9 بجے سو جاتے تھے اور میں 10 بجے پیچھلے دروازے سے باہر نکل جاتا اور فجر سے پہلے وہیں گھرسے آجاتا ۔
ایک دفعہ واپسی پر پچھلا دروازہ بند پایا تو پیروں سے زمین نکل گئی کہ لگتا تھا کہ ابو کی آنکھ رات کسی پہر کُھلی ہے اور انہوں نے دروازہ کھلا دیکھ کر بند کردیا ہے ۔ بڑی مشکل سے چھت پر چڑھ کر اپنے چھوٹے بھائی کو کنکر مار کر اُٹھایا تو اُس نے تب جا کر دروازہ کھولا ۔
میں خاموشی سے سوگیا اور حسبِ معمول صبح 9 بجے بیدار ہوگیا اور تیار ہوکر ابو کی نظر سے بچتا ہوا لان میں آیا جہاں ابو جھاڑو سے لان میں کسی پودے کی صفائی میں مصروف تھے ۔ میں جیسے ہی گیٹ سے نکلنے لگا تو ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور آواز دے کر بُلا لیا ۔
ہاں بے ۔۔۔ رات کہاں تھا ۔۔۔
میں ۔۔۔ میں گھر میں تھا ۔۔۔
جھوٹ مت بولو ۔۔ میں نے تمہارا بستر دیکھا تھا ۔ تم وہاں نہیں تھے۔ دن کو تو ماں کی بدعا ہے تم کرکٹرز کو اب باپ کی بھی بدعا لے کر اپنی راتیں کرکٹ کھیل کر کالی کرنی شروع کر دی ہیں ۔
میں نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔
پھر انہوں نے پوچھا ۔۔۔ اب کہاں جا رہا ہے ۔
میں کہا کہیں نہیں
اچھا یہ بیگ میں کیا ہے
وہ آگے بڑھے کہ میرے کٹ بیگ میں جھانکیں ۔ مگر میں نے وہاں سے باہر کی طرف دوڑ لگا دی ۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی جھاڑو مجھ پر کھینچ کر دے ماری جو کے میری کمر پر لگی اور اُس دن میں نے سنچری بنا ڈالی ۔
اگلے جمعہ کو وہ پھر لان میں تھے اور ہاتھ میں وہی جھاڑو ۔۔ میں اُن کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا ۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا ۔ ہاں کیا بات ہے ۔۔۔ ؟ میں نے کچھ نہیں بس آج فائنل ہے ایک دفعہ اور جھاڑو مار دیں کہ آج بھی سنچری بنانا ہے ۔
یہ سن کر وہ بے ساختہ ہنس پڑے اور کہا کہ آ قریب آجا اور دو کھا لے ۔۔۔ ڈبل سنچری بنا لینا ۔
اس واقعے تذکرہ کافی دنوں تک گھر میں ہوتا رہا ۔ اور جو بھی عزیز یا دوست آتا تو ابو اُن سے کہتے ۔اس کو دیکھو میری جھاڑویں کھا کر سنچری بناتا ہے ۔
ابھی ایک سائٹ پر پرانا کرکٹ کا میچ دیکھتے ہوئے یہ واقع ذہن میں تازہ ہوگیا تو سوچا کہ آپ سب کی ساتھ شئیر کروں۔
کئی جمعرات تو خیریت سےگذر گئیں کہ ابو کو پتا نہیں چلا کہ یہ رات کو بھی کرکٹ کھیلنا جاتا ہے ۔ ہوتا یہ تھا کہ ابو 9 بجے سو جاتے تھے اور میں 10 بجے پیچھلے دروازے سے باہر نکل جاتا اور فجر سے پہلے وہیں گھرسے آجاتا ۔
ایک دفعہ واپسی پر پچھلا دروازہ بند پایا تو پیروں سے زمین نکل گئی کہ لگتا تھا کہ ابو کی آنکھ رات کسی پہر کُھلی ہے اور انہوں نے دروازہ کھلا دیکھ کر بند کردیا ہے ۔ بڑی مشکل سے چھت پر چڑھ کر اپنے چھوٹے بھائی کو کنکر مار کر اُٹھایا تو اُس نے تب جا کر دروازہ کھولا ۔
میں خاموشی سے سوگیا اور حسبِ معمول صبح 9 بجے بیدار ہوگیا اور تیار ہوکر ابو کی نظر سے بچتا ہوا لان میں آیا جہاں ابو جھاڑو سے لان میں کسی پودے کی صفائی میں مصروف تھے ۔ میں جیسے ہی گیٹ سے نکلنے لگا تو ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور آواز دے کر بُلا لیا ۔
ہاں بے ۔۔۔ رات کہاں تھا ۔۔۔
میں ۔۔۔ میں گھر میں تھا ۔۔۔
جھوٹ مت بولو ۔۔ میں نے تمہارا بستر دیکھا تھا ۔ تم وہاں نہیں تھے۔ دن کو تو ماں کی بدعا ہے تم کرکٹرز کو اب باپ کی بھی بدعا لے کر اپنی راتیں کرکٹ کھیل کر کالی کرنی شروع کر دی ہیں ۔
میں نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔
پھر انہوں نے پوچھا ۔۔۔ اب کہاں جا رہا ہے ۔
میں کہا کہیں نہیں
اچھا یہ بیگ میں کیا ہے
وہ آگے بڑھے کہ میرے کٹ بیگ میں جھانکیں ۔ مگر میں نے وہاں سے باہر کی طرف دوڑ لگا دی ۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی جھاڑو مجھ پر کھینچ کر دے ماری جو کے میری کمر پر لگی اور اُس دن میں نے سنچری بنا ڈالی ۔
اگلے جمعہ کو وہ پھر لان میں تھے اور ہاتھ میں وہی جھاڑو ۔۔ میں اُن کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا ۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا ۔ ہاں کیا بات ہے ۔۔۔ ؟ میں نے کچھ نہیں بس آج فائنل ہے ایک دفعہ اور جھاڑو مار دیں کہ آج بھی سنچری بنانا ہے ۔
یہ سن کر وہ بے ساختہ ہنس پڑے اور کہا کہ آ قریب آجا اور دو کھا لے ۔۔۔ ڈبل سنچری بنا لینا ۔
اس واقعے تذکرہ کافی دنوں تک گھر میں ہوتا رہا ۔ اور جو بھی عزیز یا دوست آتا تو ابو اُن سے کہتے ۔اس کو دیکھو میری جھاڑویں کھا کر سنچری بناتا ہے ۔
ابھی ایک سائٹ پر پرانا کرکٹ کا میچ دیکھتے ہوئے یہ واقع ذہن میں تازہ ہوگیا تو سوچا کہ آپ سب کی ساتھ شئیر کروں۔