عبداللہ محمد
محفلین
نہیں تو بھلا اس انٹرویو سے کیا ہوگا-پہلے تو منٹو کے افسانے سعادت حسن منٹو: بادشاہت کا خاتمہ کا یہ اقتباس پیش کریں کہ اس سے بہتر انداز میں اس کیفیت کو بیان کرنے کا شائد ہی کوئی طریقہ ہو-
اصل میں جب جب عنفوانِ شباب کے زیریں دور میں ان سے تعارف ہوا تو بقول امین صدیق بھائی انکی ہمہ جہتی گوناگوں سے معمور شخصیت سے مرعوب وغیرہ ہو کر ہم تو انکے پنکھے اے سی ائیر کولر وغیرہ سبھی کچھ ہو گئے- اور اسپر انکی جاسوسانہ پر اسراریت (جو کہ اب کافی کم ہو چُکی) کے سبب ان ملنے کی خواہش بدرجہ اتم موجود تھی- پھر آہستہ آہستہ یہ بات واضح ہوتی گئی کہ سکرین سے آپ جو خاکہ کھینچ رہے ہیں سکرین سے پیچھے والا شخص وہی ہوگا یہ تقریباً نا ممکنات میں سے ہے- لہذا ادارہ اپنے اسی یازغل والے بُت کو سینے سے لگائے اور ان سے ملنے کی خواہش کو دل میں دبا کر جئیے جانا چاہتے ہے-
یہ الگ بات ہے کہ اس مراسلے لکھتے ہوئے بھی شدید خواہش ہو رہی کہ انکو میسج کروں کہ ایک دو دن میں سلاما باد آ رہا مونال پر افطاری ہی کروا دیں- لیکن وغیرہ وغیرہ !!
اب ہر روز صبح اور شام من موہن کو اس کا ٹیلی فون آتا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ ٹیلی فون کی طرف لپکا۔ بعض اوقات گھنٹوں باتیں جاری رہتیں۔ اس دوران میں من موہن نے اس سے ٹیلی فون کا نمبر پوچھا نہ اس کا نام شروع شروع میں اس نے اس کی آواز کی مدد سے تخیل کے پردے پر اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اب وہ جیسے آواز ہی سے مطمئن ہوگیا تھا۔ آوازہی شکل تھی۔ آواز ہی صورت تھی۔ آواز ہی جسم تھا۔ آواز ہی روح تھی۔ ایک دن اس نے پوچھا۔’’موہن۔تم میرا نام کیوں نہیں پوچھتے؟‘‘ من موہن نے مسکرا کر کہا۔’’ تمہارا نام تمہاری آواز ہے۔‘‘ ’’جو کہ بہت مترنم ہے۔‘‘ ’
اصل میں جب جب عنفوانِ شباب کے زیریں دور میں ان سے تعارف ہوا تو بقول امین صدیق بھائی انکی ہمہ جہتی گوناگوں سے معمور شخصیت سے مرعوب وغیرہ ہو کر ہم تو انکے پنکھے اے سی ائیر کولر وغیرہ سبھی کچھ ہو گئے- اور اسپر انکی جاسوسانہ پر اسراریت (جو کہ اب کافی کم ہو چُکی) کے سبب ان ملنے کی خواہش بدرجہ اتم موجود تھی- پھر آہستہ آہستہ یہ بات واضح ہوتی گئی کہ سکرین سے آپ جو خاکہ کھینچ رہے ہیں سکرین سے پیچھے والا شخص وہی ہوگا یہ تقریباً نا ممکنات میں سے ہے- لہذا ادارہ اپنے اسی یازغل والے بُت کو سینے سے لگائے اور ان سے ملنے کی خواہش کو دل میں دبا کر جئیے جانا چاہتے ہے-
یہ الگ بات ہے کہ اس مراسلے لکھتے ہوئے بھی شدید خواہش ہو رہی کہ انکو میسج کروں کہ ایک دو دن میں سلاما باد آ رہا مونال پر افطاری ہی کروا دیں- لیکن وغیرہ وغیرہ !!
کیوں؟ اس انٹرویو کی وجہ سے؟
اس جملے میں "اب" کا استعمال ہمیں بے کل کئے دے رہا ہے۔ کروٹیں بدلتے ہیں، مگر چین نہ پاتے ہیں۔
کہہ دیجئے کہ یہ "اب" بطورِ کلمہ نہیں، بلکہ بطورِ مہمل مستعمل ہوا ہے۔